عاطف بٹ
محفلین
(علی سردار جعفری نے یہ نظم اپنے بیٹے کی پہلی سالگرہ کے موقع پر جیل سے اپنی بیوی کو لکھ کر بھیجی تھی۔ جیل میں قید باپ کی طرف سے یہ نظم بیٹے کے لئے پہلی سالگرہ کا تحفہ تھی۔)
نیند
رات خوبصورت ہے نیند کیوں نہیں آتی
دن کی خشمگیں نظریں کھوگئیں سیاہی میں
آہنی کڑوں کا شور، بیڑیوں کی جھنکاریں
قیدیوں کی سانسوں کی تند و تیز آوازیں
جیلروں کی بدکاری، گالیوں کی بوچھاریں
بے بسی کی خاموشی، خامشی کی فریادیں، تہ نشیں اندھیرے میں
شب کی شوخ دوشیزہ، خاردار تاروں کو، آہنی حصاروں کو پار کرکے آئی ہے
بھر کے اپنے دامن میں جنگلوں کی خوشبوئیں، ٹھنڈ کیں پہاڑوں کی، میرے پاس لائی ہے
رات خوبصورت ہے نیند کیو ں نہیں آتی
نیلگوں جواں سینہ، نیلگوں جواں بانہیں، کہکشاں کی پیشانی، نیم چاند کا جوڑا
مخملیں اندھیرے کا پیرہن لرزتا ہے
وقت کی سیہ زلفیں خامشی کے شانوں پر خم بہ خم مہکتی ہیں
اور زمیں کے ہونٹوں پر نرم شبنمی بوسے موتیوں کے دانتوں سے کھلکھلا کے ہنستے ہیں
رات خوبصورت ہے نیند کیوں نہیں آتی
رات پینگ لیتی ہے چاندنی کے جھولے میں
آسمان پر تارے ننھے ننھے ہاتھوں سے بُن رہے ہیں جادو سا
جھینگروں کی آوازیں کہہ رہی ہیں افسانہ
دورجیل کے باہر بج رہی ہے شہنائی
ریل اپنے پہیوں سے لوریاں سناتی ہے
رات خوبصورت ہے نیند کیوں نہیں آتی
روز رات کو یونہی نیند میری آنکھوں سے بے وفائی کرتی ہے
مجھ کو چھوڑ کر تنہا جیل سے نکلتی ہے
بمبئی کی بستی میں، میرے گھر کا دروازہ، جا کے کھٹکھٹاتی ہے
ایک ننھے بچے کی انکھڑیوں کے بچپن میں، میٹھے میٹھے خوابوں کا شہد گھول دیتی ہے
اک حسیں پری بن کر پالنا ہلاتی ہے، لوریاں سناتی ہے
رات خوبصورت ہے نیند کیوں نہیں آتی
نیند
رات خوبصورت ہے نیند کیوں نہیں آتی
دن کی خشمگیں نظریں کھوگئیں سیاہی میں
آہنی کڑوں کا شور، بیڑیوں کی جھنکاریں
قیدیوں کی سانسوں کی تند و تیز آوازیں
جیلروں کی بدکاری، گالیوں کی بوچھاریں
بے بسی کی خاموشی، خامشی کی فریادیں، تہ نشیں اندھیرے میں
شب کی شوخ دوشیزہ، خاردار تاروں کو، آہنی حصاروں کو پار کرکے آئی ہے
بھر کے اپنے دامن میں جنگلوں کی خوشبوئیں، ٹھنڈ کیں پہاڑوں کی، میرے پاس لائی ہے
رات خوبصورت ہے نیند کیو ں نہیں آتی
نیلگوں جواں سینہ، نیلگوں جواں بانہیں، کہکشاں کی پیشانی، نیم چاند کا جوڑا
مخملیں اندھیرے کا پیرہن لرزتا ہے
وقت کی سیہ زلفیں خامشی کے شانوں پر خم بہ خم مہکتی ہیں
اور زمیں کے ہونٹوں پر نرم شبنمی بوسے موتیوں کے دانتوں سے کھلکھلا کے ہنستے ہیں
رات خوبصورت ہے نیند کیوں نہیں آتی
رات پینگ لیتی ہے چاندنی کے جھولے میں
آسمان پر تارے ننھے ننھے ہاتھوں سے بُن رہے ہیں جادو سا
جھینگروں کی آوازیں کہہ رہی ہیں افسانہ
دورجیل کے باہر بج رہی ہے شہنائی
ریل اپنے پہیوں سے لوریاں سناتی ہے
رات خوبصورت ہے نیند کیوں نہیں آتی
روز رات کو یونہی نیند میری آنکھوں سے بے وفائی کرتی ہے
مجھ کو چھوڑ کر تنہا جیل سے نکلتی ہے
بمبئی کی بستی میں، میرے گھر کا دروازہ، جا کے کھٹکھٹاتی ہے
ایک ننھے بچے کی انکھڑیوں کے بچپن میں، میٹھے میٹھے خوابوں کا شہد گھول دیتی ہے
اک حسیں پری بن کر پالنا ہلاتی ہے، لوریاں سناتی ہے
رات خوبصورت ہے نیند کیوں نہیں آتی