چودھری مصطفی
محفلین
فرخ بھیا ایک زمیندار نے ایک ملازم کو گندم کی فصل کی کٹائی پر مامور کیا۔ بجائے فصل کی رکھوالی کے وہ بندہ گلی ڈنڈہ کی مشق کرتا رہا اور اس میں مہارت حاصل کرتا رہا اور فصل جانور چر گئے۔ ایسے بندے کو اس کا مالک گلی ڈنڈے میں مہارت پر شاباش دے گا کہ فصل برباد کرنے پر اسے ملازمت سے برخواست کرے گا؟ یہی حال انسان کا ہے۔ پہلا کام تو انسان کا ہے کہ اپنے معبود کو پہچانے۔ باقی سب کچھ تو اسے راضی کرنے کے طریقے ہیں۔ اب اگر کسی نے یہ بنیادی کام ہی نہ کیا یا بجائے معبود کو ماننے کے اس کی تضحیک کرتا رہا تو وہ شاعر، سائنسدان، عالم جتنا مرضی بڑا رہا، اس دنیا میں آنے کے مقصد کو سرانجام دینے میں وہ بری طرح ناکام رہا سو اس کا انجام حسرت و یاس کی ہی تصویر ہوگا۔
اعجاز انکل، عصمت چغتائی کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ جب آپ نے بہ قائمی ہوش و حواس نہ صرف اللہ کا انکار کیا بلکہ اس کے احکامات کی دانستہ علی الاعلان تضحیک کی تو بس۔ اس موضوع پر میرے ذہن میں تو اس سے بہتر کوئی اور تمثیل نہیں آتی کہ "ابوالحکم" ابوجہل بنا اس دنیا سے گزر گیا۔
اکثر سوچتا ہوں کہ خدا کا منکر کون ہے؟ دہریہ شاعر یا وہ با ریش بوڑھا جو مسجد میں بیٹھ کے معصوم بچوں پر دست درازی کرتا ہے۔ اب آپ توبہ استغفار کی بات کریں گے، اگر ان کو واقعی روزِ جزا پر یقین ہو تو کیوں نہ اس عورت کی مثال پکڑتے جو نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئی کہ میں نے زنا کیا ہے مجھ پر حد لگائیے۔