سید علی رضوی
محفلین
نین سے اور نقاب سے نفرت
رخ پہ حائل حجاب سے نفرت
سب کو برباد کر دیا جس نے
کیجیے نا اس شراب سے نفرت
تم تو ہلکان کرکے جاؤ گے
ہے مجھے اضطراب سے نفرت
جس کی خوشبو مجھے نہیں ملتی
گل سے نفرت گلاب سے نفرت
رخ روشن سے دھوکے کھائے ہیں
ہے مجھے ماہ تاب سے نفرت
وہ جو مجھ پر برس نہیں سکتا
ہے مجھے اس سحاب سے نفرت