نہیں...
نہیں، آپ غلط کہہ رہے ہیں...
نہیں، آپ کی رائے غلط فہمی پر مبنی ہے...
نہیں، آپ کی سوچ غلط ہے...
نہیں، جیسا آپ کہہ رہے ہیں ویسا نہیں ہے...
نہیں، میں نہیں مانتا...

جی ہاں!
اس نہیں کی ہمارے معاشرے میں بڑی اہمیت ہے. یہ وہ دیوار ہے جو بحث شروع ہوتے ہی کھڑی کر دی جاتی ہے. ہماری اکثر مباحث نہیں سے شروع ہو کر نہیں پر ختم ہو جاتی ہیں. اور نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات.

ہماری مباحث میں زیادہ زور اپنی رائے کے حق میں دلائل کے بجائے دوسرے کی رائے کی نفی پر ہوتا ہے. دوسرے کی رائے کا احترام سرے سے مفقود ہوتا جا رہا ہے.
اس سے بھی زیادہ افسوسناک یہ کہ اختلاف رائے پر نوبت نفرت اور قطع تعلقی تک جا پہنچتی ہے.

کسی بھی معاملے پر اپنے علم کے مطابق کوئی بھی رائے اختیار کرنا ہر کسی کا حق ہے. اس کی رائے کا احترام دراصل اس کے علم کا احترام ہے. اور اس کی رائے کی نفی دراصل اس کے علم کی نفی ہے.
اور یہی طرزِ عمل بحیثیتِ مجموعی ہمارے اندر عدم برداشت کو پروان چڑھا رہا ہے.

اس کلچر کو بدلنے کی ضرورت ہے. ایک دوسرے کی بات کو سننے، سمجھنے، برداشت کرنے اور احترام دینے کا رویہ اپنانا ہو گا.
اگر آپ کی رائے دوسرے سے مختلف ہے تو اس کی رائے کی نفی کیے بغیر، اچھے الفاظ میں اپنی رائے مدلل انداز میں پیش کریں. اس سے دوسرے کے اندر بھی آپ کی بات سننے کا جذبہ پیدا ہو گا. اور نہیں کہہ دینے کی وجہ سے آراء کے درمیان کھڑی ہو جانے والی دیوار نہیں بنے گی.
کوشش کریں کہ اختلافِ رائے دشمنی اور نفرت میں نہ تبدیل ہو.

یقین جانئیے!
اس رویہ کی تبدیلی سے معاشرے میں برداشت بڑھے گی. مباحث نتیجہ خیز ہونے کے امکانات پیدا ہو جائیں گے.
آئیے!
مل کر نہیں کی اس دیوارِ برلن کو توڑ ڈالیں. اور ایک مضبوط معاشرے کی بنیاد رکھیں.
 

اکمل زیدی

محفلین
ویسے ایک بات ہے جس نکتے کی آپ نے نشاندہی کی ہے بات تو بجا ہے ایسا ہی ہوتا ہے اکثر و بیشتر مگر ایک بات ہے اس نہیں کے بعد اس بات کے دوسرے پہلو بھی سامنے آتے ہیں ....( دیکھا میں نے نہیں کہے بنا بھی اپنی بات کہی )
 
ویسے ایک بات ہے جس نکتے کی آپ نے نشاندہی کی ہے بات تو بجا ہے ایسا ہی ہوتا ہے اکثر و بیشتر مگر ایک بات ہے اس نہیں کے بعد اس بات کے دوسرے پہلو بھی سامنے آتے ہیں ....( دیکھا میں نے نہیں کہے بنا بھی اپنی بات کہی )
جی بھائی بحث میں اگر اپنے دلائل سے دوسرا پہلو واضح کیا جا سکتا ہو تو دوسرے کی رائے کی نفی کئے بغیر یہ مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک نفسیاتی پہلو ہے کہ جس لمحہ کوئی آپ کی بات کی نفی کرتا ہے ایک مخاصمت کا جذبہ خود بخود اجاگر ہو جاتا ہے۔ لہٰذا دوسرے کے جذبات اور اس کے علم کا احترام کرتے ہوئے اپنی رائے دی جائے تو دوسرا پہلو نہ صرف سامنے آئے گا بلکہ دوسرا فرد اس کو سمجھنے کی کوشش بھی کرے گا۔ :)
 

یاز

محفلین
شاندار تحریر ہے تابش بھائی۔
درست نشاندہی کی کہ "نہیں" ہمارے کلچر میں رچ بس چکا ہے۔ اس کو بدلنے کی ضرورت ہے۔
 

فاخر رضا

محفلین
کوئی پرانی لڑیوں میں کچھ لکھ دیتا ہے تو وہ سرورق پر نمودار ہوجاتی ہیں اور پڑھنے کا موقع مل جاتا ہے.
ایک تبصرہ ہے اگر ناگوار خاطر نہ ہو
کبھی یہی نہیں آپ انکار کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں اور اس صورت میں یہ بڑے کام آتا ہے. اگر آپ اپنا وقت بچانا چاہتے ہیں تو نہ کہنا سیکھئے. آپ دیکھیں گے کہ آپ کے پاس وقت ہی وقت ہے.
جہاں تک اس موضوع کا تعلق ہے تو یہ نہیں تحقیق کی جڑ ہے. آپ جب تک پرانی تحقیق یا یوں کہیے اجتہاد کا انکار نہیں کریں گے تب تک علم آگے نہیں بڑھے گا. علم کی ترقی کا راز سوال و اعتراض میں ہے. اس پر غور کیجئے گا. شکریہ
 
کوئی پرانی لڑیوں میں کچھ لکھ دیتا ہے تو وہ سرورق پر نمودار ہوجاتی ہیں اور پڑھنے کا موقع مل جاتا ہے.
ایک تبصرہ ہے اگر ناگوار خاطر نہ ہو
کبھی یہی نہیں آپ انکار کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں اور اس صورت میں یہ بڑے کام آتا ہے. اگر آپ اپنا وقت بچانا چاہتے ہیں تو نہ کہنا سیکھئے. آپ دیکھیں گے کہ آپ کے پاس وقت ہی وقت ہے.
جہاں تک اس موضوع کا تعلق ہے تو یہ نہیں تحقیق کی جڑ ہے. آپ جب تک پرانی تحقیق یا یوں کہیے اجتہاد کا انکار نہیں کریں گے تب تک علم آگے نہیں بڑھے گا. علم کی ترقی کا راز سوال و اعتراض میں ہے. اس پر غور کیجئے گا. شکریہ
آپ کی بات بجا ہے. لیکن میری تحریر کا مقصد بحث مباحثہ میں رائج نہیں کی نفی ہے. :)
 
Top