کیوں نہیں اپیل کا حق بالکل ملنا چاہئے۔ لیکن آئین و قانون کے اندر رہتے ہوئے۔
پاناما، ایون فیلڈ ریفرنس میں کئی سال سزا ملتے ہی شریف خاندان نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔
پٹیشن یہ ڈالی گئی کہ سزائیں بہت سخت ہیں معطل کی جائیں۔
عدالت نے کیس دو ماہ بعد سماعت کے لئے مقرر کیا۔
جب کیس کی سماعت ہوئی تو لیگی مافیا کے خریدے ہوئے جسٹس اطہر من اللہ نے کیس کے مضمرات سننے شروع کر دئے۔ نیب والے چیختے رہ گئے کہ آپ اصل کیس کی اپیل ابھی نہیں سن سکتے۔ یہ صرف سزا معطلی کی پٹیشن ہے۔ لیکن ن لیگی جج نہیں مانے اور 45 صفحات کا فیصلہ صادر کیا جہاں نیب عدالت کے فیصلے کی دھجیاں اُڑا دیں۔ اور مجرمان کو غیرقانونی طور پر بری کر دیا۔
نیب نے سپریم کورٹ میں اپیل کی تو انہیں نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو ملک کی تاریخ کا بدترین فیصلہ قرار دیا۔ مگر فیصلہ معطل نہیں کیونکہ نواز شریف ایک دوسرے کرپشن کیس میں پہلے ہی جیل میں تھے۔ اور مریم نواز "خاتون" ہونے کی وجہ سے ریلیف کی مستحق تھیں۔ جبکہ کیپٹن صفدر کی سزا محض ایک سال تھی جسے جاری رکھنا ضروری نہیں تھا۔
یہ ہے آپ کا ناکارہ نظام عدل جس میں سیاسی مافیا کے خلاف اسٹیبلشمنٹ مافیا سازشیں کرتا ہے ۔ جہاں سارا نظام عدل آپ کو ریلیف دینے کیلئے بے تاب ہو۔ لیکن آپ ایک منی ٹریل، ایک گواہ اپنے حق میں پیش نہ کر سکیں۔ پھر بھی عدالتی ریلیف نہ ملنے کا قصور وار کون ہوا؟