شمشاد بھائی عوام یعنی 18 کڑوڑ پاکستانیوں کے بارے میں کچھ نہیں کہا آپ نے۔ عوام جو کہ آنکھیں بند کئے ہوئے ہے۔۔۔۔کچھ فرمائیں۔۔۔
عملی اقدامات ہم نہیں کر سکتے شمشاد بھائی۔ ہم آزاد نہیں ہیں۔۔قرضوں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔۔ سود کھاتے ہیں۔۔ اللہ سے کھلم کھلا جنگ لڑتے ہیں تو ہمارے ساتھ اللہ کی مدد نہیں اور جب اللہ کی مدد نہیں اور ساتھ ساتھ پیٹ بھی حرام کھا رہا ہو تو ہم کسی سے کیا جنگ لڑ سکتے ہیں یا کسی کا کیا بگاڑ سکتے ہیں۔۔
بے غیرت غیرت مند عوام کے لیئے۔۔۔۔ ۔۔
خَلق میں محشر بپا ہے اور تُو مصروفِ خواب
خُون میں ذِلّت کی موجیں کھا رہی ہیں پیچ و تاب
تیری غیرت کو خبر بھی ہے، کہ دشمن کا عتاب
تیری ماں بہنوں کی راہوں میں اُلٹتا ہے نقاب
اب تو زخمی شیر کی صورت بپھرنا چاہئے
یہ اگر ہمت نہیں، تو ڈوب مرنا چاہئے
دیکھ تو کتنی مُکدّر ہے، فضائے روزگار
کس طرح چھایا ہوا ہے، حق پہ باطل کا غبار
نرمِ یزدانی میں، رُوحِ اَہرمن ہے، گرمِ کار
مِیان سے باہر اُبل پڑ، اے علی کی ذوالفقار
نقشِ حق کو اب بھی او غافل! جَلی کرتا نہیں
اب بھی تقلیدِ حُسین ابن علی کرتا نہیں!
عزیز من ، یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ خود پہ لعنت بھیجنا یا دوسروں کو بلا وجہ بے غیرت کہنا ایک منفی رویہ ہے ۔ اس سے جہاں مایوسی کا اضہار ہوتا ہے وہیں اپ کی شخصیت بھی مسخ ہو جاتی ہے اس لئیے دونوں عمل بالترتیب مذہب اورمعاشرے کی نظر میں معیوب ہیں۔
آپ پرویز مشرف کے معتقد ہیں اور ہمیں آپ کی آزادی رائے کا مکمل احترام ہے لہذا بات وہیں تک محدود رکھیں گے کہ جہاں انہی مشرف صاحب کی حکومت میں پاکستان میں امریکی جارحیت کا عملی آغاز ہوا اور میں نہیں سمجھتا کہ آپ نے اُس وقت کبھی چند الفاظ اس کی مذمت کے لئیے لکھے ہوں۔
آج کے حکمران انہی مشرف صاحب کے رسوائے زمانہ این آر او کے تحت اس ملک میں وارد ہوئے اور مشرف ہی کی تیار کردہ امریکہ نواز پالیسی پر بڑی استقامت سے عمل کر رہے ہیں۔
جذباتیت صرف پاکستانیوں کا ہی نہی پورے بر صغیر کے باشندوں کا مسئلہ ہے اور ستم بالائے ستم یہ کہ ہم اسے مسئلہ نہیں سمجھتے اور اپنی بات دوسروں تک پہنچاتے وقت اس کا اکثر و بیشتر شکار ہو جاتے ہیں جس کے نتیجہ میں ہماری درست شکایت بھی ہمیں الٹی پڑ جاتی ہے اور ہم ہی قصور وار ٹھہرا دئیے جاتے ہیں۔
امریکی اور نیٹو جارحیت قابل مذمت اور بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔ کسی بھی ملک میں جارح غیر ملکی افواج کے ہاتھوں نہتے شہریوں اور غیر مقابل عساکرکا قتل جنگی جرم ہے اور ہمیں یہ بات بین الاقوامی منصفوں تک ایک بار نہیں بار بار پہنچانی ہے ، تحریر کے ذریعے یا احتجاج کے ذریعے ، لیکن ہر صورت لعنت ملامت اور اپنے ہی عوام پر تبرا بازی سے دور رہتے ہوئے۔
محفل کے دیگر معزز اہل علم بھی کسی موضوع پر قلم اٹھانے سے پہلے میری اس درخواست کو اپنے خیالات عالیہ میں بہت زیادہ نہیں بس تھوڑی سی جگہ عنایت کر دیا کریں تو بہت ساری غیر ضروری بحوث سے بچنے کی سبیل پیدا ہو سکتی ہے اور ان سے بچنے والا وقت اور توانائی ہم معاملات کی تحقیق و تدقیق پہ صرف کر کے زیادہ بہتر انداز میں اپنی بات کہنے اور دوسروں تک پہنچانے کے اہل ہو سکتے ہیں۔