نیٹ اور گیٹ ٹیسٹ سسٹم ختم

فخرنوید

محفلین
پاکستان کے موجودہ نظام تعلیم میں بھی درجنوں قسم کے لیول ہیں۔ ہر سٹیٹس کے لوگوں کے لئے الگ تعلیمی نظام ہے۔ اسی طرح ہر صوبے کے لئے بھی مختلف تعلیمی نظام اور مختلف تدریسی مواد ہے۔پنجاب کا تدریسی نظام اور تعلیمی نظام دیگر صوبوں کی نسبت کافی حد تک جدید تقاضوں کے برابر ہے۔ لیکن یہاں بھی کچھ ایسی چیزیں شامل کر دی گئی ہیں کہ حیرانی ہوتی ہے اس نظام تعلیم پر کہ یہ سب کیا ہے؟
پہلی جماعت سے پانچویں تک ہم صرف سکول کے امتحانات میں شامل ہو کر اگلی کلاس میں ترقی پا لیتے تھے۔ کچھ جگہ پر تو پانچویں کا بھی سرکاری امتحان دے کر اگلی کلاس میں ترقی ملتی تھی۔ لیکن زیادہ تر پرائیویٹ سکولوں میں ایسا کوئی نظام نہیں۔ جب حکومت نے مڈل کلاس کا امتحان لازمی قرار دیا کو وہ جو بچہ پاس کرے گا وہی نہم کلاس میں جا سکے گا تو یہ پرائیویٹ سکولوں کو قبول نہ ہوا اور وہ بھی ختم ہو گیا۔ اس کے بعد میٹرک کا امتحانی نظام آتا جس میں نہم اور دہم کا اب الگ الگ امتحان لیا جاتا ہے۔ اس کے بعد جو بچہ پاس ہوتا ہے وہ اگلی کلاس یعنی انٹرمیڈیٹ میں ترقی پاتا ہے۔ اور یہ ترقی صرف میٹرک کا امتحان پاس کرنے پر نہیں ملتی کیونکہ میٹرک کے امتحان پر انہیں یقین ہی نہیں ہوتا ہے۔ کہ بورڈ والوں نے نا جانے کیا چول ماری ہو۔ اس لئے پھر سے داخلہ ٹیسٹ کے نام پر بچوں کی قابلیت کو پرکھا جاتا ہے۔ جس میں کئی معصوم دل ٹوٹ جاتے ہیں۔ پھر اسی طرح بیچلر ڈگری اور ماسٹر ڈگری سے لے کر پی ایچ ڈی کی ڈگری کے لئے کئی امتحانات پاس کرنے کے بعد بھی یونیورسٹیوں کے امتحانی سسٹم کو رد کرتے ہوئے خود وہی یونیورسٹیاں نیٹ این اے ٹی ٹیسٹ کے نام پر طلبا سے نیا رزلٹ مانگ لیتی ہیں۔ اوہ اللہ کے بندو اگر آپ کو اپنے امتحانی طریقہ کار پر یقین نہیں ہے تو اس میں تبدیلی لاو اور اسے بہتر کرو۔ بجائے اس کے بچوں اور بوڑھوں سے بار بار مختلف امتحانات لو جس میں انہیں قابلیت دکھانی پڑے ۔”
نیٹ اور گیٹ ٹیسٹ سسٹم ختم
 

آدم

محفلین
میں آپ سے متفق ہوں فخر بھائی۔ ابھی میں نے انٹر میڈیٹ کا امتحان دیا ہے۔ اور اب اس کے بعد نیٹ کا امتحان دینا ہے۔ اب میں اللہ کے فضل و کرم سے حافظِ قرآن ہوں، اور اِس رمضان میں انشاللہ تراویح بھی پڑھانے کا ارادہ رکھتا ہوں ۔ اب میرے لیے کافی مشکل ہےکہ تراویح کی بھی تیاری کروں اور امتحان کی بھی۔ اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ اگر صرف ایک نیٹ کا ٹیسٹ ہی دینا پڑتا تو چلو خیر ہے، کوئی اتنی بڑی بات نہیں تھی مگر صرف نیٹ کا ہی ٹیسٹ نہیں دینا پڑتا بلکہ جو اچھی انجنیرننگ یونیورسٹیاں ہیں انھیں نیٹ کے ٹیسٹ پر بھی یقین نہیں اس لیے وہ خود اپنا علیحدہ ٹیسٹ لیتی ہیں۔ اب ایک اکیلی جان کدھر کدھر پوری ہو۔:sad:
چلیے آپ سب احباب سے اچھی دعاؤں کی امید رکھاتا ہوں۔
 

دوست

محفلین
ہائیکورٹ نے صرف اتنا کہا ہے کہ ایچ ای سی ایک نجی ادارے کی سرپرستی بند کرے۔ اپنے ایکٹ کے مطابق ایک "قومی" ٹیسٹنگ سروس قائم کرنے کے لیے کام کرے۔ اکتیس مئی کو ایچ ای سی کا معاہدہ نیشنل ٹیسٹنگ سروس سے ختم ہو گیا تھا اسے ری نیو نہیں کیا جائے گا۔ آج تک این ٹی ایس کی بنیاد پر کی گئی تقرریاں داخلے برقرار رہیں گے۔ آئندہ کے لیے یونیورسٹیاں، ادارے اور انسٹیٹیوٹ اس فیصلے کی روشنی میں اپنی صوابدید پر این ٹی ایس سے معاہدے ختم کرنے یا جاری رکھنے کے لیے آزاد ہوں گے۔
کسی کو چنگا لگے یا ماڑا، این ٹی ایس ایک ایسا ادارہ ہے جس کے ٹیسٹ میں کوئی جو مرضی کر لے نقل نہیں مار سکتا، دو نمبری نہیں کر سکتا، سفارش نہیں چلتی، پڑھ کر پاس ہونا پڑتا ہے جس کی اکثر عادت نہیں پائی جاتی۔
گریجویٹ اسیسمنٹ ٹیسٹ (سبجیکٹ) ایک ایسا ٹیسٹ ہے جس میں ستر فیصد متعلقہ سبجیکٹ ہوتا ہے اور یہ پی ایچ ڈی کے لیے لازمی تھا۔ اس سے نیچے کسی ٹیسٹ پر اعتراض ہو یا نہ ہو، اس پر بھی یار لوگوں کو اعتراض تھا۔
پچھلے دنوں گیارہ بائیس میں ترقیاں ہونی تھیں اور یہاں فیصل آباد میں اس کے لیے ٹیسٹ ہو رہا تھا۔ اس ٹیسٹ کا کیا فائدہ؟ کسی کو اعتراض کا موقع نہیں ملے گا کہ سفارش ہوئی ہے۔
ہر سسٹم کے برے اور اچھے پہلو ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب نہیں کہ اس کی بساط ہی لپیٹ دی جائے۔ جیسے ناظم نائب ناظم سسٹم کے ساتھ کیا گیا۔ اور اب اس پر بغلیں بج رہی ہیں۔
 

فخرنوید

محفلین

LAHORE HIGH COURT, LAHORE JUDGMENT IN WRIT PETITION NO. 28028/2011,

REGARDING STATUS OF NTS.
The LHC has passed final judgment dated 23.01.2014, in Writ Petition No. 28028/2011. It is held by the LHC, Lahore that NTS has not been approved by HEC to act as testing body under the HEC Ordinance, 2002 and the existing arrangements between NTS and HEC shall only continue till 30.05.2014 (cut of date) HEC shall not enter with NTS after the said cut of date. This gist of the LHC, Lahore judgment dated 23.01.2014 is reproduced for information of the public at large:
Gist of judgment dated 23.01.2014 of LHC, Lahore para 10 of the judgment.
10. In the light of the above background, HEC and NTS have arrived at the following consensus:
(i) That HEC will not sponsor or extend any patronage to NTS, as NTS is not an officially approved national testing service under the Ordinance
(ii) The Universities and other academic institutions recognized by HEC are not under any lawful obligation to conduct tests organized by NTS or be bound by the results of NTS in the matter of admissions or grant of scholarships\
(iii) HEC through proper channel, will propose an amendment in the Ordinance/Rules in order to provide a proper regulatory statutory framework for establishing, monitoring and supervising a “national testing service” Till such time that proper legislation is put in place, HEC will not initiate the process of selecting and appointing a national testing body under the Ordinance
(iv) NTS shall not hold itself out as an HEC approved “national testing service”. It may, however, continue operating as a private entity under the law, but shall not in any manner be taken to be an HEC approved entity.
(v) HEC will not enter into any fresh contract with NTS or any other entity unless and until NTS or any such entity has been duly approved by HEC under the Ordinance and in the manner described above
(vi) The existing contract/arrangement entered between NTS and the Universities/academic institutions may continue or may be reviewed by the respective Universities/academic institutions, as the case may be, in the light of this order
(vii) The existing arrangement between HEC and NTS shall only continue till 30.05.2014 (cut off date). HEC shall not enter into any arrangement/contract with NTS after the said cut off date.
11. Order accordingly./
12. HEC shall also ensure that the gist of this order is publically advertised so as to dispel the impression that NTS is a duly approved national testing body of HEC and will also duly intimate all the recognized Universities and academic institutions that admissions/scholarships will not be dependent on the test conducted by NTS after 30.05.2014. It will be the option of the University/academic institution to enter into an arrangement with NTS which will be no more than a private contractual arrangement under the law governing the said University/academic institution. HEC will also display this order on its website for the facilitation of the public.
13. It is observed that this order does not touch upon past and closed transactions, therefore admissions and scholarships already granted or refused on the basis of the tests conducted by NTS in the past will not be reopened by virtue of this order. It is once again reiterated that the existing arrangement between NTS and HEC shall continue till 30.05.2014. This order shall, therefore, have a prospective effect only.

تبصرے
 

جاسمن

لائبریرین
ہائیکورٹ نے صرف اتنا کہا ہے کہ ایچ ای سی ایک نجی ادارے کی سرپرستی بند کرے۔ اپنے ایکٹ کے مطابق ایک "قومی" ٹیسٹنگ سروس قائم کرنے کے لیے کام کرے۔ اکتیس مئی کو ایچ ای سی کا معاہدہ نیشنل ٹیسٹنگ سروس سے ختم ہو گیا تھا اسے ری نیو نہیں کیا جائے گا۔ آج تک این ٹی ایس کی بنیاد پر کی گئی تقرریاں داخلے برقرار رہیں گے۔ آئندہ کے لیے یونیورسٹیاں، ادارے اور انسٹیٹیوٹ اس فیصلے کی روشنی میں اپنی صوابدید پر این ٹی ایس سے معاہدے ختم کرنے یا جاری رکھنے کے لیے آزاد ہوں گے۔
کسی کو چنگا لگے یا ماڑا، این ٹی ایس ایک ایسا ادارہ ہے جس کے ٹیسٹ میں کوئی جو مرضی کر لے نقل نہیں مار سکتا، دو نمبری نہیں کر سکتا، سفارش نہیں چلتی، پڑھ کر پاس ہونا پڑتا ہے جس کی اکثر عادت نہیں پائی جاتی۔
گریجویٹ اسیسمنٹ ٹیسٹ (سبجیکٹ) ایک ایسا ٹیسٹ ہے جس میں ستر فیصد متعلقہ سبجیکٹ ہوتا ہے اور یہ پی ایچ ڈی کے لیے لازمی تھا۔ اس سے نیچے کسی ٹیسٹ پر اعتراض ہو یا نہ ہو، اس پر بھی یار لوگوں کو اعتراض تھا۔
پچھلے دنوں گیارہ بائیس میں ترقیاں ہونی تھیں اور یہاں فیصل آباد میں اس کے لیے ٹیسٹ ہو رہا تھا۔ اس ٹیسٹ کا کیا فائدہ؟ کسی کو اعتراض کا موقع نہیں ملے گا کہ سفارش ہوئی ہے۔
ہر سسٹم کے برے اور اچھے پہلو ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب نہیں کہ اس کی بساط ہی لپیٹ دی جائے۔ جیسے ناظم نائب ناظم سسٹم کے ساتھ کیا گیا۔ اور اب اس پر بغلیں بج رہی ہیں۔
شاکر بھائی! آپ کی بات بالکل درست ہے۔واقعی اس ٹیسٹ میں نقل کی گنجائش نشتہ۔میں نے ایم فل میں داخلہ کے شوق میں تین بار دیا۔ الحمداللہ تینوں بار کامیاب۔دعا کریں کہ ہماری یونیورسٹی ایم فل شروع کر دے۔۔۔۔۔۔
لیکن بجائے اپنے پہلے کے تعلیمی نظام کو درست کرنے کے متوازی دوسرا نظام متعارف کرانا میرے نزدیک درست نہیں۔
آپ نے صحیح کہا کہ اب یہ جامعات کی اپنی صوابدید پہ چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ گیٹ کو مانتی ہیں یا اپنا کوئی ٹیسٹ لیتی ہیں۔
 

فخرنوید

محفلین
یہی تو پا جی میں نے فرمایا ہے کہ یا تو اپنا امتحانی نظام درست کرو یا پھر نیٹ والوں کو ہی ٹیسٹ لینے دو لیکن طلبا کو تو بار بار امتحان میں نہ ڈالو۔ اپنی غلطیوں کی سزا طلبا کو کیوں دیتے ہو۔
 

دوست

محفلین
ایچ ای سی نے نیا مراسلہ جاری کر دیا ہے جس میں یونیورسٹیوں سے این ٹی ایس سے بذات خود معاہدہ کرنے، کوئی اور ٹیسٹنگ سروس ہائر کرنے یا خود انٹری ٹیسٹ لینے کو کہا گیا ہے. جبکہ اس دوران ایچ ای سی نیشنل ٹیسٹنگ سروس کی قانون سازی پر کام کر رہا ہے تاکہ تعلیمی نظام میں پڑنے والا یہ شگاف جلد از جلد پر ہو سکے.
 

فخرنوید

محفلین
اسی بات کی تو مجھے ہنسی آرہی ہے کہ انہیں کوالٹی چاہیے تو جو امتحانات یونیورسٹیاں لے رہی ہیں اس کے نتائج کی بنیاد پر میرٹ لسٹ بن جائے اور داخلہ ملے یا وظیفہ ملے۔ اگر انہیں اپنی یونیورسٹیوں کے امتحانی نظام سے کوالٹی نہیں مل رہی تو اسے ٹھیک کریں بجائے ایک چوکیدار کے اوپر دوسرا چوکیدار رکھنے کے۔
 

حسیب

محفلین
ہر چیز کے کچھ فائدے اور نقصانات ہوتے ہیں۔ اس ٹیسٹ کے فوائد بہرحال زیادہ ہی ہیں
سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہے کہ جن طالبعلموں کے نمبر کسی بھی وجہ سے کم آئیں تو اُن کے پاس ایک موقع اور ہوتا ہے کہ ٹیسٹ میں اچھے نمبر لے کر میرٹ میں آ سکتے ہیں
باقی جہاں تک ٹیسٹ کی تیاری کی بات ہے تو میرا نہیں خیال کہ کسی خاص تیاری کی ضرورت پڑتی ہے۔ عام طور پر 100 نمبروں کا ٹیسٹ ہوتا ہے جن میں پچاس نمبر متعلقہ مضمون کے ہوتے ہیں اب جس نے سمجھ کر پڑھا ہو تو اُس کے لیے 50 میں سے 40 نمبر لینا کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ اگر رٹا ہی مارا ہو تو پھر مشکل ہو سکتی ہے۔ باقی 20 نمبر انگلش اور 20 ریاضی کے ہوتے ہیں۔ ریاضی کے سوال جس طرح کے آتے ہیں وہ آٹھویں، نویں کا بچہ بھی کر لیتا ہے اب اگر کوئی انٹر اور بیچلر کر کے بھی نہیں کر سکتا تو اس کا اپنا قصور ہے۔ انگلش میں تو کسی کو اتنا مسئلہ نہیں ہوتا۔ باقی 10 نمبر لاجیکل سوالات کے ہوتے ہیں اس میں بھی تھوڑا سا دماغ لڑایا جائے تو حل ہو جاتے ہیں
 

فخرنوید

محفلین
جناب حسیب اگر کوئی دو سال جی لگا کر محنت کرتا ہے اور اچھے نمبر لے کر پاس ہو جاتا ہے۔ پھر کسی وجہ سے اس میں کامیابی نہ حاصل کر سکے اس کا کیا قصور ہے کہ وہ بار بار پرکھا جائے۔
 
Top