محمد یعقوب آسی
محفلین
مطلع اور مقطع (اگر تخلص کی شرط پر سختی کریں تو آخری شعر) یہ دونوں بہت اہم ہیں۔
میں ذاتی طور پر ’’مطلع برائے مطلع‘‘ کا قائل نہیں ہوں۔ اقبال نے بہت غزلوں میں ایسا کیا کہ مطلع کہا ہی نہیں، میں بھی ایسا کر جاتا ہوں۔ ’’لفظ کھو جائیں گے‘‘ میں دیکھئے گا کچھ غزلیں مطلع کے بغیر ہیں، یہ ایک دوسری بحث ہے کہ بے مطلع کی غزل، غزل ہے بھی کہ نہیں؟ وہ قطعہ بھی تو نہیں! کہ قطعہ میں مضمون کا تسلسل شرط ہے۔ مطلع اگر میں نے گھڑا بھی ہے تو اسے ’’گھڑا ہوا‘‘ محسوس نہیں ہونا چاہئے۔ غزل کا مطلع غزل کی اٹھان ہوتی ہے، اور قاری کا یہاں ’’پہلا تاثر‘‘ بنتا ہے۔
اور مقطع؟ گویا غزل میں شامل جملہ شعروں کا ’’مغز‘‘ مقطع ہوتا ہے (تخلص نہ ہو تو آپ اسے آخری شعر کہہ لیجئے، بات وہی رہتی ہے)۔ جیسے ہم ایک طویل کہانی لکھیں یا افسانہ بیان کریں، اس کو سمیٹنے والا آخری جملہ یا مکالمہ گویا مقطع ہے۔ کوئی بھی بات مکمل کئے بغیر قطع کر دی جائے تو تاثر خراب ہوتا ہے اور اگر اسے نامکمل رکھنا ہی مقصود ہے تو پھر اس میں کوئی ایسا سوال ہو جو قاری کو اپنی طرف کھینچ لے۔
میں ذاتی طور پر ’’مطلع برائے مطلع‘‘ کا قائل نہیں ہوں۔ اقبال نے بہت غزلوں میں ایسا کیا کہ مطلع کہا ہی نہیں، میں بھی ایسا کر جاتا ہوں۔ ’’لفظ کھو جائیں گے‘‘ میں دیکھئے گا کچھ غزلیں مطلع کے بغیر ہیں، یہ ایک دوسری بحث ہے کہ بے مطلع کی غزل، غزل ہے بھی کہ نہیں؟ وہ قطعہ بھی تو نہیں! کہ قطعہ میں مضمون کا تسلسل شرط ہے۔ مطلع اگر میں نے گھڑا بھی ہے تو اسے ’’گھڑا ہوا‘‘ محسوس نہیں ہونا چاہئے۔ غزل کا مطلع غزل کی اٹھان ہوتی ہے، اور قاری کا یہاں ’’پہلا تاثر‘‘ بنتا ہے۔
اور مقطع؟ گویا غزل میں شامل جملہ شعروں کا ’’مغز‘‘ مقطع ہوتا ہے (تخلص نہ ہو تو آپ اسے آخری شعر کہہ لیجئے، بات وہی رہتی ہے)۔ جیسے ہم ایک طویل کہانی لکھیں یا افسانہ بیان کریں، اس کو سمیٹنے والا آخری جملہ یا مکالمہ گویا مقطع ہے۔ کوئی بھی بات مکمل کئے بغیر قطع کر دی جائے تو تاثر خراب ہوتا ہے اور اگر اسے نامکمل رکھنا ہی مقصود ہے تو پھر اس میں کوئی ایسا سوال ہو جو قاری کو اپنی طرف کھینچ لے۔