وزیراعظم اپوزیشن کو یکجا کرنے میں مصروف ہیں
08/08/2019 عدنان خان کاکڑ
مکار مودی نے کشمیر کا سپیشل سٹیٹس ختم کر کے اسے ہڑپ کرنے کی کوشش کی تو اس پر بجا طور پر ہمارے وزیراعظم بھنا اٹھے۔ انہوں نے ترنت قومی اسمبلی کا مشترکہ اجلاس بلایا اور اس میں تقریر بھی کی۔ بدقسمتی سے حالات اتنے برے ہیں کہ وہ اپنی بے پناہ مصروفیات کے سبب دوسروں کی تقریریں نہیں سن سکے بس اپنی ہی سنا کر چلے گئے۔ بہرحال انہوں نے قومی یکجہتی کی ضرورت پر بہت زور دیا اور کہا کہ مودی کے کشمیر پر غیر قانونی حملے کے موقعے پر قوم کو یکجا کرنا چاہیے۔
دیکھیں وزیراعظم نے ٹھیک تو کہا ہے کہ مودی کے کشمیر پر حملے کے موقعے پر قوم کو یکجہتی دکھانی چاہیے۔ ہمارے وزیراعظم صرف گفتار کے غازی نہیں ہیں بلکہ کردار کے غازی بھی ہیں۔ اس وقت وہ اپوزیشن کے بڑے لیڈروں کو ایک جگہ یکجا کرنے میں مصروف ہیں۔ بجائے اس بات کے کہ وزیراعظم کی تعریف کی جائے انہیں الٹی سیدھی باتیں سنائی جا رہی ہیں۔ آخر یہ جیل پاکستان میں ہی ہے، دہلی میں تو نہیں ہے۔ پھر شور کیوں؟
آج نیب نے مریم نواز شریف کو تین بجے طلب کر رکھا تھا۔ دو بجے وہ نواز شریف سے ملنے جیل گئیں تو نیب نے یہ سوچ کر کہ انہیں اس گرمی میں گاڑی تلاش کرنی پڑے گی، انہیں لفٹ کر لیا اور اپنے پاس لے گئی۔ مریم اگر اپنی گاڑی میں جاتیں تو اس کمر توڑ مہنگائی کے زمانے میں ذاتی گرہ سے انہیں بیش قیمت پیٹرول بھی خریدنا پڑتا اور محافظوں کا بندوبست بھی کرنا پڑتا کہ زمانہ خراب ہے۔ نیب نے نہ صرف انہیں سرکاری گاڑی بلکہ سرکاری پروٹوکول بھی فراہم کیا۔
خدا جانے کیا پوچھ تاچھ کی ہو گی، کسی جھمکے کا ذکر سنا ہے۔ یہی پوچھا ہو گا کہ آپ کا یہ جھمکا کہاں سے آیا ہے، کہیں بریلی کے بازار سے تو نہیں پایا؟ یا ایسے ہی دیگر سوال کیے ہوں گے جھمکوں پر۔ بہرحال اس کے بعد کشمیر کے نازک حالات کے تناظر میں قومی یکجہتی پیدا کرنے کی خاطر وہ انہیں جیل میں لے گئے تو اس میں کیا برائی ہے۔
اب جیل میں پنجاب سے نواز شریف، مریم نواز، شاہد خاقان عباسی، رانا ثنا اللہ اور خواجہ سعد رفیق، سندھ سے آصف زرداری اور فریال تالپور، فاٹا سے محسن داوڑ اور علی وزیر اور دیگر یکجا کیے جا چکے ہیں۔ یہ تو وہ نام ہیں جن کا ہمیں پتہ ہے، بہت سے ایسے بھی ہیں جن کا کسی کو نہیں پتہ۔ پختونخوا سے مولانا فضل الرحمان کو بھی یکجا کرنے کے منصوبوں کی خبریں ملتی رہتی ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ حکومت صرف سیاسی قیادت ہی یکجا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ چند دن قبل مشہور صحافی اور دانشور عرفان صدیقی صاحب کو بھی اس عظیم قومی مفاہمتی منصوبے کے تحت یکجا کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن شریر صحافیوں نے شور مچا دیا۔ تاجروں کے متعلق بھی پتہ چلا ہے کہ وہ بے قرار ہوئے پھر رہے ہیں کہ اللہ جانے کس وقت وہ بھی یک جا ہو جائیں۔
کچھ عرصے قبل وفاقی وزیر کرنٹ اور پانی جناب فیصل واؤڈا نے حکومتی پالیسی بیان کرتے ہوئے تجویز بھی دی تھی کہ پانچ ہزار چنیدہ لوگوں کو رسی کی مدد سے گاڑیوں سے یکجا کیا جائے، گھمایا جائے اور بلند مقام پر فائز کیا جائے۔ ظاہر ہے کہ ان سب گاڑیوں اور دیگر انتظامات کا تمام خرچہ حکومت ہی اٹھائے گی اور ان افراد کو یہ یکجائی مفت میں پڑے گی۔
آثار یہی ہیں کہ تمام قومی و صوبائی اسمبلیوں سے اپوزیشن ممبران کو یکجا کرنے کو اس وقت پہلی قومی ترجیح قرار دیا جا چکا ہے تاکہ ایک طرف سے یکسوئی نصیب ہو جائے تو پھر مودی سے نمٹا جائے۔
اس ایک طرف سے یکسوئی نصیب ہونے کا قصہ بھی دلچسپ ہے۔ یوسفی بیان کرتے ہیں کہ ’’ایک دن جون ایلیا مجھے کہنے لگے کہ میرے پاس اب پینتیس کرتے اور ایک پاجامہ رہ گیا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ اس ایک پاجامے کو بھی کسی کو بخش دیجیے تا کہ ایک طرف سے تو یکسوئی ہو‘‘۔
دیکھتے ہیں حکومت کو کب یکسوئی نصیب ہوتی ہے اور پاجامہ کس کے حصے میں آتا ہے۔