ضمیر جعفری نہ گنجائش کو دیکھ اس میں نہ تو مردم شماری کر

نہ گنجائش کو دیکھ اس میں نہ تو مردم شماری کر
لنگوٹی کس خدا کا نام لے گھس جا سواری کر

عبث گننے کی یہ کوشش کہ ہیں کتنے نفوس اس میں
کہ نکلے گا ذرا تو دیکھ تیرا بھی جلوس اس میں

وہ کھڑکی سے کسی نے مورچہ بندوں کو للکارا
پھر اپنے سر کا گٹھڑ دوسروں کے سر پہ دے مارا

یہ سارے کھیت گنے کے کٹا لایا ہے ڈبے میں
وہ گھر کی چارپائی تک اٹھا لایا ہے ڈبے میں

وہ اک رسی میں پورا لاؤ لشکر باندھ لائے ہیں
یہ بستر میں ہزاروں تیر و نشتر باندھ لائے ہیں

صراحی سے گھڑا ، روٹی سے دستر خوان لڑتا ہے
مسافر خود نہیں لڑتا مگر سامان لڑتا ہے

وہ حضرت جو عوام الناس میں گُھل مل کے بیٹھے ہیں
رضائی میں وہ یوں بیٹھے ہیں گویا سِل کے بیٹھے ہیں

وہ آ پہنچا کوئی چمٹا بجا کر مانگنے والا
بہت مقبول ہے لوگوں میں گا کر مانگنے والا

بہم یوں گفتگو میں آشنائی ہوتی جاتی ہے
لڑائی ہوتی جاتی ہے ، صفائی ہوتی جاتی ہے
 
Top