فلک شیر
محفلین
1910ء میں راقم کے آبائی وطن علی پور چٹھہ، جسے تب اکال گڑھ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔۔۔پیدا ہوئے۔ والد اور دادا دونوں ہی السنہ شرقیہ سے دلی لگاؤ رکھتے تھے اور انہی کی توجہ سے راشد کو ان دونو ںزبانوں میں وہ درک حاصل ہوا کہ گورنمنٹ کالج جیسے نامی ادارے میں پہنچے اور اُس کے مؤقر مجلے "راوی" کے مدیر بھی مقرر ہوئے ۔ بسلسلہ روزگار آل انڈیا ریڈیو سے ہوتے ہوئے اقوام متحدہ کی راہداریوں میں پہنچے اور پھر ریٹائر منٹ پا کر انگلستان میں ہی مقیم ہو گئے۔
راشد کی شاعری ایک مسلسل المیہ کا بیان ہے، گاہے جسے طربیہ سے مزین کر کے گوارا کیا جاتا ہے۔انسان ہمہ
دم کتنے دائروں میں کس کس تلاش میں مگن رہتا ہے، اُسے رہنا ہوتا ہے۔۔۔۔کہ اُس کے لیے یہ لکھ دیا گیا ہے۔۔۔۔ازل سے ابد تک جو رستے جاتے ہیں ، اُن رستوں کی دھول ہے انسان یا اُن کا راہی ۔۔۔یا پھر رستے کی اطراف میں کھڑا اشجار کا استادہ دستہ۔۔۔اُسے دُسراتھ کی تلاش کیوں ہے۔۔۔۔۔اتنا عاجز کاہے کوہے۔۔۔۔یکسانیت کا مارا۔۔۔۔۔نسلیں اگاتا اور فصلیں چھانٹتا۔۔۔۔جیسے وقت کے سمندر کی لہروں پہ اٹھتی جھاگ ہو۔۔۔۔۔پھر اس زمین پر ڈھیر سارے خدا کیوں؟۔۔۔۔کچھ اس انسان کے اپنے ہاتھوں کیے تراشے۔۔۔۔مسندوں پہ بٹھائے ہوئے اور کچھ بزور شمشیر بیٹھے ہوئے۔۔۔۔۔۔روح کس کی طالب ہے اور جسم کس کا؟۔۔۔۔یہ اور دوسرے کتنے ہی بڑے سوال اُس کی شاعری میں ایک دوسرے کے گرد لپٹے ہوئے ہیں۔ محض قافیہ پیمائی نہیں۔۔۔۔۔۔جیسے کسی بڑے گویے کا کھلا گلا اُسے اونچے آکار میں گانے پہ مجبور کر دیتا ہے، ایسے ہی بڑے سوالات اٹھائے ادیب بھی الگ سانچوں اور نئی دریافتوں کا سفر کرتا ہے۔آزاد نظم کو جو راشد نے دیا اور جو طرح رکھی ۔۔۔ اُس کا کم تذکرہ ہوا ہے، زیادہ ابھی ہوگا۔
افسانہ اور نظم۔۔۔داستاں اور داستاں گو اُس کی شاعری میں کئی جگہ گھل مل سے جاتے ہیں۔ تلمیحات گاہے اجنبی اور ترکیبات نامانوس لگتی ہیں۔۔۔اور پھر آج ، جب فارسی دان طبقہ بہت محدود ہو چکا ہے، راشد کا حلقہ قراءت اور بھی سمٹ جانا چاہیے تھا۔۔۔لیکن "مرگِ اسرافیل" ، "حسن کوزہ گر" اور "اظہار اور رسائی" جیسی نظمیں لکھنے والا راشد تب تک اردو ادب کے حافظے اور لوح تحسین سے اتر نہ پائے گا ، جب تک وہ سوالات زندہ اور قائم ہیں، جو اوپر بیان کیے گئے ہیں ۔ راشد کی ایک نظم دیکھیے :
اظہار اور رسائی
مو قلم، ساز، گل تازہ، تھرکتے پاؤں
بات کہنے کے بہانے ہیں بہت
آدمی کس سے مگر بات کرئے
بات جب حیلہء تقریب ملاقات نہ ہو
اور رسائی کہ ھمیشہ سے ھے کوتاہ کمند
بات کی غایت غایات نہ ہو!
ایک ذرّہ کف خاکستر کا
شرر جستہ کے مانند کبھی
کسی انجانی تمنّا کی خلش سے مسرور
اپنے سینے کے دہکتے ھوئے تنّور کی لو سے مجبور
ایک ذرّہ کہ ہمیشہ سے ھے خود سے مہجور،
کبھی نیرنگ صدا بن کے جھلک اٹھتا ہے
آب و رنگ و خط و محراب کا پیوند کبھی
اور بنتا ھے معانی کا خداوند کبھی
وہ خداوند جو پابستہ آنات نہ ہو!
اسے اک ذرّے کی تابانی سے
کسی سوئے ہوئے رقّاص کے دست و پا میں
کانپ اٹھتے ہیں مہ و سال کے نیلے گرداب
اسی اک ذرّے کی حیرانی سے
شعر بن جاتے ہیں اک کوزہ گر پیر کے خواب
اسے اک ذرّہ لا فانی سے
خشت بے مایہ کو ملتا ھے دوام
بام و در کو وہ سحر جس کی کبھی رات نہ ہو!
آدمی کس سے مگر بات کرے
مو قلم، ساز، گل تازہ، تھرکتے پاؤں
آدمی سوچتا رہ جاتا ہے،
اس قدر بار کہاں، کس کے لیے، کیسے اٹھاؤں
اور پھر کس کے لیے بات کروں
ہاتھ میں قلم تھامنے والا کوئی بھی اس موضوع کا حق کم ہی ایسے ادا کر پائے گا، جیسے راشد نے اس نظم میں ادا کیا ہے۔ یہ پڑھ کر احساس ہوتا ہے، کہ فی زمانہ دل کی بات کہنے کا فریضہ شاعر ہی کے بس کی بات ہے، کہ باقی سب تو "آپس کی بات " ہی کرتے ہیں۔
فلک شیر