وادی ِتھر سن گیت پُرانا ریت پہ ننگے پاؤں ---- ایک گیت

مغزل

محفلین
گیت

وادی ِتھر سن گیت پُرانا ریت پہ ننگے پاؤں
پھر میری سنگت میں گانا ریت پہ ننگے پاؤں

ریت پہ ننگے پاؤں سر پر دھوپ کی اِک اجرک
قافلہ ہے کس سمت روانہ ریت پہ ننگے پاؤں

سر پر مٹکہ گود میں بچّہ لب پر پیاس سجی
ڈھونڈے ماسی آب و دانہ ریت پہ ننگے پاؤں

الغوزہ ، بینجو، ڈھولک، اکتارا ساتھ لیے
سائیں بجاتے گاتے جانا ریت پہ ننگے پاؤں

ہاشمی تم نے کس دُھن میں یہ آج غزل چھیڑی
دیکھو سائیں جل نہیں جانا ریت پہ ننگے پاؤں

سیدانورجاویدہاشمی
 

محمد وارث

لائبریرین
واہ واہ واہ، لا جواب!

کیا خوبصورت غزل ہے، کیا لا جواب اشعار ہیں، کتنی منفرد ردیف ہے، کیا کمال ہے، لا جواب۔

واہ واہ واہ
 

محمد وارث

لائبریرین
اور ایک عرض یہ کہ یہ گیت نہیں ہے بلکہ غزل ہی ہے جیسے کہ ہاشمی صاحب نے خود بھی مقطع میں ذکر کیا!
 

نایاب

لائبریرین
گیت

وادی ِتھر سن گیت پُرانا ریت پہ ننگے پاؤں
پھر میری سنگت میں گانا ریت پہ ننگے پاؤں

ریت پہ ننگے پاؤں سر پر دھوپ کی اِک اجرک
قافلہ ہے کس سمت روانہ ریت پہ ننگے پاؤں

سر پر مٹکہ گود میں بچّہ لب پر پیاس سجی
ڈھونڈے ماسی آب و دانہ ریت پہ ننگے پاؤں


الغوزہ ، بینجو، ڈھولک، اکتارا ساتھ لیے
سائیں بجاتے گاتے جانا ریت پہ ننگے پاؤں

ہاشمی تم نے کس دُھن میں یہ آج غزل چھیڑی
دیکھو سائیں جل نہیں جانا ریت پہ ننگے پاؤں

سیدانورجاویدہاشمی

السلام علیکم
بہت خوب
کیا داد دی جائے
داد سے بالاتر ہے
یہ درد مند دل ابھرے احساسات و جذبات
حقیقت میں تھر کی قحط سالی نظر آنے لگتی ہے شعروں میں
نایاب
 

مغزل

محفلین
بہت بہت شکریہ وارث صاحب، یقیناً یہ غزل ہے ، میں نے ’’ گیت ‘‘ اس لیے لکھا کہ اس کا مزاج گیت کا ہے ۔ بہت بہت شکریہ
 

الف عین

لائبریرین
بھائی ذرا ہاشمی صاحب کو کہو کہ بقلم خود پوسٹ کیا کریں۔۔
اچھی غزل ہے، اگر چہ کچھ الفاظ سمجھ میں نہیں آئے، شاید تھر کی طرح مقامی ہیں۔
 

مغزل

محفلین
وہ کون سے الفاظ بابا جانی ؟ کیا (الغوزہ ، بینجو، ڈھولک، اکتارا) ۔۔ یہ آلاتِ‌موسیقی کے نام ہیں۔
ہاشمی صاحب ہمیشہ الٹی سیدھی لڑیوں میں پوسٹ کردیتے ہیں ، اب انہوں‌نے میری ڈیوٹی لگائی ہے۔
 

ایم اے راجا

محفلین
بہت شکریہ ًگل بھائی کہ آپ نے ہاشمی صاحب کی یہ خوبصورت غزل شیئر کی، میرے تھر کا درد، اسکی کڑکتی دھوپ، پاؤں سلگاتی گرمی اور تڑپتی پیاس کی کیا خوب تسویر کھینچی ہے، تھر جو کہ ایک بے آب و گیا صحرا سہی جو کہ وقت کے حاکموں کی نظر میں کچرا کنڈی ہی سہی لیکن یہ زندہ دلوں کا گھر ہے، یہاں قیامت کی گرمی سارا دن جھلساتی ہے مگر پھر بھی زندگی مسکراتی نظر آتی ہے، میں جب بھی اس تھر سے سفر کرتا ہوا گذرتا ہوں تو لوگوں کو مسکراتا اور بچوں کو گرم ریت پر اٹھکھیلیاں بھرتا دیکھ کر اکثر سوچنے لگتا ہوں کہ واہ زندگی تو یہاں بھی زندہ ہے۔ جذبات کی رو میں بہہ کر شاید میں بہت کچھ کہہ گیا، مغل صاحب کیا ہاشمی صاحب کا تعارف مہیا ہو سکتا ہے، کہیں یہ بھی میری طرح لبِ تھر کے باسی تو نہیں ؟
 

الف عین

لائبریرین
میرا اشارہ اجرک‘ کی طرف تھا، تھر کا مطلب تو اب میں سمجھنے لگا ہوں، اگرچہ ہندوستان میں شاید ہی کوئی سمجھ سکے۔
 
Top