نیند پر ایک تحقیقی تحریر

نیند پر ایک تحقیقی تحریر
(قرآن‘احادیث اور جدید سائنسی تحقیق کی روشنی میں)
تحریر کنندہ: محمد اجمل خان​

ہر رات ہم بستر پر لیٹتے ہیں۔ آنکھیں بند کرتے اور نیند ہمیں اپنی پُر سکون آغوش میں لے لیتی ہے۔ یہ وہ پیاری اور میٹھی نیند ہے جس میں انسان تقریبا ً اپنی ایک تہائی زندگی گزار دیتا ہے لیکن کبھی اس پر غور و فکر نہیں کرتااور کبھی سوچتا بھی نہیں کہ یہ نیند ہے کیا؟

1.1 نیند کیا ہے:
شعور کو عملی طور پر معطل‘ اعصابی نظام کو نسبتاً غیر فعال اور آنکھوں کو بند کرکے جسم اور ذہن کو آرام پہنچانے کے فطری عمل کو نیند کہتے ہیں۔ نیند کے دوران انسان اپنے ماحول سے بے خبر رہتا ہے۔رات کو چند گھنٹوں کی نیند انسان کی فطری و بنیادی ضرورت ہے۔ کوئی انسان اس ضرورت سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔
بیہوشی میں بھی انسان اپنے آپ سے اور اپنے ماحول سے بے خبر ہو جاتا ہے۔ لیکن نیند ایک قدرتی عمل ہے اور نیند سےانسان بغیر کسی طبی امداد کے بیدار ہو جاتا ہے یا اسے بیدار کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ بیہوشی ایک مرض ہے اور اس میں انسان کو ہوش میں لانے یعنی فعال بنانے کیلئے طبی امداد کی ضرورت پڑتی ہے۔

1.2 نیند اللہ تعالٰی کی عظیم رحمت اور نعمت ہے:
نیند اللہ تعالٰی کی عظیم رحمت اور نعمت ہے جو تھکے ماندھے بندوں کو راحت و آرام ‘ سکون و اطمینان اور امن و امان کا ذریعہ ہے۔ انسان کو پرسکون نیند سے ہمکنار کرنے کیلئے اللہ تعالٰی نے ماحول کو سازگار بنایا۔ لہذا فرمایا:
وَمِن رَّحْمَتِهِ جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ لِتَسْكُنُوا فِيهِ وَلِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ﴿73﴾ سورة القصص
’’ اور اس نے اپنی رحمت سے تمہارے لئے رات اور دن کو بنایا تاکہ تم اس) رات میں ( آرام کرو اور (دن میں) اس کا فضل (روزی) تلاش کر سکو اور تاکہ تم شکر گزار بنو ‘‘۔
وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ لِبَاسًا وَالنَّوْمَ سُبَاتًا وَجَعَلَ النَّهَارَ نُشُورًا ﴿47﴾ سورة الفرقان
’’ اور وہ وہی ہے جس نے تمہارے لئے رات کو پردہ پوش اور نیند کو راحت اور دن کو اٹھ کھڑے ہونے کا وقت بنایا ‘‘۔
فَالِقُ الْإِصْبَاحِ وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَنًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَانًا ۚ ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ ﴿96﴾ سورة الأنعام
’’ (وہی) صبح (کی روشنی) کو رات کا اندھیرا چاک کر کے نکالنے والاہے، اور اسی نے رات کو آرام کے لئے بنایا ہے اور سورج اور چاند کوحساب و شمار کے لئے، یہ بہت غالب بڑے علم والے (ربّ) کا مقررہ اندازہ ہے ‘‘۔
اللَّ۔هُ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ لِتَسْكُنُوا فِيهِ وَالنَّهَارَ مُبْصِرًا ۚ إِنَّ اللَّ۔هَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَ۔ٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ﴿61﴾سورة غافر
’’ الله ہی ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی تاکہ اس میں آرام کرو اور دن کو ہر چیز دکھانے والا بنایا بے شک الله لوگوں پر بڑے فضل والا ہے لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے ‘‘۔
پرسکون نیند کی بنیادی ضرورت اندھیرا ہے‘ ماحول کی تمازت اور شور شرابہ کا کم ہونا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی نے رات بنا کر پرسکون نیند کی ان فطری ضرورتوں کو پورا کر دیا۔ لیکن رات کو بالکل ہی اندھیرا نہیں کیا بلکہ چاندہ بنا کر مدھم روشنی بھی پھیلا دیا تاکہ اس کے بندے رات کو بالکل ہی بے کار یا نہ ہوجائیں۔پھر رات کو ایک ہی وقت میں دنیا میں بسنے والی تقریباً تمام مخلوقات پر نیند طاری کرکے شورشرابہ بھی ختم کردیا۔ یوں بنی نوع انسان کو نیند کی عظیم نعمت عطا کیا تاکہ وہ شکر کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
1.3 نیند میں اللہ تعالٰی کی نشانیاں ہیں:
نیند میں غور و فکرکرنے والوں کیلئے بہت سی نشانیاں ہیں‘ جیسا کہ اللہ تعالٰی کا فرمان ہے:
وَمِنْ آيَاتِهِ مَنَامُكُم بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَابْتِغَاؤُكُم مِّن فَضْلِهِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَسْمَعُونَ ﴿23﴾ سورة الروم
’’ اور اُس کی نشانیوں میں سے تمہارا رات اور دن کو سونا اور تمہارا اس کے فضل کو تلاش کرنا ہے یقیناً اِس میں بہت سی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو)غور سے) سُنتے ہیں‘‘
لَّذِي جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ لِتَسْكُنُوا فِيهِ وَالنَّهَارَ مُبْصِرًا ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَسْمَعُونَ ﴿٦٧﴾ سورة يونس
’’ وہی ہے جس نے تمہارے لئے رات بنائی تاکہ تم اس میں آرام کرو اور دن کو روشن بنایا (تاکہ تم اس میں کام کاج کر سکو)۔ بیشک اس میں ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو (غور سے) سنتے ہیں‘‘
أَلَمْ يَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا اللَّيْلَ لِيَسْكُنُوا فِيهِ وَالنَّهَارَ مُبْصِرًا ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ﴿86﴾سورة النمل
’’ کیا وه دیکھ نہیں رہے ہیں کہ ہم نے رات کو اس لیے بنایا ہے کہ وه اس میں آرام حاصل کرلیں اور دن کو ہم نے دکھلانے والا بنایا ہے، یقیناً اس میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو ایمان ویقین رکھتے ہیں‘‘
وَجَعَلْنَا اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ آيَتَيْنِ ۖ فَمَحَوْنَا آيَةَ اللَّيْلِ وَجَعَلْنَا آيَةَ النَّهَارِ مُبْصِرَةً لِّتَبْتَغُوا فَضْلًا مِّن رَّبِّكُمْ وَلِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ ۚ وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْنَاهُ تَفْصِيلًا ﴿12﴾سورة الإسراء
’’ ہم نے رات اور دن کو اپنی قدرت کی نشانیاں بنائی ہیں، رات کی نشانی کو تو ہم نے بےنور)تاریک( کردیا ہے اور دن کی نشانی کو روشن بنایا ہے تاکہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کر سکو اور اس لئے بھی کہ برسوں کا شمار اور حساب معلوم کرسکو اور ہر ہر چیز کو ہم نے خوب تفصیل سے بیان فرما دیا ہے‘‘ ﴿١٢﴾ سورة الإسراء
قرآن کی بہت ساری آیتوں میں نیند کا ذکر کرکے اللہ تعالیٰ نے انسان کو نیند پر غور و فکر کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ نیند پر غور و فکر کرکے انسان کائنات کے بہت سارے راز وں کو جان سکتا ہے‘ کائنات کے خالق پر اور موت و حیات اور موت کے بعد کی زندگی یعنی آخرت کے بارے میں ایمان و یقین کا مل حاصل کرسکتا ہے‘ نیز نیند چیونکہ موت کی ہی ایک شکل ہے لہذا انسان روزانہ سونے سے پہلے اپنا محاسبہ اور توبہ کرکے نفس و قلب کی اصلاح کرسکتا ہے۔

1.4 نیند کی اہمیت اور ضرورت:
جس طرح زندگی کی بقا کیلئے کھانا پینا اور سانس لینا ضروری ہے‘ اسی طرح سونا اور آرام کرنا بھی ذہنی و جسمانی صحت اور تندرستی کیلئے اہم ہے۔ رات کو چند گھنٹوں کی نیند انسان کی فطری و بنیادی ضرورت ہے۔ کوئی انسان اس ضرورت سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔
جدید سائنسی تحقیق کے مطابق جب انسان گہری نیند سوجاتا ہے، تب دماغ کا ایک کارخانہ دن بھر کے کام کاج کے دوران انسانی صحت کو نقصان پہنچانے والا جو زہریلا فضلہ دماغ میں جمع ہوتا ہے اُسے نکال باہر کرتا ہے اور پوری دماغ کی مرمت کرکے اُسے نئی توانائی فراہم کرتا ہے جس سے دماغ اور جسم ازسرنو مضبوط و کارآمد بن جاتا ہے۔
پر سکون نیند انسان کی اچھی صحت‘ جسمانی و ذہنی قوت‘ قوتِ حافظہ و تخیل‘ خوش مزاجی اور حسن کارگردگی کیلئے اہم ترین ضرورت ہے ۔ اس کے علاوہ نیند ہی انسان کو چاک و چوبند اور ہشاش بشاش رکھتی ہے۔
جبکہ نیند نہیں آنا بڑا عذاب اور بڑی سزا ہے۔ بے سکون نیند یا نیند کی کمی انسانی دماغ پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے اور بے شمار جسمانی و دماغی بیماریوں کا موجب جیسے دل‘ دماغ‘ معدہ و جگر کی بیماریاں‘ ڈپریشن‘ ذہنی تناؤ‘ چڑچراپن‘ ہائی بلڈپریشر‘ فالج‘ موٹاپا‘ ذیابیطس وغیرہ۔ نیند کی کمی سے انسان ہر وقت اونگھ یا غنودگی کی حالت میں رہتا ہے ‘ تھکاوٹ محسوس کرتا ہے‘ جسم و ذہن صحیح طرح کام نہیں کرتا ‘ لہذا روز مرہ کے کام پر صحیح طرح توجہ نہیں دے پاتا۔
نیند کی کمی سے انسان میں قوت برداشت کم ہوجاتی ہے اور طبیت میں جھنجلاہٹ و چڑچڑاہت پیدا ہوتی ہے جس سے انسا جھگڑالوں بن جاتا ہے اور ازداجی و سماجی زندگی میں فساد کا باعث بنتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:
1.5 نیند اور موت کا رشتہ:
اسلام نیند کو موت کی ایک قسم قرار دیتا ہے۔
پیغمبرِ اسلام ﷺ نے نیند کو موت کا بھائی ’’ النوم أخو الموت ‘‘ کہا ہے۔ (مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ جنت اور اہل جنت کے حالات کا بیان ۔ حدیث 219)
اور اللہ تعالٰی فرماتے ہیں:
وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُم بِاللَّيْلِ …. ﴿٦٠﴾ سورة الأنعام
’’ اور وہی (اللہ) ہے جو تمہیں رات میں گویا کہ ایک طرح کی موت دے دیتا ہے‘‘….
ایک اور آیت میں فرماتے ہیں:
اللَّ۔هُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا ۖ فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَىٰ عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَىٰ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ ﴿٤٢﴾ سورة الزمر
’’ اللہ جانوں کو اُن کی موت کے وقت قبض کر لیتا ہے اور اُن (جانوں) کو جنہیں موت نہیں آئی ہے اُن کی نیند کی حالت میں، پھر اُن کو روک لیتا ہے جن پر موت کا حکم صادر ہو چکا ہو اور دوسری (جانوں) کو مقرّرہ وقت تک چھوڑے رکھتا ہے۔ بے شک اس میں اُن لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں ‘‘ ﴿٤٢﴾
انسانی زندگی روزانہ دو مراحل سے گزرتی ہے ۔۔۔ ایک بیداری اور دوسرا نیند ہے۔ بیداری کی حالت میں انسان کا اس کے جسم کے ساتھ ایک شعوری رشتہ قائم رہتا ہے جس سے وہ اپنی زندگی کے سارے تقاضے اور ساری حرکات و سکنات، خیالات و تصورات اور احساسات وغیرہ کو کنڑول کرتا ہے جبکہ نیند کی حالت میں یہ شعوری رشتہ عارضی طور پر معطل ہو جاتا ہے جو کہ عارضی موت ہے اور اس رشتے کا ہمیشہ کیلئے منقطع ہوجانے کا نام وفات یا حقیقی موت ہے‘ تو اگرچہ زیادہ تر لوگ نیند کے بعد نئی زندگی کی شروعات کرتے ہیں لیکن کچھ لوگ نیند کے دوران مر بھی جاتے ہیں۔ یہی بات مندرجہ بالا آیتوں میں بتایا گیا ہے کہ جنہیں موت دینا ہوتا ہے اللہ ان کی جانوں کو قبض کرنے کے بعد روک لیتا ہے اور باقیوں کی جانوں کو ایک مقررہ وقت کی نیند کے بعد لوٹا دیتا ہے۔ لہذا نیند عارضی موت ہے جبکہ وفات حقیقی موت۔

1.6 نیند عارضی موت ہے:
اسلام کا یہی تصور ہے کہ نیند کے بعد انسان بیدار بھی ہوسکتا ہے اور موت سے ہمکنار بھی ہو سکتا ہے۔ مسلمان اسی تصور کے ساتھ زندگی گزارتا ہے اور نیند کی آغوش میں جاتے وقت نبی کریم ﷺ سِکھائی ہوئی دعاؤں کو پڑھ کر اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کر دیتا ہے:
اَللَّهُمَّ بِاسْمِكَ أَمُوتُ وَأَحْيَا۔ …بخاری: 6324۔
’’ یا اللہ! میں تیرے نام سے مرتا اور زندہ ہوتا ہوں ‘‘
اللَّهُمَّ خَلَقْتَ نَفْسِي وَأَنْتَ تَوَفَّاهَا، لَكَ مَمَاتُهَا وَمَحْيَاهَا، إِنْ أَحْيَيْتَهَا فَاحْفَظْهَا، وَإِنْ أَمَتَّهَا فَاغْفِرْ لَهَا، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَافِيَةَ…مسلم: 2712
’’ اے اللہ، تو نے ہی مجھے بنایا ہے اور تو ہی مجھے وفات دے گا۔ میری موت اور میری زندگی تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔ اگر تو مجھے زندہ رکھے تو میری حفاظت کر اور اگر موت دے تو میری مغفرت فرما۔ اے اللہ، میں تجھ سے عافیت کا طلب گار ہوں ‘‘ ۔
اسی طرح نیند سے بیدار ہوتے وقت بھی یہی تصور قائم رکھنے کے ساتھ ساتھ اللہ کا شکر ادا کرنا ہے:
اَلْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَحْيَانَا بَعْدَمَا أَمَاتَنَا وَإِلَيْهِ النُّشُورُ
’’ تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں اسی نے ہمیں موت دیکر زندہ کیا، اور اسی کی طرف سب کو جمع ہونا ہے ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
1.7 نیند اور موت میں اللہ کی نشانیاں اور اہل مغرب کی ہٹ دھرمی:
جس طرح کوئی انسان یہ نہیں جانتا ہے کہ اس کی موت کب اور کہاں آئے گی اسی طرح ہر سونے والا اس سے قطعاً بے خبر ہے کہ وہ جس نیند کی مزے لے رہا ہے وہ اس نیند سے بیدار ہوگا یا ہمیشہ کی نیند سو جائے گا۔ کتنے لوگ ہیں جو سوتے میں مر جاتے ہیں اور ان کو اس کا اندازہ تک نہیں ہوتا کہ ان کی زندگی کی یہ آخری نیند ہے۔ اصل میں انسان زندگی اور موت کے بارے میں قطعاً بے بس اور عاجز ہے۔ یہ صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
امریکی شماریاتِ موت ( American Death Statistics) کے مطابق آٹھ میں ایک( 1 in 8) یعنی 12.5% امریکیوں کی موت نیند کے دوران واقع ہوتی ہے ۔ جبکہ اونگھ یا غنودگی کی وجہ کر ڈرائیونگ کے دوران اور دیگر حادثات میں جو ہلاکتیں ہوتی ہیں اس کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
نیند کے دوران موت واقع ہونا عام ہے جس کے بارے میں اللہ کا واضح فرمان ہے:
اللَّ۔هُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا ۖ فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَىٰ عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَىٰ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ ﴿٤٢﴾ سورة الزمر
’’ اللہ ہی ہے جو روحوں کو موت کے وقت اپنی طرف بلا لیتا ہے اور جو نہیں مرتے ہیں ان کی روحوں کو بھی نیند کے وقت طلب کرلیتا ہے اور پھر جس کی موت کا فیصلہ کرلیتا ہے اس کی روح کو روک لیتا ہے اور دوسری روحوں کو ایک مقررہ مدّت کے لئے آزاد کردیتا ہے- اس بات میں صاحبان فکر و نظر کے لئے بہت سی نشانیاں پائی جاتی ہیں ‘‘
اللہ تعالیٰ اس آیت میں نیند اور موت کو اپنی نشانیاں قرار دیتے ہوئے انسان کو غور و فکر کرکے حق تک پہچنے کی دعوت دیتے ہیں۔
ہر انسان روزانہ نیند اور موت کا مشاہدہ کرتا ہے‘ روزانہ ہی مرتا ہے اور روزانہ ہی نئی طاقت و توانائی اور جوش و جذبے کے ساتھ زندہ ہوتا ہے۔ یہ نیند یعنی عار ضی موت ہی انسان کی نئی زندگی کی ضامن ہے۔ لہذا انسان کو سمجھ لینا چاہئے کہ جس طرح روزانہ کی اس عارضی موت بعد زندگی ہے‘ اسی طرح حقیقی موت کے بعد بھی زندگی یقینی ہے۔ جو ذات روزانہ جانوں )روحوں( کو قبض کرکے روزانہ لوٹانے پر یا بعض کو روک لینے پر قادر ہے وہی قیامت کے دن تمام انس و جن کو دوبارہ زندہ کرکے اٹھانے پر بھی قادر ہے۔
اگر مغربی مفکرین‘ محققین ‘ دانشور اور سائنسدان وغیرہ تعصب کی عینک اتار کر نیند اور موت پر غور کرتے تو قرآن کی حقانیت پر ایمان لے آتے لیکن اس جیسی بے شمار واضح نشانیوں کے باوجود دہریت کے ان پجاریوں کی ہٹ دھرمی یہ ہے کہ اب وہ اس بات پر تحقیق کر رہے ہیں کہ ’’ نیند کا وجود کب سے ہے ؟‘‘

1.8 نیند کا وجود کب سے ہے ؟
دہریت کے ان پجاریوں کا خیال ہے کہ ’’ شروع میں نیند کا کوئی وجود نہیں تھا ۔ بندر سے انسان بننے کی ارتقائی عمل کے دوران یا انسان بننے کے بہت بعد انسان کو نیند کی ضرورت پیش آئی ‘‘۔۔ یوں وہ چارلس ڈارون کی نظریہ ارتقاء کو مزید تقویت پہنچا کر انسان کو مزید گمراہ کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ ’’ نیند کا وجود کب سے ہے‘‘ اس کی تحقیق سے پہلے انہیں ’’رات دن کی ادل بدل کب سے ہے ‘‘ اس کی تحقیق کرنی چاہئے کیونکہ نیند کیلئے رات کی تاریکی لازم ہے۔
وَجَعَلْنَا اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ آيَتَيْنِ ۖ فَمَحَوْنَا آيَةَ اللَّيْلِ وَجَعَلْنَا آيَةَ النَّهَارِ مُبْصِرَةً لِّتَبْتَغُوا فَضْلًا مِّن رَّبِّكُمْ وَلِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ ۚ وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْنَاهُ تَفْصِيلًا ﴿١٢﴾ سورة الإسراء
’’ ہم نے رات اور دن کو اپنی قدرت کی نشانیاں بنائی ہیں، رات کی نشانی کو تو ہم نے تاریک کردیا ہے اور دن کی نشانی کو روشن بنایا ہے تاکہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کر سکو اور اس لئے بھی کہ برسوں کا شمار اور حساب معلوم کرسکو اور ہر ہر چیز کو ہم نے خوب تفصیل سے بیان فرما دیا ہے‘‘
اسلام کا نظریہ یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے انسان کو بالکل اسی حلیے میں بنایا ہے جس میں وہ آج موجود ہے اور دنیا میں پہلے دن سے ہی انسان کو نیند کی ضرورت پیش آئی۔
لیکن حضرت آدم و حوا ؑ جب جنت میں تھے تووہاں نیند کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ نیند کی ضرورت دنیا میں ہے۔ جنتی لوگ جنت میں نہیں سوئیں گے جیسا کہ حضرت جابر ؓراوی ہیں کہ پیارے نبی ﷺ نے فرمایا :
’’نیند موت کا بھائی ہے،اور اہل جنت ،جنت میں نہیں سوئیں گے ‘‘۔۔(راوي: جابر بن عبدالله و عبدالله بن أبي أوفى المحدث: الألباني - المصدر: السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 1087 خلاصة حكم المحدث: صحيح بمجموع طرقه)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
1.9 نیند کی کیفیات و مراحل اور اقسام
نیند مخلوق کی فطری ضرورت‘ کمزوری اور عیب ہے اور ہمارا خالق اس سے پاک ہے۔
عرف عام میں عربی میں لفظ ’ نَوْم ‘ نیند کیلئے استعمال ہوتا ہے ۔ لیکن قرآن مجید میں ’ نَوْم ‘ کے علاوہ مختلف عربی الفاظ نیند کے مختلف کیفیات و مراحل کو بیان کرنے کیلئے استعمال کئے گئے ہیں۔ آج کی جدید سائنس اپنی تمام تر تحقیقات کے باوجود نیند کے ان مرحلوں سے زیادہ کچھ جاننے سے قاصر ہے۔

قرآن کریم میں ’’ نیند‘‘ کی چار ( ۴ ) عمومی اور دو (۲) خصوصی )اسپیشل( کیفیات و اقسام بیان کی گئی ہے، جو درج ذیل ہیں:

1.9.1 نمبر1۔۔۔ اَلْسِنَةٌ یا اونگھ:
’ اَلْسِنَةٌ ‘ کے معنی غفلت یا اونگھ کے ہیں لیکن قرآن میں ’نیند‘ کی مناسبت سے لیا گیا ہے۔ اردو میں ’ سِنَةٌ ‘ کا ترجمہ اونگھ یا نیند کا خُمار ہے۔’ سِنَةٌ ‘ نیند کی پہلی کیفیت و قسم ہے جس میں پلکوں پر ہلکی سی نیند کا خُمار ظاہر ہوتا ہے یا نیند سے پلکیں جھپکنے لگتی ہیں یا بوجھل ہو جاتی ہیں لیکن انسان اپنے ماحول سے باخبر رہتا ہے۔
مخلوق ) انسان ) پر ’ سِنَةٌ ‘ کسی بھی وقت لاحق ہوسکتی ہے لیکن خالق (اللہ) ہر عیب کی طرح اس عیب سے بھی پاک ہے جیسا کہ آیت الکرسی میں ہے:
اللَّ۔هُ لَا إِلَ۔ٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ۚ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ۚ ….. آیت الکرسی
’’ اﷲ‘ اس کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں، ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے، (سارے عالم کو اپنی تدبیر سے) قائم رکھنے والا ہے، نہ اس کو اُونگھ آتی ہے اور نہ نیند ‘‘….. آیت الکرسی
آیت الکرسی میں نیند کی پہلی اور آخری مرحلے کا ذکرکرکے یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالٰی ہر طرح کی نیند سے مکمل پاک ہے اور اللہ کیلئے یہی لائق ہے ۔

1.9.2 نمبر 2۔۔۔ النُّعَاسَ یا غنودگی:
’ النُّعَاسَ‘ نیند کی دوسری کیفیت اور قسم ہے ۔ اس کا اثر ’ سِنَةٌ ‘ سے زیادہ ہے اور اسے آدھی نیند(half-sleep) بھی کہتے ہیں۔ اردو میں ہم اسے غنودگی کہہ سکتے ہیں۔ بعض مفسرین نے ’ النُّعَاسَ‘ کو سونے اور جاگنے کی درمیانی کیفیت سے تعبیر کیا ہے۔ ’ النُّعَاسَ‘ کے دوران انسان آسانی سے بیدار ہو سکتا ہے۔
قرآن میں دو مقام پر’ النُّعَاسَ‘ کا ذکر ملتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے جنگ بدر سے چند لمحے پہلے اہل ایمان پر ’ النُّعَاسَ‘ یعنی غنودگی طاری کردی۔ جس کے نتیجے میں جب وہ بیدار ہوئے تو تازہ دم ‘ پرسکون اور بے خوف تھے:
إِذْ يُغَشِّيكُمُ النُّعَاسَ أَمَنَةً مِّنْهُ وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُم مِّنَ السَّمَاءِ مَاءً لِّيُطَهِّرَكُم بِهِ وَيُذْهِبَ عَنكُمْ رِجْزَ الشَّيْطَانِ وَلِيَرْبِطَ عَلَىٰ قُلُوبِكُمْ وَيُثَبِّتَ بِهِ الْأَقْدَامَ ﴿١١﴾ سورة الأنفال
” جب اس نے اپنی طرف سے (تمہیں) راحت و سکون (فراہم کرنے) کے لئے تم پر غنودگی طاری فرما دی اور تم پر آسمان سے پانی اتارا تاکہ اس کے ذریعے تمہیں (ظاہری و باطنی) طہارت عطا فرما دے اور تم سے شیطان (کے باطل وسوسوں) کی نجاست کو دور کردے اور تمہارے دلوں کو (قوتِ یقین) سے مضبوط کر دے اور اس سے تمہارے قدم (خوب) جما دے ‘‘
پھر اسی طرح جب جنگ احد میں صحابہ کرام جیتی ہوئی جنگ ہار کر حزن و ملال سے دوچار ہوئے تو اللہ تعالٰی نے دوبارہ ’ نُّعَاسَ ‘ یعنی غنودگی کے ذریعے انہیں غم سے نجات اور امان دے کر ان کے قلوب کو مضبوط کیا۔
ثُمَّ أَنزَلَ عَلَيْكُم مِّن بَعْدِ الْغَمِّ أَمَنَةً نُّعَاسًا يَغْشَىٰ طَائِفَةً مِّنكُمْ ۖ.... …..[3:154]
’’ پھر اس(اللہ) نے رنج و غم کے بعد تم پر (تسکین کے لئے) غنودگی کی صورت میں امان ( اطمینان و سکون اور تسلی) اتاری جو تم میں سے ایک جماعت پر چھا گئی ‘‘
اور صحیح بخاری میں ہے:
خلیفہ بن خیاط، یزید بن زریع، سعید، قتادہ، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ میں بھی ان لوگوں میں شامل تھا جن کو احد کے دن غنودگی (النُّعَاسُ) نے دبا لیا تھا مجھ پر ایسی غنودگی طاری ہوئی کہ کئی مرتبہ میرے ہاتھ سے میری تلوار گر پڑی وہ گرتی تھی اور میں اٹھاتا تھا۔۔ (صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ غزوات کا بیان ۔ حدیث 1292)
آج جدید تحقیق سے یہ ثابت ہو چکی ہے کہ ’ النُّعَاسَ‘ یا غنودگی کا ایک جھونکا ذہنی دباؤ stress / tension اور بلڈ پریشر (BP) کم کرکے انسان کو ہشاش بشاش کر دیتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
1.9.3نمبر 3۔۔۔ اَلْنَّوْمُ یا گہری اور بے خبری کی نیند:
یہ نیند کی تیسری کیفیت و قسم ہے اور عرف عام میں عربی کا یہی لفظ نیند کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ دنیا و ما فیھا سے بے خبر ہو کر گہری نیند سونے کو ’ اَلْنَّوْمُ ‘ کہتے ہیں۔ قرآن میں ’ اَلْنَّوْمُ ‘ کی تعریف ذیل کی آیتوں میں کی گئی ہے:
وَجَعَلْنَا نَوْمَكُمْ سُبَاتًا ﴿٩﴾ سورة النبإ
’’ اور ہم نے تمہاری نیند کو آرام کا سبب بنایا‘‘
وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ لِبَاسًا وَالنَّوْمَ سُبَاتًا وَجَعَلَ النَّهَارَ نُشُورًا ﴿٤٧﴾ سورة الفرقان
’’ اور وہی ہے جس نے تمہارے لئے رات کو پوشاک (کی طرح ڈھانک لینے والا) بنایا اور نیند کو (تمہارے لئے) آرام (کا باعث) بنایا اور دن کو (کام کاج کے لئے (اٹھ کھڑے ہونے کا وقت بنایا ‘‘

’ سُبَاتَ‘ کے معنی ہیں حرکت و عمل چھوڑ کر دنیا و ما فیھا سے بے خبر ہو کر آرام کرنا اور ایسا گہری نیند میں ہی ممکن ہے۔
لہذا ساری دنیا اسی ’ اَلْنَّوْمُ ‘ کی کیفیت میں یعنی دنیا و ما فیھا سے بے خبر ہو کر گہری نیند سوتی ہے سوائے اللہ کے متقی و پرہیزگار بندوں کے جنہیں رات کو عبادت کرنے کی فکر بے فکری کی نیند سونے نہیں دیتی ‘جس کا بیان نیند کی خصوصی اقسام میں کیا گیا ہے۔
آیت الکرسی میں اپنی صفاتِ عالیہ بیان کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے نیند کی پہلی کیفیت ’ اَلْسِنَةٌ ‘ اور آخری کیفیت ’ اَلْنَّوْمُ ‘ کو بیان کرکے اپنے آپ کو نیند کی ہر قسم سے پاک قرار دیا ہے اور خالق (اللہ ) کیلئے یہی لائق ہے:
اللَّ۔هُ لَا إِلَ۔ٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ۚ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ۚ ….. آیت الکرسی
’’ اﷲ‘ اس کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں، ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے، (سارے عالم کو اپنی تدبیر سے) قائم رکھنے والا ہے، نہ اس کو اُونگھ آتی ہے اور نہ نیند ‘‘….. آیت الکرسی

1.9.4نمبر 4۔۔۔ خواب دیکھنے والی نیند:
نیند کی چوتھی قسم اور کیفیت وہ ہے جس میں انسان خواب دیکھتا ہے۔ انسان کبھی نیند کی حالت میں بہت سی ایسی چیزیں دیکھتا ہے جو بیداری اورجاگنے کی حالت میں نہیں دیکھ سکتا۔ عرف عام میں اس کو خواب کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ بعض مسلم اسکالرز کے مطابق ’’ نیند کے دوران روح جسم سے نکل کر عالم علوی اور عالم سفلی میں سیرکرتی ہے اور جو جاگنے میں نہیں دیکھ سکتی وہ دیکھتی ہے‘‘۔ خواب میں کبھی پُر مسرت اور کبھی خوفناک حالات و کیفیات ذہن میں ابھرتی ہیں جس کی اکثر بیداری کے ساتھ ساتھ یکلخت مٹ جاتی ہیں لیکن بعض یاد بھی رہتی ہیں اور بعض خواب سچے بھی ثابت ہوتے ہیں۔
قرآن اور حدیث میں خوابوں کا تفصیلاً ذکر ہے۔
قرآن میں اللہ سبحانہ و تعالٰی نے حضرت ابراہیمؑ‘ حضرت یوسفؑ اور ہمارے پیارے نبی اکرم ﷺ کی خوابوں کا ذکر کیا ہے۔
حضرت ابراہیمؑ کے خواب کے بارے میں اللہ تعالٰی نے فرمایا:
قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا ۚ إِنَّا كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ﴿١٠٥﴾ سورة الصافات
’’ تم نے (اپنے) خواب کو سچ کر دکھایا بے شک ہم نیکوکاروں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں ‘‘۔
اور اسی طرح ہمارے پیارے نبی ﷺ کے ایک خواب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
قَدْ صَدَقَ اللَّ۔هُ رَسُولَهُ الرُّؤْيَا بِالْحَقِّ ۖ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِن شَاءَ اللَّ۔هُ آمِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لَا تَخَافُونَ ۖ_﴿٢٧﴾سورة الفتح
’’ بے شک الله نے اپنے رسول کا خواب سچا کر دکھایا کہ اگر الله نے چاہا تو تم امن کے ساتھ مسجد حرام میں ضرور داخل ہو گے اپنے سر منڈاتے ہوئے اور بال کتراتے ہوئے بے خوف و خطرنڈر ہو کر‘‘_
حضور نبی اکرمﷺ نے خواب کی اقسام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’ خواب تین طرح کے ہوتے ہیں، سچا و نیک خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت ہوتا ہے، دوسری قسم آدمی اپنے نفس سے ہی گفتگو کرے، تیسری قسم شیطان کی طرف سے ڈرانا ہے‘‘۔(حاکم، المستدرک)
اور آپ ﷺنے یہ بھی فرمایا :’’ نیک خواب نبوت کے چھیالیسویں حصوں میں سے ایک ہے‘‘۔ بخاری
اور یہ بھی فرمایا : ’’ وہ خواب جو سحری کے وقت رات کے پچھلے پھر آتے ہیں وہ دیگر خوابوں کے مقابلے میں زیادہ سچے ہوتے ہیں‘‘۔ ترمذي
خواب کے بارے میں فی الحال اتنا ہی کیونکہ ہمارا اصل موضوع خواب نہیں بلکہ نیند اور نیند کی کیفیات واقسام بیان کرناہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
اب قرآن کے مطابق نیند کی خصوصی اقسام جاننے سے پہلے نیند پر جدید تحقیقی اقسام کا جائزہ لیتے ہیں۔

1.10 جدید سائنسدانوں نے نیند کو پہلے دو اقسام میں تقسیم کیا ہے

پہلا: تیز حرکتِ چشم نیند (Rapid Eye Movement sleep -REM)
دوسرا: بغیر تیز حرکتِ چشم کے نیند (Non Rapid Eye Movement sleep -NREM)

پھر بغیر تیز حرکتِ چشم کے نیند (NREM sleep) کے تین اقسام یا مرحلے ہیں:
اسٹیجN1 (NREM 1) ۔ ہلکی نیند ۔۔ بیداری سے نیند میں جانے کی عبوری عمل ہے۔ اس دوران انسان اونگھنے کے باوجود ماحول سے باخبر رہتا ہے۔
اسٹیجN2 (NREM 2) ۔ سست موج نیند ۔۔ اس مرحلے میں پٹھے ڈھیلے پڑ جاتے ہیں، دل آہستہ دھڑکتا ہے اور جسم کا درجہ حرارت اور فشارِخون (BP)کم ہو جاتا ہے۔ انسان آسانی سے بیدار ہو سکتا ہے۔
اسٹیجN3 (NREM 3) ۔ گہری سست موج نیند۔۔ نیند کی یہ کیفیت بہت گہری ہوتی ہے اور اس نیند سے کسی کو بیدار کرنا کافی مشکل ہوتا ہے۔ اگر جگایا جائے تو انسان کسی قدر بدحواس ہوتا ہے۔ اس نیند کے دوران جسم میں کچھ حرکت ہو سکتی ہے لیکن دماغ خا موش رہتا ہے۔ خون میں ہارمونز شامل ہوتے ہیں اور جسم دن بھر کی شکست و ریخت کے بعد اپنی مرمت کرتا ہے۔
تیز حرکتِ چشم نیند (Rapid eye movement sleep) یہ رات بھرمیں کئی مرتبہ وقوع پزیر ہوتی ہے اور تقریباً انسان کی نیند کے دورانیے کا پانچواں حصہ ہوتی ہے۔ آر ای ایم نیند کے دوران دماغ کافی مصروف ہوتا ہے ‘ پٹھے بالکل ڈھیلے پڑ جاتے ہیں‘ آنکھیں تیزی سے دایئں با یئں حرکت کرتی ہیں۔ آر ای ایم نیند کے دوران انسان کئی خواب دیکھتا ہے اور رات کے آخری حصے میں خوابوں کا تسلسل زیادہ ہوتا ہے لیکن کبھی کبھار ہی اسے کوئی خواب یاد رہ جاتا ہے۔
قرآن اور جدید تحقیق کی بنیاد پر نیند میں مطابقت:
اسٹیج (NREM 1) N1 اَلْسِنَةٌ یا اونگھ سے مطابقت رکھتی ہے۔
اسٹیجN2 (NREM 2)لنُّعَاسَ یا غنودگی سے مطابقت رکھتی ہے۔
اسٹیجN3 (NREM 3)اَلْنَّوْمُ یا گہری نیند سے مطابقت رکھتی ہے۔
اسٹیج R (REM) خواب دیکھنے والی نیند سے مطابقت رکھتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
قرآن میں نیند کی دو خصوصی اقسام کا ذکر ہےجس کے بارے میں جدید سائنس کے پاس کوئی توضیح نہیں۔

1.11 نیند کی خصوصی اقسام درج ذیل ہیں:

1.11.1 خصوصی نیند ۔۱ ۔۔۔ اَلْھُجُوْعُ یا رات کو عبادت کیلئے کم سونا:
’ اَلْھُجُوْعُ ۔۔۔ رات کو عبادت کیلئے کم سونا ‘ نیند کی ایک خصوصی (اسپیشل) قسم ہے جو اللہ کےمخصوص و محبوب ‘ متقی و پرہیزگار اور عبادت گزار بندوں کی رات کی نیند کی کیفیت ہے۔حب الٰہی اور خشیتِ الٰہی سے سرشار بندے ’ اَلْھُجُوْعُ ‘ کی نیند سوتے ہیں یعنی بے خبری کی نیند نہیں سوتے بلکہ رات کو اُٹھ اُٹھ کر اللہ کی عبادت کرتے ہیں‘ تہجد کا اہتمام کرتے ہیں‘ نمازِ فجر باجماعت ادا کرتے ہیں اور اللہ سے دعا و استغفار کرتے ہیں جن کی تعریف کرتے ہوئے اللہ تعالٰی نے فرماتے ہیں:
كَانُوا قَلِيلًا مِّنَ اللَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ ﴿١٧﴾ وَبِالْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ ﴿١٨﴾ سورة الذاريات
’’ وہ (عبادت میں مشغول رہنے کے سبب) رات کو بہت کم سوتے تھے‘ اور سحر کے وقت استغفار کیا کرتے تھے ‘‘
بے خبری کی نیند سونے کے بجائےرات کو اُٹھ کر سجود و قیام کرنے والوں کواللہ تعالٰی عباد الرحمٰن کہتے ہیں:
وَعِبَادُ الرَّحْمَ۔ٰنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا ﴿٦٣﴾ وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِيَامًا ﴿٦٤﴾ سورۃ الفرقان
’’ رحمان کے (سچے) بندے وہ ہیں جو زمین پر نرم چال (عاجزی سے)چلتے ہیں اور جاہل ان کے منہ کو آئیں تو کہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام ۔ اور جو اپنے رب کے سامنے سجدے اور قیام کرتے ہوئے راتیں گزار دیتے ہیں ‘‘
عبادت کیلئے رات کم سونے والے بندے ہی علم و عقل والے اور دیگر افراد کے بالمقابل بلند مقام و مرتبہ والے ہیں:
أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّيْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَيَرْجُو رَحْمَةَ رَبِّهِ ۗ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ ۗ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ ﴿٩﴾ سورة الزمر
’’ بھلا جو شخص رات کی گھڑیوں میں کبھی سجدہ کرکے اور کبھی قیام کرکے اللہ کی عبادت کرتا ہے اور (اس کے باوجود) آخرت سے ڈرتا ہے اور اپنے پروردگار کی رحمت کا امیدوار ہے؟ (تو کیا وہ شخص جو ایسا نہیں ہے یکساں ہو سکتے ہیں؟ (کہیے کیا علم والے اور جاہل برابر ہو سکتے ہیں؟ بے شک نصیحت تو صرف صاحبانِ عقل ہی حاصل کرتے ہیں‘‘ ..
عرف عام میں رات میں بیدار رہ کر نماز پڑھنے کو ’ تہجد ‘ کہتے ہیں۔ لیکن ’ تہجد ‘ کے معنی بیدار ہونا اور رات میں سونا بھی ہے ۔ جیسا کہ ذیل کی قرآنی آیتوں سے ثابت ہے:
وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَىٰ أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا ﴿٧٩﴾ سورة الإسراء
’ اور رات کے کچھ حصہ (پچھلے پہر) میں قرآن کے ساتھ بیدار رہیں (نمازِ تہجد پڑھیں) یہ آپ کے لئے اضافہ ہے۔ عنقریب آپ کا پروردگار آپ کو مقامِ محمود پر فائز کرے گا ‘‘
بے شک ’ اَلْھُجُوْعُ ‘ ۔۔۔ عبادت کیلئے کم سونا ‘ نہایت مشقت طلب ہے اور نفس پر بہت گراں بھی ہے۔اسی لئے اللہ تعالٰی نے اپنے پیارے نبی ﷺ اور دیگر مومنیں کیلئے اس میں آسانی کیلئے فرمایا:
يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ ﴿١﴾ قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا ﴿٢﴾ نِّصْفَهُ أَوِ انقُصْ مِنْهُ قَلِيلًا ﴿٣﴾ أَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا ﴿٤﴾ سورة المزمل
’’ اے میرے چادر لپیٹنے والے (رسولﷺ)‘ آپ رات کو (نماز میں) قیام فرمایا کریں مگر (پوری رات نہیں بلکہ) تھوڑی رات‘ یعنی آدھی رات یا اس میں سے بھی کچھ کم کر دیں۔ یا اس پر کچھ زیادہ کر دیں اور قرآن خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کریں ‘‘
إِنَّ رَبَّكَ يَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُومُ أَدْنَىٰ مِن ثُلُثَيِ اللَّيْلِ وَنِصْفَهُ وَثُلُثَهُ وَطَائِفَةٌ مِّنَ الَّذِينَ مَعَكَ ۚ وَاللَّ۔هُ يُقَدِّرُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ ۚ عَلِمَ أَن لَّن تُحْصُوهُ فَتَابَ عَلَيْكُمْ ۖ فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ ۚ عَلِمَ أَن سَيَكُونُ مِنكُم مَّرْضَىٰ ۙ وَآخَرُونَ يَضْرِبُونَ فِي الْأَرْضِ يَبْتَغُونَ مِن فَضْلِ اللَّ۔هِ ۙ وَآخَرُونَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّ۔هِ ۖ فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ ۚ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَقْرِضُوا اللَّ۔هَ قَرْضًا حَسَنًا ۚ وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنفُسِكُم مِّنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِندَ اللَّ۔هِ هُوَ خَيْرًا وَأَعْظَمَ أَجْرًا ۚ وَاسْتَغْفِرُوا اللَّ۔هَ ۖ إِنَّ اللَّ۔هَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿٢٠﴾ سورة المزمل
’ بے شک آپ کا رب جانتا ہے کہ آپ اور جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں (کبھی) دو تہائی رات کے قریب اور (کبھی) آدھی رات اور (کبھی) تہائی رات سے (نماز تہجد) میں کھڑے ہوتے ہیں اور الله ہی رات اور دن کا اندازہ کرتا ہے اسے معلوم ہے کہ تم اس کو نباہ نہیں سکتے سو اس نے تم پر رحم کیا پس پڑھو جتنا قرآن میں سے آسان ہو اسے علم ہے کہ تم میں سے کچھ بیمار ہوں گے اور کچھ اور لوگ بھی جو الله کا فضل تلاش کرتے ہوئے زمین پر سفر کریں گے اورکچھ اور لوگ ہوں گے جو الله کی راہ میں جہاد کریں گے پس پڑھو جو اس میں سےآسان ہو اور نماز قائم کرو اور زکوةٰ دو اور الله کو اچھی طرح (یعنی اخلاص سے) قرض دو اورجو کچھ نیکی آگے بھیجوگے اپنے واسطے تو اس کو الله کے ہاں بہتر اور بڑے اجر کی چیز پاؤ گے اور الله سے بخشش مانگو بے شک الله بخشنے والا نہایت رحم والا ہے‘‘
افسوس! آج مسلمانوں کی اکثریت لہو لعب‘ ڈرامے‘ فلم‘ کھیل کود اور نیٹ سرفنگ وغیرہ کیلئے رات جاگ سکتی ہے لیکن اللہ کی عبادت کیلئے وقت پر سونا اور رات کو جاگنا بھاری ہے۔ اب تو اکثریت پنجگانہ نماز ہی نہیں پڑھتی چہ جائکہ رات کو تہجد اور فجر باجماعت کا اہتمام کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
1.11.2خصوصی نیند ۔۲ ۔۔۔ اَلرُّقَادُ یا طویل مدت کی خوشگوار نیند:
’ اَلرُّقَادُ ‘ ۔۔ سے طویل نیند بھی مراد ہے اور خوشگوار ہلکی سی نیند بھی۔ اصل لفظ ’ رَقَدَ ‘ ہے۔ ’ رَاقِدٌ ‘ بہت سونے والا اور ’ رَاقِدٌ ‘ کا جمع ’ رُقُودٌ ‘ ہے۔
سورہ کہف میں اصحابِ کہف کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالٰی فرماتے ہیں:
وَتَحْسَبُهُمْ أَيْقَاظًا وَهُمْ رُقُودٌ ۚ وَنُقَلِّبُهُمْ ذَاتَ الْيَمِينِ وَذَاتَ الشِّمَالِ ۖ …. ﴿١٨﴾ سورة الكهف
’’ آپ خیال کرتے کہ وه بیدار ہیں، حالانکہ وه سوئے ہوئے تھے، خود ہم ہی انہیں دائیں بائیں کروٹیں دلایا کرتے تھے ‘‘….
اللہ سبحانہ و تعالٰی نے اصحابِ کہف کو 309 سال کی لمبی اور گہری نیند سلانے کے باوجود ان پر ’ رُقُودٌ ‘ کی اصطلاح استعمال کرکے بتا دیا ہے کہ ان کی نیند لمبی اور گہری ہونے کے باوجود خوشگوار تھی۔
اور ان کی نیند کو خوشگوار بنانے کیلئے اللہ تعالٰی نے سارے انتظامات کئے تھے۔ جیسے
<<< ان کے کانوں پر پردہ ڈال دینا تاکہ وہ شور شرابہ سے بچ کر لمبی نیند سوتے رہیں۔ آیت: 11
<<< دائیں بائیں کروٹ دلاتے رہنا تاکہ جسم میں بیڈ سور bedsoreوالی زخم نہ ہوجائے۔ آیت:18
<<< غار کے دہانے پر ہاتھ پھیلائے کتا چوکیدار کی طرح بیٹھا دینا تاکہ کوئی ان کی نیند میں خلل نہ ڈالے۔ آیت:18
<<< سورج کا غار سے دائیں بائیں ہوکر گزر جانا تاکہ سورج کی روشنی اور تمازت سے محفوظ رہ کر میٹھی نیند کی مزے لیتے رہیں۔ آیت:17
<<< غار کے اندر ایک وسیع اور کشادہ جگہ پر سلانا تاکہ ہوا کا گزر ہوتا رہے۔۔ ۔ آیت:17​
آج ’ کوما ‘ یا فالج کی وجہ کر بستر یا وہیل چیئر پر پڑے مریض کو اگر سورہ کہف میں بیان کردہ ان ہی اصولوں کے تحت کشادہ ہوا دار جگہ پر رکھا جائے اور بار بار کروٹیں دلائی جائے تو بیڈ سور یعنی جلد کی پھوڑے کے مرض سے بچایا جاسکتا ہے۔
گزشتہ چند دہائیوں سے نیند کے بارے میں کافی تحقیقات ہوئی ہیں اور نیند کی ضرورت‘ پُرسکون نیند‘ نیند کی کمی و زیادتی اور نیند نہیں آنا وغیرہ کے بارے خاطر خواہ معلومات فراہم کئے گئے ہیں۔ جبکہ اسلام آج کی جدید تحقیق سے 1438 سال پہلے ہی نیند کے بارے میں اہم معلومات فراہم کر چکا ہے۔ جدید سائنسی تحقیقات بھی قرآن میں بیان کردہ نیند کے اقسام و کفیات سے مکمل ہم آہنگ ہیں۔ آج سے 1438 سال قبل ہمارے پیارے نبی ﷺ نے اچھی صحت کیلئے نیند کی اہمیت پر زور دیا جبکہ قرآن رات و دن کی تبدیلی کی حکمت و اہمیت بیان کرتا ہے۔
مسلمان صدیوں سے نبی کریم ﷺ کے بتائے ہوئے سونے کے مخصوص آداب و عادات اپنائے ہوئے ہیں۔ آج کی سائنسی تحقیقات بھی انسان کی پُرسکون نیند کیلئے ان ہی اسلامی طریقوں کو اپنانے کی تجاویز پیش کرتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
1.12 دن کی نیند یا قیلولہ:
دوپہر کےوقت تھوڑی دیر آرام کرنایاسونا قیلولہ کہلاتا ہے جو نبی اکرم ﷺ کی سنت ہے اور 1438 سال سے مسلمانوں میں رائج ہے جسے آج کے مغربی محققین سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
قیلولہ کا حکم قرآن اور متعدد صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ نبی اکرم ﷺ قیلولہ کیا کرتے تھے۔
قرآن میں ہے:
وَمِنْ آيَاتِهِ مَنَامُكُم بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَابْتِغَاؤُكُم مِّن فَضْلِهِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَسْمَعُونَ ﴿٢٣﴾ سورة الروم
’’ اور اُس کی نشانیوں میں سے تمہارا رات اور دن کو سونا اور تمہارا اس کے فضل کو تلاش کرنا ہے یقیناً اِس میں بہت سی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو(غور سے) سُنتے ہیں‘‘
اس آیت میں دن کی نیند سے مراد دوپہر کا قیلولہ ہے۔
اور حدیث نبوی ﷺ ہے:
’’ قیلولہ کیا کرو کیونکہ شیاطین قیلولہ نہیں کرتے‘‘۔ ( السلسلة الصحيحة للألباني:1647)
ایک اور حدیث میں ہے:
محمد بن کثیر، سفیان، ابوحازم ، سہل بن سعدؓ سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے بیان کیا کہ ’’ ہم جمعہ کی نماز کے بعد کھانا کھاتے اور قیلولہ کرتے تھے‘‘۔( صحیح بخاری ۔ جلد سوم ۔ اجازت لینے کا بیان ۔ حدیث 1232)
سائب بن یزید کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ جب دوپہر کو ہمارے پاس سے گزرتے تو فرماتے ’’ اُٹھو سو جاؤ ( قیلولہ کرو) باقی وقت شیطان کا ہے‘۔ (شعب الایمان ٴ۴۷۴۰،جلد۴ صفحہ ۱۵۲)۔

1.12.1قیلولہ کے فوائد د
قیلولہ کرنے سے لوگ ہشاش بشاش ہو جاتے ہیں اور دن کے بقیہ حصے میں لگن کے ساتھ کام کر سکتے ہیں۔ رات کو بہترین نیند نصیب ہوتی ہے‘ تہجد و نماز فجر کیلئے اُٹھنا اور صبح سویرے جاگنا آسان ہو جاتا ہے اور اگلے دن چستی سے کام کرنے میں مدد ملتی ہے ۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ دن کے سونے (قیلولہ) کے ساتھ رات کے قیام میں مدد پکڑو اور سحری کے کھانے سے دن کے روزے پر مدد پکڑو‘‘۔ ( یہ حدیث مرسل ہے)۔ (شعب الایمان ٴ۴۷۴۲،جلد۴ صفحہ ۱۵۲)۔

قیلولہ سے پیٹ‘ دل و دماغ کے مرض اور ہارٹ اٹیک و فالج کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔ قیلولہ خون کے نظام کو بہتر بناتا ہے اور ذہنی دباؤ و بلڈ پریشر میں کمی پیدا کرتا ہے جدید تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ قیلولہ ہر عمر میں فائدہ پہنچاتا ہے لیکن بچوں کے لئے قیلولہ زیادہ فائدہ مند ہے ، قیلولہ بچوں کی جسمانی و ذہنی نشو ونما کیلئے اکسیر ہے اور بچوں کو چاق چوبند رکھ کر اور ذہنی قوت بڑھا کر پڑھائی میں لگن اور تعلیم و یاد داشت میں استحکام پیدا کرتی ہے۔

1.12.2قیلولہ کی سائنسی اہمیت
آج جدید تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ دوپہر کے وقت(1:00-3:00 pm) انسانی جسم میں اتار چڑھاؤ (تغیریات) کا گہرا عمل ہوتاہے، اس یے زیادہ تر لوگوں پر نیند کا غلبہ ہوتا ہے۔ چناچہ اگر دوپہر کو کچھ دیر) کم از کم 20 منٹ( سویا جائے تو تھکاوٹ دور ہوجاتی ہے‘ جسم میں چستی اور راحت محسوس ہوتی ہے اور کام کرنے کی لگن‘ قوت و صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔ (Sleep Drive and Your Body Clock)
آج کی ترقی یافتہ اقوام قیلولہ پر ریسرچ کرکے اسے اپنا رہی ہیں۔ چائنا اور دیگرممالک میں دفتری اوقات میں ملازمین کو 30 منٹ قیلولہ کرنے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔
لیکن المیہ یہ ہے کہ آج مسلمانوں کی اکثریت دوسری سنتوں کی طرح قیلولہ کی سنت کو بھی چھوڑتی جارہی ہے کیونکہ مادیت پرستی کی اس دوڑ میں اول تو اکثریت کو قیلولہ کرنے کا وقت ہی نہیں ملتا دوئم جنہیں روزانہ یا جنہیں چھٹیوں کے دنوں میں وقت ملتا ہے تو وہ لوگ رات دیر تک جاگتے اور دوپہر تک سوتے رہتے ہیں‘ پھر قیلولہ کی سنت پر عمل کرنے کا سوال کیسا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
1.13 جمائی /جماہی یا ’ اَلتثاؤُبَ‘
جمائی یا جماہی نيند کی کوئی قسم نہیں لیکن نیند ہی کی جیسی ایک ناپسندیدہ کیفیت ہے جو نیند کی کمی‘ تھکاوٹ‘ بوریت‘ حواس کی کدورت ‘ نفس کی بوجھل پن یا پیٹ کے بھرے ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے جس کے نتیجے میں سوء فہم، سستی اور غفلت پیدا ہوتی ہے ۔ جماہی کے وقت جسم میں ذرا سا تناؤ آکر منہ کھل جاتا ہے اور شکل تبدیل ہو جاتی ہے۔ جمائی ایک قدرتی عمل ہونے کے باوجود اسلامی معاشرے میں ناپسندیدہ ہے‘اور اس ناپسندیدگی کی وجوہات وہی ہیں جس وجہ سے جمائی آتی ہے یعنی نیند کی کمی‘ تھکاوٹ‘ بوریت‘ حواس کی کدورت ‘ نفس کی بوجھل پن یا پیٹ کا زیادہ بھرا ہونا وغیرہ۔ اسلام انسان کو اعتدال میں رہنے کا درس دیتا ہے۔ اسلام نہیں چاہتا کہ کوئی بندہ نیند کی کمی کا شکار ہو‘ یا اپنے آپ کو حد سے زیادہ تھکا لے‘ یا کسی معاملے میں بوریت کا شکار ہو یا اتنا پیٹ بھر لے کہ اپنے نفس کو بوجھل کردے جس کی وجہ کر جمائی کا شکار ہو۔
اس لئے رسول اللہ ﷺ نے جمائی کو روکنے کا حکم دیا ہے‘ آپ ﷺ نے فرمایا:
’’ چھینک اللہ کی طرف سے اور جمائی شیطان کی طرف سے ہے۔ اگر کسی کو جمائی آئے تو اپنا ہاتھ منہ پر رکھ لے ‘‘۔(جامع ترمذی ۔ جلد دوم ۔ آداب اور اجازت لینے کا بیان ۔ حدیث 661)
ایک اور حدیث میں ہے:
’’ جب تم میں سے کسی کو نماز میں جماہی آئے تو جہاں تک ہوسکے اس کو روکے اس لیے کہ (اس وقت) شیطان اندر گھستا ہے ‘‘۔(صحیح مسلم : ۷۴۹۳)

آج جدید سائنسی تحقیق کہتی ہے کہ جمائی کے دوران بڑا سا منہ کھلنے سے ہوا میں موجود جراثیم براہ راست پھپیھڑوں میں داخل ہوتا ہے جو بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے۔ لہذا جمائی کو روکنے یا جمائی کے وقت میں منہ ڈھاک لینے سے انسان کئی بیماریوں سے بچ سکتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
1.13 نیند بھی اور عبادت بھی
اللہ سبحانہ و تعالٰی کی بخشش و کرم کی انتہا ہے کہ اس نے اپنے محبوب رسول ﷺ کے قول کی برکت سے ہماری نیند کو بھی عبادت بنا دیا ہے۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم آپ ﷺ کی صحیح اتباع کرتے ہوئے عشا اور فجر کی نمازیں باجماعت ادا کریں‘ جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا ہے:
’’ جس آدمی نے عشاء کی نماز جماعت سے پڑھی، گویا اس نے آدھی رات تک قیام کیا۔ اور جس نے عشاء اور فجر دونوں جماعت سے پڑھیں، اس نے گو یا پوری رات قیام کیا ‘‘۔(مسلم، کتاب المساجد، باب:46، حدیث رقم:656)
لیکن اس کے ساتھ یہ بھی وعید ہے کہ
’’ منافقوں کے لئے سب سے زیادہ دشوار نماز عشاء اور صبح کی نماز ہے۔ اور اگر انہیں معلوم ہوتا کہ ان نمازوں میں کتنا اجر وثواب ہے تو وہ گھٹنوں کےبل چل کر آتے‘‘۔(بخاری ،جلد اول کتاب الاذان ،حدیث نمبر623)
اب ان احادیث کی روشنی میں ہمیں اپنا محاسبہ کر نا چاہئے کہ کیا ہمارا شمار رات بھر قیام کرنے والے اللہ کے محبوب بندوں میں ہورہا ہے یا پھر منا فقوںمیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
1.14 جلدی سونا جلد بیدار ہونا
اسلام ٹائم منجمنٹ کا جو درس صدیوں پہلے دیا ہے وہ بے نظیر ہے۔ رات کو عشاء کے بعدجلدی سونا ‘ تہجد میں اٹھنا ‘ نماز فجرسے پہلے تھوڑا آرام کر لینا اور پھر نماز فجر ادا کرنا ‘اشراق تک ذکر اذکار میں مگن رہنا اور اشراق کی نفل نماز کے بعد دن کے کام کاج میں مشغول ہوجانا نبی کریم ﷺ کا معمول تھا۔ اسی سنت کو صحابہ کرام ؓ نے اپنایا اور امت مسلمہ صدیوں اس سنت پر کاربند رہی ہے۔
کیونکہ آپ ﷺ ’’ عشاء سے پہلے سونے کو اور اس کے بعد بات کرنے کو مکروہ خیال کرتے تھے‘‘۔ (صحیح بخاری ۔ جلد اول۔ نماز کے اوقات کا بیان۔ حدیث 546)
اور صبح کے بارے میں حکم الٰہی ہے:
وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوبِ ﴿٣٩﴾ سورة ق
’’ اور اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ طلوع آفتاب اور غروب سے پہلے تسبیح کیجئے‘‘

…أَقِمِ الصَّلَاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَىٰ غَسَقِ اللَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ ۖ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا ﴿٧٨﴾ سورة الإسراء
’’ آپ سورج ڈھلنے سے لے کر رات کی تاریکی تک نماز قائم فرمایا کریں اور نمازِ فجر کا قرآن پڑھنا بھی (لازم کر لیں)، بیشک نمازِ فجر کے قرآن میں (فرشتوں کی) حاضری ہوتی ہے (اور حضوری بھی نصیب ہوتی ہے)‘‘
اللہ تعالیٰ نے نماز فجر کا حکم کے ساتھ اس کی اہمیت بیان فرمایا ہے۔فجر کی نماز میں اور فجر کی نماز کے بعد قرآن کریم کی تلاوت سعادت کی بات ہے کیونکہ اس وقت میں فرشتوں کی حاضری ہوتی ہے جب اللہ کے بندے قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں تو فرشتے اللہ کے کلام کو غور سے سنتے ہیں ۔ لہذا مبارک و برکت کے مستحق ہیں وہ لوگ جنہیں یہ سعادت نصیب ہو تی ہے۔
کیونکہ آپ ﷺ نے دعا فرمائی:’’اے اللہ ! میری امت کو صبح میں برکت دیجئے ‘‘

اس کے علاوہ متعدد احادیث میں صبح جلد اٹھنے کی تلقین کی گئی ہے:

نبی ﷺ نے طلوع فجر کے وقت دو رکعت نماز پڑھنے کی شان کے بارے میں فرمایا کہ ’’ ان کو پڑھنا میرے نزدیک ساری دنیا سے زیادہ محبوب ہے‘‘۔ ( صحیح مسلم ۔ جلد اول ۔ مسافروں کی نماز اور قصر کے احکام کا بیان ۔ حدیث 1683)

حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺنے ارشاد فرمایا: ’’ اگر نمازِ عشاء اور نمازِ فجر سے پیچھے رہ جانے والوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ ان دونوں نمازوں کا کیا ثواب ہے تو وہ ان میں ضرور شرکت کریں اگرچہ گھٹنوں کے بل ہی آنا پڑے‘‘۔ ( مسند احمد ۔ جلد پنجم ۔ حدیث 1515)

اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ ’’جس آدمی نے صبح کی نماز پڑھی تو وہ اللہ کی ذمہ داری میں ہے‘‘۔ ( صحیح مسلم ۔ جلد اول ۔ مساجد اور نماز پڑھنے کی جگہوں کا بیان ۔ حدیث 1488)
اسی طرح حضرت عائشہ صدیقہ ؓسے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا : ’’نماز فجر کی دو رکعات پڑھنا دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے ان تمام سے بہتر ہے‘‘۔ ( صحیح مسلم ۔ جلد اول ۔ مسافروں کی نماز اور قصر کے احکام کا بیان ۔ حدیث 1682)

نماز عشاء اور نماز فجر کی اہمیت و فضائل پر مبنی سارے احادیث کا احاطہ اس مضمون میں نہیں کیا جاسکتا۔بس اتنا ضروری ہے کہ ہر مسلمان کو تہجد نہیں تو کم از کم نماز فجر کا اہتمام کرنے کیلئے رات کو عشاء بعد ہی سو جانا چاہئے۔ لہذا جو شخص نماز فجر کی فکر کرے گا وہ رات کو جلدی سوئے گا۔

رات کو جلد سونے اور صبح جلد بیدار ہونے کے دینی فوائد کے علاوہ دنیاوی فوائد بھی کم نہیں اور جدید تحقیق اس بارے میں ہر نئے دن کے ساتھ کئی نئی انکشافات کر رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
1.15 نیند کے معاملے میں افراط و تفریط
نیند کے معاملے میں آج مسلمانوں کی اکثریت افراط و تفریط کی روش اپنا رکھی ہےجبکہ اسلام انسان کو اعتدال پسندی کا درس دیتا ہے اور متوازن زندگی گزارنا سکھاتا ہے۔ اسلام دین فطرت اور مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اسلام نے انسان کے سونے جاگنے کے مکمل اصول و قواعد قانون فطرت کے مطابق وضح کر دیئے ہیں ۔ لہذا جو لوگ نیند کے معاملے میں اسلامی اصول و ضابطے پر کاربند رہیں گے دنیا و آخرت میں کامیاب ہوں گے اور جو رو گردانی کریں گے دنیا و آخرت میں ناکام و نامراد ہوں گے۔
آج جدید تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ ضرورت سے کم یا زیادہ سونا‘ دونوں ہی وقت سے پہلے موت کو دعوت دیتا ہے۔ اسی طرح رات دیر سے سونا اور سورج طلوع ہونے کے بعد بھی سوتے رہنا بے شمار بیماریوں کا موجب ہے۔سونے کے معاملے میں افراط و تفریط کی اس روش کے نقصانات کے بارے میں روزانہ نت نئے انکشافات ہورہے ہیں اور روزانہ ہی تحقیقی مضامین ویب سائٹس کی زینت بن رہی ہیں۔ اس لئے اس بارے میں زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں۔
جب تک بجلی ایجاد نہیں ہوئی تھی ساری دنیا فطری نیند سوتی تھی یعنی جلدی سوتی تھی اور جلدی اٹھتی تھی۔ کسی کو بے خوابی کی بیماری نہیں تھی۔کسی کو سونے کیلئے نیند کی گولیاں کھانے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ جبکہ آج مغربی ممالک میں ہر تین میں سے ایک فرد بے خوابی کے مرض میں مبتلا ہے ۔ سونے کیلئے نیند کی گولیاں کھانا اور منشیات کا استعمال کرنا معمول ہے ۔ www.sleepassociation.org/sleep/sleep-statistics
صرف 2015 میں امریکیوں نے 41 ارب امریکی ڈالرز (USD 41 billion) نیند کی ادویات میں خرچ کئے جبکہ سونے کیلئے منشیات پر خرچ کی گئی رقم اس سے کہیں زیادہ ہے۔
www.consumerreports.org/sleep/why-americans-cant-sleep
نیند کے معاملے میں افراط و تفریط کی روش کفران نعمت ہے اور اگر ہم مسلمانوں نے بھی یہی روش اپنائے رکھا تو وہ دن دور نہیں جب اہل مغرب کی طرح ہم سے بھی نیند کی قدرتی نعمت چھین لی جائے گی اور ہمیں بھی سونے کیلئے دواؤں کا سہارا لینا پڑے گا جس کا اثر ظاہر ہونا شروع ہو گیا ہے۔
لہذا ضروری ہے سونے جاگنے کے اسلامی اصول و ضوابط اپنائے جائیں اور دواؤں سے دور رہتے ہوئے دنیا و آخرت کی خیر و برکت اور کامیابی حاصل کی جائے۔

تحریر کنندہ: محمد اجمل خان
 
Top