ام اویس

محفلین
متوسط طبقے کا ایک گھر، بہار کی آمد آمد، جھٹ پٹے کا وقت، برآمدے میں تخت پر ماں بیٹھی سبزی بنا رہی ہے۔ چھت پر ہلکا ہلکا پنکھا چل رہا ہے۔ اس کے تین بچے ابوبکر، مؤمنہ اور سوہا سامنے صحن میں کرکٹ کھیل رہے ہیں؛ جن کی عمریں بالترتیب بارہ ، دس اور تین سال ہیں۔
ابوبکر: کھیل ختم کرنے کے بعد زور سے کہتا ہے: “چھوٹی ، موٹی ! گیند اور بلا ایک طرف رکھ دو”
اور ماں کے پاس تخت پر آ کر بیٹھ جاتا ہے
ماں : “ابوبکر! یہ موٹی ، چھوٹی کیا ہے؟ “
ابوبکر: ( کھلکھلا کر) ، “امی جان ! موٹو کہنا چاہیے تھا ، دیکھیں کھا کھا کر موٹی پھٹنے والی ہے اور دوسری گِٹھی مٹھی ، چھوٹی، گھسیٹی۔”
مؤمنہ: ( غصے سے لال بھبھوکا ہوتے ہوئے ) “اور خود تم اپنے آپ کو دیکھو! لم ڈھینگ ، تیلا پہلوان ، ہونہہ! میں موٹی نہیں ہوں”
چھوٹی سوہا باری باری ان کو دیکھتے پاس کھڑی ، ان کی باتیں غور سے سن رہی ہے۔
ماں: “اوہو! تم دونوں نے پھر جھگڑنا شروع کر دیا، کتنی بار سمجھایا ہے ایک دوسرے کے نام نہیں بگاڑتے۔”
ابوبکر: “میں گلْط نہیں امی جان! بے شک کسی سے پوچھ لیں، سب یہی کہیں گے۔”
ماں: “گلط ؛ یہ کیا کہہ رہے ہو ؟ اصل لفظ غَلَط ہے۔ کم از کم غلَط کو تو گلط نہ بولا کرو۔ اور نام بگاڑنا بہت بری بات ہے الله تعالی ناراض ہوتے ہیں۔”
ابوبکر: امی جان! جو جیسا ہے اس کو ویسا ہی کہا جائے گا۔
ماں: جب الله تعالی کا حکم سامنے آجائے تو اسے مان لیتے ہیں اس میں کیوں، کیا اور کیسے نہیں کرتے۔
ابوبکر: (حیرت سے)،”کیا نام نہ بگاڑنے کے متعلق بھی الله تعالیٰ نے حکم دیا ہے؟
یہ تو معمولی بات ہے، سب لوگ ایک دوسرے کے اُلٹے سیدھے نام رکھ دیتے ہیں۔ “
ماں: (چھری اور سبزی کی ٹوکری کو ایک طرف رکھ کر پوری طرح متوجہ ہوتے ہوئے )، “جی میری جان! اسلام ایک مکمل مذہب ہے اس میں ایسی تمام باتوں سے منع کیا گیا ہے جو کسی کو تکلیف پہنچائیں۔ قرآن مجید میں صاف حکم ہے کہ نہ تو کسی کا مذاق اڑاؤ اور نہ کسی کے الٹے سیدھے نام رکھو۔ “
ابوبکر: (کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے) “الله میری توبہ ! سلو کا بچہ ہر وقت الٹے الفاظوں سے دوسروں کے نام بگاڑتا ہے میرے منہ پر بھی چڑھ گئے ہیں۔
ماں : “الفاظوں نہیں لفظوں سے ، اور یہ سلو کا بچہ کون ہے ؟ “
ابوبکر: “ساتھ والے نئے کرایہ دار، اُن کا بیٹا “
ماں: “سلیم ! وہ تو چھوٹا بچہ ہے۔ کل اس کی امی اسے پڑھانے کا کہہ رہی تھیں ، وہ آئے گا تو اسے بھی صحیح اردو سکھاؤں گی۔ “
مؤمنہ : (کافی دیر سوچنے کے بعد ایک دم سر اٹھا کر بولی) ، امی جان! ابا جان اپنے دوست کو سٹہ صاحب کہتے ہیں کیا انہیں اس بات کا نہیں پتہ؟
ماں : (بے اختیار ہنستے ہوئے) ، “بُھٹہ صاحب ! بھٹہ ایک ذات کا نام ہے، بگڑا ہوا نام نہیں ، بلکہ ان کی پہچان ہے۔”
ابوبکر: میرے کو اس کا مطبل سمجھ نہیں آیا۔
ماں : (گھور کر دیکھتے ہوئے۔) “میرے کو نہیں مجھے اور مطبل نہیں مطلب۔ آپ ہر روز مجھے اردو کی کتاب کا ایک صفحہ اونچی آواز میں پڑھ کر سنایا کریں۔
کوئی کسی نام سے مشہور ہو یا اپنے نام کے ساتھ اپنی ذات کی پہچان لگا لے، منع نہیں ہے۔”
ابوبکر: ( سمجھ کر مطمئن انداز میں) “جیسے فواد رانا اور عامر چیمہ ، میرے دوست ہیں۔”
ماں : (سبزی اٹھا کر باورچی خانے کی طرف جاتے ہوئے۔) “جی بالکل “
مؤمنہ : “بھیا ! اب آپ مجھے ، موٹا آلو پلپلا ، نہیں کہو گے نا؟ “
ابوبکر: “ٹھیک ہے ! تم بھی مجھے ، جھاڑو کا تیلا مت کہنا”
سوہا: “اور مدھے بھی چھوتی ، کھوتی نہیں کہو گے نا ؟”
“نہیں نہیں، کبھی نہیں۔” ابوبکر اور مؤمنہ نے ہنستے ہوئے کہا:
اور کھیل میں مگن ہو گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔
 

ام اویس

محفلین
E16-C1357-B9-AE-4372-B0-D6-0-FA67-CEBCED3.jpg
 

سیما علی

لائبریرین
ماں : (سبزی اٹھا کر باورچی خانے کی طرف جاتے ہوئے۔) “جی بالکل “
مؤمنہ : “بھیا ! اب آپ مجھے ، موٹا آلو پلپلا ، نہیں کہو گے نا؟ “
ابوبکر: “ٹھیک ہے ! تم بھی مجھے ، جھاڑو کا تیلا مت کہنا”
سوہا: “اور مدھے بھی چھوتی ، کھوتی نہیں کہو گے نا ؟”
“نہیں نہیں، کبھی نہیں۔” ابوبکر اور مؤمنہ نے ہنستے ہوئے کہا:
اور کھیل میں مگن ہو گئے۔
بہت اعلیٰ
ڈھیر ساری داد و تحسین ۔۔
جیتی رہیے بٹیا۔۔۔⭐️⭐️⭐️⭐️⭐️
 

سیما علی

لائبریرین
اچھا لکھا ماشاءاللہ۔

یہ لم ڈھینگ کیا ہے؟
آپکو پتہ ہے ہماری ایک دوست کی والدہ ہمشہ کہتی ہیں فلانا ڈھینگ تو ہماری دوست ازراہِ مذاق ہمیشہ کہتی ہیں اماّں آپ بھی ماہرِ لسانیات ہیں بھلا یہ کیا لفظ ہے 😃
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اچھا لکھا ماشاءاللہ۔

یہ لم ڈھینگ کیا ہے؟
یاسر بھائی ، ڈھینگ یا ڈھینک سارس کو کہتے ہیں ۔ چونکہ سارس کی ٹانگیں لمبی ہوتی ہیں اس لئے لمبی ٹانگوں والے کو تحقیر کے لئے لم ڈھینگ کہتے ہیں ۔ یہی لفظ کسی کو بیوقوف یا احمق کہنے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
متوسط طبقے کا ایک گھر، بہار کی آمد آمد، جھٹ پٹے کا وقت، برآمدے میں تخت پر ماں بیٹھی سبزی بنا رہی ہے۔ چھت پر ہلکا ہلکا پنکھا چل رہا ہے۔ اس کے تین بچے ابوبکر، مؤمنہ اور سوہا سامنے صحن میں کرکٹ کھیل رہے ہیں؛ جن کی عمریں بالترتیب بارہ ، دس اور تین سال ہیں۔
ابوبکر: کھیل ختم کرنے کے بعد زور سے کہتا ہے: “چھوٹی ، موٹی ! گیند اور بلا ایک طرف رکھ دو”
اور ماں کے پاس تخت پر آ کر بیٹھ جاتا ہے
ماں : “ابوبکر! یہ موٹی ، چھوٹی کیا ہے؟ “
ابوبکر: ( کھلکھلا کر) ، “امی جان ! موٹو کہنا چاہیے تھا ، دیکھیں کھا کھا کر موٹی پھٹنے والی ہے اور دوسری گِٹھی مٹھی ، چھوٹی، گھسیٹی۔”
مؤمنہ: ( غصے سے لال بھبھوکا ہوتے ہوئے ) “اور خود تم اپنے آپ کو دیکھو! لم ڈھینگ ، تیلا پہلوان ، ہونہہ! میں موٹی نہیں ہوں”
چھوٹی سوہا باری باری ان کو دیکھتے پاس کھڑی ، ان کی باتیں غور سے سن رہی ہے۔
ماں: “اوہو! تم دونوں نے پھر جھگڑنا شروع کر دیا، کتنی بار سمجھایا ہے ایک دوسرے کے نام نہیں بگاڑتے۔”
ابوبکر: “میں گلْط نہیں امی جان! بے شک کسی سے پوچھ لیں، سب یہی کہیں گے۔”
ماں: “گلط ؛ یہ کیا کہہ رہے ہو ؟ اصل لفظ غَلَط ہے۔ کم از کم غلَط کو تو گلط نہ بولا کرو۔ اور نام بگاڑنا بہت بری بات ہے الله تعالی ناراض ہوتے ہیں۔”
ابوبکر: امی جان! جو جیسا ہے اس کو ویسا ہی کہا جائے گا۔
ماں: جب الله تعالی کا حکم سامنے آجائے تو اسے مان لیتے ہیں اس میں کیوں، کیا اور کیسے نہیں کرتے۔
ابوبکر: (حیرت سے)،”کیا نام نہ بگاڑنے کے متعلق بھی الله تعالیٰ نے حکم دیا ہے؟
یہ تو معمولی بات ہے، سب لوگ ایک دوسرے کے اُلٹے سیدھے نام رکھ دیتے ہیں۔ “
ماں: (چھری اور سبزی کی ٹوکری کو ایک طرف رکھ کر پوری طرح متوجہ ہوتے ہوئے )، “جی میری جان! اسلام ایک مکمل مذہب ہے اس میں ایسی تمام باتوں سے منع کیا گیا ہے جو کسی کو تکلیف پہنچائیں۔ قرآن مجید میں صاف حکم ہے کہ نہ تو کسی کا مذاق اڑاؤ اور نہ کسی کے الٹے سیدھے نام رکھو۔ “
ابوبکر: (کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے) “الله میری توبہ ! سلو کا بچہ ہر وقت الٹے الفاظوں سے دوسروں کے نام بگاڑتا ہے میرے منہ پر بھی چڑھ گئے ہیں۔
ماں : “الفاظوں نہیں لفظوں سے ، اور یہ سلو کا بچہ کون ہے ؟ “
ابوبکر: “ساتھ والے نئے کرایہ دار، اُن کا بیٹا “
ماں: “سلیم ! وہ تو چھوٹا بچہ ہے۔ کل اس کی امی اسے پڑھانے کا کہہ رہی تھیں ، وہ آئے گا تو اسے بھی صحیح اردو سکھاؤں گی۔ “
مؤمنہ : (کافی دیر سوچنے کے بعد ایک دم سر اٹھا کر بولی) ، امی جان! ابا جان اپنے دوست کو سٹہ صاحب کہتے ہیں کیا انہیں اس بات کا نہیں پتہ؟
ماں : (بے اختیار ہنستے ہوئے) ، “بُھٹہ صاحب ! بھٹہ ایک ذات کا نام ہے، بگڑا ہوا نام نہیں ، بلکہ ان کی پہچان ہے۔”
ابوبکر: میرے کو اس کا مطبل سمجھ نہیں آیا۔
ماں : (گھور کر دیکھتے ہوئے۔) “میرے کو نہیں مجھے اور مطبل نہیں مطلب۔ آپ ہر روز مجھے اردو کی کتاب کا ایک صفحہ اونچی آواز میں پڑھ کر سنایا کریں۔
کوئی کسی نام سے مشہور ہو یا اپنے نام کے ساتھ اپنی ذات کی پہچان لگا لے، منع نہیں ہے۔”
ابوبکر: ( سمجھ کر مطمئن انداز میں) “جیسے فواد رانا اور عامر چیمہ ، میرے دوست ہیں۔”
ماں : (سبزی اٹھا کر باورچی خانے کی طرف جاتے ہوئے۔) “جی بالکل “
مؤمنہ : “بھیا ! اب آپ مجھے ، موٹا آلو پلپلا ، نہیں کہو گے نا؟ “
ابوبکر: “ٹھیک ہے ! تم بھی مجھے ، جھاڑو کا تیلا مت کہنا”
سوہا: “اور مدھے بھی چھوتی ، کھوتی نہیں کہو گے نا ؟”
“نہیں نہیں، کبھی نہیں۔” ابوبکر اور مؤمنہ نے ہنستے ہوئے کہا:
اور کھیل میں مگن ہو گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔
بہت خوب! بہت اچھی تحریر لکھی ہے آپ نے ۔ اس مصروف زمانے میں نثر کو ایسا ہی ہونا چاہئے ، مختصر اور پراثر!
بچوں کے لئے لکھنا ایک بہت بڑا کام ہے ۔ اس کے لئے آپ لائقِ صد تحسین ہیں ۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ !
 

یاسر شاہ

محفلین
یاسر بھائی ، ڈھینگ یا ڈھینک سارس کو کہتے ہیں ۔ چونکہ سارس کی ٹانگیں لمبی ہوتی ہیں اس لئے لمبی ٹانگوں والے کو تحقیر کے لئے لم ڈھینگ کہتے ہیں ۔ یہی لفظ کسی کو بیوقوف یا احمق کہنے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
جزاک اللہ خیر
 

ام اویس

محفلین
بہت خوب! بہت اچھی تحریر لکھی ہے آپ نے ۔ اس مصروف زمانے میں نثر کو ایسا ہی ہونا چاہئے ، مختصر اور پراثر!
بچوں کے لئے لکھنا ایک بہت بڑا کام ہے ۔ اس کے لئے آپ لائقِ صد تحسین ہیں ۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ !
جزاک الله خیرا کثیرا کثیرا
 
Top