فارقلیط رحمانی
لائبریرین
احمدآباد-9جنوری
آج صبح 00-8 بجے اردو کے معروف نقاد پروفیسر وارِث علوی کا انتقال ہوگیا۔ موصوف دِل کے عارضے میں مبتلا تھے اور تقریباِ ہفتہ عشرہ سے
احمدآباد کے شفاء اسپتال کے آئی۔سی۔سی۔یو۔ میں زیر علاج تھے۔ کل دوپہر جب ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تو انہیں ان کے گھر لے آیا گیا تھا۔ جہاں وہ آکسیجن پر تھے۔
مرحوم سینٹ زیویرس کالج کے صدرشعبہ انگریزی کے عہدے سے 1988 میں رٹائرڈ ہوئے تھے۔ وہ گجراتی ڈراموں کے ایک مجموعہ بنام : نی رَو چاندنی نو گھووڑ (خاموش چاندنی کا اُلو)کے علاوہ دو درجن سے زائد تنقیدی مضامین کے مجموعوں کے مصنف تھے۔کچھ بچا لایا ہوں، پیشہ تو سپہ گری کا بھلا، تیسرے درجہ کا مسافر، اردو افسانہ کی تنقید کا المیہ ، غزل کا محبوب اور دوسرے مضامین، راجندرسنگھ بیدی، منٹواُن کی چند ناقابل فراموش کتابیں ہیں۔
ا ردو تنقید کے ایک عہد کا خاتمہ
معروف اردو نقاد پروفیسر وارِث علوی ۹؍ جنوری۲۰۱۴ ء علی الصبح اپنے آبائی گھر آسٹوڑیا،سیدواڑہ، احمد آباد (گجرات ) میں مختصر علالت کے بعد اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔آنجہانی وارِث علوی ۱۱جون۱۹۲۸ ء کوآسٹو دیا سیدواڑہ احمد آباد میں پیدا ہوئے تھے۔واضح رہے اُن کے والد سید حسینی پیر علوی اپنے وقت کے مشہور بزرگ مانے جاتے تھے اور حضرت وجیہہ الدین علوی گجراتی ؒ سے اُن کا خاندانی تعلق تھا۔انہوں نے فارسی اور اردو کے علاوہ بعد ازاں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے انگریزی میں ایم۔اے۔ کیاتھا ۔ وارِث علوی ۳۳ سال تک سینٹ زیویرس کالج احمد آباد میں انگریزی کے پروفیسر رہے اور اسی کالج سے ۱۹۸۸ ء میں صدر شعبۂ انگریزی کی حیثیت سے سبکدوش ہوئے۔وارث علوی ۱۹۴۶ ء سے ۱۹۵۰ ء تک انجمن ترقی پسند مصنفین شاخ ( احمد آباد) کے جنرل سیکریڑی بھی رہے۔افسانہ اور افسانہ نگاروں کے حوالے سے افسانوی تنقید کے نادر اور نایاب نمونے پیش کیے۔ نظریاتی تنقید لکھنے والوں میں وارث علوی سب سے اہم نقادمانے جاتے ہیں جس کا اعتراف انتظار حسین اور کشورناہیدنے بھی کیا ہے۔وارث علوی کے انتقال کو اردو تنقید کے لیے ایک ناقابلِ تلافی نقصان بتاتے ہوئے کشمیر یونیورسٹی کے سینیئراستادپروفیسر نذیر احمد ملک نے کہا:’’یہ خبر سن کر نہایت افسوس ہوا کہ ا ردو ادب کے بلند قامت ادیب ‘نقاداور دانشور وارث علوی کا آج صُبح انتقا ل ہوا ہے ۔ وارث علوی اردو ادب میں اس لیے خاص اہمیت کے مالک ہیں کہ انہوں نے اردو تنقید بالخصوص فکشن کی تنقید میں ایک منفرد طریقۂ کار روا رکھا ہے اور اس طرز تنقید کے وہ ہی خودموجد ہیں اور خود ہی خاتم ہیں ۔ وہ جب کسی متن کے تجزیے پر آتے ہیں تو اس کے اندر اُن تمام محرکات اور جہات کو سامنے لاتے ہیں جو اس کے لفظ و دربست میں پوشیدہ ہوتے ہیں ۔ بیدیؔ ‘منٹوؔ اور دوسرے افسانہ نگاورں کے افسانوں کا تجزیہ کرتے ہوئے انہوں نے افسانوی تنقید کو ایک خاص معیار اور وقار بحشا ہے ۔اُن کے انتقال سے اردو تنقید کو زبردست نقصان ہوا ہے جو شاید بہت دیر تک پُر کرنا ممکن نہیں ہے۔ ‘‘
صدر شعۂہ اردوکشمیر یونیورسٹی پروفیسر منصور احمد نے اپنے رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اردو تنقید کے ایک مینارۂ نور کا آج اختتام ہوا۔ جس سے اُردوٗ دُنیا کو شدید نقصان پہنچا۔میں اُن کے اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار کرتا ہوں۔
اُدھر جموں یونیورسٹی سے پروفیسر شہاب عنایت ملک نے وارِث علوی کی وفات پر اِظہارِ خیال کرتے ہوئے وارث علوی کو اُردو تنقید کا صاحب اسلوبِ نقاد تسلیم کرتے ہوئے اپنے شدید رنج وغم کا اِظہار کیا۔
اِظہار تعزیت کرتے ہوئے ڈاکٹر مشتاق حیدرؔ نے کہا کہ ’’ وارِث علوی اپنی ذات میں انجمن تھے۔ ادب کے نبض شناس ہونے کا دعویٰ تو کئی لوگ کرتے ہیں لیکن اردو تنقید کا بھرم گنتی کے نقادوں سے واقعی ہیں،اُن میں وارِث علوی کا نام سب سے درخشاں ہیں ۔ ایسے بے لاگ نقاد کے گزرنے پر لیلائے اردو اپنے بال کھولے یاس و الم میں آوارہ پھر رہی ہوگی۔ افسوس اس بات کا ہے کہ غالبؔ کی طرح وارث علوی بھی زمانے کی ناقدری کا شکار ہوئے۔
شعبۂ اردو کے سابقہ اِسکالر ڈاکٹر شاہ فیصل نے کہا’’ کہ یہ خبر سُن مجھے شدید صدمہ پہنچا۔ میں نے نہ صرف اُن پر تحقیقی مقالہ لکھا بلکہ اُن سے میری ایسی قربت رہی جو اپنے والدین سے رہتی ہے ۔ تحقیقی مقالہ لکھنے کے دوران اُن سے روزانہ گھنٹوں فون پرگفتگورہی اور ان کے زریں خیالات سے بہرہ ور ہونے کا موقع ملتا رہا۔ہمارے لیے یہ امر باعث افتخار ہے کہ میں نے وارث علوی پر تحقیقی مقالہ ترتیب دِیااور دوسری بڑے خوشی نصیبی یہ ہے کہ وارث علوی پر راقم الحروف کاتحقیقی مقالہ پہلا مقالہ ہے۔
آج صبح 00-8 بجے اردو کے معروف نقاد پروفیسر وارِث علوی کا انتقال ہوگیا۔ موصوف دِل کے عارضے میں مبتلا تھے اور تقریباِ ہفتہ عشرہ سے
احمدآباد کے شفاء اسپتال کے آئی۔سی۔سی۔یو۔ میں زیر علاج تھے۔ کل دوپہر جب ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تو انہیں ان کے گھر لے آیا گیا تھا۔ جہاں وہ آکسیجن پر تھے۔
مرحوم سینٹ زیویرس کالج کے صدرشعبہ انگریزی کے عہدے سے 1988 میں رٹائرڈ ہوئے تھے۔ وہ گجراتی ڈراموں کے ایک مجموعہ بنام : نی رَو چاندنی نو گھووڑ (خاموش چاندنی کا اُلو)کے علاوہ دو درجن سے زائد تنقیدی مضامین کے مجموعوں کے مصنف تھے۔کچھ بچا لایا ہوں، پیشہ تو سپہ گری کا بھلا، تیسرے درجہ کا مسافر، اردو افسانہ کی تنقید کا المیہ ، غزل کا محبوب اور دوسرے مضامین، راجندرسنگھ بیدی، منٹواُن کی چند ناقابل فراموش کتابیں ہیں۔
ا ردو تنقید کے ایک عہد کا خاتمہ
معروف اردو نقاد پروفیسر وارِث علوی ۹؍ جنوری۲۰۱۴ ء علی الصبح اپنے آبائی گھر آسٹوڑیا،سیدواڑہ، احمد آباد (گجرات ) میں مختصر علالت کے بعد اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔آنجہانی وارِث علوی ۱۱جون۱۹۲۸ ء کوآسٹو دیا سیدواڑہ احمد آباد میں پیدا ہوئے تھے۔واضح رہے اُن کے والد سید حسینی پیر علوی اپنے وقت کے مشہور بزرگ مانے جاتے تھے اور حضرت وجیہہ الدین علوی گجراتی ؒ سے اُن کا خاندانی تعلق تھا۔انہوں نے فارسی اور اردو کے علاوہ بعد ازاں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے انگریزی میں ایم۔اے۔ کیاتھا ۔ وارِث علوی ۳۳ سال تک سینٹ زیویرس کالج احمد آباد میں انگریزی کے پروفیسر رہے اور اسی کالج سے ۱۹۸۸ ء میں صدر شعبۂ انگریزی کی حیثیت سے سبکدوش ہوئے۔وارث علوی ۱۹۴۶ ء سے ۱۹۵۰ ء تک انجمن ترقی پسند مصنفین شاخ ( احمد آباد) کے جنرل سیکریڑی بھی رہے۔افسانہ اور افسانہ نگاروں کے حوالے سے افسانوی تنقید کے نادر اور نایاب نمونے پیش کیے۔ نظریاتی تنقید لکھنے والوں میں وارث علوی سب سے اہم نقادمانے جاتے ہیں جس کا اعتراف انتظار حسین اور کشورناہیدنے بھی کیا ہے۔وارث علوی کے انتقال کو اردو تنقید کے لیے ایک ناقابلِ تلافی نقصان بتاتے ہوئے کشمیر یونیورسٹی کے سینیئراستادپروفیسر نذیر احمد ملک نے کہا:’’یہ خبر سن کر نہایت افسوس ہوا کہ ا ردو ادب کے بلند قامت ادیب ‘نقاداور دانشور وارث علوی کا آج صُبح انتقا ل ہوا ہے ۔ وارث علوی اردو ادب میں اس لیے خاص اہمیت کے مالک ہیں کہ انہوں نے اردو تنقید بالخصوص فکشن کی تنقید میں ایک منفرد طریقۂ کار روا رکھا ہے اور اس طرز تنقید کے وہ ہی خودموجد ہیں اور خود ہی خاتم ہیں ۔ وہ جب کسی متن کے تجزیے پر آتے ہیں تو اس کے اندر اُن تمام محرکات اور جہات کو سامنے لاتے ہیں جو اس کے لفظ و دربست میں پوشیدہ ہوتے ہیں ۔ بیدیؔ ‘منٹوؔ اور دوسرے افسانہ نگاورں کے افسانوں کا تجزیہ کرتے ہوئے انہوں نے افسانوی تنقید کو ایک خاص معیار اور وقار بحشا ہے ۔اُن کے انتقال سے اردو تنقید کو زبردست نقصان ہوا ہے جو شاید بہت دیر تک پُر کرنا ممکن نہیں ہے۔ ‘‘
صدر شعۂہ اردوکشمیر یونیورسٹی پروفیسر منصور احمد نے اپنے رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اردو تنقید کے ایک مینارۂ نور کا آج اختتام ہوا۔ جس سے اُردوٗ دُنیا کو شدید نقصان پہنچا۔میں اُن کے اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار کرتا ہوں۔
اُدھر جموں یونیورسٹی سے پروفیسر شہاب عنایت ملک نے وارِث علوی کی وفات پر اِظہارِ خیال کرتے ہوئے وارث علوی کو اُردو تنقید کا صاحب اسلوبِ نقاد تسلیم کرتے ہوئے اپنے شدید رنج وغم کا اِظہار کیا۔
اِظہار تعزیت کرتے ہوئے ڈاکٹر مشتاق حیدرؔ نے کہا کہ ’’ وارِث علوی اپنی ذات میں انجمن تھے۔ ادب کے نبض شناس ہونے کا دعویٰ تو کئی لوگ کرتے ہیں لیکن اردو تنقید کا بھرم گنتی کے نقادوں سے واقعی ہیں،اُن میں وارِث علوی کا نام سب سے درخشاں ہیں ۔ ایسے بے لاگ نقاد کے گزرنے پر لیلائے اردو اپنے بال کھولے یاس و الم میں آوارہ پھر رہی ہوگی۔ افسوس اس بات کا ہے کہ غالبؔ کی طرح وارث علوی بھی زمانے کی ناقدری کا شکار ہوئے۔
شعبۂ اردو کے سابقہ اِسکالر ڈاکٹر شاہ فیصل نے کہا’’ کہ یہ خبر سُن مجھے شدید صدمہ پہنچا۔ میں نے نہ صرف اُن پر تحقیقی مقالہ لکھا بلکہ اُن سے میری ایسی قربت رہی جو اپنے والدین سے رہتی ہے ۔ تحقیقی مقالہ لکھنے کے دوران اُن سے روزانہ گھنٹوں فون پرگفتگورہی اور ان کے زریں خیالات سے بہرہ ور ہونے کا موقع ملتا رہا۔ہمارے لیے یہ امر باعث افتخار ہے کہ میں نے وارث علوی پر تحقیقی مقالہ ترتیب دِیااور دوسری بڑے خوشی نصیبی یہ ہے کہ وارث علوی پر راقم الحروف کاتحقیقی مقالہ پہلا مقالہ ہے۔
آخری تدوین: