ان کے حامیوں کا بیانیہ آپ سے بالکل الٹ ہے۔ ہمیں تو سچائی دو انتہاؤں کے درمیان نظر آتی ہے۔
وزارت عظمی آئینی طور پر طاقت کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ اس منصب عظمی میں اختیارات کی کمی بیشی کے خلاف جنگ سیاسی تحریک چلا کر لڑی جا سکتی تھی۔ لیکن موصوف نے ہر بار اس منصب کو عوامی مسائل حل کرنے کی بجائے اپنی وزارت عظمی کے اختیارات بڑھانے کیلیے استعمال کیا۔
۱۹۹۳ میں ۵۸ ٹو بی پر صدر پاکستان سے الجھ گئے اور فارغ ہو گئے۔ پھر ۱۹۹۷ میں امیر المومنین بننے کے چکر میں چیف جسٹس سجاد علی شاہ سے الجھ گئے۔ فارغ ہونے ہی والے تھے کہ بروقت کوئٹہ بنچ کے ججوں کو بذریعہ بریف کیس خرید کر چیف جسٹس کو فارغ کر دیا اور یوں اپنی جان بچائی۔ پھر ۱۹۹۹ میں آرمی چیف مشرف سے الجھ گئے اور فارغ کر دیے گئے۔ ۲۰۱۶ میں ڈان لیکس پر پھر ایجنسیوں سے الجھے اور پاناما سکینڈل آنے پر ذلیل کرکے سپریم کورٹ نے ان کو اقتدار سے باہر کر دیا۔
پہلی بار غلطی کوتاہی ہوتی ہے۔ دوسری بار غلطی غلطی ہوتی ہے۔ اور تیسری بار وہی غلطی دہرانا قابل سزا جرم بن جاتی ہے۔