خالد محمود چوہدری
محفلین
نیل گگن تلے پاکستان کا نیلم
سید مہدی بخاری
"صاحب! کشمیر تو سارا ان (ہندوستان) کے پاس ہے، ہمارے پاس تو صرف مسئلہ ہے"۔ میرے ڈرائیور نے کیرن سیکٹر سے گزرتے ہوئے کنٹرول لائن کے پار اشارہ کرتے ہوئے ایسا کہا اور جیپ کی کھڑکی سے باہر منہ نکال کر پان کی پِیک پھینک دی۔
آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد کے شمال کی جانب چہلہ بانڈی پل سے شروع ہو کر تاؤبٹ تک 240 کلومیٹر کی مسافت پر پھیلی ہوئی حسین و جمیل وادی کا نام نیلم ہے۔ یہ وادی اپنے نام کی طرح خوبصورت ہے۔ وادی نیلم کا شمار پاکستانی کشمیر کی خوبصورت ترین وادیوں میں ہوتا ہے جہاں دریا، صاف اور ٹھنڈے پانی کے بڑے بڑے نالے، چشمے، جنگلات اور سرسبز پہاڑ ہیں۔ جا بجا بہتے پانی اور بلند پہاڑوں سے گرتی آبشاریں ہیں جن کے تیز دھار دودھیا پانی سڑک کے اوپر سے بہے چلے جاتے ہیں اور بڑے بڑے پتھروں سے سر پٹختے آخر دریائے نیلم کے مٹیالے پانیوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔
اگر آپ ٹھنڈے میٹھے چشموں، جھاگ اڑاتے شوریدہ پانیوں، اور بلندی سے گرتی آبشاروں کو دیکھنا چاہتے ہیں تو اس وادی سے بہتر مقام شاید ہی کوئی اور ہو۔ اس وادی کا صدر مقام اٹھمقام ہے۔ وادی دو تحصیلوں اٹھمقام اور شاردا پر مشتمل ہے۔ مظفرآباد سے شاردا تک سڑک ٹھیک حالت میں موجود ہے مگر اس سے آگے ٹوٹا پھوٹا، بل کھاتا، کچا، اور کہیں سے پتھریلا جیپ روڈ ہے جو آخری گاؤں تاؤبٹ تک جاتا ہے۔
تاؤبٹ کا اوپر سے منظر.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
تاؤبٹ.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
تاؤبٹ.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
یہ علاقہ آزادی سے قبل دراوہ کہلاتا تھا۔ آزاد حکومت کے قیام کے 9 سال بعد 1956 میں قائم حکومت کی کابینہ میٹنگ میں غازیء کشمیر سید محمد امین گیلانی نے کشن گنگا دریا کا نام دریائے نیلم اور دراوہ کا نام وادی نیلم تجویز کیا اور کابینہ کے فیصلے کے مطابق یہ نام تبدیل کر دیے گئے۔ یوں کل کا دراوہ آج کی وادیء نیلم ہے۔
ہمالیہ کے دامن میں بسی دور دراز کی اس انسانی بستی کا بلاوا میرے نام آیا تو میں نے نوکری اور شہر کو خیرباد کہا، سامان سمیٹا، اور کشمیر کے سرسبز پہاڑوں میں گم ہونے کو نکل کھڑا ہوا۔ گاڑی جہلم پہنچی تو دریا کے پل پر کھڑے ہو کر میں نے جہلم کے پانیوں کو دیکھا۔ مٹی رنگے پانی سست روی سے بہہ رہے تھے۔ میں اسی دریا کو دیکھنے وہاں جا رہا تھا جہاں سے یہ پاکستان کے زیرِانتظام ریاست جموں و کشمیر کی حدود میں داخل ہوتا ہے۔ یہاں تو یہ دھیما دھیما بہے جا رہا تھا مگر وہاں پہاڑوں میں شور مچاتا، غصیلا، جھاگ اڑاتا، تنگ دروں میں بہتا سبز پانیوں کا دریا ہے۔ جہلم عرف نیلم عرف کشن گنگا۔ گاڑی کے اندر گانے کی آواز گونج رہی تھی "کس نام سے پکاروں کیا نام ہے تمہارا"۔
تاؤبٹ.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
تاؤبٹ کے گھر.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
تاؤبٹ.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
تاؤبٹ.— فوٹو سید مہدی بخاری.
شہر، قصبے، بستیاں گزرتی رہیں۔ راولپنڈی چھوٹا اور مری کا موڑ آیا تو گاڑی نے مظفرآباد کی راہ لی۔ کوہالہ سے مظفرآباد تک کا سفر تنگ سی مگر ٹھنڈی سڑک پر جاری رہا۔ درختوں کے سایوں میں گاڑی چلتی رہی۔ اردگرد پہاڑوں پر نئی نویلی شوخ رنگی گھاس اگ آئی تھی۔ ہرے کچور منظر تھے۔ اس ہریالی میں جگہ جگہ سڑک کے اطراف لگے انار کے بوٹے نظر آتے جن پر سرخ کلیاں کھِلی ہوئی تھیں۔ ایسے سبزے میں سرخ پھول کھِلے دیکھ کر دل میں عجب سی لہر دوڑ جاتی ہے۔ میرا دل چاہنے لگا کہ انارکلی اپنے سفر میں ساتھ رکھ لوں مگر جون ایلیاء فوراً دھیان میں آ کر بولے "دیکھ لو پھول، پھول توڑو مت"۔ انارکلیاں گزرتی رہیں اور انہی مناظر کو دیکھتے دیکھتے مظفرآباد آ گیا۔ بھرپور آبادی کا شہر، مکان کے اوپر مکان، لوگوں کے اوپر لوگ۔ دریائے نیلم کا پل پار کیا تو میں نے گاڑی کو چھوڑا اور جیپ لے لی۔ میری منزل وادی نیلم تھی۔
تاؤبٹ کا جھولتا پل.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
تاؤبٹ میں دریائے نیلم.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
اس دن دریائے نیلم کے ساتھ ساتھ چلا تو یہ سوچتا چلا کہ دریا دو ملکوں کی سرحد بنا کیسے اطمینان سے بہے جا رہا ہے۔ ایک طرف پاکستان تھا دوسری طرف ہندوستان۔ نوسیری کے مقام پر نیلم جہلم ہائیڈل پراجیکٹ شروع ہے جہاں پاکستان دریائے نیلم پر ڈیم تعمیر کر رہا ہے۔ موسمِ گرما کا آغاز ہو چکا تھا مگر پراجیکٹ پر ابھی تک موسمِ سرما چھایا ہوا معلوم پڑا۔ وادی کا صدر مقام اٹھمقام آیا تو بازار میں ہجوم تھا۔ ہجوم سے گاڑی نکلی تو کیرن آ گیا۔ دریا پر بنے پل کے پار جو کشمیر تھا اس پر ہندوستان کی حکومت قائم تھی۔
ڈرائیور نے ٹیپ ریکارڈر کی آواز آہستہ کی اور بولا "صاحب! کشمیر تو سارا ان (ہندوستان) کے پاس ہے، ہمارے پاس تو صرف مسئلہ ہے"۔ کنٹرول لائن کے ساتھ ساتھ چلتے مجھے محسوس ہوا کہ دونوں طرف ایک بات تو کم سے کم مشترک ہے اور وہ ہے موسیقی۔ دونوں طرف چلنے والی گاڑیوں میں انڈین موسیقی چلتی ہے۔ ثقافت میں بھی کوئی فرق نہیں۔ خوراک بھی ایک سی ہے۔ رنگ و نسل بھی ایک۔ بیچ میں بہتا دریا بھی ایک۔ اوپر سے گزرتا بادل بھی ایک۔ بس پرچم بدل جاتا ہے۔ سرکار بدل جاتی ہے۔ دل بدل جاتے ہیں۔ ڈرائیور اپنی بات کہہ چکا تو اس نے ٹیپ ریکارڈر کی آواز پھر اونچی کر دی۔ گاڑی میں گانا گونج رہا تھا "غمِ دل کو ان آنکھوں سے چھلک جانا بھی آتا ہے۔"
تاؤبٹ میں دریائے نیلم.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
تاؤبٹ میں دریائے نیلم.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
تاؤبٹ.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
تاؤبٹ.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
دواریاں کا قصبہ آیا۔ یہیں سے رتی گلی جھیل کو راستہ نکلتا ہے۔ رتی گلی جہاں قدرت نے سبز گھاس کا مخملی قالین بچھا کر اس پر پیلے، نیلے اور نارنجی رنگوں سے گلکاری کر کے جھیل کے نیلے پانیوں کے اطراف میں ایسے منظر سجا دیے ہیں جن کو ایک نظر دیکھنے کے واسطے سیاح اور کوہ نورد ہمالیہ کے پہاڑوں سے سر ٹکراتے، نالے عبور کرتے، چڑھائی چڑھتے پیدل چلتے جاتے ہیں۔ رتی گلی، ایک جھیل جس کو دیکھنے کی چاہ میں انسان سب کچھ لٹا دے تو بھی خسارے کا احساس نہ ہو۔
گاڑی آگے بڑھتی گئی۔ تھوڑا آگے ایک سڑک پہاڑ کے اوپر چڑھتی جاتی ہے جو اپر نیلم گاؤں میں جا نکلتی ہے۔ شاید اس گاؤں کے نام کی وجہ سے ساری وادی کا نام نیلم رکھا گیا ۔ شاردا آیا تو جیپ بازار میں رک گئی۔ نگاہوں نے دیکھا کہ مکانوں اور دکانوں کی چھتوں پر اگی گھاس کو گدھے چر رہے تھے۔ ایسا منظر دیکھ کر ہنسی لبوں پر پھیل گئی۔ شاردا جہاں مکانوں کی چھتوں پر گدھے چرتے ہیں۔ پہاڑی ڈھلوانوں کے ساتھ بسے مکانوں کے چھتیں پہاڑ سے ملتی ہیں، وہیں سے جانور آسانی سے چھتوں پر چڑھ سکتے ہیں۔ چھتوں پر پڑی مٹی میں گھاس اور جڑی بوٹیاں اگ آتی ہیں جن کی خوشبو کے پیچھے گدھے بھی آ جاتے ہیں۔
تاؤبٹ کے قریب جھولتا پل.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
تاؤبٹ کے قریب جھولتا پل.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
— فوٹو سید مہدی بخاری۔
شاردا تک قدرے شہری ماحول وادی پر چھایا رہتا ہے اور اشیائے ضرورت فراوانی اور آسانی سے مل جاتی ہیں۔ شاردا کے آگے کے مقامات دیہی علاقے ہیں۔ سڑک بھی شاردا تک ہی ٹھیک ہے اس سے آگے بہت خستہ حالت میں ہے۔ دریائے نیلم اس مقام پر قدرے چوڑا بہتا رہتا ہے۔ شاردا ضلع نیلم کا دوسرا سب ڈویژن ہے۔ یہ خطہ زمانہ قدیم میں علم و دانش کا مرکز رہا ہے۔ دریا کے پل کو پار کر کے دوسری طرف جائیں تو وہاں کھنڈر نما قلعے کے آثار ملتے ہیں۔ یہ قلعہ نہیں بلکہ دانش گاہ تھی۔
بعض مؤرخین کے مطابق شاردا ہندو مندر کا نام تھا۔ کیا شاردا مندر تھا یا دانش گاہ تھی؟ اس پر اب بھی تحقیق ہو رہی ہے۔ ریاست کے نامور محقق ڈاکٹر احمد دین صابر آفاقی کی تحقیق کے مطابق شاردا اور سرسوتی ہندو عقیدہ میں برہما کی اہلیہ کے دو نام ہیں جنہیں علم و دانش کی دیوی مانا گیا ہے۔ زمانہ قدیم میں مندر گیہاں دھان (عبادت) اور تعلیم کے مرکز تھے۔ البیرونی نے اس مندر کا جغرافیہ اور کیفیت اس طرح بیان کی ہے کہ "ملتان کے سورج دیوتا تھامنیر کے چکر سوامی اور سومنات کے مندر کے بعد شاردا بھی بہت بڑا مندر ہے۔ یہ مندر سرینگر سے کوئی دو تین روز کی مسافت پہ کوہستان بلور کی سمت ایک مشہور صنم کدہ ہے۔" اکیسویں صدی میں دریائے نیلم کے کنارے آباد یہ گاؤں شاردا اب صرف سیاحت کے حوالے سے ہی جانا جاتا ہے۔ دریائے نیلم اس گاؤں کے چرنوں کو چھوتا ہوا خاموشی کے ساتھ گزر جاتا ہے۔
سفر پھر سے شروع ہوا۔ سڑک ختم ہوئی اور کچا راستہ شروع ہوا جس پر سے جگہ جگہ کوئی پہاڑی چشمہ تیز بہتا راہ میں پڑ جاتا۔ جیپ پانیوں کو عبور کرتی اور پھر ہچکولے لیتی اپنی منزل کو گامزن رہتی۔ اندر بیٹھے یوں لگتا جیسے میں اونٹ پر سوار ہوں۔ پہاڑوں سے دھوپ ڈھل رہی تھی۔ چیڑ کے لمبے سائے مزید لمبے ہو چلے تھے۔ جیپ جب کیل میں داخل ہوئی تو نمزدہ مٹی سے معطر ہوا نے استقبال کیا جو سارے علاقے میں پھیلی تھی۔
گجر نالہ.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
گجر نالہ.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
پہاڑی چشمہ.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
پہاڑی چشمہ.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
سید مہدی بخاری
"صاحب! کشمیر تو سارا ان (ہندوستان) کے پاس ہے، ہمارے پاس تو صرف مسئلہ ہے"۔ میرے ڈرائیور نے کیرن سیکٹر سے گزرتے ہوئے کنٹرول لائن کے پار اشارہ کرتے ہوئے ایسا کہا اور جیپ کی کھڑکی سے باہر منہ نکال کر پان کی پِیک پھینک دی۔
آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد کے شمال کی جانب چہلہ بانڈی پل سے شروع ہو کر تاؤبٹ تک 240 کلومیٹر کی مسافت پر پھیلی ہوئی حسین و جمیل وادی کا نام نیلم ہے۔ یہ وادی اپنے نام کی طرح خوبصورت ہے۔ وادی نیلم کا شمار پاکستانی کشمیر کی خوبصورت ترین وادیوں میں ہوتا ہے جہاں دریا، صاف اور ٹھنڈے پانی کے بڑے بڑے نالے، چشمے، جنگلات اور سرسبز پہاڑ ہیں۔ جا بجا بہتے پانی اور بلند پہاڑوں سے گرتی آبشاریں ہیں جن کے تیز دھار دودھیا پانی سڑک کے اوپر سے بہے چلے جاتے ہیں اور بڑے بڑے پتھروں سے سر پٹختے آخر دریائے نیلم کے مٹیالے پانیوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔
اگر آپ ٹھنڈے میٹھے چشموں، جھاگ اڑاتے شوریدہ پانیوں، اور بلندی سے گرتی آبشاروں کو دیکھنا چاہتے ہیں تو اس وادی سے بہتر مقام شاید ہی کوئی اور ہو۔ اس وادی کا صدر مقام اٹھمقام ہے۔ وادی دو تحصیلوں اٹھمقام اور شاردا پر مشتمل ہے۔ مظفرآباد سے شاردا تک سڑک ٹھیک حالت میں موجود ہے مگر اس سے آگے ٹوٹا پھوٹا، بل کھاتا، کچا، اور کہیں سے پتھریلا جیپ روڈ ہے جو آخری گاؤں تاؤبٹ تک جاتا ہے۔
تاؤبٹ کا اوپر سے منظر.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
تاؤبٹ.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
تاؤبٹ.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
یہ علاقہ آزادی سے قبل دراوہ کہلاتا تھا۔ آزاد حکومت کے قیام کے 9 سال بعد 1956 میں قائم حکومت کی کابینہ میٹنگ میں غازیء کشمیر سید محمد امین گیلانی نے کشن گنگا دریا کا نام دریائے نیلم اور دراوہ کا نام وادی نیلم تجویز کیا اور کابینہ کے فیصلے کے مطابق یہ نام تبدیل کر دیے گئے۔ یوں کل کا دراوہ آج کی وادیء نیلم ہے۔
ہمالیہ کے دامن میں بسی دور دراز کی اس انسانی بستی کا بلاوا میرے نام آیا تو میں نے نوکری اور شہر کو خیرباد کہا، سامان سمیٹا، اور کشمیر کے سرسبز پہاڑوں میں گم ہونے کو نکل کھڑا ہوا۔ گاڑی جہلم پہنچی تو دریا کے پل پر کھڑے ہو کر میں نے جہلم کے پانیوں کو دیکھا۔ مٹی رنگے پانی سست روی سے بہہ رہے تھے۔ میں اسی دریا کو دیکھنے وہاں جا رہا تھا جہاں سے یہ پاکستان کے زیرِانتظام ریاست جموں و کشمیر کی حدود میں داخل ہوتا ہے۔ یہاں تو یہ دھیما دھیما بہے جا رہا تھا مگر وہاں پہاڑوں میں شور مچاتا، غصیلا، جھاگ اڑاتا، تنگ دروں میں بہتا سبز پانیوں کا دریا ہے۔ جہلم عرف نیلم عرف کشن گنگا۔ گاڑی کے اندر گانے کی آواز گونج رہی تھی "کس نام سے پکاروں کیا نام ہے تمہارا"۔
تاؤبٹ.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
تاؤبٹ کے گھر.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
تاؤبٹ.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
تاؤبٹ.— فوٹو سید مہدی بخاری.
شہر، قصبے، بستیاں گزرتی رہیں۔ راولپنڈی چھوٹا اور مری کا موڑ آیا تو گاڑی نے مظفرآباد کی راہ لی۔ کوہالہ سے مظفرآباد تک کا سفر تنگ سی مگر ٹھنڈی سڑک پر جاری رہا۔ درختوں کے سایوں میں گاڑی چلتی رہی۔ اردگرد پہاڑوں پر نئی نویلی شوخ رنگی گھاس اگ آئی تھی۔ ہرے کچور منظر تھے۔ اس ہریالی میں جگہ جگہ سڑک کے اطراف لگے انار کے بوٹے نظر آتے جن پر سرخ کلیاں کھِلی ہوئی تھیں۔ ایسے سبزے میں سرخ پھول کھِلے دیکھ کر دل میں عجب سی لہر دوڑ جاتی ہے۔ میرا دل چاہنے لگا کہ انارکلی اپنے سفر میں ساتھ رکھ لوں مگر جون ایلیاء فوراً دھیان میں آ کر بولے "دیکھ لو پھول، پھول توڑو مت"۔ انارکلیاں گزرتی رہیں اور انہی مناظر کو دیکھتے دیکھتے مظفرآباد آ گیا۔ بھرپور آبادی کا شہر، مکان کے اوپر مکان، لوگوں کے اوپر لوگ۔ دریائے نیلم کا پل پار کیا تو میں نے گاڑی کو چھوڑا اور جیپ لے لی۔ میری منزل وادی نیلم تھی۔
تاؤبٹ کا جھولتا پل.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
تاؤبٹ میں دریائے نیلم.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
اس دن دریائے نیلم کے ساتھ ساتھ چلا تو یہ سوچتا چلا کہ دریا دو ملکوں کی سرحد بنا کیسے اطمینان سے بہے جا رہا ہے۔ ایک طرف پاکستان تھا دوسری طرف ہندوستان۔ نوسیری کے مقام پر نیلم جہلم ہائیڈل پراجیکٹ شروع ہے جہاں پاکستان دریائے نیلم پر ڈیم تعمیر کر رہا ہے۔ موسمِ گرما کا آغاز ہو چکا تھا مگر پراجیکٹ پر ابھی تک موسمِ سرما چھایا ہوا معلوم پڑا۔ وادی کا صدر مقام اٹھمقام آیا تو بازار میں ہجوم تھا۔ ہجوم سے گاڑی نکلی تو کیرن آ گیا۔ دریا پر بنے پل کے پار جو کشمیر تھا اس پر ہندوستان کی حکومت قائم تھی۔
ڈرائیور نے ٹیپ ریکارڈر کی آواز آہستہ کی اور بولا "صاحب! کشمیر تو سارا ان (ہندوستان) کے پاس ہے، ہمارے پاس تو صرف مسئلہ ہے"۔ کنٹرول لائن کے ساتھ ساتھ چلتے مجھے محسوس ہوا کہ دونوں طرف ایک بات تو کم سے کم مشترک ہے اور وہ ہے موسیقی۔ دونوں طرف چلنے والی گاڑیوں میں انڈین موسیقی چلتی ہے۔ ثقافت میں بھی کوئی فرق نہیں۔ خوراک بھی ایک سی ہے۔ رنگ و نسل بھی ایک۔ بیچ میں بہتا دریا بھی ایک۔ اوپر سے گزرتا بادل بھی ایک۔ بس پرچم بدل جاتا ہے۔ سرکار بدل جاتی ہے۔ دل بدل جاتے ہیں۔ ڈرائیور اپنی بات کہہ چکا تو اس نے ٹیپ ریکارڈر کی آواز پھر اونچی کر دی۔ گاڑی میں گانا گونج رہا تھا "غمِ دل کو ان آنکھوں سے چھلک جانا بھی آتا ہے۔"
تاؤبٹ میں دریائے نیلم.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
تاؤبٹ میں دریائے نیلم.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
تاؤبٹ.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
تاؤبٹ.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
دواریاں کا قصبہ آیا۔ یہیں سے رتی گلی جھیل کو راستہ نکلتا ہے۔ رتی گلی جہاں قدرت نے سبز گھاس کا مخملی قالین بچھا کر اس پر پیلے، نیلے اور نارنجی رنگوں سے گلکاری کر کے جھیل کے نیلے پانیوں کے اطراف میں ایسے منظر سجا دیے ہیں جن کو ایک نظر دیکھنے کے واسطے سیاح اور کوہ نورد ہمالیہ کے پہاڑوں سے سر ٹکراتے، نالے عبور کرتے، چڑھائی چڑھتے پیدل چلتے جاتے ہیں۔ رتی گلی، ایک جھیل جس کو دیکھنے کی چاہ میں انسان سب کچھ لٹا دے تو بھی خسارے کا احساس نہ ہو۔
گاڑی آگے بڑھتی گئی۔ تھوڑا آگے ایک سڑک پہاڑ کے اوپر چڑھتی جاتی ہے جو اپر نیلم گاؤں میں جا نکلتی ہے۔ شاید اس گاؤں کے نام کی وجہ سے ساری وادی کا نام نیلم رکھا گیا ۔ شاردا آیا تو جیپ بازار میں رک گئی۔ نگاہوں نے دیکھا کہ مکانوں اور دکانوں کی چھتوں پر اگی گھاس کو گدھے چر رہے تھے۔ ایسا منظر دیکھ کر ہنسی لبوں پر پھیل گئی۔ شاردا جہاں مکانوں کی چھتوں پر گدھے چرتے ہیں۔ پہاڑی ڈھلوانوں کے ساتھ بسے مکانوں کے چھتیں پہاڑ سے ملتی ہیں، وہیں سے جانور آسانی سے چھتوں پر چڑھ سکتے ہیں۔ چھتوں پر پڑی مٹی میں گھاس اور جڑی بوٹیاں اگ آتی ہیں جن کی خوشبو کے پیچھے گدھے بھی آ جاتے ہیں۔
تاؤبٹ کے قریب جھولتا پل.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
تاؤبٹ کے قریب جھولتا پل.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
— فوٹو سید مہدی بخاری۔
شاردا تک قدرے شہری ماحول وادی پر چھایا رہتا ہے اور اشیائے ضرورت فراوانی اور آسانی سے مل جاتی ہیں۔ شاردا کے آگے کے مقامات دیہی علاقے ہیں۔ سڑک بھی شاردا تک ہی ٹھیک ہے اس سے آگے بہت خستہ حالت میں ہے۔ دریائے نیلم اس مقام پر قدرے چوڑا بہتا رہتا ہے۔ شاردا ضلع نیلم کا دوسرا سب ڈویژن ہے۔ یہ خطہ زمانہ قدیم میں علم و دانش کا مرکز رہا ہے۔ دریا کے پل کو پار کر کے دوسری طرف جائیں تو وہاں کھنڈر نما قلعے کے آثار ملتے ہیں۔ یہ قلعہ نہیں بلکہ دانش گاہ تھی۔
بعض مؤرخین کے مطابق شاردا ہندو مندر کا نام تھا۔ کیا شاردا مندر تھا یا دانش گاہ تھی؟ اس پر اب بھی تحقیق ہو رہی ہے۔ ریاست کے نامور محقق ڈاکٹر احمد دین صابر آفاقی کی تحقیق کے مطابق شاردا اور سرسوتی ہندو عقیدہ میں برہما کی اہلیہ کے دو نام ہیں جنہیں علم و دانش کی دیوی مانا گیا ہے۔ زمانہ قدیم میں مندر گیہاں دھان (عبادت) اور تعلیم کے مرکز تھے۔ البیرونی نے اس مندر کا جغرافیہ اور کیفیت اس طرح بیان کی ہے کہ "ملتان کے سورج دیوتا تھامنیر کے چکر سوامی اور سومنات کے مندر کے بعد شاردا بھی بہت بڑا مندر ہے۔ یہ مندر سرینگر سے کوئی دو تین روز کی مسافت پہ کوہستان بلور کی سمت ایک مشہور صنم کدہ ہے۔" اکیسویں صدی میں دریائے نیلم کے کنارے آباد یہ گاؤں شاردا اب صرف سیاحت کے حوالے سے ہی جانا جاتا ہے۔ دریائے نیلم اس گاؤں کے چرنوں کو چھوتا ہوا خاموشی کے ساتھ گزر جاتا ہے۔
سفر پھر سے شروع ہوا۔ سڑک ختم ہوئی اور کچا راستہ شروع ہوا جس پر سے جگہ جگہ کوئی پہاڑی چشمہ تیز بہتا راہ میں پڑ جاتا۔ جیپ پانیوں کو عبور کرتی اور پھر ہچکولے لیتی اپنی منزل کو گامزن رہتی۔ اندر بیٹھے یوں لگتا جیسے میں اونٹ پر سوار ہوں۔ پہاڑوں سے دھوپ ڈھل رہی تھی۔ چیڑ کے لمبے سائے مزید لمبے ہو چلے تھے۔ جیپ جب کیل میں داخل ہوئی تو نمزدہ مٹی سے معطر ہوا نے استقبال کیا جو سارے علاقے میں پھیلی تھی۔
گجر نالہ.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
گجر نالہ.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
پہاڑی چشمہ.— فوٹو سید مہدی بخاری۔
پہاڑی چشمہ.— فوٹو سید مہدی بخاری۔