آج میں فرینکفرٹ کتاب میلہ میں گیا اور بڑے شوق سے پاکستان کے سٹالز کی تلاش شروع کی۔ ایک ویران سا، اجڑا ہوا سٹال نظر آیا جس پر ایک صاحب بیٹھے کتابوں سے گرد جھاڑتے نظر آئے۔ پاس میں ایک ہاتھ سے لکھا ہوا کارڈ بورڈ نظر آیا جس پر نیشنل بک فاؤنڈیشن لکھا ہوا تھا۔ دل کو ایک دھچکا سا لگا۔ پھر سوچا کوئی بات نہیں شاید اور سٹال ہوں گے۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ پورے پاکستان کی نمائندگی صرف یہی سٹال کر رہا تھا۔ کل تقریبا 100 سے 150 کتب ہوں گی۔ جن میں سے اکثر پر دھبے پڑے ہوئے تھے اور تقریبا سب کے سرورق کے رنگ اڑے ہوئے تھے۔ تقریبا سب بغیر جلد کی کتابوں کے صفحات کے کنارے مڑے ہوئے تھے۔ یہ تھا پاکستان کا سٹال۔
اب ذرا ہندوستان کی طرف نظر دوڑائیے۔ کم از کم 150 سٹال ہوں گے جن میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کتب بھری ہوئی تھیں۔ ہندوستان اس دفعہ اس میلے کا گیسٹ آف آنر بھی تھا۔ سینکڑوں لوگ ثقافتی پروگرام پیش کر رہے تھے۔ کہیں کوئی خاتون جرمنوں کو مہندی لگا رہی ہے، کہیں کوئی پھول کاڑھ کر دے رہی ہے، کوئی صاحب چاندی کا کام کر کے اپنا ہنر دکھا رہے ہیں۔ ہندوستان کے ادیب ایک بڑے ہال میں لائیو لوگوں کو اپنا کلام سنا رہے تھے۔ اپنی کتب دستخط کر کر کے دے رہے تھے۔ ٹرینوں میں، بسوں میں ہر جگہ جرمنوں نے ہندوستان کے پوسٹر اٹھائے ہوئے تھے۔ ہر کوئی ہندوستانی کھانوں کی تعریف کر رہا تھا جس کو چکھنے کیلئے تقریبا 300 لوگ لائن بنائے کھڑے تھے۔
پاکستانی سٹال پر ایک محترمہ ان صاحب کو اپنا رابطہ نمبر دینا چاہ رہی تھی تو وہ ٹوٹی پھوٹی جرمن میں جواب میں فرمانے لگے کہ میرے پاس پہلے ہی 500 کارڈ ہیں، ہم آپ سے رابطہ نہیں کر سکتے!!!