ناصر علی مرزا
معطل
نیم حکیم خطرۂ جاں
كسي علاقے ميں ايك تاجر كپڑے كا كاروبار كرتا تھا۔ وہ دور دراز كے شہروں ميں جا كر اپنا كپڑا بيچتا اور واپسي پر طرح طرح كي نئي چيزيں خريد لاتا جنہيں وہ اپنے شہر ميں فروخت كر ديتا۔ اس طرح اسے دور دراز كے علاقوں ميں بھي جاناپڑتا۔
ايك بار وہ كسي علاقے ميں مال بيچنے گيا۔ اس نے ايك درخت كے ساتھ اپنا اونٹ باندھا اور اس كے آگے خربوزے ڈال ديے اور خود بھي چھائوں ميں بيٹھ كر كھانا كھانے لگا۔ اچانك اونٹ كے گلے سے عجيب و غريب گھٹي گھٹي سي آوازيں نكلنے لگيں۔ اونٹ كے گلے ميں خربوزہ پھنس گيا تھا۔ تاجر نے ديكھا تو رو رو كر دہائي دينے لگا كہ "ميرے اونٹ كو بچالو۔"
لوگ دوڑے اور گائوں كے ايك سيانے حكيم صاحب كو لے آئے۔ حكيم صاحب نے بلا تردد اونٹ كو زمين پر لٹايا اور ايك اينٹ اس كي گردن كے نيچے ركھي اور دوسري اينٹ اس كي گردن كے اوپر آہستگي سے ماري، جس سے خربوزہ ٹوٹ گيا اور اونٹ بالكل ٹھيك ہو گيا۔
اگلے سال شديد بارشيں ہوئيں۔ تاجر كو اپنے شہر سے نكلنا دشوار ہو گيا۔ جو اس كے پاس جمع پونجي تھي وہ خرچ ہو گئي۔ اپنے شہر ميں اس كا كوئي كاروبار تھا نہ اس كے پاس كوئي ہنر تھا۔
بہت سوچ بچار كے بعد اس نے حكيم بننے كا فيصلہ كيا۔ اس نے ايك دكان بنا لي، چند جڑي بوٹياں ركھ ليں اور لگا لوگوں كو اوٹ پٹانگ دوائيں دينے۔
انہي دنوں شہر كے حاكم كا والد بيمار ہو گيا۔ اسے گلہڑ كا مرض لاحق ہو گيا تھا۔ گلہڑ ايك ايسا مرض ہے كہ جس كو لگ جائے اس شخص كا گلا بہت زيادہ پھول جاتا ہے، آج كل اس بيماري سے بچنے كے ليے آئيوڈين ملا نمك بہت مفيد ہے۔ بہرحال اس وقت گلہڑ كا مرض لا علاج سمجھا جاتا تھا۔ لہٰذا حاكم شہر نے شہر ميں ڈھنڈورا پٹوا ديا كہ جو كوئي حاكم شہر كے والد كا كامياب علاج كرے گا اس كو بھاري انعام ديا جائے گا۔
جب نيم حكيم يعني اسي تاجر نے يہ اعلان سنا تو اسے اپنے اونٹ كے ساتھ پيش آنے والا پچھلے برس كا واقعہ ياد آگيا۔ اس نے اعلان كر ديا كہ وہ حاكم شہر كے والد كا علاج كرے گا۔ لوگ حيران رہ گئے كہ پورے شہر ميں صرف اسي كے پاس يہ علاج تھا۔ آخر وہ حاكم شہر كے گھر حاضر ہوا۔ وہاں اور بھي لوگ اكٹھے تھے۔ نيم حكيم نے حاكم شہر كے والد كو لٹايا۔
ايك اينٹ اس كي گردن كے نيچے ركھي اور دوسري اينٹ اوپر سے دے ماري۔
بس پھر كيا تھا، بابا جي اللہ كو پيارے ہو گئے۔ مجمع ميں سے كسي نے بلند آواز سے كہا: "نيم حكيم خطرہ جان۔"
اس كے بعد نيم حكيم كے ساتھ جو ہوا سو ہوا مگر يہ كہاوت مشہور ہو گئي۔ اب جب بھي كوئي اناڑي كوئي مہارت كا كام كرنے لگے تو يہي كہاوت كہي جاتي ہے۔
كسي علاقے ميں ايك تاجر كپڑے كا كاروبار كرتا تھا۔ وہ دور دراز كے شہروں ميں جا كر اپنا كپڑا بيچتا اور واپسي پر طرح طرح كي نئي چيزيں خريد لاتا جنہيں وہ اپنے شہر ميں فروخت كر ديتا۔ اس طرح اسے دور دراز كے علاقوں ميں بھي جاناپڑتا۔
ايك بار وہ كسي علاقے ميں مال بيچنے گيا۔ اس نے ايك درخت كے ساتھ اپنا اونٹ باندھا اور اس كے آگے خربوزے ڈال ديے اور خود بھي چھائوں ميں بيٹھ كر كھانا كھانے لگا۔ اچانك اونٹ كے گلے سے عجيب و غريب گھٹي گھٹي سي آوازيں نكلنے لگيں۔ اونٹ كے گلے ميں خربوزہ پھنس گيا تھا۔ تاجر نے ديكھا تو رو رو كر دہائي دينے لگا كہ "ميرے اونٹ كو بچالو۔"
لوگ دوڑے اور گائوں كے ايك سيانے حكيم صاحب كو لے آئے۔ حكيم صاحب نے بلا تردد اونٹ كو زمين پر لٹايا اور ايك اينٹ اس كي گردن كے نيچے ركھي اور دوسري اينٹ اس كي گردن كے اوپر آہستگي سے ماري، جس سے خربوزہ ٹوٹ گيا اور اونٹ بالكل ٹھيك ہو گيا۔
اگلے سال شديد بارشيں ہوئيں۔ تاجر كو اپنے شہر سے نكلنا دشوار ہو گيا۔ جو اس كے پاس جمع پونجي تھي وہ خرچ ہو گئي۔ اپنے شہر ميں اس كا كوئي كاروبار تھا نہ اس كے پاس كوئي ہنر تھا۔
بہت سوچ بچار كے بعد اس نے حكيم بننے كا فيصلہ كيا۔ اس نے ايك دكان بنا لي، چند جڑي بوٹياں ركھ ليں اور لگا لوگوں كو اوٹ پٹانگ دوائيں دينے۔
انہي دنوں شہر كے حاكم كا والد بيمار ہو گيا۔ اسے گلہڑ كا مرض لاحق ہو گيا تھا۔ گلہڑ ايك ايسا مرض ہے كہ جس كو لگ جائے اس شخص كا گلا بہت زيادہ پھول جاتا ہے، آج كل اس بيماري سے بچنے كے ليے آئيوڈين ملا نمك بہت مفيد ہے۔ بہرحال اس وقت گلہڑ كا مرض لا علاج سمجھا جاتا تھا۔ لہٰذا حاكم شہر نے شہر ميں ڈھنڈورا پٹوا ديا كہ جو كوئي حاكم شہر كے والد كا كامياب علاج كرے گا اس كو بھاري انعام ديا جائے گا۔
جب نيم حكيم يعني اسي تاجر نے يہ اعلان سنا تو اسے اپنے اونٹ كے ساتھ پيش آنے والا پچھلے برس كا واقعہ ياد آگيا۔ اس نے اعلان كر ديا كہ وہ حاكم شہر كے والد كا علاج كرے گا۔ لوگ حيران رہ گئے كہ پورے شہر ميں صرف اسي كے پاس يہ علاج تھا۔ آخر وہ حاكم شہر كے گھر حاضر ہوا۔ وہاں اور بھي لوگ اكٹھے تھے۔ نيم حكيم نے حاكم شہر كے والد كو لٹايا۔
ايك اينٹ اس كي گردن كے نيچے ركھي اور دوسري اينٹ اوپر سے دے ماري۔
بس پھر كيا تھا، بابا جي اللہ كو پيارے ہو گئے۔ مجمع ميں سے كسي نے بلند آواز سے كہا: "نيم حكيم خطرہ جان۔"
اس كے بعد نيم حكيم كے ساتھ جو ہوا سو ہوا مگر يہ كہاوت مشہور ہو گئي۔ اب جب بھي كوئي اناڑي كوئي مہارت كا كام كرنے لگے تو يہي كہاوت كہي جاتي ہے۔