الف عین
لائبریرین
ن۔م۔راشد کے ’کریا کرم‘ کی کہانی
ساقی فاروقی کی زبانی
میری خوش قسمتی ہے کہ جدید اردو شاعری کے دو بڑوں سے خاصے گہرے تعلقات رہے ۔ ہر چند کہ یہ دونوں عمر میں مجھ سے بیس پچیس سال بڑے تھے اور شاعری میں اپنا مستقبل بنا چکے تھے مگر ہماری محبتیں سرعت سے اس لیے بھی بڑھیں کہ اردو کی قدیم و جدید شاعری ایک طرح سے قدرِ مشترک تھی۔ وہ دونوں مجھ سے زیادہ جانتے تھے مگر بیس انیس ہی والا فرق تھا۔ پینسٹھ پینتیس والا نہیں ۔ پھر لندن میں ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت ہم نے اس لیے بھی گزارا کہ یہاں تخلیقی تنہائی تھی۔ ہماری کوشش ہوتی کہ ہم ہفتے میں تین بار ضرور ملیں یعنی راشد صاحب اور میں یا فیض صاحب اور میں ۔ فیض صاحب سے آخری دنوں میں اکیلی والی ملاقاتیں ختم ہو گئیں ۔ ہم زیادہ تر دوسرے ادیبوں کے گھروں میں یا محفلوں میں ہی ملتے کہ کئی دوسرے بھی آن بسے تھے ۔
(محمد حسین آواز۔ ۔ ۔ ’’آبِ حیات ‘‘ کے دیباچے سے )
وہ 9/اکتوبر 1975ء کا ایک منحوس دن تھا۔ میں دفتر میں نہیں ملا تو راشد صاحب نے گھر پر فون کیا اور میری بیوی کو بتایا کہ شیلا ( ان کی بیوی ) کے اکلوتے بھائی کار کے ایک حادثے میں ہلاک ہو گئے ہیں اور وہ اٹلی چلی گئی ہیں ۔ یہ بھی کہ وہ چلٹنہم سے بینسٹڈ جا رہے ہیں تا کہ اپنی ساس کو لے کر، جنازے میں شریک ہونے کے لیے ، 11/اکتوبر کو اٹلی پہنچ جائیں ۔ پھر یہ پیغام دیا کہ میں 10/اکتوبر کی شام کو فون کروں اور پہلے ان کی ساس مسز انجیلی کو بیٹے کی موت کا پرسا دوں پھر ان سے بات کروں کہ وہ بینسٹڈ ہی میں رہیں گے ۔
دس کی شام کو جب میں گھر پہنچا تو میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ وہ مسز انجلینی کو فون کریں اور پرسا دیں کہ مجھے پرسا دینا نہیں آتا۔ پھر میں راشد صاحب سے بات کروں گا۔ مسز انجلینی نے ٹیلی فون اٹھایا تو میری بیوی نے کہا کہ کیا قیامت ہے کہ شوہر کی موت کو ابھی پانچ مہینے بھی نہیں ہوئے تھے اور جوان بیٹا یوں ڈھہ گیا۔ میں مارننگ روم میں بیٹھا کافی پی رہا تھا اور اخبار پڑھ رہا تھا اور ٹیلی فون پر کان تھے کہ بیوی کی چیخ سن کر ایک دم سے ٹیلی فون کی طرف لپکا۔ میری بیوی کی آنکھوں میں حیرت اور بے یقینی تھی۔ میں نے رسیور اپنے ہاتھ میں لے لیا اور فرش پر بیٹھ گیا اور مسز انجلینی سے پوچھا کہ کیا ہوا۔ وہ ستر سالہ خاتون ڈہک ڈہک کر رونے لگیں اور مجھے ہچکیوں میں بتایا کہ راشد صاحب کا انتقال ہو گیا۔ میرا دل بیٹھ گیا۔بیوی کی چیخ سے میرے ذہن میں حادثہ، دل کا دورہ اور ہسپتال ابھرے تھے ۔ اس لمحے تک موت کا لفظ میرے ذہن میں نہیں جاگا تھا۔ ایک لمحے کو میرے اعصاب سو گئے ۔ پھر میں نے اپنے آپ کو سمیٹا اور تفصیل طلب ہوا۔ پتا چلا کہ وہ بینسٹڈ سات بجے شام کو پہنچے اور پیدل چل کر کوئی بیس منٹ میں مسز انجلینی کے یہاں پہنچے ، ان کا مکان خاصی بلندی پر واقع ہے ۔ راستے ہی میں انھیں دل کی تکلیف محسوس ہوئی ہو گی کہ خاصے پژمردہ تھے ۔ مسز انجلینی سے کہا کہ کیسے دکھ کی بات ہے کہ ان کا بیٹا کار کے حادثے سے جانبر نہ ہو سکا۔پھر صوفے پر بیٹھ گئے ۔ مسز انجلینی نے کہا کہ وسکی کا ایک گلاس مناسب رہے گا۔کہنے لگے ، ’’ نہیں ابھی دل پر دباؤ کم کرنے والی دو گولیاں کھائی ہیں ۔‘‘ پھر مسز انجلینی نے پوچھا، سفر کیسا رہا؟ انھوں نے کوئی جواب نہ دیا کہ وہ سوال اور جواب کی منزل سے آگے نکل گئے تھے ۔ اتنی پر سکون موت کم لوگوں کا نصیبہ ہے ۔ جیسے کوئی بات ہی نہیں ہوئی۔
’’مجھے موت آئے گی، مر جاؤں گا میں ‘‘(ن۔م۔راشد)
اسی دن پتا چلا کہ درد کی تقسیم مقصود ہو تو پرسا دینا کوئی ایسا مشکل کام نہیں ۔میں آدھ گھنٹے تک مسز انجلینی سے بات کرتا رہا۔ انھوں نے بتایا کہ شیلا نے تار پا کر فون کیا تھا اور وہ 12!اکتوبر کی شام کو پہنچیں گی۔ اور یہ کہ برسلز سے راشد صاحب کے بیٹے شہر یار لندن پہنچ گئے ہیں ۔ وہ شیلا اور شہر یار مل کر کفن دفن کا دن طے کریں گے ۔یہ بھی معلوم ہوا کہ پوسٹ مارٹم کے بعد راشد صاحب کی لاش مردہ خانہ میں رکھی ہوئی ہے ۔
ان سے گفتگو ختم کر کے میں نے بی بی سی کی انٹرنیشنل نیوز سروس میں یہ خبر دے دی۔ پھر ایک ایک کر کے راشد صاحب کے تمام ملنے والوں کو فون کر دیا۔ اور عبد اللہ حسین اور علی باقر سے کہہ دیا کہ جن لوگوں تک یہ خبریں نہیں پہنچی ہیں ، پہنچا دیں ۔11!اکتوبر کو میں گھر ہی پر تھا۔ راشد پرستوں کے فون آتے رہے ۔ عبداللہ حسین میرے یہاں شام کو آ گئے ۔ وہ سخت غیر جذباتی آدمی ہیں مگر اس دن جذباتی ہو رہے تھے ۔ہم صبح کے تین بجے تک راشد صاحب کی باتیں کرتے رہے اور شراب پیتے رہے ۔ دوسرے دن اتوار تھا۔ عبداللہ اور ان کی بیوی فرحت میرے یہاں دوپہر کے کھانے پر آئے ہوئے تھے کہ دو بجے ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ یہ شیلا تھیں ۔ رو رہی تھیں ۔ کہنے لگیں ، ابھی پہنچی ہوں ۔ یہ کیا ہو گیا؟ میں ان کے دہرے غم کے بارے میں ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں جانے کیا کچھ کہتا رہا۔ جب طوفان تھما تو میں نے پوچھا راشد صاحب کب اور کہا ں دفن ہوں گے ؟ کہنے لگیں ان کی خواہش تھی کہ انھیں نذر خاک نہیں نذر آتش کیا جائے ، تم کیا کہتے ہو؟ ظاہر ہے میں ، شہر یار سے مشورہ کیے بغیر کچھ نہیں کروں گی اور شہر یار ایک گھنٹے تک پہنچیں گے ۔ عبداللہ حسین میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور ہماری گفتگو سن رہے تھے ۔ہم دونوں کو ایک دھچکا سا لگا کہ ہم اس کے لیے تیار نہیں تھے ۔ میں نے کہا ، اگر مرحوم کی خواہش یہی تھی تو اس خواہش کو پورا کیا جائے گا۔ ظاہر ہے میں کیا کر سکتا ہوں ۔آپ اور شہر یار وارث ہیں ۔آپ دونوں طے کیجیے اور مجھے فون کر دیجیے ۔ میں انتظار کروں گا۔یہ گفتگو ختم ہوئی تو عبداللہ اور میں کمرے میں آ گئے ۔ میں اس دھچکے کے بعد سنبھل رہا تھا۔ مگر عبداللہ کے نیم آزاد ذہن میں خوابیدہ پاکستانی مسلمان ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا تھا۔کہنے لگے ، شیلا کے کہنے سے کیا ہوتا ے جب تک شہر یار راضی نہیں ہو جاتے کوئی بات حتمی نہیں ہے کہ قانونی طور پر بیوی اور بیٹے دونوں کی رضامندی ضروری ہے ۔اور اگر دونوں میں کوئی اختلاف پیدا ہو جائے تو لاش کو اس مذہب کے رسوم کے تحت دفنایا یا جلایا جائے گا جس مذہب میں مرنے والا پیدا ہوا تھا۔اور یہ کہ شہر یار ظاہر ہے جلانے پر اعتراض کریں گے ۔ میں نے کہا ، کمال کیا راشد صاحب نے بھی، مرتے مرتے ڈراما کر گئے ۔ عجب آزاد ذہن تھا ان کا کہ زندگی اور موت کا گراف ایک خطِ مستقیم کے طور پر بنا گئے جس طرح سارتر کے فلسفے کا منطقی نتیجہ وہ خط تھا جو انہوں نے ہوچی منہ کے نام لکھا تھا( جس میں جنگِ آزادی میں شریک ہونے کی خواہش کا اظہار کیا تھا)اسی طرح راشد کی زندگی اور شاعری کا نقطۂ عروج یہCremationہے ۔ جب ایک آدمی ساری عمر زنجیریں ہی توڑتا رہا تو یہ زنجیر بھی کیوں بچے ۔ہم چاروں بہت دیر تک دنیا جہاں کی باتیں کرتے رہے ۔ پھر فرحت اور عبداللہ چلے گئے ۔رات کے 9!بجے شہر یار کا ٹیلی فون آیا کہ چھ مہینے پہلے جب راشد صاحب ان سے ملنے بیلجیم گئے تھے تو انھوں نے ان سے بھی مرنے کے بعد سپرد آتش ہونے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ اور انھوں نے اور شیلا نے طے کیا ہو کہ مرحوم کی خواہش کو پورا کیا جائے ۔ میں نے کہا، بہت سے لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچنے کا اندیشہ ہے ۔ کہنے لگے ، ہم دونوں
نے بہت سوچ بچار کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے اور ہمیں کسی کی پروا نہیں ہے ۔ آپ ابا کے تمام جاننے والوں کو اطلاع دے دیں ۔ جس کا دل چاہے آئے جس کا دل چاہے نہ آئے ۔ یہ رسم 14!اکتوبر کو ساؤتھ لندن کریمیٹوریم میں ادا ہو گی۔ اور نمازِ جنازہ اس لیے نہیں ہو گی کہ لاش کو سپردِ آتش کیا جا رہا ہے ۔ پھر انھوں نے خواہش ظاہر کی کہ میں 15!اکتوبر کی شام کو اپنے یہاں ایک نشست کا انتظام کروں جس میں راشد صاحب کے دوست احباب راشد صاحب کا تذکرہ کریں اور انھیں یاد کیا جائے ۔ وہ چوں کہ 16!اکتوبر کی صبح کو واپس جا رہے ہیں اس لیے 15!اکتوبر کے علاوہ کسی اور دن نہیں آ پائیں گے ۔
میں نے اسی وقت فون کر کے آصف جیلانی کو اطلاع دی کہ وہ ’’ جنگ‘‘ میں یہ خبر دے دیں اور پاکستان میں بھی ٹرانسمٹ کر ا دیں ۔ پھر میں نے تمام لوگوں کو صورتِ حال سے آگاہ کیا۔ پھر ممتاز دولتانہ کو گھر پر فون کیا۔ میاں صاحب موجود تھے ۔ میں نے راشد صاحب کی خواہش سے مطلع کیا۔ کہنے لگے ’’اچھا؟’’ میں نے کہا، پتا لکھ لیجیے ۔ کہنے لگے سیکرٹری نہیں ہے ۔ بہرحال ، لکھا دیجیے ۔ میں نے کریمیٹوریم کا پتا لکھا دیا اور فون بند کر دیا۔
دوسرے دن دفتر میں اور گھر پر لوگوں کے فون آتے رہے ۔ سب کو صدمہ تھا مگر موت کے صدمے پر مذہب کا صدمہ غالب تھا۔ میں سب سے یہی کہتا رہا کہ میں راشد صاحب کا ایک ادنیٰ دوست ہوں ۔ ان کی لاش کی وراثت پر میرا کوئی حق نہیں ہے ۔ میں کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ آپ حضرات اس نمبر پر شیلا اور شہریار کو فون کریں ۔ جہاں تک میرا تعلق ہے ، مجھے اپنے محترم دوست کی آخری خواہش کا پورا احترام ہے ۔ مگر سچی بات یہ ہے کہ مجھے سخت وحشت تھی کہ کریمیٹوریم میں کوئی ہنگامہ نہ کھڑا ہو جائے ۔ میں نے شیلا کو فون کیا۔ پتا چلا کہ سحاب قز لباش اور کرنل اسحٰق ان سے بحثے تھے ۔ وہ ٹس سے مس نہ ہوئیں ۔
دوسرے دن 4بج کر 10 منٹ پر راشد صاحب کی میت کو سپردِ آتش ہونا تھا۔ 3 بج کر 50منٹ پر میں اپنی بیوی کے ساتھ کریمیٹوریم پہنچ گیا۔ ابھی میت نہیں پہنچی تھی۔ عبد اللہ حسین اور عاقل ہوشیار پوری ہم سے پہلے پہنچ گئے تھے ۔ مسز انجلینی کے ہمسائے کینتھ راکپن بھی آ چکے تھے ۔4 بجے ایک لمبی سیاہ میت گاڑی میں میت کے ہمراہ شیلا، مسز الیسیا انجلینی اور شیلا کی ایک دوست ایجلا بھی پہنچ گئیں ۔پھر علی باقر، راشد صاحب کے ایک پرانے دوست محمد افضل اور وقار لطیف آ گئے ۔ شیلا نے کریمیٹوریم کا ہال 15منٹ کے لیے بک کرایا تھا۔ وقت گزر رہا تھا مگر راشد صاحب کے بیٹے شہر یار اب تک نہیں پہنچے تھے ۔ شیلا میرے شانے پر سر رکھے رو رہی تھیں ۔ یکایک کہنے گلیں ، ہم مزید انتظار نہیں کر سکتے ۔ میں نے کہا، میں نگہبان افسر سے بات کرتا ہوں ۔ میں اس افسر کو ایک کونے میں لے گیا اور تاخیر کی معافی چاہی اور صورتِ حال سے آگاہ کیا۔ اور مزید 15منٹ کی مہلت طلب کی۔15 منٹ گزر گئے مگر شہر یار نہیں پہنچے تو میں نے کہا، حضرات اور خواتین ہال میں چلیے ۔ مجھے اس خوش خصال افسر نے مختصراً بتایا کہ اس طرح کی رسمِ مرگ کے کیا آداب ہیں یعنی یہ کہ سب لوگ خوشی سے ہال میں داخل ہو کر، سر جھکا کر دعا میں مشغول ہو جاتے ہیں ۔ سامنے ‘ کو فن‘ میں میت رکھی رہتی ہے اور پس منظر میں آرگن بجتا رہتا ہے ۔ جب یہ سوگوار دھن ختم ہو جاتی ہے تو کوفن کے چاروں طرف پردہ کھینچ جاتا ہے ۔ اور کوفن کے نیچے کا تختہ فرش سرک جاتا ہے اور لاش نیچے ، تہ خانے میں ، بجلی کی بھٹی میں جلنے کے لیے چلی جاتی ہے اور لوگ ہال سے باہر آ جاتے ہیں ۔ اس سارے عمل میں مشکل سے دس منٹ لگتے ہیں ۔ میں نے موت کے آداب و ضوابط سے سب کو آگاہ کر دیا تھا۔ جب آرگن خاموش ہوا اور پردہ کھینچا اور فرش کا دروازہ کھلا تو راشد صاحب آگ کے شعلوں میں نہانے کے لیے چلے گئے ۔ انھی کے الفاظ ہیں :
آگ آزادی کا، دلشادی کا نام
آگ پیدائش کا افزائش کا نام
آگ وہ تقدیس، دھل جاتے ہیں
جس سے سب گناہ
آگ انسانوں کی پہلی سانس کے مانند
اک ایسا کرم
عمر کا اک طول بھی جس کا نہیں کافی جواب!
ہم چار پاکستانی، دو ہندوستانی اور پانچ یورپی خاموشی سے اٹھ کر باہر چلے آئے ۔ دروازہ بند ہو گیا۔ باہر لان میں چند سرخ گلابوں کا ایک معمولی سا گلدستہ اپنے حجم اور اپنی تنہائی پر شرمندہ تھا۔ پاس ہی ایک کارڈ پر لکھا ہوا تھا۔۔۔۔’’بہت ہی پیارے نذر راشد کے لیے ، اس کی چہیتی بیوی کی طرف سے ۔‘‘
شیلا کی خواہش تھی کہ کوئی پھول نہ لائے ۔ یہ خبر اخباروں میں چھپ چکی تھی۔ ہم اس گلدستے کے پاس پانچ سات منٹ تک کھڑے رہے ۔ یہ سب کچھ اتنی تیزی سے ہوا تھا کہ ہم سب ایک طرح سے سہمے ہوئے تھے اور خاموشی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے ۔پھر شیلا نے کہا ، اگر ہم مناسب سمجھیں تو ان کی ماں کے پاس چلیں اور چائے کی ایک ایک پیالی پی کر رخصت ہوں ۔ علی باقر، وقار لطیف اور کینتھ راکپن مصروف تھے ، وہ اپنے اپنے دفتروں کو چلے گئے ۔ باقی لوگ ساتھ چلنے لگے ۔ابھی ہم گیٹ ہی پر تھے کہ شہر یار اپنے ایک دوست کے ہمراہ پہنچ گئے ۔ انھیں معلوم ہوا کہ آخری رسم ختم ہو چکی ہے ۔ انھوں نے کچھ زیادہ پیشمانی کا اظہار نہیں کیا اور کہا تو یہ کہا کہ چلیے یہ بھی ہونا تھا۔ کوئی بات نہیں ۔ میں اپنی کار میں اکیلا تھا۔ شہر یار گلی کار میں بیٹھی شیلا کو بتا رہے تھے کہ وہ کس طرح راستہ بھٹک گئے اور ادھر ادھر مارے مارے پھرتے رہے ۔ میں نیچے اترا اور میں نے کہا، چلیے اس لان میں گلدستے کے پاس کھڑے ہو کر اپنے ابا کے لیے کچھ دعا کر لیجیے ۔وہ میرے ساتھ ہو لیے اور پھولوں کے پاس
کھڑے ہو کر دعا کرتے رہے ۔ پھر ہم سب تین کاروں اور ایک وین میں بھر کر مسز انجلینی کے یہاں پہنچے ۔ا ن کا مکان کمال بلندی پر ہے ۔ مجھے اپنی کار کی گرفتار گرتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔ دل کے مریض کے لیے یہ راستہ یقیناً مہلک ہے ۔
شیلا او ر مسز انجلینی اپنے مہمانوں کی خاطر تواضع کرتی رہیں ۔ گھر میں ماتم کی فضا کم اور پارٹی کا ہنگامہ زیادہ نظر آیا۔ غموں کی پردہ پوشی تھی اور ’آداب‘ او ر ’رکھ کھاؤ‘ کا دور دورہ تھا۔ ہم سب راشد صاحب کی باتیں کرتے رہے ۔ میں نے راشد صاحب کی ایک نظم پڑھی۔ عبد اللہ نے ترجمہ کیا۔ شہر یار، فیض اور راشد مرحوم کی ما سکو والی ملاقات کا تذکرہ کرتے رہے ۔ میں نے شیلا اور شہر یار سے مخاطب ہو کر پوچھا، میں اپنی اور اپنے جیسے دوسرے لوگوں کی تسلی کے لیے ، سب کے سامنے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں ۔ یہ تو مجھے معلوم ہے کہ راشد صاحب نے تحریر اپنی موت کے بارے میں کوئی وصیت نہیں چھوڑی ہے ، مگر ہم سب کو آپ دونوں تفصیلاً بتائیں کہ کب اور کن حالات میں راشد صاحب نے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا تھا؟ جہاں تک میرا تعلق ہے ، مجھ سے انھوں نے کبھی سنجیدگی سے اپنی موت کے بارے میں تبادلۂ خیال نہیں کیا۔ اس کے اسباب تھے ، اوّل تو یہی کہ وہ زندگی کے اتنی سختی سے قائل تھے کہ موت کا ذکر کم کرتے تھے ۔ دوسرے یہ کہ میں جان بوجھ کر یہ موضوع درمیان میں نہیں لاتا تھا کہ کہیں انھیں صدمہ نہ پہنچے اور اگر لاتا بھی تھا تو یوں کہ راشد صاحب اگر میں پہلے مر جاؤں
تو میری ساری اردو کی کتابیں اور اردو کے کاغذات اپنے یہاں لے جائیے گا، اور جب تک آپ زندہ رہیں یاد کرتے رہیے گا۔ اس پر وہ کہتے کہ ساقی میں مرنے ورنے کی فکر نہیں کرتا۔ مجھے اس کی بھی پرواہ نہیں کہ میری لاش ہسپتال میں چیر پھاڑ کے کام آئے گی یا جلادی جائے گی یا غرق دریا ہو جائے گی۔ ایک بات میں جانتا ہوں ۔میں چلے پھرتے مرنا چاہتا ہوں ۔ میں بستر میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنا نہیں چاہتا اور اگر کبھی ایسا ہوا کہ میں ہلنے جلنے سے معذور ہو جاؤں تو گولیاں کھا کر اپنی زندگی ختم کر لوں گا۔ ان کی طبیعت میں اتنا اضطرار تھا کہ اس موضوع پر وہ زیادہ دیر تک ٹکتے ہی نہیں تھے ۔ اسی لیے میں معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ وہ کیا حالات تھے جن میں انھوں نے نہایت سنجیدگی سے آپ دونوں سے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا؟
میں اپنی گفتگو ختم کر کے ، جو ایک طرح کی چھوٹی سی تقریر کی شکل اختیار کر گئی تھی، شیلا کی طرف دیکھنے لگا تو شیلا نے بتایا کہ دو بار انھوں نے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا تھا۔ پہلی بار جب شیلا کے والد مسٹر انجلینی کا انتقال ہوا راشد صاحب بھی میت کے ساتھ اسی ساؤتھ لندن کریمیٹوریم میں گئے تھے اور جب لاش تہ خانے کی بھٹی میں جلنے کے لیے نیچے اتر گئی اور لوگ ہال سے باہر نکل کر لان کے پاس کھڑے ہو کر باتیں کرنے لگے تو یکایک پتا چلا کہ راشد صاحب لا پتا ہیں ۔ کوئی دس منٹ کے بعد آئے ۔ معلوم ہوا کہ تختہ سرکنے اور لاش کے یکایک غائب ہونے کا کچھ ایسا اثر حضرت پر ہوا کہ سراغ لگانے اور چھان بین کرنے کے لیے عمارت کے عقب میں چلے گئے اور سنتری سے کہہ سن، سیڑھیاں اتر، تہ خانے میں پہنچ گئے اور اپنی آنکھوں سے لاش کو جلتا ہوا دیکھا۔ اور راستے بھر اپنے اس تجربے کا ذکر کرتے رہے اور کہتے رہے ، ’’میں بھی ایسی ہی صاف موت چاہتا ہوں ۔ میں مرنے کے بعد Cremateہونا چاہتا ہوں ۔مجھے یہ طریقہ بہت اچھا لگا۔‘‘ اس واقعے سے ان کے تجسس اور ہر بات کی تہ تک پہنچنے کی تمنا پر بھی گہری روشنی پڑتی ہے ۔ پھر شیلا نے بتایا کہ دوسری بار اپنی اس خواہش کا ذکر انھوں نے مرنے سے دو مہینے پہلے کیا تھا۔ جب کھانے کی میز پر وہ دونوں وصیت پر گفتگو کر رہے تھے ۔ انھوں نے کہا، ’’ مجھے یہ طریقہ بہت پسند ہے اور میں مرنے کے بعد cremateہونا چاہتا ہوں ۔‘‘ پھر شہر یار راشد نے بتایا کہ جب چھ سات مہینے پہلے راشد صاحب ان سے ملنے برسلز گئے تھے تو ایک رات کھانے کے بعد کہنے لگے کہ مرنے کے بعد میں cremateہونا چاہتا ہوں اور وہ اپنی اس خواہش کے اظہار میں سنجیدہ تھے ۔
کوئی 9 بجے یہ مجلس برہم ہوئی۔ چلتے چلتے شہر یار نے کہا کہ وہ اگلے دن میرے یہاں آنے سے قاصر ہیں کہ انھیں واپس بیلجیم پہنچنا ہے ۔ مجھے سخت حیرت ہوئی کہ ان کے کہنے سے تو میں نے یہ محفل رکھی ہے اور اب یہی نہیں آ رہے مگر میں نے اصرار نہیں کیا۔ عبد اللہ حسین اپنی وین میں اور میں اپنی بیوی کے ساتھ اپنی کار میں اور بقیہ حضرات شہر یار صاحب کی کار میں لد کر لندن چلے گئے ۔ شہر یار کی کار تو کسی اور راستے سے چلی گئی مگر ہم اور عبداللہ آگے پیچھے ہائڈ پارک تک ساتھ آئے ۔ہائڈ پارک کارنر پر عبداللہ نے سگنل دیا تو میں نے کار روک لی اور اتر کر ان کی وین تک پہنچا اور ہم دونوں دیر تک اس عظیم شاعر کی موت کی آخری رسومات کی کس مپرسی اور بے حالی، شیلا کی بد سلیقگی اور شہر یار کی اجنبیت پر کڑھتے رہے ۔ جی چاہتا تھا کہ ہمارے ساتھ لندن کے ایک کروڑ لوگ گریہ کریں کہ ’’جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے ۔‘‘ مگر ہم دونوں راشد صاحب کی طرح اپنی اپنی آگ میں جلتے ہوئے اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے کہ اگلے دن ہمیں پھر یکجا ہونا تھا۔
دوسرے دن میرے یہاں راشد صاحب کے چند سوگوار جمع ہو گئے ۔یعنی عبداللہ حسین، سجاد ظہیر کی بیٹی نجمہ ظہیر باقر، ڈاکٹر علی باقر، اکبر حیدر آبادی، وقار لطیف اور حبیب حیدرآبادی۔ جلائے جانے اور دفن کرنے پر دیر تک گرما گرم بحث ہوتی رہی۔پھر علی باقر نے راشد صاحب پر اپنا مضمون پڑھا اور میں نے راشد صاحب پر سلیم احمد کے مقالے کے کچھ صفحے پڑھے اور ان کی کچھ نظمیں سنائیں اور یوں ہم نے اپنے اپنے طور پر اس رات راشد صاحب کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت کیا۔
تشکر، روزنامہ منصف حیدر آباد
ساقی فاروقی کی زبانی
میری خوش قسمتی ہے کہ جدید اردو شاعری کے دو بڑوں سے خاصے گہرے تعلقات رہے ۔ ہر چند کہ یہ دونوں عمر میں مجھ سے بیس پچیس سال بڑے تھے اور شاعری میں اپنا مستقبل بنا چکے تھے مگر ہماری محبتیں سرعت سے اس لیے بھی بڑھیں کہ اردو کی قدیم و جدید شاعری ایک طرح سے قدرِ مشترک تھی۔ وہ دونوں مجھ سے زیادہ جانتے تھے مگر بیس انیس ہی والا فرق تھا۔ پینسٹھ پینتیس والا نہیں ۔ پھر لندن میں ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت ہم نے اس لیے بھی گزارا کہ یہاں تخلیقی تنہائی تھی۔ ہماری کوشش ہوتی کہ ہم ہفتے میں تین بار ضرور ملیں یعنی راشد صاحب اور میں یا فیض صاحب اور میں ۔ فیض صاحب سے آخری دنوں میں اکیلی والی ملاقاتیں ختم ہو گئیں ۔ ہم زیادہ تر دوسرے ادیبوں کے گھروں میں یا محفلوں میں ہی ملتے کہ کئی دوسرے بھی آن بسے تھے ۔
(محمد حسین آواز۔ ۔ ۔ ’’آبِ حیات ‘‘ کے دیباچے سے )
وہ 9/اکتوبر 1975ء کا ایک منحوس دن تھا۔ میں دفتر میں نہیں ملا تو راشد صاحب نے گھر پر فون کیا اور میری بیوی کو بتایا کہ شیلا ( ان کی بیوی ) کے اکلوتے بھائی کار کے ایک حادثے میں ہلاک ہو گئے ہیں اور وہ اٹلی چلی گئی ہیں ۔ یہ بھی کہ وہ چلٹنہم سے بینسٹڈ جا رہے ہیں تا کہ اپنی ساس کو لے کر، جنازے میں شریک ہونے کے لیے ، 11/اکتوبر کو اٹلی پہنچ جائیں ۔ پھر یہ پیغام دیا کہ میں 10/اکتوبر کی شام کو فون کروں اور پہلے ان کی ساس مسز انجیلی کو بیٹے کی موت کا پرسا دوں پھر ان سے بات کروں کہ وہ بینسٹڈ ہی میں رہیں گے ۔
دس کی شام کو جب میں گھر پہنچا تو میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ وہ مسز انجلینی کو فون کریں اور پرسا دیں کہ مجھے پرسا دینا نہیں آتا۔ پھر میں راشد صاحب سے بات کروں گا۔ مسز انجلینی نے ٹیلی فون اٹھایا تو میری بیوی نے کہا کہ کیا قیامت ہے کہ شوہر کی موت کو ابھی پانچ مہینے بھی نہیں ہوئے تھے اور جوان بیٹا یوں ڈھہ گیا۔ میں مارننگ روم میں بیٹھا کافی پی رہا تھا اور اخبار پڑھ رہا تھا اور ٹیلی فون پر کان تھے کہ بیوی کی چیخ سن کر ایک دم سے ٹیلی فون کی طرف لپکا۔ میری بیوی کی آنکھوں میں حیرت اور بے یقینی تھی۔ میں نے رسیور اپنے ہاتھ میں لے لیا اور فرش پر بیٹھ گیا اور مسز انجلینی سے پوچھا کہ کیا ہوا۔ وہ ستر سالہ خاتون ڈہک ڈہک کر رونے لگیں اور مجھے ہچکیوں میں بتایا کہ راشد صاحب کا انتقال ہو گیا۔ میرا دل بیٹھ گیا۔بیوی کی چیخ سے میرے ذہن میں حادثہ، دل کا دورہ اور ہسپتال ابھرے تھے ۔ اس لمحے تک موت کا لفظ میرے ذہن میں نہیں جاگا تھا۔ ایک لمحے کو میرے اعصاب سو گئے ۔ پھر میں نے اپنے آپ کو سمیٹا اور تفصیل طلب ہوا۔ پتا چلا کہ وہ بینسٹڈ سات بجے شام کو پہنچے اور پیدل چل کر کوئی بیس منٹ میں مسز انجلینی کے یہاں پہنچے ، ان کا مکان خاصی بلندی پر واقع ہے ۔ راستے ہی میں انھیں دل کی تکلیف محسوس ہوئی ہو گی کہ خاصے پژمردہ تھے ۔ مسز انجلینی سے کہا کہ کیسے دکھ کی بات ہے کہ ان کا بیٹا کار کے حادثے سے جانبر نہ ہو سکا۔پھر صوفے پر بیٹھ گئے ۔ مسز انجلینی نے کہا کہ وسکی کا ایک گلاس مناسب رہے گا۔کہنے لگے ، ’’ نہیں ابھی دل پر دباؤ کم کرنے والی دو گولیاں کھائی ہیں ۔‘‘ پھر مسز انجلینی نے پوچھا، سفر کیسا رہا؟ انھوں نے کوئی جواب نہ دیا کہ وہ سوال اور جواب کی منزل سے آگے نکل گئے تھے ۔ اتنی پر سکون موت کم لوگوں کا نصیبہ ہے ۔ جیسے کوئی بات ہی نہیں ہوئی۔
’’مجھے موت آئے گی، مر جاؤں گا میں ‘‘(ن۔م۔راشد)
اسی دن پتا چلا کہ درد کی تقسیم مقصود ہو تو پرسا دینا کوئی ایسا مشکل کام نہیں ۔میں آدھ گھنٹے تک مسز انجلینی سے بات کرتا رہا۔ انھوں نے بتایا کہ شیلا نے تار پا کر فون کیا تھا اور وہ 12!اکتوبر کی شام کو پہنچیں گی۔ اور یہ کہ برسلز سے راشد صاحب کے بیٹے شہر یار لندن پہنچ گئے ہیں ۔ وہ شیلا اور شہر یار مل کر کفن دفن کا دن طے کریں گے ۔یہ بھی معلوم ہوا کہ پوسٹ مارٹم کے بعد راشد صاحب کی لاش مردہ خانہ میں رکھی ہوئی ہے ۔
ان سے گفتگو ختم کر کے میں نے بی بی سی کی انٹرنیشنل نیوز سروس میں یہ خبر دے دی۔ پھر ایک ایک کر کے راشد صاحب کے تمام ملنے والوں کو فون کر دیا۔ اور عبد اللہ حسین اور علی باقر سے کہہ دیا کہ جن لوگوں تک یہ خبریں نہیں پہنچی ہیں ، پہنچا دیں ۔11!اکتوبر کو میں گھر ہی پر تھا۔ راشد پرستوں کے فون آتے رہے ۔ عبداللہ حسین میرے یہاں شام کو آ گئے ۔ وہ سخت غیر جذباتی آدمی ہیں مگر اس دن جذباتی ہو رہے تھے ۔ہم صبح کے تین بجے تک راشد صاحب کی باتیں کرتے رہے اور شراب پیتے رہے ۔ دوسرے دن اتوار تھا۔ عبداللہ اور ان کی بیوی فرحت میرے یہاں دوپہر کے کھانے پر آئے ہوئے تھے کہ دو بجے ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ یہ شیلا تھیں ۔ رو رہی تھیں ۔ کہنے لگیں ، ابھی پہنچی ہوں ۔ یہ کیا ہو گیا؟ میں ان کے دہرے غم کے بارے میں ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں جانے کیا کچھ کہتا رہا۔ جب طوفان تھما تو میں نے پوچھا راشد صاحب کب اور کہا ں دفن ہوں گے ؟ کہنے لگیں ان کی خواہش تھی کہ انھیں نذر خاک نہیں نذر آتش کیا جائے ، تم کیا کہتے ہو؟ ظاہر ہے میں ، شہر یار سے مشورہ کیے بغیر کچھ نہیں کروں گی اور شہر یار ایک گھنٹے تک پہنچیں گے ۔ عبداللہ حسین میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور ہماری گفتگو سن رہے تھے ۔ہم دونوں کو ایک دھچکا سا لگا کہ ہم اس کے لیے تیار نہیں تھے ۔ میں نے کہا ، اگر مرحوم کی خواہش یہی تھی تو اس خواہش کو پورا کیا جائے گا۔ ظاہر ہے میں کیا کر سکتا ہوں ۔آپ اور شہر یار وارث ہیں ۔آپ دونوں طے کیجیے اور مجھے فون کر دیجیے ۔ میں انتظار کروں گا۔یہ گفتگو ختم ہوئی تو عبداللہ اور میں کمرے میں آ گئے ۔ میں اس دھچکے کے بعد سنبھل رہا تھا۔ مگر عبداللہ کے نیم آزاد ذہن میں خوابیدہ پاکستانی مسلمان ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا تھا۔کہنے لگے ، شیلا کے کہنے سے کیا ہوتا ے جب تک شہر یار راضی نہیں ہو جاتے کوئی بات حتمی نہیں ہے کہ قانونی طور پر بیوی اور بیٹے دونوں کی رضامندی ضروری ہے ۔اور اگر دونوں میں کوئی اختلاف پیدا ہو جائے تو لاش کو اس مذہب کے رسوم کے تحت دفنایا یا جلایا جائے گا جس مذہب میں مرنے والا پیدا ہوا تھا۔اور یہ کہ شہر یار ظاہر ہے جلانے پر اعتراض کریں گے ۔ میں نے کہا ، کمال کیا راشد صاحب نے بھی، مرتے مرتے ڈراما کر گئے ۔ عجب آزاد ذہن تھا ان کا کہ زندگی اور موت کا گراف ایک خطِ مستقیم کے طور پر بنا گئے جس طرح سارتر کے فلسفے کا منطقی نتیجہ وہ خط تھا جو انہوں نے ہوچی منہ کے نام لکھا تھا( جس میں جنگِ آزادی میں شریک ہونے کی خواہش کا اظہار کیا تھا)اسی طرح راشد کی زندگی اور شاعری کا نقطۂ عروج یہCremationہے ۔ جب ایک آدمی ساری عمر زنجیریں ہی توڑتا رہا تو یہ زنجیر بھی کیوں بچے ۔ہم چاروں بہت دیر تک دنیا جہاں کی باتیں کرتے رہے ۔ پھر فرحت اور عبداللہ چلے گئے ۔رات کے 9!بجے شہر یار کا ٹیلی فون آیا کہ چھ مہینے پہلے جب راشد صاحب ان سے ملنے بیلجیم گئے تھے تو انھوں نے ان سے بھی مرنے کے بعد سپرد آتش ہونے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ اور انھوں نے اور شیلا نے طے کیا ہو کہ مرحوم کی خواہش کو پورا کیا جائے ۔ میں نے کہا، بہت سے لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچنے کا اندیشہ ہے ۔ کہنے لگے ، ہم دونوں
نے بہت سوچ بچار کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے اور ہمیں کسی کی پروا نہیں ہے ۔ آپ ابا کے تمام جاننے والوں کو اطلاع دے دیں ۔ جس کا دل چاہے آئے جس کا دل چاہے نہ آئے ۔ یہ رسم 14!اکتوبر کو ساؤتھ لندن کریمیٹوریم میں ادا ہو گی۔ اور نمازِ جنازہ اس لیے نہیں ہو گی کہ لاش کو سپردِ آتش کیا جا رہا ہے ۔ پھر انھوں نے خواہش ظاہر کی کہ میں 15!اکتوبر کی شام کو اپنے یہاں ایک نشست کا انتظام کروں جس میں راشد صاحب کے دوست احباب راشد صاحب کا تذکرہ کریں اور انھیں یاد کیا جائے ۔ وہ چوں کہ 16!اکتوبر کی صبح کو واپس جا رہے ہیں اس لیے 15!اکتوبر کے علاوہ کسی اور دن نہیں آ پائیں گے ۔
میں نے اسی وقت فون کر کے آصف جیلانی کو اطلاع دی کہ وہ ’’ جنگ‘‘ میں یہ خبر دے دیں اور پاکستان میں بھی ٹرانسمٹ کر ا دیں ۔ پھر میں نے تمام لوگوں کو صورتِ حال سے آگاہ کیا۔ پھر ممتاز دولتانہ کو گھر پر فون کیا۔ میاں صاحب موجود تھے ۔ میں نے راشد صاحب کی خواہش سے مطلع کیا۔ کہنے لگے ’’اچھا؟’’ میں نے کہا، پتا لکھ لیجیے ۔ کہنے لگے سیکرٹری نہیں ہے ۔ بہرحال ، لکھا دیجیے ۔ میں نے کریمیٹوریم کا پتا لکھا دیا اور فون بند کر دیا۔
دوسرے دن دفتر میں اور گھر پر لوگوں کے فون آتے رہے ۔ سب کو صدمہ تھا مگر موت کے صدمے پر مذہب کا صدمہ غالب تھا۔ میں سب سے یہی کہتا رہا کہ میں راشد صاحب کا ایک ادنیٰ دوست ہوں ۔ ان کی لاش کی وراثت پر میرا کوئی حق نہیں ہے ۔ میں کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ آپ حضرات اس نمبر پر شیلا اور شہریار کو فون کریں ۔ جہاں تک میرا تعلق ہے ، مجھے اپنے محترم دوست کی آخری خواہش کا پورا احترام ہے ۔ مگر سچی بات یہ ہے کہ مجھے سخت وحشت تھی کہ کریمیٹوریم میں کوئی ہنگامہ نہ کھڑا ہو جائے ۔ میں نے شیلا کو فون کیا۔ پتا چلا کہ سحاب قز لباش اور کرنل اسحٰق ان سے بحثے تھے ۔ وہ ٹس سے مس نہ ہوئیں ۔
دوسرے دن 4بج کر 10 منٹ پر راشد صاحب کی میت کو سپردِ آتش ہونا تھا۔ 3 بج کر 50منٹ پر میں اپنی بیوی کے ساتھ کریمیٹوریم پہنچ گیا۔ ابھی میت نہیں پہنچی تھی۔ عبد اللہ حسین اور عاقل ہوشیار پوری ہم سے پہلے پہنچ گئے تھے ۔ مسز انجلینی کے ہمسائے کینتھ راکپن بھی آ چکے تھے ۔4 بجے ایک لمبی سیاہ میت گاڑی میں میت کے ہمراہ شیلا، مسز الیسیا انجلینی اور شیلا کی ایک دوست ایجلا بھی پہنچ گئیں ۔پھر علی باقر، راشد صاحب کے ایک پرانے دوست محمد افضل اور وقار لطیف آ گئے ۔ شیلا نے کریمیٹوریم کا ہال 15منٹ کے لیے بک کرایا تھا۔ وقت گزر رہا تھا مگر راشد صاحب کے بیٹے شہر یار اب تک نہیں پہنچے تھے ۔ شیلا میرے شانے پر سر رکھے رو رہی تھیں ۔ یکایک کہنے گلیں ، ہم مزید انتظار نہیں کر سکتے ۔ میں نے کہا، میں نگہبان افسر سے بات کرتا ہوں ۔ میں اس افسر کو ایک کونے میں لے گیا اور تاخیر کی معافی چاہی اور صورتِ حال سے آگاہ کیا۔ اور مزید 15منٹ کی مہلت طلب کی۔15 منٹ گزر گئے مگر شہر یار نہیں پہنچے تو میں نے کہا، حضرات اور خواتین ہال میں چلیے ۔ مجھے اس خوش خصال افسر نے مختصراً بتایا کہ اس طرح کی رسمِ مرگ کے کیا آداب ہیں یعنی یہ کہ سب لوگ خوشی سے ہال میں داخل ہو کر، سر جھکا کر دعا میں مشغول ہو جاتے ہیں ۔ سامنے ‘ کو فن‘ میں میت رکھی رہتی ہے اور پس منظر میں آرگن بجتا رہتا ہے ۔ جب یہ سوگوار دھن ختم ہو جاتی ہے تو کوفن کے چاروں طرف پردہ کھینچ جاتا ہے ۔ اور کوفن کے نیچے کا تختہ فرش سرک جاتا ہے اور لاش نیچے ، تہ خانے میں ، بجلی کی بھٹی میں جلنے کے لیے چلی جاتی ہے اور لوگ ہال سے باہر آ جاتے ہیں ۔ اس سارے عمل میں مشکل سے دس منٹ لگتے ہیں ۔ میں نے موت کے آداب و ضوابط سے سب کو آگاہ کر دیا تھا۔ جب آرگن خاموش ہوا اور پردہ کھینچا اور فرش کا دروازہ کھلا تو راشد صاحب آگ کے شعلوں میں نہانے کے لیے چلے گئے ۔ انھی کے الفاظ ہیں :
آگ آزادی کا، دلشادی کا نام
آگ پیدائش کا افزائش کا نام
آگ وہ تقدیس، دھل جاتے ہیں
جس سے سب گناہ
آگ انسانوں کی پہلی سانس کے مانند
اک ایسا کرم
عمر کا اک طول بھی جس کا نہیں کافی جواب!
ہم چار پاکستانی، دو ہندوستانی اور پانچ یورپی خاموشی سے اٹھ کر باہر چلے آئے ۔ دروازہ بند ہو گیا۔ باہر لان میں چند سرخ گلابوں کا ایک معمولی سا گلدستہ اپنے حجم اور اپنی تنہائی پر شرمندہ تھا۔ پاس ہی ایک کارڈ پر لکھا ہوا تھا۔۔۔۔’’بہت ہی پیارے نذر راشد کے لیے ، اس کی چہیتی بیوی کی طرف سے ۔‘‘
شیلا کی خواہش تھی کہ کوئی پھول نہ لائے ۔ یہ خبر اخباروں میں چھپ چکی تھی۔ ہم اس گلدستے کے پاس پانچ سات منٹ تک کھڑے رہے ۔ یہ سب کچھ اتنی تیزی سے ہوا تھا کہ ہم سب ایک طرح سے سہمے ہوئے تھے اور خاموشی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے ۔پھر شیلا نے کہا ، اگر ہم مناسب سمجھیں تو ان کی ماں کے پاس چلیں اور چائے کی ایک ایک پیالی پی کر رخصت ہوں ۔ علی باقر، وقار لطیف اور کینتھ راکپن مصروف تھے ، وہ اپنے اپنے دفتروں کو چلے گئے ۔ باقی لوگ ساتھ چلنے لگے ۔ابھی ہم گیٹ ہی پر تھے کہ شہر یار اپنے ایک دوست کے ہمراہ پہنچ گئے ۔ انھیں معلوم ہوا کہ آخری رسم ختم ہو چکی ہے ۔ انھوں نے کچھ زیادہ پیشمانی کا اظہار نہیں کیا اور کہا تو یہ کہا کہ چلیے یہ بھی ہونا تھا۔ کوئی بات نہیں ۔ میں اپنی کار میں اکیلا تھا۔ شہر یار گلی کار میں بیٹھی شیلا کو بتا رہے تھے کہ وہ کس طرح راستہ بھٹک گئے اور ادھر ادھر مارے مارے پھرتے رہے ۔ میں نیچے اترا اور میں نے کہا، چلیے اس لان میں گلدستے کے پاس کھڑے ہو کر اپنے ابا کے لیے کچھ دعا کر لیجیے ۔وہ میرے ساتھ ہو لیے اور پھولوں کے پاس
کھڑے ہو کر دعا کرتے رہے ۔ پھر ہم سب تین کاروں اور ایک وین میں بھر کر مسز انجلینی کے یہاں پہنچے ۔ا ن کا مکان کمال بلندی پر ہے ۔ مجھے اپنی کار کی گرفتار گرتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔ دل کے مریض کے لیے یہ راستہ یقیناً مہلک ہے ۔
شیلا او ر مسز انجلینی اپنے مہمانوں کی خاطر تواضع کرتی رہیں ۔ گھر میں ماتم کی فضا کم اور پارٹی کا ہنگامہ زیادہ نظر آیا۔ غموں کی پردہ پوشی تھی اور ’آداب‘ او ر ’رکھ کھاؤ‘ کا دور دورہ تھا۔ ہم سب راشد صاحب کی باتیں کرتے رہے ۔ میں نے راشد صاحب کی ایک نظم پڑھی۔ عبد اللہ نے ترجمہ کیا۔ شہر یار، فیض اور راشد مرحوم کی ما سکو والی ملاقات کا تذکرہ کرتے رہے ۔ میں نے شیلا اور شہر یار سے مخاطب ہو کر پوچھا، میں اپنی اور اپنے جیسے دوسرے لوگوں کی تسلی کے لیے ، سب کے سامنے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں ۔ یہ تو مجھے معلوم ہے کہ راشد صاحب نے تحریر اپنی موت کے بارے میں کوئی وصیت نہیں چھوڑی ہے ، مگر ہم سب کو آپ دونوں تفصیلاً بتائیں کہ کب اور کن حالات میں راشد صاحب نے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا تھا؟ جہاں تک میرا تعلق ہے ، مجھ سے انھوں نے کبھی سنجیدگی سے اپنی موت کے بارے میں تبادلۂ خیال نہیں کیا۔ اس کے اسباب تھے ، اوّل تو یہی کہ وہ زندگی کے اتنی سختی سے قائل تھے کہ موت کا ذکر کم کرتے تھے ۔ دوسرے یہ کہ میں جان بوجھ کر یہ موضوع درمیان میں نہیں لاتا تھا کہ کہیں انھیں صدمہ نہ پہنچے اور اگر لاتا بھی تھا تو یوں کہ راشد صاحب اگر میں پہلے مر جاؤں
تو میری ساری اردو کی کتابیں اور اردو کے کاغذات اپنے یہاں لے جائیے گا، اور جب تک آپ زندہ رہیں یاد کرتے رہیے گا۔ اس پر وہ کہتے کہ ساقی میں مرنے ورنے کی فکر نہیں کرتا۔ مجھے اس کی بھی پرواہ نہیں کہ میری لاش ہسپتال میں چیر پھاڑ کے کام آئے گی یا جلادی جائے گی یا غرق دریا ہو جائے گی۔ ایک بات میں جانتا ہوں ۔میں چلے پھرتے مرنا چاہتا ہوں ۔ میں بستر میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنا نہیں چاہتا اور اگر کبھی ایسا ہوا کہ میں ہلنے جلنے سے معذور ہو جاؤں تو گولیاں کھا کر اپنی زندگی ختم کر لوں گا۔ ان کی طبیعت میں اتنا اضطرار تھا کہ اس موضوع پر وہ زیادہ دیر تک ٹکتے ہی نہیں تھے ۔ اسی لیے میں معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ وہ کیا حالات تھے جن میں انھوں نے نہایت سنجیدگی سے آپ دونوں سے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا؟
میں اپنی گفتگو ختم کر کے ، جو ایک طرح کی چھوٹی سی تقریر کی شکل اختیار کر گئی تھی، شیلا کی طرف دیکھنے لگا تو شیلا نے بتایا کہ دو بار انھوں نے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا تھا۔ پہلی بار جب شیلا کے والد مسٹر انجلینی کا انتقال ہوا راشد صاحب بھی میت کے ساتھ اسی ساؤتھ لندن کریمیٹوریم میں گئے تھے اور جب لاش تہ خانے کی بھٹی میں جلنے کے لیے نیچے اتر گئی اور لوگ ہال سے باہر نکل کر لان کے پاس کھڑے ہو کر باتیں کرنے لگے تو یکایک پتا چلا کہ راشد صاحب لا پتا ہیں ۔ کوئی دس منٹ کے بعد آئے ۔ معلوم ہوا کہ تختہ سرکنے اور لاش کے یکایک غائب ہونے کا کچھ ایسا اثر حضرت پر ہوا کہ سراغ لگانے اور چھان بین کرنے کے لیے عمارت کے عقب میں چلے گئے اور سنتری سے کہہ سن، سیڑھیاں اتر، تہ خانے میں پہنچ گئے اور اپنی آنکھوں سے لاش کو جلتا ہوا دیکھا۔ اور راستے بھر اپنے اس تجربے کا ذکر کرتے رہے اور کہتے رہے ، ’’میں بھی ایسی ہی صاف موت چاہتا ہوں ۔ میں مرنے کے بعد Cremateہونا چاہتا ہوں ۔مجھے یہ طریقہ بہت اچھا لگا۔‘‘ اس واقعے سے ان کے تجسس اور ہر بات کی تہ تک پہنچنے کی تمنا پر بھی گہری روشنی پڑتی ہے ۔ پھر شیلا نے بتایا کہ دوسری بار اپنی اس خواہش کا ذکر انھوں نے مرنے سے دو مہینے پہلے کیا تھا۔ جب کھانے کی میز پر وہ دونوں وصیت پر گفتگو کر رہے تھے ۔ انھوں نے کہا، ’’ مجھے یہ طریقہ بہت پسند ہے اور میں مرنے کے بعد cremateہونا چاہتا ہوں ۔‘‘ پھر شہر یار راشد نے بتایا کہ جب چھ سات مہینے پہلے راشد صاحب ان سے ملنے برسلز گئے تھے تو ایک رات کھانے کے بعد کہنے لگے کہ مرنے کے بعد میں cremateہونا چاہتا ہوں اور وہ اپنی اس خواہش کے اظہار میں سنجیدہ تھے ۔
کوئی 9 بجے یہ مجلس برہم ہوئی۔ چلتے چلتے شہر یار نے کہا کہ وہ اگلے دن میرے یہاں آنے سے قاصر ہیں کہ انھیں واپس بیلجیم پہنچنا ہے ۔ مجھے سخت حیرت ہوئی کہ ان کے کہنے سے تو میں نے یہ محفل رکھی ہے اور اب یہی نہیں آ رہے مگر میں نے اصرار نہیں کیا۔ عبد اللہ حسین اپنی وین میں اور میں اپنی بیوی کے ساتھ اپنی کار میں اور بقیہ حضرات شہر یار صاحب کی کار میں لد کر لندن چلے گئے ۔ شہر یار کی کار تو کسی اور راستے سے چلی گئی مگر ہم اور عبداللہ آگے پیچھے ہائڈ پارک تک ساتھ آئے ۔ہائڈ پارک کارنر پر عبداللہ نے سگنل دیا تو میں نے کار روک لی اور اتر کر ان کی وین تک پہنچا اور ہم دونوں دیر تک اس عظیم شاعر کی موت کی آخری رسومات کی کس مپرسی اور بے حالی، شیلا کی بد سلیقگی اور شہر یار کی اجنبیت پر کڑھتے رہے ۔ جی چاہتا تھا کہ ہمارے ساتھ لندن کے ایک کروڑ لوگ گریہ کریں کہ ’’جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے ۔‘‘ مگر ہم دونوں راشد صاحب کی طرح اپنی اپنی آگ میں جلتے ہوئے اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے کہ اگلے دن ہمیں پھر یکجا ہونا تھا۔
دوسرے دن میرے یہاں راشد صاحب کے چند سوگوار جمع ہو گئے ۔یعنی عبداللہ حسین، سجاد ظہیر کی بیٹی نجمہ ظہیر باقر، ڈاکٹر علی باقر، اکبر حیدر آبادی، وقار لطیف اور حبیب حیدرآبادی۔ جلائے جانے اور دفن کرنے پر دیر تک گرما گرم بحث ہوتی رہی۔پھر علی باقر نے راشد صاحب پر اپنا مضمون پڑھا اور میں نے راشد صاحب پر سلیم احمد کے مقالے کے کچھ صفحے پڑھے اور ان کی کچھ نظمیں سنائیں اور یوں ہم نے اپنے اپنے طور پر اس رات راشد صاحب کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت کیا۔
تشکر، روزنامہ منصف حیدر آباد