نہ کریدوں عشق کے راز کو مجھے احتیاط کلام ہے ٭ سراجؔ لکھنوی

نہ کریدوں عشق کے راز کو مجھے احتیاط کلام ہے
مرا ذوق اتنا بلند ہے جہاں آرزو بھی حرام ہے

فقط ایک رشتۂ‌ مشترک خلش سکوت کلام ہے
یوں ہی اک زمانہ گزر گیا نہ پیام ہے نہ سلام ہے

جو چراغ اشک نصیب تھے وہی صبر کر کے جلا دیے
وہی کافرانہ سیاہیاں یہ وہی بجھی ہوئی شام ہے

ابھی رکھا رہنے دو طاق پر یوں ہی آفتاب کا آئینہ
کہ ابھی تو میری نگاہ میں وہی میرا ماہ تمام ہے

مرا ہر نفس مری ہر نظر ہے رضائے غیر پہ منحصر
جو اسی کا نام حیات ہے تو حیات مرگ دوام ہے

یہی مے کدہ کا خلاصہ ہے یہی مستیوں کا نچوڑ بھی
تری چشم بادہ‌ فروش میں یہ جو ایک کیف تمام ہے

مری حسرتوں کا نہ خون کر نہیں یوں نہ روک مری زباں
مری سرد آہ پہ شک نہ کر یہ تو میرا حسن کلام ہے

بڑی دل خراش صدا تھی وہ کہ بنائے میکدہ ہل گئی
یہ شکست توبہ ہے دیکھتا کہ شکست شیشہ و جام ہے

ہے وہی فریب دل و نظر ابھی کاروبار حیات میں
وہی ایک لغزش خلد ہے جو یہاں بھی گام بہ گام ہے

ذرا دیکھنا تو اذان کا بھی سراجؔ وقت نہیں رہا
یہ طلوع مہر ہے یا وہی کف گل فروش پہ جام ہے

سراجؔ لکھنوی​
 

فرخ منظور

لائبریرین
نہ کریدوں عشق کے راز کو مجھے احتیاطِ کلام ہے
مرا ذوق اتنا بلند ہے جہاں آرزو بھی حرام ہے

فقط ایک رشتۂ‌ مشترک خلشِ سکوتِ کلام ہے
یوں ہی اک زمانہ گزر گیا نہ پیام ہے نہ سلام ہے

جو چراغ اشک نصیب تھے وہی صبر کر کے جلا دیے
وہی کافرانہ سیاہیاں یہ وہی بجھی ہوئی شام ہے

ابھی رکھا رہنے دو طاق پر یوں ہی آفتاب کا آئنہ
کہ ابھی تو میری نگاہ میں وہی میرا ماہِ تمام ہے

مرا ہر نفس مری ہر نظر ہے رضائے غیر پہ منحصر
جو اسی کا نام حیات ہے تو حیات مرگِ دوام ہے

یہی مے کدے کا خلاصہ ہے یہی مستیوں کا نچوڑ بھی
تری چشمِ بادہ‌ فروش میں یہ جو ایک کیفِ تمام ہے

مری حسرتوں کا نہ خون کر نہیں یوں نہ روک مری زباں
مری سرد آہ پہ شک نہ کر یہ تو میرا حسنِ کلام ہے

بڑی دل خراش صدا تھی وہ کہ بنائے میکدہ ہل گئی
یہ شکستِ توبہ ہے دیکھنا کہ شکستِ شیشہ و جام ہے

ہے وہی فریبِ دل و نظر ابھی کاروبارِ حیات میں
وہی ایک لغزش خلد ہے جو یہاں بھی گام بہ گام ہے

ذرا دیکھنا تو اذان کا بھی سراجؔ وقت نہیں رہا
یہ طلوعِ مہر ہے یا وہی کفِ گُل فروش پہ جام ہے

سراجؔ لکھنوی
 
Top