جیہ
لائبریرین
وادئی سوات، تحریک نفاذِ شریعت سے فوجی آپریشن تک
ایک تدریجی تاریخی جائزہ
تحریر: فضل ربی راہی (سوات)
انپیج سے یونی کوڈمیں تبدیلی: جویریہ مسعود
ایک تدریجی تاریخی جائزہ
تحریر: فضل ربی راہی (سوات)
انپیج سے یونی کوڈمیں تبدیلی: جویریہ مسعود
سوات کی خوب صورت وادی اپنی تاریخ کے بد ترین دور سے گزر رہی ہے۔ یہ وہ تاریخی علاقہ ہے جو ہزاروں سال قبل بدھ مت کا اہم مرکز رہا ہے۔چھٹی صدی قبل مسیح سے کر جب یہ علاقہ ایرانی شہنشاہوں کی عظیم سلطنت کا ایک حصہ تھا، موجودہ دور تک سوات نے اہم انقلابات دیکھے ہیں۔ ڈھائی ہزار قبل مسیح میں آریائی نسل کے لوگ جب برصغیر میں داخل ہوئے تو وہ اسی وادی سے ہوکر گزرے تھے۔ 326 ق م میں سکندر اعظم ایران کو فتح کرکے کابل کے راستے ہندوستان پر حملہ آور ہوا تو وہ کونڑ افغانستان سے ہوتا ہوا وادئ سوات میں داخل ہوا۔ تاریخ میں مذکو ر ہے کہ سکندر اعظم کو اپنی فتوحات کے دوران سوات میں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن سوات کے راجہ ارنس کو شکست دے کر وہ دریائے سندھ عبور کرکے پنجاب میں داخل ہوا۔ اس وقت بھی سوات میں بدھ مت کے پیروکار موجود تھے۔ 100ء میں سوات میں بدھ مت عروج پر تھا۔ اس وقت سوات سلطنتِ گندھارا کا ایک اہم حصہ تھا اور اس پر راجہ کنشک کی حکم رانی تھی جس کا پایہٴ تخت پشاور تھا۔ 403ء میں مشہور چینی سیاح اور بدھ مت کے مقدس مقامات کا زائر فاہیان سوات آیا۔ 519ء میں ایک اور مشہور چینی سیاح سنگ یون کافرستان سے ہوتا ہوا سوات میں داخل ہوا۔ 630ء میں چین کا ایک تیسرا معروف سیاح، بدھ مذہب کا عالم اور زائر ہیون سانگ کابل سے ہوتا ہوا سوات وارد ہوا۔ چینی سیاحوں میں آخری سیاح وکنگ تھا جو 752ء میں سوات آیا۔ ان چینی سیاحوں نے اپنے اپنے سفرناموں میں سوات کے اس وقت کے مذہبی، معاشی، تہذیبی اور ثقافتی حالات کے متعلق تفصيل سے لکھا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت یہاں بدھ مت کا دور دورہ تھا اور یہاں کے لوگ کافی ترقی یافتہ اور خوشحال تھے۔
گیارھویں صدی عیسوی میں محمود غزنوی کی افواج باجوڑ کے راستے سوات میں داخل ہوئیں جنھوں نے اس وقت کے راجہ گیرا نامی حکمران کو شکست دے کر سرزمینِ سوات کو اسلام کی ابدی قندیل سے منور کیا۔ 1485ء میں کابل کے چغتائی ترک حکمران الغ بیگ نے قبیلہ یو سف زئ کی سرکردہ شخصیتوں کو دھوکے سے قتل کردیا۔ یوسف زئ قبیلہ کے زعماء میں سے شیخ ملی اور ملک احمد خوش قسمتی سے اس قتل عام سے بچ کر اپنے بچے کھچے قبیلے کے ہمراہ پشاور میں داخل ہوئے اور ایک طویل لڑائی کے بعد یوسف زئ قبیلہ پشاور، مردان اور سوات پر قابض ہوگیا۔ 1515ء میں یوسف زئیوں نے سوات کے بادشاہ سلطان اویس کو تخت و تاج سے معزول کرکے سوات کے پرانے باشندوں کو مانسہرہ (ہزارہ) چلے جانے پر مجبور کر دیا۔ 1516ء میں جب مغل بادشاہ بابر افغانستان سے ہندوستان پر حملہ کرنے کی غرض سے جا رہا تھا تو اس نے سب سے پہلے سوات پر لشکر کشی کی لیکن اسے یہاں منہ کی کھانی پڑی۔ اسے یوسف زئے قبیلہ کے سردار شاہ منصور کی بیٹی سے مصلحتاً شادی کرنی پڑی اور یوسف زئیوں سے صلح کرکے انہیں اپنے لشکر میں شامل کیا اور ہندوستان فتح کیا۔
1530ء میں یوسف زئیوں کے عظیم مقنن شیخ ملی نے ویش یعنی زمینوں کی مستقل تقسیم کا طریقہ رائج کیا اور یوسف زئ قبیلہ جو ہر دس سال بعد اپنی رہائش اور علاقہ تبدیل کرنے پر مجبور تھے، ان کے درمیان باقاعدہ زمین تقسیم کی گئی۔ بابر کے مرنے کے بعد اس کے بیٹے ہمایوں نے سوات بزورِ شمشیر فتح کرنا چاہا لیکن کامیاب نہ ہوسکا۔ اسی طرح سوات کی تاریخ کا یہ دور گزرتا ہوا اکبر بادشاہ تک آن پہنچتا ہے جس نے 1586ء میں سوات پر حملہ کیا لیکن اس میں اس کا مشہور نو رتن بیربل بونیر کی سنگلاخ چٹانوں میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا اور اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
1850ء تک سوات سیاسی طور پر کوئی منظم علاقہ نہیں تھا اس لیے اس کی سا لمیت کے لیے اس دور کے خوانین اور رؤسا کی مشاورت سے حضرت اخوند عبدالغفور (سیدو بابا) نے پیر بابا کی اولاد میں سے سید اکبر شاہ کو 1850ء میں سوات کی پہلی شرعی حکومت کا امیر منتخب کیا لیکن 11 مئی 1857ء میں ان کی وفات کے بعد سوات پھر سیاسی افراتفری اور امنِ عامہ کی ابتری کا شکار ہوا۔ 1863ء میں امبیلہ کے مقام پر انگریزو ں کے ساتھ سخت جنگ ہوئی لیکن یہاں کے باشندوں نے سخت مزاحمت کی جس کے باعث انگریز سوات فتح کرنے میں ناکام رہے۔ 1876ء میں اخون صاحب (سیدو بابا) وفات پا گئے۔ سیدو بابا اور سید اکبر شاہ کی اولاد میں سوات کی بادشاہت کے لیے ایک طویل کش مکش شروع ہو گئی جو دیر اور باجوڑ کی سیاسی کش مکش میں ملوث ہونے کی وجہ سے اور بھی پیچیدہ صورت اختیار کر گئی۔ 1881ء میں میاں گل عبدالودود (جو بعد میں بانئی سوات بنے) سیدو بابا کے چھوٹے بیٹے میاں گل عبدالخالق کے ہاں پیدا ہوئے۔ 1887ء میں میاں گل عبدالحنان جو سیدو بابا کے بڑے بیٹے تھے، ریاست بنانے میں ناکام ہوئے۔ 1895ء اور 1897ء میں انگریزوں نے ملاکنڈ کے راستے سوات پر دو الگ الگ حملے کئے مگر سوات کے بہادر عوام نے ان کو پسپا ہونے پر مجبور کردیا۔ ان معرکوں میں دیر، باجوڑ، بونیر اور موجودہ ملاکنڈ ایجنسی کے لوگ بھی شامل تھے۔
1903-07 ء میں میاں گل عبدالرزاق اور میاں گل عبدالواحد، جو سیدو بابا کے بڑے فرزند کے بیٹے تھے، اپنے چچا زاد بھائی میاں گل عبدالودود کے ہاتھوں قتل ہوئے اور میاں گل عبدالودودو سیدو بابا کی تمام روحانی اور مادی میراث کے واحد وارث قرار پائے۔ اسی طرح سیاسی اقتدار کے لیے سخت خاندانی کش مکش ختم ہوگئی۔
سوات میں مچی ہوئی افراتفری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ریاستِ امب سے تعلق رکھنے والے سید عبدالجبار شاہ نامی ایک شخص نے 1914ء میں دریائے سوات کے پار شمالی علاقوں میں اپنی حکومت قائم کی۔ بعد میں میاں گل عبدالودود (بادشاہ صاحب) جو سیدو بابا کے پوتے بھی تھے، نے عبدالجبار شاہ سے حکومت کی باگ ڈور چھین کر 1917ء میں اپنی باقاعدہ حکومت کی بنیاد ڈالی۔ 1917ء سے 1926ء تک اندرونی طور پر ریاستِ سوات کی تشکیل و تعمیر اور اختیارات کے استحکام کے لیے تیز کوششیں شروع کی گئیں۔ سڑکیں، ٹیلی فون اور قلعہ جات وغیرہ بنائے گئے۔ بیرونی طور پر مختلف جنگوں کے ذریعے اس نوزائیدہ ریاست کی حدود وسیع کی گئیں اور از سرِ نو ان کا تعین کیا گیا۔ برطانوی حکومت کی طرف سے رسمی طور پرریاست سوات کو 1924ء میں تسلیم کیا گیا اور میاں گل عبدالودود کی حکم رانِ سوات کی حیثیت سے تخت نشینی عمل میں لائی گئی۔ 1947ء میں ریاستِ سوات کا پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا گیا۔
12 دسمبر 1949ء کو میاں گل عبدالودود نے عنانِ حکومت اپنے فرزند شہزادہ محمد عبدالحق جہانزیب (والئی سوات) کو سونپ دیں۔ جنھوں نے سوات کو ایک جدید اور ترقی یافتہ ریاست بنانے کی پوری کوشش کی۔ انھوں نے ہر علاقہ میں ہسپتال قائم کئے۔ پورے سوات میں سکولوں اور کالجوں کا جال پھیلادیا۔ جگہ جگہ پل بنائے اور ہر مقام تک پختہ سڑکیں تعمیر کیں۔ غرض والئی سوات نے ریاست کی تعمیر و ترقی میں ایک ناقابل فراموش ا ور زندہٴ جاوید کردار ادا کیا۔
28 جولائی 1969ء میں ریاست سوات کو پاکستان میں ایک ضلع کی حیثیت سے ضم کردیا گیا اور یہاں باقاعدہ طور پر ڈپٹی کمشنر اور دیگر سرکاری انتظامی اہل کاروں کی تعیناتی عمل میں لائی گئی۔