نور وجدان
لائبریرین
نیلا چاند، سرخ جام اور سبز لباس...!!!
شام کے وقت سے صبح کا وقت ، ایک انتظار سے وصال اور وصال سے ہجر کا وقت ہوتا ہے . جانے کتنے دکھ ، اللہ جی ..! جانے کتنے دکھ ... ! آپ نے رات کے پہلو سے دن کی جھولی میں ڈالی ، جانے کتنے درد سورج لیے پھرتا ہے . اللہ جی ..! سورج بڑا ، اداس ہے ... اس کو رات میں دیکھا ہے ، جب میں چاند کو دیکھ رہی تھی .. !
دل سے صدا تو اُبھری ہے ، دل کہتا ہے ، اللہ جانے نا...! اللہ جانے کہ کس کو کتنا دینا ہے ، جس کو جتنا ظرف ہوتا ہے اتنا اس کو درد ملتا ہے ..!! سورج کی قربانی کبھی رائیگاں نہیں جاتی ۔۔۔ پیار بانٹنے والے کے حصے میں دینا لکھا ہے اور درد پی پی کر ، سورج کو قربانی دینے کی عادت سی پڑ گئی ہے ۔۔۔۔ اس کی عادت ، نے رات کی جھولی بھرنی ہوتی ہے اور رات سورج کی تلاش کی عادی ۔۔ انتظار کی ''عادت '' کس کی ۔۔۔؟
جانے کس کی ، زمین کی یا رات کی ، یا پھر چاند کی ۔۔۔؟
کون جانے ۔۔۔۔!
بس جانے تو ، ایک '' عادت'' کی لت پڑجانے کا جانے ۔۔۔!
اب کہ عادت سی ہوگئی ہے ، عادت ... !
ہاِں...!
عادت...!!
کیسی عادت ...!
سورج سے، چاند کا رشتہ معلوم کرنے کی عادت ،
زمین سے اللہ کا رشتہ جاننے کی عادت ..!!
زمین پر چاند بھی ہے ، اس کے گرد گھومتا ہے اور سورج اس کو روشنی دیتا ہے ...۔۔۔۔!.
اب پوچھیے !
زمین کا رشتہ کس سے کتنا گہرا....؟ ہوسکتا ہےچاند سے ہو ، چاند زمین کا طواف کرتا رہتا ہے ، زمین کو سورج سے زیادہ ، چاند اس لیے عزیز ہے .... رات کا چاند سے ملنا ، اللہ جی کی نشانی ہے ... اللہ کے امر میں کون رکاوٹ ڈالے ..؟ بات تو وہی ہے نا...! زمین کے گرد چاند ایک ہے مگر زمیں میں طوفان لاتا ہے ، اس کے سمندر میں شور لا کر لہروں کو بڑا تڑپاتا ہے . یہ بھی پتا نہیں چل رہا کہ چاند زمیں کو کشش کر رہا ہے یا زمین چاند کو ...۔۔۔۔! مگر رات بڑی حسین ہو گئی ہے ...۔۔۔! کرم رات پر ہو ... ۔۔۔۔!کبھی کبھی رات کو وصال میں مزہ آتا ، چاند کے رات سے وصل میں زمین بڑی خوش ہوتی ہے اور اللہ جی کی حکمت! اللہ جی کی ...! چاند کو ایک زمین سے پیار ہے ۔۔۔! سورج کے پیار کئی ہیں ...۔۔۔! اس لیے چاند پہ لوگ مرتے بڑے ہیں .۔۔۔!. قسم لے لو! چاند کی محبتیں ، چندا کے نام سے منسوب ہیں ... سورج کی محبتیں بڑی بے نام ہیں ، خشک ، خشک سی ...!!!
کبھی زمیں بڑی کشش کرتی ہے ..!
ارے ! کس کو ؟
چاند کو ....!
اچھا.. اس سے کیا ہوتا ہے ؟
ہوتا تو کچھ نہیں ہے مگر چاند بھی بے تاب ہوجاتا ہے اور اپنا جلوہ سال میں چودہ دفعہ بھی کروا جاتا ہے ، چودھویں کا چاند اور وہ بھی بار بار ابھرے ..!!
اس کا حسن کیسے ہوگا..؟
کیا جانے ہم ...؟
سبز زمین کی گود میں نیلا چاند آجائے اور جام ُُسرخ نہ ہو یہ کیسے ہوسکتا ہے .... ! لبالب جام ہو اور سرخ جام کا مزہ بھی اپنا ہے .اور جام کے بعد کا سماع ۔۔۔ اس کا لطف تو اور ہی ہو۔۔۔ مگر جام کے بعد ہوش کہاں ۔۔۔؟
کہاں ہوش ، ہوش تو نہیں ہے ۔۔؟
لگتا ہے کہ پہلی ہی پی رکھی ہے ، جو سرخی کی بات ہورہی ہے ...!!
کیا فرق پڑتا ہے ...؟ پیے جاؤ اور پی لو ... بس پیمانہ بڑا ہو ..... اور اتنا ڈالو کہ سب کے سب جام پیمانے میں سما جائے ...!!! پیمانے بڑا کرنےسے نہیں ہوتا بس ودیعت کردہ ہوتا اور چھلک بھی جائے تو کیا۔۔۔؟
لگتا ہے دیوانگی چھا گئی ہے ...؟
دیوانہ جام کا رنگ کیا جانے .... یہ سرخ جام تو ہوش کی نشانی ہے ، یاقوت کی طرح بدن میں سما کر ، روح کو نیلا نیلا کر دینے والا....! پینے کے بعد کا ہوش کہیں مجھے بہکا نہ دے ...!!! ہوش والے بہکتے نہیں ہیں اور جوش والے سمجھ کہاں رکھتے ہیں ، فرق ہی مٹ جاتے ہیں سارے کے سارے ...!! بس فرق ختم ہوجاتے ہیں ۔۔ تفریق مٹ جانا اچھا ہوتا ہے۔ اس سے تضاد ختم ہوتا ہے ، رنگ اڑ جائے تو تضاد کے بہانے سو۔۔۔!!!
زمین نیلی ہورہی ہے اور چاند بار بار جھلک دکھلاتا ہے ، چاند کی تاک جھانک سے سمندر میں مدوجزر آگیا .... سیلاب آگیا اور زمیں سبز سے نیلی ہو رہی ہے .... برباد ہو رہی ہے ، تخریب ہو رہی ہے ، مٹی بدل رہی ہے ، ریختگی بڑھے یا زرخیزی .... سیلاب کا کام تو دونوں چیزوں کے سبب پیدا کرنا ہے ...!! اللہ کی حکمت ۔۔ اللہ جی جانے ، وہ جانے ، ہم کیا جانے ۔۔۔؟ ہم تعمیل کے غلام ۔۔۔ غلام ، بس غلام اور کچھ نہیں ۔۔۔! آنے دو سیلاب ۔۔۔! اس کا کرم ، اس کی حکمت اور اس کی حکمت بندہ کیا جانے ۔۔۔ !بندہ جانے وہی ۔۔۔ جو وہ جانے بس۔۔۔!!!
سیلاب سبب زندگی اور سیلاب سبب موت بھی
یہ حیات کا عندیہ بھی اور جانے والے کا سندیسہ بھی .... !
کون جانے کہ کس نے جانا ہے اور کس نے آنا ہے ، مگر زمین نیلی نیلی ہے ، اس کا سبز رنگ ، نیلا ہوتا جارہا ہے ، کبھی کبھی تو گمان ہوتا ہے کہ زمین کہیں پوری ہی نیلی نہ ہوجائے .....!! اور ہوش کھوتا جارہا ہے ...!! زمین نیلی ہر دفعہ ہوتی کہاں ہے ، یہ بھی اس کا حکم ہوتا ہے اور جب حکم ہوتا ہے ، تب جام ملتا ہے ، جام ۔۔۔ جام بس اور جام کے سوا کچھ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔!
جام پر جام ...!
کتنا پینا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
دل کر رہا ہے ۔۔۔۔!
بس 'مے و شراب سے کبھی نہ نکلوں ۔۔۔۔!
بس کبھی بھی نہ ۔۔۔!
سرخ شراب ، بس سرخ ، سرخ ، اور سرخ.... سب سرخ ہوجائے ...!!!
بس ، سرخی جام ، نیلا چاند اور سبز زمین کا وصل ہوگیا اور ایک '' نور'' کا ہالہ سا بن گیا...........!!! ایسا ہالہ کب بنتا ہے ، جب بنیاد مل جاتی ہے ، جب سب اجزا مل جاتے ہیں ۔۔۔ جب بکھر کر سب سمٹنے لگتا ہے ۔۔ اور فرق ختم ہوجاتا ہے ۔۔۔!!!
نہ سرخ رہا..!
نہ سبز رہا...!
نہ نیلا رہا...!
صرف ''نور ' رہا....!!!
وہ جو ازل سے دل میں مکیں ہیں ، وہ تو یہیں کہیں ہے اور اسکو ڈھونڈتا کوئی بہت حسیں ہے ، اس کی چاہ میں کس کی ہورہی ترکیب ہے ....!!!
کون جانے ، کون جانے ، کون جانے...!!!
کوئی نہ جانے ....!!
بس ''وہ '' جانے ...!!
شام کے وقت سے صبح کا وقت ، ایک انتظار سے وصال اور وصال سے ہجر کا وقت ہوتا ہے . جانے کتنے دکھ ، اللہ جی ..! جانے کتنے دکھ ... ! آپ نے رات کے پہلو سے دن کی جھولی میں ڈالی ، جانے کتنے درد سورج لیے پھرتا ہے . اللہ جی ..! سورج بڑا ، اداس ہے ... اس کو رات میں دیکھا ہے ، جب میں چاند کو دیکھ رہی تھی .. !
دل سے صدا تو اُبھری ہے ، دل کہتا ہے ، اللہ جانے نا...! اللہ جانے کہ کس کو کتنا دینا ہے ، جس کو جتنا ظرف ہوتا ہے اتنا اس کو درد ملتا ہے ..!! سورج کی قربانی کبھی رائیگاں نہیں جاتی ۔۔۔ پیار بانٹنے والے کے حصے میں دینا لکھا ہے اور درد پی پی کر ، سورج کو قربانی دینے کی عادت سی پڑ گئی ہے ۔۔۔۔ اس کی عادت ، نے رات کی جھولی بھرنی ہوتی ہے اور رات سورج کی تلاش کی عادی ۔۔ انتظار کی ''عادت '' کس کی ۔۔۔؟
جانے کس کی ، زمین کی یا رات کی ، یا پھر چاند کی ۔۔۔؟
کون جانے ۔۔۔۔!
بس جانے تو ، ایک '' عادت'' کی لت پڑجانے کا جانے ۔۔۔!
اب کہ عادت سی ہوگئی ہے ، عادت ... !
ہاِں...!
عادت...!!
کیسی عادت ...!
سورج سے، چاند کا رشتہ معلوم کرنے کی عادت ،
زمین سے اللہ کا رشتہ جاننے کی عادت ..!!
زمین پر چاند بھی ہے ، اس کے گرد گھومتا ہے اور سورج اس کو روشنی دیتا ہے ...۔۔۔۔!.
اب پوچھیے !
زمین کا رشتہ کس سے کتنا گہرا....؟ ہوسکتا ہےچاند سے ہو ، چاند زمین کا طواف کرتا رہتا ہے ، زمین کو سورج سے زیادہ ، چاند اس لیے عزیز ہے .... رات کا چاند سے ملنا ، اللہ جی کی نشانی ہے ... اللہ کے امر میں کون رکاوٹ ڈالے ..؟ بات تو وہی ہے نا...! زمین کے گرد چاند ایک ہے مگر زمیں میں طوفان لاتا ہے ، اس کے سمندر میں شور لا کر لہروں کو بڑا تڑپاتا ہے . یہ بھی پتا نہیں چل رہا کہ چاند زمیں کو کشش کر رہا ہے یا زمین چاند کو ...۔۔۔۔! مگر رات بڑی حسین ہو گئی ہے ...۔۔۔! کرم رات پر ہو ... ۔۔۔۔!کبھی کبھی رات کو وصال میں مزہ آتا ، چاند کے رات سے وصل میں زمین بڑی خوش ہوتی ہے اور اللہ جی کی حکمت! اللہ جی کی ...! چاند کو ایک زمین سے پیار ہے ۔۔۔! سورج کے پیار کئی ہیں ...۔۔۔! اس لیے چاند پہ لوگ مرتے بڑے ہیں .۔۔۔!. قسم لے لو! چاند کی محبتیں ، چندا کے نام سے منسوب ہیں ... سورج کی محبتیں بڑی بے نام ہیں ، خشک ، خشک سی ...!!!
کبھی زمیں بڑی کشش کرتی ہے ..!
ارے ! کس کو ؟
چاند کو ....!
اچھا.. اس سے کیا ہوتا ہے ؟
ہوتا تو کچھ نہیں ہے مگر چاند بھی بے تاب ہوجاتا ہے اور اپنا جلوہ سال میں چودہ دفعہ بھی کروا جاتا ہے ، چودھویں کا چاند اور وہ بھی بار بار ابھرے ..!!
اس کا حسن کیسے ہوگا..؟
کیا جانے ہم ...؟
سبز زمین کی گود میں نیلا چاند آجائے اور جام ُُسرخ نہ ہو یہ کیسے ہوسکتا ہے .... ! لبالب جام ہو اور سرخ جام کا مزہ بھی اپنا ہے .اور جام کے بعد کا سماع ۔۔۔ اس کا لطف تو اور ہی ہو۔۔۔ مگر جام کے بعد ہوش کہاں ۔۔۔؟
کہاں ہوش ، ہوش تو نہیں ہے ۔۔؟
لگتا ہے کہ پہلی ہی پی رکھی ہے ، جو سرخی کی بات ہورہی ہے ...!!
کیا فرق پڑتا ہے ...؟ پیے جاؤ اور پی لو ... بس پیمانہ بڑا ہو ..... اور اتنا ڈالو کہ سب کے سب جام پیمانے میں سما جائے ...!!! پیمانے بڑا کرنےسے نہیں ہوتا بس ودیعت کردہ ہوتا اور چھلک بھی جائے تو کیا۔۔۔؟
لگتا ہے دیوانگی چھا گئی ہے ...؟
دیوانہ جام کا رنگ کیا جانے .... یہ سرخ جام تو ہوش کی نشانی ہے ، یاقوت کی طرح بدن میں سما کر ، روح کو نیلا نیلا کر دینے والا....! پینے کے بعد کا ہوش کہیں مجھے بہکا نہ دے ...!!! ہوش والے بہکتے نہیں ہیں اور جوش والے سمجھ کہاں رکھتے ہیں ، فرق ہی مٹ جاتے ہیں سارے کے سارے ...!! بس فرق ختم ہوجاتے ہیں ۔۔ تفریق مٹ جانا اچھا ہوتا ہے۔ اس سے تضاد ختم ہوتا ہے ، رنگ اڑ جائے تو تضاد کے بہانے سو۔۔۔!!!
زمین نیلی ہورہی ہے اور چاند بار بار جھلک دکھلاتا ہے ، چاند کی تاک جھانک سے سمندر میں مدوجزر آگیا .... سیلاب آگیا اور زمیں سبز سے نیلی ہو رہی ہے .... برباد ہو رہی ہے ، تخریب ہو رہی ہے ، مٹی بدل رہی ہے ، ریختگی بڑھے یا زرخیزی .... سیلاب کا کام تو دونوں چیزوں کے سبب پیدا کرنا ہے ...!! اللہ کی حکمت ۔۔ اللہ جی جانے ، وہ جانے ، ہم کیا جانے ۔۔۔؟ ہم تعمیل کے غلام ۔۔۔ غلام ، بس غلام اور کچھ نہیں ۔۔۔! آنے دو سیلاب ۔۔۔! اس کا کرم ، اس کی حکمت اور اس کی حکمت بندہ کیا جانے ۔۔۔ !بندہ جانے وہی ۔۔۔ جو وہ جانے بس۔۔۔!!!
سیلاب سبب زندگی اور سیلاب سبب موت بھی
یہ حیات کا عندیہ بھی اور جانے والے کا سندیسہ بھی .... !
کون جانے کہ کس نے جانا ہے اور کس نے آنا ہے ، مگر زمین نیلی نیلی ہے ، اس کا سبز رنگ ، نیلا ہوتا جارہا ہے ، کبھی کبھی تو گمان ہوتا ہے کہ زمین کہیں پوری ہی نیلی نہ ہوجائے .....!! اور ہوش کھوتا جارہا ہے ...!! زمین نیلی ہر دفعہ ہوتی کہاں ہے ، یہ بھی اس کا حکم ہوتا ہے اور جب حکم ہوتا ہے ، تب جام ملتا ہے ، جام ۔۔۔ جام بس اور جام کے سوا کچھ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔!
جام پر جام ...!
کتنا پینا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
دل کر رہا ہے ۔۔۔۔!
بس 'مے و شراب سے کبھی نہ نکلوں ۔۔۔۔!
بس کبھی بھی نہ ۔۔۔!
سرخ شراب ، بس سرخ ، سرخ ، اور سرخ.... سب سرخ ہوجائے ...!!!
بس ، سرخی جام ، نیلا چاند اور سبز زمین کا وصل ہوگیا اور ایک '' نور'' کا ہالہ سا بن گیا...........!!! ایسا ہالہ کب بنتا ہے ، جب بنیاد مل جاتی ہے ، جب سب اجزا مل جاتے ہیں ۔۔۔ جب بکھر کر سب سمٹنے لگتا ہے ۔۔ اور فرق ختم ہوجاتا ہے ۔۔۔!!!
نہ سرخ رہا..!
نہ سبز رہا...!
نہ نیلا رہا...!
صرف ''نور ' رہا....!!!
وہ جو ازل سے دل میں مکیں ہیں ، وہ تو یہیں کہیں ہے اور اسکو ڈھونڈتا کوئی بہت حسیں ہے ، اس کی چاہ میں کس کی ہورہی ترکیب ہے ....!!!
کون جانے ، کون جانے ، کون جانے...!!!
کوئی نہ جانے ....!!
بس ''وہ '' جانے ...!!
آخری تدوین: