کاشفی
محفلین
نیرنگِ تصوّر
(تخت سنگھ)
سحر کا وقت ہے، بیٹھا ہوں میں پھولوں کی محفل میں
تلاطم خیز ہے موجِ ترنّم قلزمِ دل میں
جھلکتا ہے کسی کا حُسن، فردوسِ نظر بن کر
کسی کے اشک سبزے پر مچلتے ہیں گہر بن کر
کوئی آواز دیتا ہے مجھے بُلبل کے نغموں میں
اُڑاتا ہے کوئی میری ہنسی چھپ چھپ کے پھولوں میں
کسی کی آہِ سوزاں کا دھواں گردوں پہ رقصاں ہے
کسی کا خونِ دل رنگِ شفق میں جلوہ افشاں ہے
خموشی بن کے سرتاپا کوئی بیٹھا ہے سوسن میں
سویدا بن کے پنہاں ہے کوئی لالے کے دامن میں
کوئی شاخوں میں چھپ کر میرے آگے سرجھکاتا ہے
مجھے اپنی طرف شاید اشاروں سے بلاتا ہے
کوئی میری طرف نرگس کی مست آنکھوں سے تکتا ہے
میں کیا جانوں وہ ان پردوں میں کیا کچھ دیکھ سکتا ہے
کوئی زیرِ شجر سایوں کی پریوں کو نچاتا ہے
ہوا ہے یا کوئی دھیمے سروں میں گیت گاتا ہے
کوئی کوئل کی کوکو میں یہ آہستہ سے کہتا ہے
تجھے جس کی تمنا ہے وہ تیرے دل میں رہتا ہے
غرض ہر چیز میں ہے اس کے جلوؤں کی فراوانی
عیاں ہے ذرّے ذرّے سے اُسی کے رُخ کی تابانی
(تخت سنگھ)
سحر کا وقت ہے، بیٹھا ہوں میں پھولوں کی محفل میں
تلاطم خیز ہے موجِ ترنّم قلزمِ دل میں
جھلکتا ہے کسی کا حُسن، فردوسِ نظر بن کر
کسی کے اشک سبزے پر مچلتے ہیں گہر بن کر
کوئی آواز دیتا ہے مجھے بُلبل کے نغموں میں
اُڑاتا ہے کوئی میری ہنسی چھپ چھپ کے پھولوں میں
کسی کی آہِ سوزاں کا دھواں گردوں پہ رقصاں ہے
کسی کا خونِ دل رنگِ شفق میں جلوہ افشاں ہے
خموشی بن کے سرتاپا کوئی بیٹھا ہے سوسن میں
سویدا بن کے پنہاں ہے کوئی لالے کے دامن میں
کوئی شاخوں میں چھپ کر میرے آگے سرجھکاتا ہے
مجھے اپنی طرف شاید اشاروں سے بلاتا ہے
کوئی میری طرف نرگس کی مست آنکھوں سے تکتا ہے
میں کیا جانوں وہ ان پردوں میں کیا کچھ دیکھ سکتا ہے
کوئی زیرِ شجر سایوں کی پریوں کو نچاتا ہے
ہوا ہے یا کوئی دھیمے سروں میں گیت گاتا ہے
کوئی کوئل کی کوکو میں یہ آہستہ سے کہتا ہے
تجھے جس کی تمنا ہے وہ تیرے دل میں رہتا ہے
غرض ہر چیز میں ہے اس کے جلوؤں کی فراوانی
عیاں ہے ذرّے ذرّے سے اُسی کے رُخ کی تابانی