الف نظامی
لائبریرین
نیشنل فارسٹ پروگرام
کیا حکومت غیر سرکاری اداروں اور تنظیموں کے تعاون سے جنگلات کی کمی کو پورا کر پائے گی؟
وفاقی وزیر ماحولیات حمید اللہ جان آفریدی نے اپریل 2010 کے تیسرے ہفتے میں ایک تقریب کے دوران کہا ہے کہ نیشنل فارسٹ پروگرام پر عملدرآمد حکومت پاکستان کے پروگرام ویژن2030 کیلئے ایک سنگ میل ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ جنگلات کی حفاظت کرنا آج کی اہم ضرورت ہے۔ نیشنل فارسٹ پروگرام حکومت اور نجی اداروں کی شراکت داری سے شروع کیا جا رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ جنگلات میں کمی کی وجہ سے نہ صرف موسمیاتی تبدیلیاں ہو رہی ہیں بلکہ ملک کے پانی کے ذخائر میں بھی بتدریج کمی واقع ہو رہی ہے جس کی وجہ سے توانائی کی پیداوار میں بھی کمی کا سامنا ہے۔نیشنل فارسٹ پروگرام کے مطابق ملک میں جنگلات کی ترقی کے لئے قلیل المدتی اور طویل المدتی پروگرام ترتیب دئیے گئے ہیں جس میں نہ صرف اقوام متحدہ کا ادارہ ڈبلیو ڈبلیو ایف تعاون کر رہا ہے بلکہ دیگر غیر سرکاری ادارے بھی شامل ہیں۔ جس کے تحت قلیل المدتی پروگرام کے تحت جنگلات کی حفاظت، ان کی آبیاری بلکہ نئے درخت لگانے کے عمل میں یہ ادارے ساتھ دے گے جبکہ طویل المدتی پروگراموں کے تحت حکومت اور غیر سرکاری اشتراک سے نئے جنگلات لگائے جائیں گے اور اس مقصد کیلئے محکمہ جنگلات کی اراضی لیز پر بھی دی جائے گی۔
حکومت پنجاب نے بھی گذشتہ برس اینگرو پولی مر اینڈ کیمیکلز لمیٹیڈ نامی کمپنی سے میمورنڈم آف اندرسٹینڈنگ پر چھانگا مانگا کے جنگل میں دستخط کیے تھے جس کے مطابق اینگرو پولی مر کمپنی نئے جنگل لگانے میں حکومت پنجاب کی مالی معاونت کرے گی جبکہ اس پروگرام کی مانیٹرنگ اقوام متحدہ کا ادارہ ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کرے گا۔ پنجاب کے محکمہ جنگلات کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان کے ویژن 2030 کے حصول کیلئے 2010 کے آخر تک جنگلات کے رقبے کو 5.6 فیصد اور2015تک 6 فیصد تک بڑھانے کیلئے نجی مدد ضروری ہے ۔ محکمہ کا کہنا ہے کہ حکومت اس حوالے سے تمام ایسے غیر سرکاری اداروں اور تنظیموں کی حوصلہ افزائی کرے گی جو جنگلات کو بڑھانے اور ان کی نگہداشت میں معاون بننا چاہتے ہیں۔جبکہ صوبائی وزیر زراعت وجنگلات ملک احمد علی اولکھ نے بھی صوبے میں جنگلات سے سرکاری لکڑی کی چوری کے واقعات کا سخت نوٹس لیتے ہوئے اس کاروبار میں ملوث عناصر، افسران واہلکاران کے خلاف فوری کارروائی کا حکم دیا ہے۔ لکڑی چوری کی وارداتوں کی روک تھام کے لئے خصوصی ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں۔
جنگلات کسی بھی ملک کی معیشت کا ایک لازمی حصہ ہیں۔ملک کی متوازن معیشت کے لئے ضروری ہے کہ اس کے بیس فیصد رقبے پر جنگلات ہوں۔لیکن سرکاری اعداد وشمار کے مطابق پاکستان کے کل رقبے کا صرف لگ بھگ پانچ فیصد جنگلات پر مشتمل ہے۔ جبکہ غیر سرکاری حلقوں کے مطابق پاکستان کے پاس صرف تین فیصد جنگلات باقی ہیں۔ ان میں سے بھی ہر سال قریباً اکتالیس ہزار ہیکٹر جنگل غائب ہو رہا ہے۔ اس میں آگ، کیڑے مکوڑوں اور نباتاتی بیماریوں کا قصور صرف چھ فیصد ہے۔ بقیہ 94 فیصد جنگل کی صفائی کے ذمہ دار کمرشل اور نان کمرشل، قانونی و غیر قانونی انسانی ہاتھ ہیں۔ جو جنگل بچ گیا ہے وہ کتنی تیزی سے غائب ہو رہا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صوبہ خیبر پختونخواہ کے محکمہ جنگلات کے خلاف ایک شکایت موصول ہونے پر ڈائریکٹر جنرل قومی احتساب بیورو نے انکوائری کا حکم دیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ محکمہ جنگلات کے ریکارڈکے مطابق 1992میں شیشم کے 80064درخت تھے جن کی پیمائش 2,432,863مکعب فٹ تھی ۔ریکارڈ کے مطابق 18064شیشم کے درخت قانون کے مطابق نیلامی اور دوسرے طریقے سے محکمہ جنگلات مردان ڈویڑن نے فروخت کئے جب انکوائری ٹیم نے درختوں کی گنتی اور پیمائش کی تو پتہ چلا کہ 35000شیشم کے مزید درخت جن کی مالیت کروڑوں میں ہے غائب ہیں۔ اور ایسا ہی حال ملک کے دیگر جنگلات میں بھی ہو رہا ہے اگرچہ حکومت اپنے اعداد و شمار کے ذریعے یہ ثابت کرنے پر مصر ہے کہ گذشتہ دس برسوں میں جنگلات پر مبنی کل رقبہ چار اعشاریہ آٹھ سے بڑھ کر پانچ اعشاریہ صفر ایک فیصد ہوگیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس اضافے کی بڑی وجہ فارموں میں کاشت کردہ درختوں کی تعداد میں اضافہ ہے۔
محکمہ جنگلات پنجاب کے ایک ریٹائرڈ فارسٹ آفیسر کا کہنا ہے کہ پنجاب میں نہروں اور سڑکوں پر لگائے گئے شیشم اور کیکر کے درخت محکمہ انہار اور دیگر محکموں کی ملی بھگت سے یا تو چوری کر لئے گئے ہیں یا اونے پونے داموں میں فروخت کر دیئے گئے ہیں۔ اب پنجاب کی بیشتر نہروں پر کوئی درخت نظر نہیں آتاجبکہ سڑکوں پر بھی نہ ہونے کے برابر درخت ہیں اور اس میں نہ صرف محکمہ انہار بلکہ دیگر محکمہ جات مثلاً محکمہ جنگلات، محکمہ شاہرات، محکمہ مال وغیرہ تمام قصور وار ہیں اور اس سلسلے میں حکومت کی کوئی پلاننگ نظر نہیں آتی ۔حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر نہروں اور سڑکوں پر ازسر نوشجر کاری کی پلاننگ کرنی چاہیے جبکہ کسانوں اور دیہی عوام میں شعور اجاگر کیا جائے کہ جہاں تک ممکن ہو سکے درخت لگائیں اور ان درختوں کا سرکاری ریکارڈ بھی رکھا جائے اور کوشش کی جائے کہ ایسے درخت لگائے جائیں جو زیادہ تر فرنیچر میں استعمال ہوتے ہیں مثلاً شیشم، کیکر وغیرہ کیونکہ ان ایماندارانہ فروخت حکومت کو بہت آمدن ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے ملک لکڑی کی سالانہ کھپت تقریباً 43 ملین کیوبک میٹر ہے جبکہ جنگلات کی سالانہ افزائش 14.4ملین کیوبک میٹر ہے۔ اس طرح پاکستان کو سالانہ تقریباً 29ملین کیوبک میٹر کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ 1990 سے 2000 تک پاکستان میں جنگلات کا اوسطاً 41100 ہیکٹرز رقبہ سالانہ کم ہوا ہے۔ 2000سے 2005 کے دوران کٹائی کی شرح میں مزید اضافہ ہوا۔ اس طرح 1990 سے 2005 تک پاکستان میں تقریباً 24.7فیصدمزیدجنگلات کا رقبہ ختم ہو گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگرچہ حکومت پاکستان اور دیگر صوبوں نے جنگلات کی ترقی کیلئے نجی شعبے کے تعاون سے جو پروگرام شروع کیے ہیں ۔ اس کا ایک فاہدہ تو یہ ہوگا کہ محکمہ جنگلات کے افسران اب اپنی من مانیاں نہیں کر سکے گے کم از کم غیر سرکاری ادارے اور تنظیمیں ان پروگراموں کو مانیٹر کرے گی جس سے بد عنوانیوں میں کمی واقعہ ہو گی ۔ انھوں نے کہا کہ اس حوالے سے لوگوں کو آگاہی دینے کی اشد ضرورت ہے۔حکومت پنجاب نے تقریباً ایک سال پہلے اس غرض سے محکمہ پنجاب کی ویب سائٹ ختم کر کے اس پر اس حوالے ایک عوامی سروے شروع کیا کہ کیا “کہ کیا آپ حکومت پنجاب کی محکمہ جنگلات میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کی تجویز سے متفق ہیں “تو اس کے جواب میں اب تک صرف2507شہریوں نے حصہ لیا ہے جن میں سے1206نے اس تجویز کی مخالفت کی ہے جبکہ 1301نے حمایت کی ہے۔ اس سروے سے اندازہ لگا لیں کہ اس معاملے میں عوام کی کتنی شمولیت ہے۔ جبکہ جنگلات میں اضافہ صرف اور صرف شہریوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو ساتھ ملانے سے ہی ممکن ہے۔
اسی طرح سندھ حکومت بھی نجی شراکت سے جنگلات میں اضافہ کرنے کیلئے منصوبے شروع کر رہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ محکمہ جنگلات کے ہزاروں ایکٹر رقبے پر قابض وڈیروں سے قبضہ بھی واپس لے رہی ہے۔ سندھ کے وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ لاڑکانہ کی کچے اور جنگلات کی زمینوں پر ممتاز علی بھٹو اور الطاف حسین انڑ کا قبضہ ہے۔ دادو کی جنگلات کی زمینوں پر لیاقت جتوئی اور ان کے بھائیوں کا جبکہ ٹھٹھہ کی جنگلات کی زمینوں پر شیرازی برادران کا قبضہ ہے۔ اب سندھ حکومت ان قبضوں کو ختم کروا کر انھیں دوبارہ محکمہ جنگلات کی تحویل میں دینا چاہتی ہے تاکہ وہاں پر مزید شجر کاری کی جا سکے اوروہاں پر درختوں کی غیر ضروری کٹائی کو بند کیا جاسکے۔
ایشائی ترقیاتی بینک نے اب سے کوئی15 سال پہلے بر اعظم ایشیا پر عالمی درجہ حرات میں اضافے اور اس کے ساتھ ساتھ آب و ہوا میں رونما ہو نے والی تبدیلیوں کے اثرات کے بارے میں ایک مفصّل رپورٹ جاری کی تھی۔اس رپورٹ میں آب و ہوا میں تبدیلیوں کے با عث پاکستان میں متاثر ہونے والے جن شعبوں کی خاص طور پرنشاندہی کی تھی ان میں اگر چہ سرِ فہرست زراعت تھی لیکن اسی کے ساتھ ساتھ ماہرین نے پاکستان میں جنگلات کی صورتِِ حال پر خاص طور سے تشویش کا اظہار کیا گیا تھااور پاکستان کو کچھ مشورے بھی دیے تھے کہ اسے اس صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے کیا کرنا چاہئیے۔پاکستان میں جنگلات کا رقبہ ملک کے پورے رقبے کے پانچ فیصد سے بھی کم ہے۔ جبکہ موجود ان جنگلات کی حالت بھی کسی طور قابلِ اطمنان نہیں ہے۔اس سے زیادہ اہم اور تشویش کی بات یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اور ماحول کے دوسرے کئی مسائل کی صورت میں جنگلات کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔اس لیے کہ اگر جنگلات کا رقبہ، ملک کی آبادی اور رقبے کے تناسب سے موزوں ہوتو یہی جنگلات، ماحول کو درپیش کئی مسائل کا حل فراہم کرتے ہیں۔مثلاً جنگلات ، فضا میں کاربن ڈائی آکسائڈ کی بڑھی ہوئی مقدار کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ جنگلات بہت زیاد ہ یا بہت کم بارش کے اثرات میں اعتدال پیدا کرتے ہیں۔اور پھر یہ جنگلات ہی ہیں جو قدرتی آبی راستوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ جو توا نائی کے حصول کا بھی ایک ذریعہ ہیں اور زمیں بردگی کو کنٹرول کرتے ہیں۔لیکن جیسا کہ ایشیائی بینک نے اپنی رپورٹ میں نشاندہی کی تھی کہ پاکستان میں جنگلات کی شدید کمی اور جنگلات کے قدرتی وسائل پر آبادی کے بہت زیادہ دباو کی وجہ سے ملک ان فائدوں سے یا تو محروم ہوچکا ہے یا مستقبل میں محروم ہوجائے گا۔لہذا جنگلات کی حفاظت اور ان کے رقبے میں اضافہ کرنا پاکستان کی اب ضرورت بن چکا ہے۔ درجہ حرارت اور بارش کی مقدار اور اوقات میں جو ممکنہ تبدیلیاں آئیں گی ان کے نقصان دہ اثرات کو زائل کرنے کے لیے جنگلات کا موجودہ رقبہ کافی نہیں ہو گا اور جیسا کہ اب وہ وقت آچکا ہے اور پاکستان کے موسموں میں تبدیلی آچکی ہے۔
پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت نے شاید اس رپورٹ کا ادراک کر لیا ہے اور اب نجی شراکت داری سے جنگلات کی حفاظت اور انھیںمزید بڑھانے کیلئے پروگرام شروع کر رہی ہے۔
کیونکہ کسی بھی ملک میںجنگلات معاشرے کی فلاح و بہبود اور معاشی ترقی کے لئے بہت سود مند ہوتے ہیں۔ اب حکومت کو جنگلات کی کٹائی کوروکنے کیلئے متعلقہ سرکاری اداروں خصوصاً فارسٹ انتظامیہ کو مزید فعال بنانا پڑے گااور قومی سطح پر شجرکاری کو فروغ دینا ہو گاجیسا کہ گذشتہ برس پاکستان کی وزارتِ ماحولیات نے نیشنل بینک کی مالی مدد اور سندھ کے محکمہ جنگلات اور مقامی رضاکاروں کے تعاون سے کیٹی بندر کے ساحلی علاقے میں جنگلات میں اضافے کے لیے ایک دن میں چھ لاکھ کے لگ بھگ پودے لگا کر ایک دن کی شجر کاری میں بھارت کا عالمی ریکارڈ توڑ دیا تھا۔ چنانچہ نئی نسلوں کو ایک صحت مند ماحول دینے کیلئے جنگلات کی حفاظت اور ان میں اضافہ کرنا ہوگا اوراس عمل میں شہریوں کو شامل کر کے انقلابی اقدامات کرنا ہوں گے۔
کیا حکومت غیر سرکاری اداروں اور تنظیموں کے تعاون سے جنگلات کی کمی کو پورا کر پائے گی؟
وفاقی وزیر ماحولیات حمید اللہ جان آفریدی نے اپریل 2010 کے تیسرے ہفتے میں ایک تقریب کے دوران کہا ہے کہ نیشنل فارسٹ پروگرام پر عملدرآمد حکومت پاکستان کے پروگرام ویژن2030 کیلئے ایک سنگ میل ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ جنگلات کی حفاظت کرنا آج کی اہم ضرورت ہے۔ نیشنل فارسٹ پروگرام حکومت اور نجی اداروں کی شراکت داری سے شروع کیا جا رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ جنگلات میں کمی کی وجہ سے نہ صرف موسمیاتی تبدیلیاں ہو رہی ہیں بلکہ ملک کے پانی کے ذخائر میں بھی بتدریج کمی واقع ہو رہی ہے جس کی وجہ سے توانائی کی پیداوار میں بھی کمی کا سامنا ہے۔نیشنل فارسٹ پروگرام کے مطابق ملک میں جنگلات کی ترقی کے لئے قلیل المدتی اور طویل المدتی پروگرام ترتیب دئیے گئے ہیں جس میں نہ صرف اقوام متحدہ کا ادارہ ڈبلیو ڈبلیو ایف تعاون کر رہا ہے بلکہ دیگر غیر سرکاری ادارے بھی شامل ہیں۔ جس کے تحت قلیل المدتی پروگرام کے تحت جنگلات کی حفاظت، ان کی آبیاری بلکہ نئے درخت لگانے کے عمل میں یہ ادارے ساتھ دے گے جبکہ طویل المدتی پروگراموں کے تحت حکومت اور غیر سرکاری اشتراک سے نئے جنگلات لگائے جائیں گے اور اس مقصد کیلئے محکمہ جنگلات کی اراضی لیز پر بھی دی جائے گی۔
حکومت پنجاب نے بھی گذشتہ برس اینگرو پولی مر اینڈ کیمیکلز لمیٹیڈ نامی کمپنی سے میمورنڈم آف اندرسٹینڈنگ پر چھانگا مانگا کے جنگل میں دستخط کیے تھے جس کے مطابق اینگرو پولی مر کمپنی نئے جنگل لگانے میں حکومت پنجاب کی مالی معاونت کرے گی جبکہ اس پروگرام کی مانیٹرنگ اقوام متحدہ کا ادارہ ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کرے گا۔ پنجاب کے محکمہ جنگلات کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان کے ویژن 2030 کے حصول کیلئے 2010 کے آخر تک جنگلات کے رقبے کو 5.6 فیصد اور2015تک 6 فیصد تک بڑھانے کیلئے نجی مدد ضروری ہے ۔ محکمہ کا کہنا ہے کہ حکومت اس حوالے سے تمام ایسے غیر سرکاری اداروں اور تنظیموں کی حوصلہ افزائی کرے گی جو جنگلات کو بڑھانے اور ان کی نگہداشت میں معاون بننا چاہتے ہیں۔جبکہ صوبائی وزیر زراعت وجنگلات ملک احمد علی اولکھ نے بھی صوبے میں جنگلات سے سرکاری لکڑی کی چوری کے واقعات کا سخت نوٹس لیتے ہوئے اس کاروبار میں ملوث عناصر، افسران واہلکاران کے خلاف فوری کارروائی کا حکم دیا ہے۔ لکڑی چوری کی وارداتوں کی روک تھام کے لئے خصوصی ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں۔
جنگلات کسی بھی ملک کی معیشت کا ایک لازمی حصہ ہیں۔ملک کی متوازن معیشت کے لئے ضروری ہے کہ اس کے بیس فیصد رقبے پر جنگلات ہوں۔لیکن سرکاری اعداد وشمار کے مطابق پاکستان کے کل رقبے کا صرف لگ بھگ پانچ فیصد جنگلات پر مشتمل ہے۔ جبکہ غیر سرکاری حلقوں کے مطابق پاکستان کے پاس صرف تین فیصد جنگلات باقی ہیں۔ ان میں سے بھی ہر سال قریباً اکتالیس ہزار ہیکٹر جنگل غائب ہو رہا ہے۔ اس میں آگ، کیڑے مکوڑوں اور نباتاتی بیماریوں کا قصور صرف چھ فیصد ہے۔ بقیہ 94 فیصد جنگل کی صفائی کے ذمہ دار کمرشل اور نان کمرشل، قانونی و غیر قانونی انسانی ہاتھ ہیں۔ جو جنگل بچ گیا ہے وہ کتنی تیزی سے غائب ہو رہا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صوبہ خیبر پختونخواہ کے محکمہ جنگلات کے خلاف ایک شکایت موصول ہونے پر ڈائریکٹر جنرل قومی احتساب بیورو نے انکوائری کا حکم دیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ محکمہ جنگلات کے ریکارڈکے مطابق 1992میں شیشم کے 80064درخت تھے جن کی پیمائش 2,432,863مکعب فٹ تھی ۔ریکارڈ کے مطابق 18064شیشم کے درخت قانون کے مطابق نیلامی اور دوسرے طریقے سے محکمہ جنگلات مردان ڈویڑن نے فروخت کئے جب انکوائری ٹیم نے درختوں کی گنتی اور پیمائش کی تو پتہ چلا کہ 35000شیشم کے مزید درخت جن کی مالیت کروڑوں میں ہے غائب ہیں۔ اور ایسا ہی حال ملک کے دیگر جنگلات میں بھی ہو رہا ہے اگرچہ حکومت اپنے اعداد و شمار کے ذریعے یہ ثابت کرنے پر مصر ہے کہ گذشتہ دس برسوں میں جنگلات پر مبنی کل رقبہ چار اعشاریہ آٹھ سے بڑھ کر پانچ اعشاریہ صفر ایک فیصد ہوگیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس اضافے کی بڑی وجہ فارموں میں کاشت کردہ درختوں کی تعداد میں اضافہ ہے۔
محکمہ جنگلات پنجاب کے ایک ریٹائرڈ فارسٹ آفیسر کا کہنا ہے کہ پنجاب میں نہروں اور سڑکوں پر لگائے گئے شیشم اور کیکر کے درخت محکمہ انہار اور دیگر محکموں کی ملی بھگت سے یا تو چوری کر لئے گئے ہیں یا اونے پونے داموں میں فروخت کر دیئے گئے ہیں۔ اب پنجاب کی بیشتر نہروں پر کوئی درخت نظر نہیں آتاجبکہ سڑکوں پر بھی نہ ہونے کے برابر درخت ہیں اور اس میں نہ صرف محکمہ انہار بلکہ دیگر محکمہ جات مثلاً محکمہ جنگلات، محکمہ شاہرات، محکمہ مال وغیرہ تمام قصور وار ہیں اور اس سلسلے میں حکومت کی کوئی پلاننگ نظر نہیں آتی ۔حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر نہروں اور سڑکوں پر ازسر نوشجر کاری کی پلاننگ کرنی چاہیے جبکہ کسانوں اور دیہی عوام میں شعور اجاگر کیا جائے کہ جہاں تک ممکن ہو سکے درخت لگائیں اور ان درختوں کا سرکاری ریکارڈ بھی رکھا جائے اور کوشش کی جائے کہ ایسے درخت لگائے جائیں جو زیادہ تر فرنیچر میں استعمال ہوتے ہیں مثلاً شیشم، کیکر وغیرہ کیونکہ ان ایماندارانہ فروخت حکومت کو بہت آمدن ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے ملک لکڑی کی سالانہ کھپت تقریباً 43 ملین کیوبک میٹر ہے جبکہ جنگلات کی سالانہ افزائش 14.4ملین کیوبک میٹر ہے۔ اس طرح پاکستان کو سالانہ تقریباً 29ملین کیوبک میٹر کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ 1990 سے 2000 تک پاکستان میں جنگلات کا اوسطاً 41100 ہیکٹرز رقبہ سالانہ کم ہوا ہے۔ 2000سے 2005 کے دوران کٹائی کی شرح میں مزید اضافہ ہوا۔ اس طرح 1990 سے 2005 تک پاکستان میں تقریباً 24.7فیصدمزیدجنگلات کا رقبہ ختم ہو گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگرچہ حکومت پاکستان اور دیگر صوبوں نے جنگلات کی ترقی کیلئے نجی شعبے کے تعاون سے جو پروگرام شروع کیے ہیں ۔ اس کا ایک فاہدہ تو یہ ہوگا کہ محکمہ جنگلات کے افسران اب اپنی من مانیاں نہیں کر سکے گے کم از کم غیر سرکاری ادارے اور تنظیمیں ان پروگراموں کو مانیٹر کرے گی جس سے بد عنوانیوں میں کمی واقعہ ہو گی ۔ انھوں نے کہا کہ اس حوالے سے لوگوں کو آگاہی دینے کی اشد ضرورت ہے۔حکومت پنجاب نے تقریباً ایک سال پہلے اس غرض سے محکمہ پنجاب کی ویب سائٹ ختم کر کے اس پر اس حوالے ایک عوامی سروے شروع کیا کہ کیا “کہ کیا آپ حکومت پنجاب کی محکمہ جنگلات میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کی تجویز سے متفق ہیں “تو اس کے جواب میں اب تک صرف2507شہریوں نے حصہ لیا ہے جن میں سے1206نے اس تجویز کی مخالفت کی ہے جبکہ 1301نے حمایت کی ہے۔ اس سروے سے اندازہ لگا لیں کہ اس معاملے میں عوام کی کتنی شمولیت ہے۔ جبکہ جنگلات میں اضافہ صرف اور صرف شہریوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو ساتھ ملانے سے ہی ممکن ہے۔
اسی طرح سندھ حکومت بھی نجی شراکت سے جنگلات میں اضافہ کرنے کیلئے منصوبے شروع کر رہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ محکمہ جنگلات کے ہزاروں ایکٹر رقبے پر قابض وڈیروں سے قبضہ بھی واپس لے رہی ہے۔ سندھ کے وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ لاڑکانہ کی کچے اور جنگلات کی زمینوں پر ممتاز علی بھٹو اور الطاف حسین انڑ کا قبضہ ہے۔ دادو کی جنگلات کی زمینوں پر لیاقت جتوئی اور ان کے بھائیوں کا جبکہ ٹھٹھہ کی جنگلات کی زمینوں پر شیرازی برادران کا قبضہ ہے۔ اب سندھ حکومت ان قبضوں کو ختم کروا کر انھیں دوبارہ محکمہ جنگلات کی تحویل میں دینا چاہتی ہے تاکہ وہاں پر مزید شجر کاری کی جا سکے اوروہاں پر درختوں کی غیر ضروری کٹائی کو بند کیا جاسکے۔
ایشائی ترقیاتی بینک نے اب سے کوئی15 سال پہلے بر اعظم ایشیا پر عالمی درجہ حرات میں اضافے اور اس کے ساتھ ساتھ آب و ہوا میں رونما ہو نے والی تبدیلیوں کے اثرات کے بارے میں ایک مفصّل رپورٹ جاری کی تھی۔اس رپورٹ میں آب و ہوا میں تبدیلیوں کے با عث پاکستان میں متاثر ہونے والے جن شعبوں کی خاص طور پرنشاندہی کی تھی ان میں اگر چہ سرِ فہرست زراعت تھی لیکن اسی کے ساتھ ساتھ ماہرین نے پاکستان میں جنگلات کی صورتِِ حال پر خاص طور سے تشویش کا اظہار کیا گیا تھااور پاکستان کو کچھ مشورے بھی دیے تھے کہ اسے اس صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے کیا کرنا چاہئیے۔پاکستان میں جنگلات کا رقبہ ملک کے پورے رقبے کے پانچ فیصد سے بھی کم ہے۔ جبکہ موجود ان جنگلات کی حالت بھی کسی طور قابلِ اطمنان نہیں ہے۔اس سے زیادہ اہم اور تشویش کی بات یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اور ماحول کے دوسرے کئی مسائل کی صورت میں جنگلات کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔اس لیے کہ اگر جنگلات کا رقبہ، ملک کی آبادی اور رقبے کے تناسب سے موزوں ہوتو یہی جنگلات، ماحول کو درپیش کئی مسائل کا حل فراہم کرتے ہیں۔مثلاً جنگلات ، فضا میں کاربن ڈائی آکسائڈ کی بڑھی ہوئی مقدار کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ جنگلات بہت زیاد ہ یا بہت کم بارش کے اثرات میں اعتدال پیدا کرتے ہیں۔اور پھر یہ جنگلات ہی ہیں جو قدرتی آبی راستوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ جو توا نائی کے حصول کا بھی ایک ذریعہ ہیں اور زمیں بردگی کو کنٹرول کرتے ہیں۔لیکن جیسا کہ ایشیائی بینک نے اپنی رپورٹ میں نشاندہی کی تھی کہ پاکستان میں جنگلات کی شدید کمی اور جنگلات کے قدرتی وسائل پر آبادی کے بہت زیادہ دباو کی وجہ سے ملک ان فائدوں سے یا تو محروم ہوچکا ہے یا مستقبل میں محروم ہوجائے گا۔لہذا جنگلات کی حفاظت اور ان کے رقبے میں اضافہ کرنا پاکستان کی اب ضرورت بن چکا ہے۔ درجہ حرارت اور بارش کی مقدار اور اوقات میں جو ممکنہ تبدیلیاں آئیں گی ان کے نقصان دہ اثرات کو زائل کرنے کے لیے جنگلات کا موجودہ رقبہ کافی نہیں ہو گا اور جیسا کہ اب وہ وقت آچکا ہے اور پاکستان کے موسموں میں تبدیلی آچکی ہے۔
پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت نے شاید اس رپورٹ کا ادراک کر لیا ہے اور اب نجی شراکت داری سے جنگلات کی حفاظت اور انھیںمزید بڑھانے کیلئے پروگرام شروع کر رہی ہے۔
کیونکہ کسی بھی ملک میںجنگلات معاشرے کی فلاح و بہبود اور معاشی ترقی کے لئے بہت سود مند ہوتے ہیں۔ اب حکومت کو جنگلات کی کٹائی کوروکنے کیلئے متعلقہ سرکاری اداروں خصوصاً فارسٹ انتظامیہ کو مزید فعال بنانا پڑے گااور قومی سطح پر شجرکاری کو فروغ دینا ہو گاجیسا کہ گذشتہ برس پاکستان کی وزارتِ ماحولیات نے نیشنل بینک کی مالی مدد اور سندھ کے محکمہ جنگلات اور مقامی رضاکاروں کے تعاون سے کیٹی بندر کے ساحلی علاقے میں جنگلات میں اضافے کے لیے ایک دن میں چھ لاکھ کے لگ بھگ پودے لگا کر ایک دن کی شجر کاری میں بھارت کا عالمی ریکارڈ توڑ دیا تھا۔ چنانچہ نئی نسلوں کو ایک صحت مند ماحول دینے کیلئے جنگلات کی حفاظت اور ان میں اضافہ کرنا ہوگا اوراس عمل میں شہریوں کو شامل کر کے انقلابی اقدامات کرنا ہوں گے۔