نیکی اور بدی (ماخوذ از حکایاتِ سعدی) از محمد خلیل الرحمٰن

ایک مزید نظم محفلین کی آراء اور اصلاح کے لیے پیشِ خدمت ہے!

نیکی اور بدی

محمد خلیل الرحمٰن


شیخ سعدی کی حکایت سے ماخوذ

شیخ سعدی ایک دن مسجد میں بیٹھے تھے کہیں
پاس اُن کے اِک عرب کا حکمراں آیا وہیں

ظلم اُس کا تھا وطیرہ، جس میں وہ مشہور تھا
رحم و ہمدردی سے گویا وہ بہت ہی دور تھا

پہلے دوگانہ نماز اس نے پڑھی، اور کی دُعا
حضرتِ سعدی کو جب دیکھا تو یوں کہنے لگا

اے خدا کے نیک بندے، رحم مجھ پر کھائیے
کچھ توجہ مجھ پہ کیجے اور دُعا فرمائیے

آج کل دشمن کا خطرہ ہے مجھے، اُلجھن میں ہوں
کِس طرح اس سے بچوں، فرمائیے میں کیا کروں

حضرتِ سعدی نے اُس کی بات سُن کر یوں کہا
اپنی بے کس قوم پر تُو بھی ذرا سا رحم کھا

جب بدی کا بیج بویا، حاصل اس کا ہے بدی
اِن بُرے کاموں پہ نیکی مِل سکے گی کیا کبھی؟
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اپنی بے کس قوم پر تُو بھی ذرا سا رحم کھا
اس مصرع کا بیانیہ ۔بھی۔ کی وجہ سے داستان کے بیانیے سے کچھ غیر موافق سا لگ رہا ہے مجھے ۔ بھی (بلکہ تو بھی) کےبغیر مصرع کہیں تو بہتر ہو گا۔ جیسے
اپنی بے کس قوم پر ظالم ذرا تو رحم کھا۔ تجھ پہ لازم ہے کہ اپنی قوم پر کچھ رحم کھا ۔ وغیرہ ۔
مسجد والے مصرع میں ۔کہیں۔ کی جگہ ۔کسی۔ ہو تو بہتر ہے ،لیکن پھر قافیہ بی درست ہو نا چاہیئے ۔
باقی خوب ترجمانی کی ہے سعدی کی ۔ عمدہ نظم ہے ۔خلیل بھائی ۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب! اچھا منظوم کیا ہے خلیل بھائی! بہت داد
پہلے شعر میں اک عرب کا حکمراں اگر کسی طرح عرب کا اک حکمراں کردیا جائے تو یہ ناگوار تعقید دور ہوجائے گی ۔ میری رائے میں پہلا شعر ہمیشہ اچھا ہونا چاہیے ۔
 

سیما علی

لائبریرین
جب بدی کا بیج بویا، حاصل اس کا ہے بدی
اِن بُرے کاموں پہ نیکی مِل سکے گی کیا کبھی؟
بھیا ڈھیر ساری داد و تحسین اُسکے قاری بھی ہم نے یاسم عباس زیدی کو بنا دیا ۔۔وطیرہ سمجھنے میں اُنکو مشکل نہ ہوئی کیونکہ دادی سے بہت پیار کرتے ہیں تو فوراً کہنے لگے نانو یہ تو دادی جان بابا کو اکثر کہتی تھیں اور اُن سے اُسکے معنی بھی پوچھ چکے تھے اسی لئے فوراً بولے دیکھیں ہمیں مشکل لفظ کے معنی بھی آتے ہیں اور یہ چلن اور عادت کے لئے ہے ہم بہت خوش ہوئے ہم نے بتایا کہ انکل کو ہم نے بتایا کہ آپ نے امتحان میں اباس لکھا تو منہ بنا رہے تھے ؎نانو کیوں بتایا 😊😊
 
Top