نیکی کا حکم دینا / برائی سے روکنا

باذوق

محفلین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا دین کا قطب اعظم ہے !

اسی کام کے لئے اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کو مبعوث فرمایا۔
( حوالہ : احیاء علوم الدین [امام غزالی رحمہ اللہ] 307 / 2 )

قرآن و سنت میں متعدد آیات اور احادیث اس کی فرضیت پر دلالت کناں ہیں۔
(حوالہ : احکام القرآن للامام ابی بکر الجصاص رحمہ اللہ ، 486/2 )

اور تمام امت کا اس کی فرضیت پر اجماع ہے۔
( حوالہ : الفصل فی الملل و النحل للامام ابن حزم رحمہ اللہ 179 / 4 )

'' احتساب '' ... دین کی بنیادی باتوں میں سے ہے۔ دورِ اوّل کے خلفاء اس فریضے کے عمومی فائدے اور بہت زیادہ ثواب کی وجہ سے اس کو خود سر انجام دیتے تھے۔
( حوالہ : الاحکام السلطانیہ للامام ماوردی رحمہ اللہ ، ص: 258)

بلا شک و شبہ ... دین کا قیام ، نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے ... کے ساتھ وابستہ ہے !
اگر اِس کی بساط لپیٹ دی جائے اور اس کے '' علم '' اور اس پر '' عمل '' کو چھوڑ دیا جائے ۔۔۔
تو ۔۔۔ تو امام غزالی رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں :
'' نبوت ( کا فریضہ ) معطل ہو جائے ، دین کمزور ہو جائے ، جمود عام ہو جائے ، امت میں اختلاف (کی خلیج) وسیع ہو جائے ، شہر برباد ہو جائیں ، لوگ ہلاک ہو جائیں اور انہیں اپنی ہلاکت کا علم قیامت کے دن ہی ہو۔ ''
( حوالہ : احیاء علوم الدین للامام غزالی رحمہ اللہ 307 / 2 )
 
دونوں ہی مشکل کام

جزاک اللہ باذوق۔

عام انداز سے بات کریں تو نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا یہ دونوں ہی مشکل کام ہیں۔ کسی کو برائی سے روکیں یا اچھے کام کی تلقین کریں دونوں ہی صورتوں مین جواب آتا ہے: اپنے کام سے کام رکھو!

آپ نے یہ مختصر آرٹیکل لکھ کر ثابت کیا ہے کہ آپ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا کام کرتے ہو۔ اس سلسلے میں آپ کی کیا تجاویز ہیں اس کام کو انجام دینے کے سلسلے میں۔
 

باذوق

محفلین
دونوں ہی مشکل کام

شارق مستقیم نے کہا:
جزاک اللہ باذوق۔۔۔۔۔۔
>> عام انداز سے بات کریں تو نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا یہ دونوں ہی مشکل کام ہیں۔
کوئی کام دنیا میں مشکل نہیں ۔۔۔ یہ تو بس ہماری سوچ ہے کہ فلاں کام مشکل ہے فلاں ناممکن ۔۔۔ وغیرہ۔
>> کسی کو برائی سے روکیں یا اچھے کام کی تلقین کریں دونوں ہی صورتوں مین جواب آتا ہے: اپنے کام سے کام رکھو!
ہاں بےشک۔
مگر نتیجے پر نظر رکھ کر کب کس نے گناہ کو چھوڑا ہے ؟ جھوٹ ، چوری ، دھوکہ دہی ۔۔۔ ان سب کی سزائیں دنیا (اور آخرت) میں جو ہیں وہ سب کو پتا ہیں ۔۔۔ پھر بھی لوگ کئے جاتے ہیں ۔۔۔ تو نیک کام کے لیے ہی کیوں نتیجے پر غور کرنے کی فکر کی جائے؟
ایک گناہگار سزا سے واقف ہو کر بھی گناہ کرنا نہیں چھوڑتا تو ایک نیکوکار کو تو بدرجہ اولیٰ اپنا کام انجام دینا چاہئے ۔۔۔ بےشک دنیا میں تنقید کا سامنا کرنا پڑےگا لیکن آخرت میں تو اس کا اجر ہے۔
>> آپ نے یہ مختصر آرٹیکل لکھ کر ثابت کیا ہے کہ آپ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا کام کرتے ہو۔ اس سلسلے میں آپ کی کیا تجاویز ہیں اس کام کو انجام دینے کے سلسلے میں۔
ہاں ۔۔۔ بعض تجاویز ہیں ۔۔۔ بلکہ یوں کہنا بہتر ہوگا کی ہمارے معاشرے میں پھیلے بعض مغالطوں کا پردہ چاک کرنا ہے اس ضمن میں ۔۔۔ انشاءاللہ جلد اس پر بات ہوگی علحدہ سے۔
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا دین کا قطب اعظم ہے !

اسی کام کے لئے اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کو مبعوث فرمایا۔
( حوالہ : احیاء علوم الدین [امام غزالی رحمہ اللہ] 307 / 2 )

قرآن و سنت میں متعدد آیات اور احادیث اس کی فرضیت پر دلالت کناں ہیں۔
(حوالہ : احکام القرآن للامام ابی بکر الجصاص رحمہ اللہ ، 486/2 )

اور تمام امت کا اس کی فرضیت پر اجماع ہے۔
( حوالہ : الفصل فی الملل و النحل للامام ابن حزم رحمہ اللہ 179 / 4 )

'' احتساب '' ... دین کی بنیادی باتوں میں سے ہے۔ دورِ اوّل کے خلفاء اس فریضے کے عمومی فائدے اور بہت زیادہ ثواب کی وجہ سے اس کو خود سر انجام دیتے تھے۔
( حوالہ : الاحکام السلطانیہ للامام ماوردی رحمہ اللہ ، ص: 258)

بلا شک و شبہ ... دین کا قیام ، نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے ... کے ساتھ وابستہ ہے !
اگر اِس کی بساط لپیٹ دی جائے اور اس کے '' علم '' اور اس پر '' عمل '' کو چھوڑ دیا جائے ۔۔۔
تو ۔۔۔ تو امام غزالی رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں :
'' نبوت ( کا فریضہ ) معطل ہو جائے ، دین کمزور ہو جائے ، جمود عام ہو جائے ، امت میں اختلاف (کی خلیج) وسیع ہو جائے ، شہر برباد ہو جائیں ، لوگ ہلاک ہو جائیں اور انہیں اپنی ہلاکت کا علم قیامت کے دن ہی ہو۔ ''
( حوالہ : احیاء علوم الدین للامام غزالی رحمہ اللہ 307 / 2 )

تحرير پروفیسر ڈاکٹر فضل الہی !!!
 
Top