نیلم جہلم منصوبہ- نشیب و فراز کی عجب کہانی
آزاد کشمیر میں مظفر آباد کے قریب نیلم اور جہلم دریا آپس میں ملتے ہیں۔ پہلی دفعہ اِس ملاپ کو دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا۔ دریائے نیلم کا نیلگوں پانی جہلم سے علیحدہ، اپنے دھارے میں بہتے ہوئے بہت خوبصورت دکھائی دیتا۔ اُن دنوں آزاد کشمیر کی حکومت اسکول کے بچوں کو سیاحت کی سہولتیں فراہم کرتی تھی۔ آزاد کشمیر کے چیف سیکرٹری مرحوم عبدالحق سہروردی کے صاحبزادے، عزیز الحق، کیڈٹ کالج حسن ابدال میں ہم جماعت تھے۔ اِس حوالے سے بھی وہاں جانے کا اتفاق ہوتا۔ عزیزالحق سہروردی، پی آئی اے میں فلائٹ انجینئر رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد عوامی خدمت کا شوق اُنہیں کراچی کی مقامی سیاست میں لے آیا۔ عوام نے پذیرائی کی۔ آج کل کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ میں نائب صدر ہیں۔
دریائے نیلم، دریائے جہلم کا معاون ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں اِسے کشن گنگا کہتے ہیں۔ سندھ طاس معاہدے میں ہندوستان کو اختیار ہے کہ وہ پاکستان کو ملنے والے سندھ، جہلم، چناب اور اُن کے معاون دریائوں سے پن بجلی پیدا کرے مگر اِس شرط پر کہ پاکستانی منصوبے متاثر نہ ہوں۔ 1988ء میں پاکستان کو علم ہوا کہ ہندوستان کشن گنگا سے بجلی پیدا کرنے کے بعد اُس کے پانی کو وولر جھیل میں ڈالنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ اِس تبدیلی سے دریائے نیلم کے بہائو میں کمی آتی۔ واپڈا کے انجینئر بہت پہلے
نیلم کے پانی سے بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ بنا چکے تھے۔ ہندوستان کو باز رکھنے کے لئے ہنگامی طور پر دسمبر 1989ء میں پندرہ ارب روپے کی لاگت کا (PC-I) پی سی ون منظور ہوا۔ ہندوستان کو آگاہ کیا گیا۔ جب سندھ طاس معاہدے کے تحت دونوں ملکوں کے وفود کی پاکستان میں میٹنگ ہوئی تو ہندوستانی وفد کو FWO کے انجینئر دریائے نیلم کے ساتھ، پہاڑ میں ایک تجرباتی سرنگ پر کام کرتے دکھائے گئے۔ پاکستان کا خیال تھا کہ ہندوستان کشن گنگا منصوبے کو ترک کر دے گا کیونکہ پاکستانی منصوبے کی موجودگی میں دریا کا رُخ موڑنا سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی تصور ہوتی۔
(PC-I) پی سی ون منظور ہوئے کئی سال گزر گئے مگر نہ نیلم جہلم منصوبے کے لئے رقم کا بندوبست ہوا اور نہ ہی انجینئرنگ ڈیزائن تیار کیا گیا۔ شاید اُس کی وجہ یہ تھی کہ پہاڑی علاقے میں پانی سے ایک طویل سرنگ کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کا ہمارے پاس کوئی تجربہ نہیں تھا۔ 1993ء کے دوران منصوبے کا ڈیزائن تیار کرنے میں ناروے کی حکومت نے معاونت کی۔ کچھ رقم امداد کی صورت اور کچھ قرض لے کر اُسی ملک کی کمپنی، ’’نار کنسلٹ‘‘ سے ڈیزائن تیار کروایا گیا۔ یہ ڈیزائن اِس لحاظ سے نامکمل تھا کہ جن پہاڑوں کے اندر سے سرنگ نکالی جانی تھی اُن کی چٹانوں اور پتھروں کا مکمل جائزہ نہیں لیا گیا۔ 1996ء میں ڈیزائن مکمل ہوا۔ طے پایا کہ دریا کے پانی کو پہلے ایک سرنگ اور پھر دو سرنگوں میں منتقل کیا جائے۔ پھر پانی کو نصف دائرے کی شکل میں بہتے ہوئے دریائے جہلم کے نیچے سے گزار کر زیریں سطح پر اِسی دریا میں ڈالا جائے۔ اِس طرح 969 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کا تخمینہ تھا۔ رقم کا بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے منصوبہ سرد خانے میں پڑا رہا۔ 1990ء کی دہائی میں پیپلز پارٹی کی حکومت نجی شعبے کے ذریعے تیل سے بجلی بنانے کی پالیسی پر عمل پیرا رہی اور مسلم لیگ حکومت کی اوّلین ترجیح غازی بھروتھا پراجیکٹ کی تکمیل تھی۔ مشرف دور کے تین سال گزرنے پر 2002ء میں نجی شعبے کو (Turn Key)ٹرن کی پراجیکٹ کی صورت میں پیشکش کی گئی مگر اِسے قبولیت نہ ملی۔ تین سال مزید خاموشی رہی۔ پھر 2005ء کے دوران دو دفعہ سپلائرز کریڈٹ کے تحت نجی شعبے کو پیشکش ہوئی مگر اِسے بھی قبول نہ کیا گیا۔ 2005ء کے زلزلے نے حالات یکسر تبدیل کر دیئے۔ انجینئرز نے رپورٹ دی کہ زلزلے کی فالٹ لائن اُس جگہ سے گزرتی ہے جہاں ڈیم کی تعمیر اور سرنگ کو دریا کے نیچے سے گزارا جانا ہے۔
چاہئے تھا کہ ناروے کی کمپنی کے تیار کردہ ڈیزائن کا ازسرنو جائزہ لیا جاتا۔ پہاڑ کے اندر پتھروں اور چٹانوں کی ساخت کا معائنہ ہوتا اور فالٹ لائن کا علم ہونے پر ایک نیا، مفصل ڈیزائن تیار ہوتا۔ پھر اِس کی لاگت کا تخمینہ لگایا جاتا۔ مگر اِس کی نوبت نہ آئی۔ پاکستان کو علم ہوا کہ ہندوستان نے ہمارے تساہل کو دیکھتے ہوئے پراجیکٹ پر کام شروع کر دیا ہے۔ فوری طور پر تعمیر کا ٹھیکہ دینے کی پیشکش کی گئی۔ چین کی کمپنی کو ٹھیکہ ملا مگر وسائل مختص نہ ہوئے۔ فیصلہ ہوا کہ بجلی کے صارفین پر دس پیسے فی یونٹ سرچارج لگا کر رقم اکٹھی کی جائے۔ اِس طرح چھ ارب روپے سالانہ اکٹھے ہوتے جو اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف تھے۔
کشن گنگا اور نیلم جہلم منصوبوں کے درمیان جلد تکمیل کا مقابلہ جاری تھا۔ ہماری رفتار سست تھی کیونکہ زلزلے کی فالٹ لائن کی وجہ سے ڈیزائن میں تبدیلیاں ضروری تھیں۔ دریا کے نیچے سے گزرنے والی سرنگ کے گرد فولادی ڈھانچے کی تعمیر بھی لازم ہو گئی۔ 2010ء میں ہندوستان نے رفتار بڑھانے کیلئے سرنگ کھودنے کی مشین خریدی تو ہماری حکومت بھی حرکت میں آئی۔ دو مشینیں خریدی گئیں مگر اُن کے کام شروع ہونے سے پہلے ہی ہم اپنا مقدمہ ہار گئے۔سابق وزیر اعظم نواز شریف نے چارج سنبھالنے کے بعد 2013ء میں اس پراجیکٹ کا دورہ کیا۔ وہ چاہتے تھے کہ منصوبہ جلد سے جلد مکمل ہو، مگر وسائل فراہم نہ ہوئے۔ اپریل 2014ء میں واپڈا کی سربراہی مجھے تفویض ہوئی۔ پرائم منسٹر کی بریفنگ میں وسائل کی کمی کا شکوہ کرتے ہوئے فیض احمد فیض کا شعر سنایا
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دُکھ تھے بہت لا دوا نہ تھے
میری جسارت پر پرائم منسٹر مسکرائے مگر اسحاق ڈار صاحب نے بُرا منایا۔ واپڈا کی ٹیم لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) زبیر کی سربراہی میں دن رات محنت کر رہی تھی۔ ایک طرف وسائل کی کمی تھی، دُوسری طرف سرنگ کی کھدائی کے دوران نہ رُکنے والے حادثات۔ مجھے یاد آتا ہے کہ 13نومبر 2015ء کو جہلم کے عین نیچے کھودی جانے والی سرنگ میں دریا کا پانی چھت پھاڑ کر داخل ہوا۔ سرنگ پانی سے بھرنے لگی ۔یہ علیحدہ کہانی ہے کہ اِس مصیبت پر کس طرح قابو پایا گیا۔ سرنگ کھودتے ہوئے چٹانیں کٹتیں تو کئی دفعہ پتھر بارش کی صورت نیچے گرتے۔ اِس منصوبے کے دوران سینکڑوں ایسے واقعات ہوئے۔ ایک دفعہ چھت پھٹی اور پتھروں کی اتنی شدید بارش ہوئی کہ نہ صرف مزدور زخمی ہوئے بلکہ ٹنل بورنگ مشین بھی کئی مہینوں کے لئے ناکارہ ہو گئی۔
اگر یہ منصوبہ بروقت مکمل ہوتا تو ہم ہندوستان کو نیلم کا پانی وولر جھیل میں منتقل کرنے سے روک سکتے تھے۔ اب عدالتی فیصلے کے مطابق ہندوستان صرف نو مکعب میٹر پانی فی سیکنڈ دریا میں چھوڑنے کا پابند ہے۔ مگر خوش قسمتی سے ہمارا نقصان زیادہ نہیں ہو گا۔ پاکستان میں دریائے نیلم کا ستتر فیصد (77%) پانی، آزاد کشمیر کی حدود میں شامل ہوتا ہے۔ گرمیوں کے چار مہینے دریا اپنے جوبن پر بہتا ہے۔ اِس دوران چاروں ٹربائن مستقل طور پر بجلی پیدا کریں گی۔ باقی آٹھ مہینے میں بجلی کی پیداوار کچھ کم ہو گی، مگر منصوبے کی افادیت پر گہرا اثر نہیں پڑے گا۔
اِس منصوبے سے تین سبق ملتے ہیں۔ پہلا سبق کہ رقم کا بندوبست ہونے سے پہلے منصوبہ شروع نہ کیا جائے۔ مکمل وسائل کے بغیر ایک طرف لاگت میں اضافہ ہوتا ہے تو دوسری طرف عوام کو منصوبے کے فوائد بروقت حاصل نہیں ہوتے۔ دوسرا سبق ہے کہ کسی صورت پی سی ون میں لاگت کا تخمینہ کم نہ دکھایا جائے۔ چونکہ (PC-I) پی سی ون کے پرفارمے میں وسائل کی فراہمی کا انتظام دکھانا ہوتا ہے، اِس لئے لاگت کو کم دکھانے کے لئے قرضوں پر سود کی ادائیگی اور امپورٹ ڈیوٹی کو نظر انداز کیا گیا۔ ڈیزائن کی تبدیلی سے لاگت میں اضافہ بھی تخمینے میں شامل نہ ہوا۔ اِس کا نقصان موجودہ حکومت کو اُٹھانا پڑا۔ صحیح لاگت سامنے آئی تو ناقدین کو شک ہوا کہ یہ فرق حکومت کی نااہلی سے پیدا ہوا ہے یا بدعنوانی سے۔ تیسرا سبق ہے کہ واپڈا جیسے بڑے اداروں کو مالی معاملات میں خودمختاری دی جائے۔ اگر واپڈا ایگژم بینک چائنہ سے تقریباً ایک ارب ڈالر اور مقامی بینکوں سے سو ارب روپے کا قرضہ نہ لیتا تو منصوبہ ابھی تک زیر تکمیل رہتا۔
آج خوشی کادن ہے۔ پہلی ٹربائن سے بجلی پیدا ہو گی۔ باقی تین بھی ان شاء اللہ جون، جولائی تک کام شروع کر دیں گی۔ واپڈا ایک عظیم ادارہ ہے۔ اِس کے انجینئرز اور ورکر مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے جنرل مزمل کی قیادت میں اِس منصوبے کو مکمل کیا۔ اِس پُرمسرت موقع پر مجھے وہ تئیس (23)شہید یاد آ رہے ہیں جنہوں نے اِس منصوبے کی تکمیل کے دوران اپنی جانوں کی قربانی دی۔ اُن میں ہمارے دوست ملک چین کے چار باشندے بھی شامل ہیں۔ مختلف حادثات میں جو لوگ زخمی ہوئے اُن کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ آج اُن سب کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا دن ہے جن کی شبانہ روز محنت اور قربانیوں سے یہ منصوبہ تکمیل کے مرحلے تک پہنچا۔