مغزل
محفلین
غزل
نہ ہو طغیانِ مشتاقی تو ” میں “ رہتا نہیں باقی
کہ میری زندگی کیا ہے، یہی طغیانِ مشتاقی
مجھے فطرت ، نوا پر، پے بہ پے مجبور کرتی ہے
ابھی محفل میں ہے شاید کوئی دردآشنا ، باقی
وہ آتش آج بھی تیرا نشیمن پھونک سکتی ہے
طلب صادق نہ ہو تیری ، تو پھر کیا شکوہِ ساقی
نہ کر ، افرنگ کا اندازہ اس کی تابناکی سے
کہ بجلی کے چراغوں سے ہے اس جوہر کی بّراقی
دلوں میں ولولے ، آفاق گیری کے نہیں اٹھتے
نگاہوں میں اگر پیدا نہ ہواندازِ آفاقی
خزاں میں بھی کب آسکتا تھا میں صیّاد کی زد میں
مری غمّاز تھی شاخِ نشمین کی کم اوراقی
الٹ جائیں گی تدبیریں، بدل جائیں گی تقدیریں
حقیقت ہے، نہیں میرے تخیّل کی یہ خلّاقی
ڈاکٹر علامہ محمد اقبال
نہ ہو طغیانِ مشتاقی تو ” میں “ رہتا نہیں باقی
کہ میری زندگی کیا ہے، یہی طغیانِ مشتاقی
مجھے فطرت ، نوا پر، پے بہ پے مجبور کرتی ہے
ابھی محفل میں ہے شاید کوئی دردآشنا ، باقی
وہ آتش آج بھی تیرا نشیمن پھونک سکتی ہے
طلب صادق نہ ہو تیری ، تو پھر کیا شکوہِ ساقی
نہ کر ، افرنگ کا اندازہ اس کی تابناکی سے
کہ بجلی کے چراغوں سے ہے اس جوہر کی بّراقی
دلوں میں ولولے ، آفاق گیری کے نہیں اٹھتے
نگاہوں میں اگر پیدا نہ ہواندازِ آفاقی
خزاں میں بھی کب آسکتا تھا میں صیّاد کی زد میں
مری غمّاز تھی شاخِ نشمین کی کم اوراقی
الٹ جائیں گی تدبیریں، بدل جائیں گی تقدیریں
حقیقت ہے، نہیں میرے تخیّل کی یہ خلّاقی
ڈاکٹر علامہ محمد اقبال