جہانزیب
محفلین
شعیب صفدر کے بلاگ پر مندرجہ ذیل تحریر پڑھی سوچا اس پر ایک عدد بحث ہو سکتی ہے تو محفل میں بحث کر لی جائے۔۔
کتنی شرم کی بات ہے کہ وزیراعظم شوکت عزیز کے ساتھ امریکہ کے سرکاری دورے پر جانے والے وفد کے کپڑے اتروار کر تلاشی لی گئی ۔ ساری اہم شخصیات تھیں ، تعلاقات بڑھانے گئے تھے یا خود کش حملہ کرنے، تلاشی کے لئے کتوں کا استعمال کیا گیا۔ خصوصی آلات کام میں لائے گئے، سب کو قطار میں کھڑا کر کے تلاشی لی گئی، شائد جسم کے کسی حصے میں بم چجپا رکھا ہو، شریف الدین پیرزادہ کتنی محترم شخصیت ہیں، خصوصا موجودہ حکمرانوں کے لئے تو وہ نعمت غیر مترقبہ ہیں اس طرح آنے والوں کو آئینی تحفظ فراہم کرنا انہیں کا دل گردہ ہے، آنکھ کا تارہ دل کا سہارا ہیں، مگر انہیں بھی نہ بخشا گیا، ایک نجی چینل نے تلاشی کی فلم دیکھا دی، اللہ معاف کرے، شریف الدین پیرزاد سمیت ٹاپ ٹین قطار باندھے کھڑے ہیں، شریف الدین پیرزادہ کی بار بار ٹوپی اتروائی جا رہی ہے، ٹوپی میں کیا چھپا تھا کیا بم یا راکٹ ٹوپی میں سما سکتے ہیں؟ پاکستانی بڑے ترقی یافتہ ہو گئے ہیں،ٹوپی میں چھپا کر لے جانے والے راکٹ اور بم ایجاد کر لئے ہیں مبادا ادھر ٹوپی اتاری ادھر نائن الیون جیسا کوئی اور حادثہ پیش آیا، پاکستانیوں پر اعتبار نہیں ، ٹاپ ٹین پر تو بالکل اعتبار نہیں مصلحت آمیزی میں اتحادی بنا رکھا ہے، اعتبار ہوتا تو اتنی بے عزتی کیوں کی جاتی، طارق عظیم حکومت کا “برین“ ہیں، برین واشنگ کے بعد ہی امریکہ لے جائے گئے تھے ، کتوں نے بھی انہیں سونگھا، کیا محسوس کرتے ہو گے، چلے تھے تعلقات بڑھانے، دلوں میں کدورت لے کر آئے، انہوں نے چپکے سے تلاشی کی فلم بنا لی، ایک امریکی جاسوس نے پوچھا “کیا کر رہے ہو“ جواب دیا “فلم بنا رہا ہوں۔پاکستان آؤ گے تو اسی قبیل کے کتوں سے اسی طرح تلاشی کے مراحل سے گزاریں گے، امریکی جاسوس ہنس کر چپ ہو رہا، ہنسا اس لئے کہ طارق عظیم نے مذاق اچھا کیا تھا، لاہوریا ہوتا تو کہتا “آپ بڑے مخولئے ہیں، اچھا مذاق کرلیتے ہیں “، چپ اس لئے ہو گیا کہ پاکستانی سرکاری دورے پے امریکہ آئے تھے، اتحادی ہونے کے ناطے سخت بات کہنا سفارتی آداب کے خلاف ہوتا، جو کچھ کیا گیا وہ بھی تو سفارتی آداب کے خلاف تھا لیکن بقول ہمارے شیخ رشید کے کہ یہ سب معمول کی کاروائی تھی ، اسلئے ٹاپ ٹین میں سے کسی کے ماتھے پر غیرت کا پسینہ نہ آیا، ٹھندے لوگ ہیں، ٹھنڈے ملک میں گئے تھے، اس لئے پسینہ آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، امریکیوں کے پاس بھی ، غیرت کا پسینہ نام کی کوئی چیز نہیں ، غیرت ہو گی تو پسینہ آئے گا نا۔۔۔۔۔۔۔! مادرپدر آزاد معاشرے میں غیرت کا کیا کام، قطار میں کھڑا کرکے تلاشی لینے کا مقصد ہی یہ تھا کہ سات سال کی “فرماں برداری“ اور جی حضوری کے بعد بھی غیرت کے جراثیم باقی ہیں تو امریکہ میں داخل ہونے سے قبل ختم ہو جائیں۔
تلاشی کا باعزت طریقہ بھی ہوسکتا تھا۔ طیارے میں سوار ہونے سے قبل یا طیارے کے لینڈ کرنے کے بعد طیارے ہی میں خصوصی آلات کے ذریعہ معلوم کرلیا جاتا کہ کسی اہم شخصیت کی جیب میں اسامہ یا ایمن الظواہری تو چھپے ہوئے نہیں ہیں، ایسا ممکن نہ تھا تو ٹاپ ٹین کو وی وی آئی پی لاؤنچ کے دروازے بند کر کے جامہ تلاشی بلکہ جامعات تلاشی لے لیتے، کسی کو اعتراض نہ ہوتا، زیر جامہ کو چھوڑ کر باقی سارے جامے اتار ے جاسکتے تھے، واپس آ کر ٹاپ ٹین امریکی دورے کے قصے سناتے تو ہر قصہ سے پہلے یہ فقرہ ضرور کہتے کہ اس میں پاجامے کا ذکر نہیں ہوگا، اب کیا سنائیں، اب تو ہر قصہ میں پاجامے اور زیرجامے کا ذکر بھرا پڑا، وی وی آئی پی شخصیات تھیں اتنی اہم شخصیات کے ساتھ یہ عامیانہ سلوک “تف ہے اے چرخ گردوں تف ہے“، ہمیں شرم نہیں آئی تھی تو امریکی ہی شرم کر لیتے، اپنے آپ کو مہذب ترین قوم سمجھتے ہیں، کہاں کی مہذب ترین قوم ہیں، رشتوں کی پہچان نہ سات سال سے قائم رشتہ داریوں کی قدر، چاروں کھونٹ چت ہو کر لیٹ جانے والے غلاموں کی بھی آخر کوئی عزت ہوتی، ہم کوئی گئے گزرے لوگ تھوڑی ہیں ذرا ہمارے ملک میں آکر ہماری قدر و منزلت اور “ ٹور“ دیکھیں، ہمارا گورنر یا وزیراعلٰی شہر میں نکل جائیں تو، گلیاں ہو جان سنحیاں وچ مرزا یار پھرے، والی کیفیت ہو جاتی ہے، ٨ (آٹھ) پولیس موبائلیں، چار پجیرو گاڑیاں اور دس بارہ دیگر لگثری کاروں کے جھرمٹ میں نکلتے ہیں، پوری سڑک پر ٹریفک یوں رک جاتا ہے، جیسے نبض کائنات رک گئی ہو، یہ وی وی آئی پی انتظامات ہوتے ہیں اسلئے کچھ نہیں کیا جاسکتا، ٹریفک جام ہوتا ہے تو اس پر معذرت کرنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی، کوئی ناراض ہوتا ہے تو اپنا سر کھائے دو روٹی (میسر آ جائے تو) زیادہ کھا کر مطمین ہو جائے، صدر یا وزیراعظم آ جائیں تو شہر میں کرفیو لگانا پڑتا ہے، ہر دس قدم پر کمانڈو یا رینجر کا سپاہی تعینات، بکتر بند گاڑیوں پر مشین گنیں چلنے کے لئے بے تاب ، گشت کرنے والی رینجر اور پولیس کی گاڑیوں میں موجود عملہ مستعد، آنے جانے والی گاڑیوں کے روٹ تبدیل سروس روڈ پر سے بھی گاڑیوں کا بھی صفایا، شاہراہ فیصل پر ایک دفتر کے نیچے گاڑی کھڑی کی، نیچے اترے گاڑی غائب دس گھنٹے کی پریشانی کے بعد گاڑی دوسری سڑک پر کھڑی ملی، کس سے فریاد کریں ، پولیس اہلکار شدید سردی میں ٢٠ گھنٹے تک ڈیوٹی پر کھڑے کھڑے جم گئے، ایک تو جان سے گیا، اڑتی اڑتی خبر ملی تھی دبا دی گئی، اہل خانہ کو بھاری معاوضہ دے کر چپ کردیا جائے گا، ایسے حکمرانوں اور ان کے قریبی وزیروں، مشیروں کے کپڑے اتروا کر تلاشی لینا کہاں کی شرافت اور تہذیب ہے، کچھ عرصہ قبل ایک وزیر بھولے بھٹکے امریکہ گئے تھے ان کے کپڑے اتروا کر تلاشی لی گئی، پاؤں میں صرف موزے رہ گئے تھے ، حکم ملا “یہ بھی اتاریں“ عرض کیا موزوں میں بم نہیں آسکتا، امریکی انٹیلی جینس افسر نے بگڑی ہوئی انگریزی میں کچھ کہا جس کا مفہوم یہ تھا کہ ہر چیز ممکن ہے اور پھر پاکستان تو تخریب کاروں کی “جنت“ رہا ہے، ابھی تک لوگ پکڑے نہیں جا سکے، تم لوگ ہر چیز کو ممکن بنا سکتے ہو اس لئے موزے بھی اتارو ، وزیر نے موزے اتارے، امریکی جاسوس نے موزوں کو جھاڑ کر دیکھا، کتوں سے سونگھنے کو کہا، کتوں نے موزوں کی بو سونگھنے سے انکار کر دیا، حکم عدولی پر “سرکاری کتے“ معطل ہو گئے، وزیر موصوف کو موزے واپس کر دیئے گئے، ٹاپ ٹین کی جیبوں کی تلاشی لی گئی، باربار تلاشی، بار بار تلاشی، یا اللہ کیا مصیبت ہے، کیا حکمران اور شہری ابھی تک امریکہ کی نظروں میں مشکوک ہیں۔۔۔
اور یوں چاہتے ہو تم مجھ سے
کیا بجھادوں چراغ ہستی بھی
مذاق کی بات نہیں، شرم کی بات ہے کہ ہمارے وزیر مشیر اور حکمران جو اپنے شہریوں کے لئے شیر بنے رہتے ہیں، امریکیوں کے سامنے بھیگی بلی بن کر قطار میں کھڑے ہو گئے۔ احتجاج کا یاک لفظ تک منہ سے نہ نکلا ، حضرت علامہ اقبال نے کہا تھا “حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے“ “سارے تیمور‘ کپڑے اتار کر تلاشی دینے کو تیار ہیں، اسے معمول کی کاروائی قرار دے کر مطمئن ہیں، کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے، کپڑے اتارنے کا شوق ہے تو پورا کیا جائے، اپنے ملک میں غریبوں کے کپڑے اتار دیتے ہیں، آنکھوں پر بندھی پٹیاں نہیں کھل سکیں، کتنا جھکو گے ، جتنا جھکا جا سکتا ہے اتنا ہی جھکا جائے نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ تن تیرا نہ من
طارق عظیم نے فلم بنا لی کہا کہ پاکستان آؤ گے تو یہی سلوک تمہارے ساتھ کریں گے۔ کیا واقعی۔۔۔۔۔۔۔؟ بجا کہتے ہو سچ کہتے ہو، پھر کہیو کہ ہاں کیوں ہو، یقین کیجئے اس بات کا یقین نہیں آیا، بش کا کتا “بڈی“ پاکستان آجائے تو اسے وی وی آئی پی پروٹوکول دیا جاتا ہے اس سے تو یہ تک نہیں پوچھا جاتا کہ اس کے والد محترم یا والدہ محترمہ کا نام کیا ہے، دراصل امریکی کتوں کے والد ایک سے زائد ہوتے ہیں اس لئے پاکستانی حکام ان سے اس قسم کی گستاخی کے مرتکب نہیں ہوسکتے، مبادا صدر بش کا بڈی ناراض ہو جائے اور بش سے شکایت کرکے حکمرانوں کا پاٹیہ گول کردے ، اس لئے امریکی کتے کو بھی بھرپور سفارتی پروٹوکول کے ساتھ طیارے سے باہر لایا جائے گا۔ اسے گلدستے پیش کئے جائیں گے، ریڈکارپٹ تقریب منعقد ہو گی ، حکام بالا سے تعارف کرایا جائے گا، ٹاپ ٹین اس کی خاطر مدارت میں آگے آگے ہو گے نمبر اسکور کرنے کا اس سے بہتر موقع اور کیا ملے گا، کس میں ہمت ہے کہ امریکی کتے کی جامہ تلاشی لے ( اس میں پاجامے کا ذکر نہیں ہو گا) روزانہ معمول ہے ہر روز کوئی نہ کوئی امریکی پاکستان میں براجمان ہوتا ہے اور ہم سراپا نیاز اس کی خدمت میں مصروف ہوتے ہیں، سارے تیمور اپنا لنگ چھپائے اپنی حمیت کے جنازے کو کندھا دیئے ہوئے ہیں، ایسے میں کیا کیا اور کیا کہا جا سکتا ہے۔
تحریر؛ “مشتاق سہیل“ ------------------------------بشکریہ؛ “نوائے وقت“
کتنی شرم کی بات ہے کہ وزیراعظم شوکت عزیز کے ساتھ امریکہ کے سرکاری دورے پر جانے والے وفد کے کپڑے اتروار کر تلاشی لی گئی ۔ ساری اہم شخصیات تھیں ، تعلاقات بڑھانے گئے تھے یا خود کش حملہ کرنے، تلاشی کے لئے کتوں کا استعمال کیا گیا۔ خصوصی آلات کام میں لائے گئے، سب کو قطار میں کھڑا کر کے تلاشی لی گئی، شائد جسم کے کسی حصے میں بم چجپا رکھا ہو، شریف الدین پیرزادہ کتنی محترم شخصیت ہیں، خصوصا موجودہ حکمرانوں کے لئے تو وہ نعمت غیر مترقبہ ہیں اس طرح آنے والوں کو آئینی تحفظ فراہم کرنا انہیں کا دل گردہ ہے، آنکھ کا تارہ دل کا سہارا ہیں، مگر انہیں بھی نہ بخشا گیا، ایک نجی چینل نے تلاشی کی فلم دیکھا دی، اللہ معاف کرے، شریف الدین پیرزاد سمیت ٹاپ ٹین قطار باندھے کھڑے ہیں، شریف الدین پیرزادہ کی بار بار ٹوپی اتروائی جا رہی ہے، ٹوپی میں کیا چھپا تھا کیا بم یا راکٹ ٹوپی میں سما سکتے ہیں؟ پاکستانی بڑے ترقی یافتہ ہو گئے ہیں،ٹوپی میں چھپا کر لے جانے والے راکٹ اور بم ایجاد کر لئے ہیں مبادا ادھر ٹوپی اتاری ادھر نائن الیون جیسا کوئی اور حادثہ پیش آیا، پاکستانیوں پر اعتبار نہیں ، ٹاپ ٹین پر تو بالکل اعتبار نہیں مصلحت آمیزی میں اتحادی بنا رکھا ہے، اعتبار ہوتا تو اتنی بے عزتی کیوں کی جاتی، طارق عظیم حکومت کا “برین“ ہیں، برین واشنگ کے بعد ہی امریکہ لے جائے گئے تھے ، کتوں نے بھی انہیں سونگھا، کیا محسوس کرتے ہو گے، چلے تھے تعلقات بڑھانے، دلوں میں کدورت لے کر آئے، انہوں نے چپکے سے تلاشی کی فلم بنا لی، ایک امریکی جاسوس نے پوچھا “کیا کر رہے ہو“ جواب دیا “فلم بنا رہا ہوں۔پاکستان آؤ گے تو اسی قبیل کے کتوں سے اسی طرح تلاشی کے مراحل سے گزاریں گے، امریکی جاسوس ہنس کر چپ ہو رہا، ہنسا اس لئے کہ طارق عظیم نے مذاق اچھا کیا تھا، لاہوریا ہوتا تو کہتا “آپ بڑے مخولئے ہیں، اچھا مذاق کرلیتے ہیں “، چپ اس لئے ہو گیا کہ پاکستانی سرکاری دورے پے امریکہ آئے تھے، اتحادی ہونے کے ناطے سخت بات کہنا سفارتی آداب کے خلاف ہوتا، جو کچھ کیا گیا وہ بھی تو سفارتی آداب کے خلاف تھا لیکن بقول ہمارے شیخ رشید کے کہ یہ سب معمول کی کاروائی تھی ، اسلئے ٹاپ ٹین میں سے کسی کے ماتھے پر غیرت کا پسینہ نہ آیا، ٹھندے لوگ ہیں، ٹھنڈے ملک میں گئے تھے، اس لئے پسینہ آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، امریکیوں کے پاس بھی ، غیرت کا پسینہ نام کی کوئی چیز نہیں ، غیرت ہو گی تو پسینہ آئے گا نا۔۔۔۔۔۔۔! مادرپدر آزاد معاشرے میں غیرت کا کیا کام، قطار میں کھڑا کرکے تلاشی لینے کا مقصد ہی یہ تھا کہ سات سال کی “فرماں برداری“ اور جی حضوری کے بعد بھی غیرت کے جراثیم باقی ہیں تو امریکہ میں داخل ہونے سے قبل ختم ہو جائیں۔
تلاشی کا باعزت طریقہ بھی ہوسکتا تھا۔ طیارے میں سوار ہونے سے قبل یا طیارے کے لینڈ کرنے کے بعد طیارے ہی میں خصوصی آلات کے ذریعہ معلوم کرلیا جاتا کہ کسی اہم شخصیت کی جیب میں اسامہ یا ایمن الظواہری تو چھپے ہوئے نہیں ہیں، ایسا ممکن نہ تھا تو ٹاپ ٹین کو وی وی آئی پی لاؤنچ کے دروازے بند کر کے جامہ تلاشی بلکہ جامعات تلاشی لے لیتے، کسی کو اعتراض نہ ہوتا، زیر جامہ کو چھوڑ کر باقی سارے جامے اتار ے جاسکتے تھے، واپس آ کر ٹاپ ٹین امریکی دورے کے قصے سناتے تو ہر قصہ سے پہلے یہ فقرہ ضرور کہتے کہ اس میں پاجامے کا ذکر نہیں ہوگا، اب کیا سنائیں، اب تو ہر قصہ میں پاجامے اور زیرجامے کا ذکر بھرا پڑا، وی وی آئی پی شخصیات تھیں اتنی اہم شخصیات کے ساتھ یہ عامیانہ سلوک “تف ہے اے چرخ گردوں تف ہے“، ہمیں شرم نہیں آئی تھی تو امریکی ہی شرم کر لیتے، اپنے آپ کو مہذب ترین قوم سمجھتے ہیں، کہاں کی مہذب ترین قوم ہیں، رشتوں کی پہچان نہ سات سال سے قائم رشتہ داریوں کی قدر، چاروں کھونٹ چت ہو کر لیٹ جانے والے غلاموں کی بھی آخر کوئی عزت ہوتی، ہم کوئی گئے گزرے لوگ تھوڑی ہیں ذرا ہمارے ملک میں آکر ہماری قدر و منزلت اور “ ٹور“ دیکھیں، ہمارا گورنر یا وزیراعلٰی شہر میں نکل جائیں تو، گلیاں ہو جان سنحیاں وچ مرزا یار پھرے، والی کیفیت ہو جاتی ہے، ٨ (آٹھ) پولیس موبائلیں، چار پجیرو گاڑیاں اور دس بارہ دیگر لگثری کاروں کے جھرمٹ میں نکلتے ہیں، پوری سڑک پر ٹریفک یوں رک جاتا ہے، جیسے نبض کائنات رک گئی ہو، یہ وی وی آئی پی انتظامات ہوتے ہیں اسلئے کچھ نہیں کیا جاسکتا، ٹریفک جام ہوتا ہے تو اس پر معذرت کرنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی، کوئی ناراض ہوتا ہے تو اپنا سر کھائے دو روٹی (میسر آ جائے تو) زیادہ کھا کر مطمین ہو جائے، صدر یا وزیراعظم آ جائیں تو شہر میں کرفیو لگانا پڑتا ہے، ہر دس قدم پر کمانڈو یا رینجر کا سپاہی تعینات، بکتر بند گاڑیوں پر مشین گنیں چلنے کے لئے بے تاب ، گشت کرنے والی رینجر اور پولیس کی گاڑیوں میں موجود عملہ مستعد، آنے جانے والی گاڑیوں کے روٹ تبدیل سروس روڈ پر سے بھی گاڑیوں کا بھی صفایا، شاہراہ فیصل پر ایک دفتر کے نیچے گاڑی کھڑی کی، نیچے اترے گاڑی غائب دس گھنٹے کی پریشانی کے بعد گاڑی دوسری سڑک پر کھڑی ملی، کس سے فریاد کریں ، پولیس اہلکار شدید سردی میں ٢٠ گھنٹے تک ڈیوٹی پر کھڑے کھڑے جم گئے، ایک تو جان سے گیا، اڑتی اڑتی خبر ملی تھی دبا دی گئی، اہل خانہ کو بھاری معاوضہ دے کر چپ کردیا جائے گا، ایسے حکمرانوں اور ان کے قریبی وزیروں، مشیروں کے کپڑے اتروا کر تلاشی لینا کہاں کی شرافت اور تہذیب ہے، کچھ عرصہ قبل ایک وزیر بھولے بھٹکے امریکہ گئے تھے ان کے کپڑے اتروا کر تلاشی لی گئی، پاؤں میں صرف موزے رہ گئے تھے ، حکم ملا “یہ بھی اتاریں“ عرض کیا موزوں میں بم نہیں آسکتا، امریکی انٹیلی جینس افسر نے بگڑی ہوئی انگریزی میں کچھ کہا جس کا مفہوم یہ تھا کہ ہر چیز ممکن ہے اور پھر پاکستان تو تخریب کاروں کی “جنت“ رہا ہے، ابھی تک لوگ پکڑے نہیں جا سکے، تم لوگ ہر چیز کو ممکن بنا سکتے ہو اس لئے موزے بھی اتارو ، وزیر نے موزے اتارے، امریکی جاسوس نے موزوں کو جھاڑ کر دیکھا، کتوں سے سونگھنے کو کہا، کتوں نے موزوں کی بو سونگھنے سے انکار کر دیا، حکم عدولی پر “سرکاری کتے“ معطل ہو گئے، وزیر موصوف کو موزے واپس کر دیئے گئے، ٹاپ ٹین کی جیبوں کی تلاشی لی گئی، باربار تلاشی، بار بار تلاشی، یا اللہ کیا مصیبت ہے، کیا حکمران اور شہری ابھی تک امریکہ کی نظروں میں مشکوک ہیں۔۔۔
اور یوں چاہتے ہو تم مجھ سے
کیا بجھادوں چراغ ہستی بھی
مذاق کی بات نہیں، شرم کی بات ہے کہ ہمارے وزیر مشیر اور حکمران جو اپنے شہریوں کے لئے شیر بنے رہتے ہیں، امریکیوں کے سامنے بھیگی بلی بن کر قطار میں کھڑے ہو گئے۔ احتجاج کا یاک لفظ تک منہ سے نہ نکلا ، حضرت علامہ اقبال نے کہا تھا “حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے“ “سارے تیمور‘ کپڑے اتار کر تلاشی دینے کو تیار ہیں، اسے معمول کی کاروائی قرار دے کر مطمئن ہیں، کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے، کپڑے اتارنے کا شوق ہے تو پورا کیا جائے، اپنے ملک میں غریبوں کے کپڑے اتار دیتے ہیں، آنکھوں پر بندھی پٹیاں نہیں کھل سکیں، کتنا جھکو گے ، جتنا جھکا جا سکتا ہے اتنا ہی جھکا جائے نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ تن تیرا نہ من
طارق عظیم نے فلم بنا لی کہا کہ پاکستان آؤ گے تو یہی سلوک تمہارے ساتھ کریں گے۔ کیا واقعی۔۔۔۔۔۔۔؟ بجا کہتے ہو سچ کہتے ہو، پھر کہیو کہ ہاں کیوں ہو، یقین کیجئے اس بات کا یقین نہیں آیا، بش کا کتا “بڈی“ پاکستان آجائے تو اسے وی وی آئی پی پروٹوکول دیا جاتا ہے اس سے تو یہ تک نہیں پوچھا جاتا کہ اس کے والد محترم یا والدہ محترمہ کا نام کیا ہے، دراصل امریکی کتوں کے والد ایک سے زائد ہوتے ہیں اس لئے پاکستانی حکام ان سے اس قسم کی گستاخی کے مرتکب نہیں ہوسکتے، مبادا صدر بش کا بڈی ناراض ہو جائے اور بش سے شکایت کرکے حکمرانوں کا پاٹیہ گول کردے ، اس لئے امریکی کتے کو بھی بھرپور سفارتی پروٹوکول کے ساتھ طیارے سے باہر لایا جائے گا۔ اسے گلدستے پیش کئے جائیں گے، ریڈکارپٹ تقریب منعقد ہو گی ، حکام بالا سے تعارف کرایا جائے گا، ٹاپ ٹین اس کی خاطر مدارت میں آگے آگے ہو گے نمبر اسکور کرنے کا اس سے بہتر موقع اور کیا ملے گا، کس میں ہمت ہے کہ امریکی کتے کی جامہ تلاشی لے ( اس میں پاجامے کا ذکر نہیں ہو گا) روزانہ معمول ہے ہر روز کوئی نہ کوئی امریکی پاکستان میں براجمان ہوتا ہے اور ہم سراپا نیاز اس کی خدمت میں مصروف ہوتے ہیں، سارے تیمور اپنا لنگ چھپائے اپنی حمیت کے جنازے کو کندھا دیئے ہوئے ہیں، ایسے میں کیا کیا اور کیا کہا جا سکتا ہے۔
تحریر؛ “مشتاق سہیل“ ------------------------------بشکریہ؛ “نوائے وقت“