نیب ترمیمی آرڈیننس کا فائدہ کِس کِس کو ہوگا؟

فرقان احمد

محفلین
بہرحال نواز شریف نے اپنے ۴۰ سالہ سیاسی کیریر سے یہ ثابت کیا ہے کہ اگر آپ اس کے ساتھ کچھ اچھا بھی کریں گے تو یہ پھر بھی جوابا آپ کے ساتھ برا ہی کرے گا۔
جونیجو اسے اپنی کابینہ میں لائے۔ بعد میں نواز شریف نے اسی کی پیٹھ پیچھے چھرا گھونپا۔
آئی ایس آئی ۱۹۹۰ میں اسے وزیر اعظم بنا کر لائی اور ۲۰۱۷ میں عدالتی نااہل ہونے کے بعد اس نے اسی ایجنسی پر ممبئ حملوں کا الزام لگا دیا۔ جو بطور ثبوت کلبھوشن یادیو کے حق میں عالمی عدالت میں بھارت نے چلایا۔
۱۹۹۹ میں مشرف نے نواز شریف کی گردن بچائی۔ ۲۰۱۳ میں اس نے اقتدار میں آکر مشرف کے ہی خلاف غداری کا مقدمہ کر دیا جس کی سزا پھانسی ہے۔
اب عمران خان نے نواز شریف کی مبینہ بیماریوں کے پلندوں پر رحم کھا کر ملک سے باہر علاج کی غیر معمولی اجازت دی ہے۔ تو موصوف وہاں جا کر اسی حکومت کے خلاف سازشیں کرنے میں مصروف ہیں جس کی وجہ سے ان کی جان بچی ہے۔
اسے عرف عام میں سانپ کہتے ہیں جو جس کا کھاتا ہے اسی کو ڈستا ہے۔ جب مشکل میں ہو تو پاؤں پکڑتا ہے اور جب اقتدار میں ہو تو گلا پکڑتا ہے۔
آپ بغض اور تعصب کا شکار معلوم ہو رہے ہیں۔ میاں صاحب میں جہاں بہت سی خامیاں ہیں، وہاں بہت سی خوبیاں بھی ہیں۔ یہی حال دیگر سیاست دانوں کا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
آپ بغض اور تعصب کا شکار معلوم ہو رہے ہیں۔ میاں صاحب میں جہاں بہت سی خامیاں ہیں، وہاں بہت سی خوبیاں بھی ہیں۔ یہی حال دیگر سیاست دانوں کا ہے۔
ان کی چند ایک خوبیاں بے شمار خامیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اس قوم نے تین بار موصوف کو منصب وزارت اعلی پر بٹھایا اور یہ ہر بار کسی نہ کسی سے الجھ کر اپنے آپ کو سیاسی شہید بنا دیتے۔
 

فرقان احمد

محفلین
ان کی چند ایک خوبیاں بے شمار خامیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اس قوم نے تین بار موصوف کو منصب وزارت اعلی پر بٹھایا اور یہ ہر بار کسی نہ کسی سے الجھ کر اپنے آپ کو سیاسی شہید بنا دیتے۔
ان کے حامیوں کا بیانیہ آپ سے بالکل الٹ ہے۔ ہمیں تو سچائی دو انتہاؤں کے درمیان نظر آتی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ان کے حامیوں کا بیانیہ آپ سے بالکل الٹ ہے۔ ہمیں تو سچائی دو انتہاؤں کے درمیان نظر آتی ہے۔
وزارت عظمی آئینی طور پر طاقت کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ اس منصب عظمی میں اختیارات کی کمی بیشی کے خلاف جنگ سیاسی تحریک چلا کر لڑی جا سکتی تھی۔ لیکن موصوف نے ہر بار اس منصب کو عوامی مسائل حل کرنے کی بجائے اپنی وزارت عظمی کے اختیارات بڑھانے کیلیے استعمال کیا۔
۱۹۹۳ میں ۵۸ ٹو بی پر صدر پاکستان سے الجھ گئے اور فارغ ہو گئے۔ پھر ۱۹۹۷ میں امیر المومنین بننے کے چکر میں چیف جسٹس سجاد علی شاہ سے الجھ گئے۔ فارغ ہونے ہی والے تھے کہ بروقت کوئٹہ بنچ کے ججوں کو بذریعہ بریف کیس خرید کر چیف جسٹس کو فارغ کر دیا اور یوں اپنی جان بچائی۔ پھر ۱۹۹۹ میں آرمی چیف مشرف سے الجھ گئے اور فارغ کر دیے گئے۔ ۲۰۱۶ میں ڈان لیکس پر پھر ایجنسیوں سے الجھے اور پاناما سکینڈل آنے پر ذلیل کرکے سپریم کورٹ نے ان کو اقتدار سے باہر کر دیا۔
پہلی بار غلطی کوتاہی ہوتی ہے۔ دوسری بار غلطی غلطی ہوتی ہے۔ اور تیسری بار وہی غلطی دہرانا قابل سزا جرم بن جاتی ہے۔
 
آخری تدوین:

فرقان احمد

محفلین
وزارت عظمی آئینی طور پر طاقت کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ اس منصب عظمی میں اختیارات کی کمی بیشی کے خلاف جنگ سیاسی تحریک چلا کر لڑی جا سکتی تھی۔ لیکن موصوف نے ہر بار اس منصب کو عوامی مسائل حل کرنے کی بجائے اپنی وزارت عظمی کے اختیارات بڑھانے کیلیے استعمال کیا۔
۱۹۹۳ میں ۵۸ ٹو بی پر صدر پاکستان سے الجھ گئے اور فارغ ہو گئے۔ پھر ۱۹۹۷ میں امیر المومنین بننے کے چکر میں چیف جسٹس سجاد علی شاہ سے الجھ گئے۔ فارغ ہونے ہی والے تھے کہ بروقت کوئٹہ بنچ کے ججوں کو بذریعہ بریف کیس خرید کر چیف جسٹس کو فارغ کر دیا اور یوں اپنی جان بچائی۔ پھر ۱۹۹۹ میں آرمی چیف مشرف سے الجھ گئے اور فارغ کر دیے گئے۔ ۲۰۱۶ میں ڈان لیکس پر پھر ایجنسیوں سے الجھے اور پاناما سکینڈل آنے پر ذلیل کرکے سپریم کورٹ نے ان کو اقتدار سے باہر کر دیا۔
پہلی بار غلطی کوتاہی ہوتی ہے۔ دوسری بار غلطی غلطی ہوتی ہے۔ اور تیسری بار وہی غلطی دہرانا قابل سزا جرم بن جاتی ہے۔
ان کے چاہنے والے ان کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ سیاسی طور پر، وہ ناکام نہیں ہیں۔ عروج و زوال تو چلتا رہتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ان کے چاہنے والے ان کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ سیاسی طور پر، وہ ناکام نہیں ہیں۔ عروج و زوال تو چلتا رہتا ہے۔
سپریم کورٹ ان کو تاحیات نااہل کر چکی ہے۔ اس فیصلہ کے خلاف اپیل بھی خارج ہو چکی ہے۔ اگر اب کرپشن اور منی لانڈرنگ کے مقدمات میں ضمانت ہو بھی جاتی ہے تب بھی سیاسی طور پر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ وہ قومی سیاست سے بہرحال تاحیات نااہل ہیں۔
ان کی آنے والی سیاسی نسلیں پہلے ہی کرپشن اور منی لانڈرنگ کے سنگین مقدمات میں بری طرح پھنسی ہوئی ہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
سپریم کورٹ ان کو تاحیات نااہل کر چکی ہے۔ اس فیصلہ کے خلاف اپیل بھی خارج ہو چکی ہے۔ اگر اب کرپشن اور منی لانڈرنگ کے مقدمات میں ضمانت ہو بھی جاتی ہے تب بھی سیاسی طور پر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ وہ قومی سیاست سے بہرحال تاحیات نااہل ہیں۔
ان کی آنے والی سیاسی نسلیں پہلے ہی کرپشن اور منی لانڈرنگ کے سنگین مقدمات میں بری طرح پھنسی ہوئی ہیں۔
یہ گیم چلتی رہتی ہے۔ ایک دو مقدمات سے کچھ نہ بنے گا۔ یہ سب سیاسی کردار پھر سے زندہ ہو سکتے ہیں۔ دیکھتے جائیے!
 

جاسم محمد

محفلین
ان کے چاہنے والے ان کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ سیاسی طور پر، وہ ناکام نہیں ہیں۔ عروج و زوال تو چلتا رہتا ہے۔
ویسے چاہنے والوں کا کیا ہے۔ وہ تو الم دین، ممتاز قادری، بھٹو کے ساتھ بھی آخری دم تک کھڑے رہے تھے لیکن عدالت نے بہرحال شدید عوامی مقبولیت کے باوجود تینوں کو ٹانگ دیا۔
 

فرقان احمد

محفلین
یہ تو پھر مردہ گھوڑے کو لاتیں مار کر زندہ کرنے کی کوشش ہوگی۔ :)
یہ سب کردار زندہ ہیں اور اس کی ایک بڑی وجہ آپ کی حکومت کی نااہلی ہے۔ اب بھی سروے کروا لیجیے۔ پچھلے دور کو موجودہ دور سے بہتر ہی قرار دیا جائے گا۔ آپ بہتر ہو جائیے تو یہ سب عوامی مقبولیت کھو دیں گے۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ سب کردار زندہ ہیں اور اس کی ایک بڑی وجہ آپ کی حکومت کی نااہلی ہے۔ اب بھی سروے کروا لیجیے۔ پچھلے دور کو موجودہ دور سے بہتر ہی قرار دیا جائے گا۔ آپ بہتر ہو جائیے تو یہ سب عوامی مقبولیت کھو دیں گے۔
زرداری دور میں سروے ہوا تھا تو لوگ کہتے تھے مشرف دور ہی بہتر تھا۔ پھر نواز شریف دور میں سروے ہوا تو لوگوں کو زرداری دور بہتر لگنے لگا۔ اب عمرانی دور میں سروے ہوں گے تو عوام کو شریفوں کا دور بہتر لگے گا۔ :)
 

فرقان احمد

محفلین
زرداری دور میں سروے ہوا تھا تو لوگ کہتے تھے مشرف دور ہی بہتر تھا۔ پھر نواز شریف دور میں سروے ہوا تو لوگوں کو زرداری دور بہتر لگنے لگا۔ اب عمرانی دور میں سروے ہوں گے تو عوام کو شریفوں کا دور بہتر لگے گا۔ :)
یہ تو ہے۔ یہ تو ہو گا، یہ تو ہو گا، بقول علامہ ضمیر نقوی!
 

جاسم محمد

محفلین
یہ تو ہے۔ یہ تو ہو گا، یہ تو ہو گا، بقول علامہ ضمیر نقوی!
ویسے آپ غور کریں تو پتا چلے گا کہ یہ حکومت ماضی کی حکومتوں کی طرح فرسودہ نظام جیسے تیسے دھکے سے چلانے کی کوشش بھی نہیں کر رہی۔ جہاں کوئی ڈلیور نہیں کرتا اسے فارغ کر دیا جاتا ہے۔ جیسے اسد عمر کمزور معاشی پرفارمنس پر فارغ۔ نیب نے ڈلیور نہیں کیا تو قوانین تبدیل۔ ایف آئی اے کا سربراہ احکامات نہیں سن رہا تھا تو اسے بھی فارغ کردیا۔ یہی کچھ پنجاب میں پولیس اور بیروکریسی کے ساتھ بار بار کیا ہے۔ اور یہ سلسلہ چلتا رہے گا جب تک نظام ٹھیک نہیں ہو جاتا۔ اس کے لئے حکومت کو ووٹوں اور مقبولیت کی قربانی دینی پڑے تو نظام ٹھیک کرنے کی خاطر قبول ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
ویسے آپ غور کریں تو پتا چلے گا کہ یہ حکومت ماضی کی حکومتوں کی طرح فرسودہ نظام جیسے تیسے دھکے سے چلانے کی کوشش بھی نہیں کر رہی۔ جہاں کوئی ڈلیور نہیں کرتا اسے فارغ کر دیا جاتا ہے۔ جیسے اسد عمر کمزور معاشی پرفارمنس پر فارغ۔ نیب نے ڈلیور نہیں کیا تو قوانین تبدیل۔ ایف آئی اے کا سربراہ احکامات نہیں سن رہا تھا تو اسے بھی فارغ کردیا۔ یہی کچھ پنجاب میں پولیس اور بیروکریسی کے ساتھ بار بار کیا ہے۔ اور یہ سلسلہ چلتا رہے گا جب تک نظام ٹھیک نہیں ہو جاتا۔ اس کے لئے حکومت کو ووٹوں اور مقبولیت کی قربانی دینی پڑے تو نظام ٹھیک کرنے کی خاطر قبول ہے۔
ایک احسان کیجیے۔ اپنے اس مراسلے کو سیاسی چٹکلوں والی لڑی میں منتقل کر دیجیے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ایک احسان کیجیے۔ اپنے اس مراسلے کو سیاسی چٹکلوں والی لڑی میں منتقل کر دیجیے۔
اگر پی پی پی اور ن لیگ اپنی ۴۰ سالہ مشترکہ تجربہ کاری۔ بیروکریسی میں ہر جگہ اپنے بندے بٹھانے اور شدید ترین عوامی مقبولیت کے بعد بھی تحریک انصاف کو اقتدار میں آنے سے نہ روک سکی۔ تو سمجھ جائیں کہ تحریک انصاف کے پانچ سالہ اقتدار کے بعد ان دونوں جماعتوں کا مستقبل تابناک ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
اگر پی پی پی اور ن لیگ اپنی ۴۰ سالہ مشترکہ تجربہ کاری۔ بیروکریسی میں ہر جگہ اپنے بندے بٹھانے اور شدید ترین عوامی مقبولیت کے بعد بھی تحریک انصاف کو اقتدار میں آنے سے نہ روک سکی۔ تو سمجھ جائیں کہ تحریک انصاف کے پانچ سالہ اقتدار کے بعد ان دونوں جماعتوں کا مستقبل تابناک ہے۔
تحریک انصاف کی مقبولیت سے کس کو انکار ہے! تاہم، نااہلی میں بھی کلام نہ ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
تحریک انصاف کی مقبولیت سے کس کو انکار ہے! تاہم، نااہلی میں بھی کلام نہ ہے۔
متفق۔ خیر یہ نااہلی قوم کا اجتماعی اثاثہ ہے۔ اس کا تعلق صرف تحریک انصاف سے ہرگز نہ ہے۔ ملک کا ہر آزاد ادارہ و محکمہ نااہلیوں میں اپنی مثال آپ ہے۔ اور یہ اس حکومت کے آنے سے بہت پہلے سے ہی ایسا ہے۔
 
آخری تدوین:

فرقان احمد

محفلین
متفق۔ خیر یہ نااہلی قوم کا اجتماعی اثاثہ ہے۔ اس کا تعلق صرف تحریک انصاف سے ہرگز نہ ہے۔ ملک کا ہر آزاد ادارہ و محکمہ نااہلیوں میں اپنی مثال آپ ہے۔ اور یہ اس حکومت کے آنے سے بہت پہلے سے ہی ایسا ہے۔
اس بات میں کافی وزن ہے۔ تاہم، خان صاحب نے بھی اس میں مقدور بھر حصہ ڈالا ہے۔ انہیں اس ٹیم کے ساتھ میدان میں اترنے سے گریز کرنا چاہیے تھا۔ انسان راستے کا مسافر بنا رہے، مگر، ایسی منزل قبول نہ کرے! اگر کچھ بدل نہیں سکتے ہیں تو الگ ہو جائیں۔ اب بھی وقت ہے!
 

جاسم محمد

محفلین
اس بات میں کافی وزن ہے۔ تاہم، خان صاحب نے بھی اس میں مقدور بھر حصہ ڈالا ہے۔ انہیں اس ٹیم کے ساتھ میدان میں اترنے سے گریز کرنا چاہیے تھا۔ انسان راستے کا مسافر بنا رہے، مگر، ایسی منزل قبول نہ کرے! اگر کچھ بدل نہیں سکتے ہیں تو الگ ہو جائیں۔ اب بھی وقت ہے!
بالکل صحیح کہا۔ جس طرح ماضی کی حکومتیں مفلوج اداروں ومحکموں کو دھکا لگا کر ملک چلاتی رہیں اور یوں اپنے منطقی انجام کو پہنچی۔ وہی کام خان صاحب اپنی مفلوج ٹیم کے ذریعہ اصلاحات کے نام پر کر رہے ہیں۔ اگر وہ ابھی اسمبلیوں توڑ کر نئے انتخابات کی طرف نکل جاتے ہیں تو اقتدار میں واپسی کے دروازے بند ہی سمجھیں۔ اس لئے مجبوری ہے اسی ٹیم پر اگلے ۳،۵ سال گزارہ کرنا پڑے گا۔ پھر چاہے اقتدار رہے نہ رہے ان کی بلا سے۔
 

فرقان احمد

محفلین
بالکل صحیح کہا۔ جس طرح ماضی کی حکومتیں مفلوج اداروں ومحکموں کو دھکا لگا کر ملک چلاتی رہیں اور یوں اپنے منطقی انجام کو پہنچی۔ وہی کام خان صاحب اپنی مفلوج ٹیم کے ذریعہ اصلاحات کے نام پر کر رہے ہیں۔ اگر وہ ابھی اسمبلیوں توڑ کر نئے انتخابات کی طرف نکل جاتے ہیں تو اقتدار میں واپسی کے دروازے بند ہی سمجھیں۔ اس لئے مجبوری ہے اسی ٹیم پر اگلے ۳،۵ سال گزارہ کرنا پڑے گا۔ پھر چاہے اقتدار رہے نہ رہے ان کی بلا سے۔
بس، تو پھر ٹھیک ہے۔ سر جھکا کر نوکری کیے جائیں!
 
Top