وہاب اعجاز خان
محفلین
صوبہ سرحد کے ایک خوبصورت غزل گو شاعر نذیر تبسم کی غزل پیش خدمت ہے۔
نہیں ہے یوں کہ بس میری خوشی اچھی نہیں لگتی
اُسے تو میری کوئی بات بھی اچھی نہیں لگتی
میں نفرت اور محبت دونوں میں شدت کا قائل ہوں
مجھے جذبوں کی یہ خانہ پُری اچھی نہیں لگتی
میں اپنی ذات میں بھی اک خلا محسوس کرتا ہوں
تمہارے بعد کوئی چیز بھی اچھی نہیں لگتی
بس اک طرزِ رفاقت ہے نبھاتے ہیں جسے ورنہ
بہت سے دوستوں سے دوستی اچھی نہیں لگتی
یقینا نقطہ سنجی اک حوالہ ہے ذہانت کا
مگر ہربات کی تردید بھی اچھی نہیںلگتی
اچانک تیرے آنے کی خوشی کچھ اور ہوتی ہے
مجھے بادِ صبا کی مخبری اچھی نہیں لگتی
تجھے ہنستے ہوئے دیکھا ہے میں نے سب حوالوں سے
تیرے چہرے پہ یہ افسردگی اچھی نہیں لگتی
تبسم یہ میرا ایمان ہے جب تک حریفوں کا
قدوقامت نہ ہو تو دشمنی اچھی نہیں لگتی
نہیں ہے یوں کہ بس میری خوشی اچھی نہیں لگتی
اُسے تو میری کوئی بات بھی اچھی نہیں لگتی
میں نفرت اور محبت دونوں میں شدت کا قائل ہوں
مجھے جذبوں کی یہ خانہ پُری اچھی نہیں لگتی
میں اپنی ذات میں بھی اک خلا محسوس کرتا ہوں
تمہارے بعد کوئی چیز بھی اچھی نہیں لگتی
بس اک طرزِ رفاقت ہے نبھاتے ہیں جسے ورنہ
بہت سے دوستوں سے دوستی اچھی نہیں لگتی
یقینا نقطہ سنجی اک حوالہ ہے ذہانت کا
مگر ہربات کی تردید بھی اچھی نہیںلگتی
اچانک تیرے آنے کی خوشی کچھ اور ہوتی ہے
مجھے بادِ صبا کی مخبری اچھی نہیں لگتی
تجھے ہنستے ہوئے دیکھا ہے میں نے سب حوالوں سے
تیرے چہرے پہ یہ افسردگی اچھی نہیں لگتی
تبسم یہ میرا ایمان ہے جب تک حریفوں کا
قدوقامت نہ ہو تو دشمنی اچھی نہیں لگتی