عبدالقیوم چوہدری
محفلین
ہسپتال میں تیماردارکی آمد پر بڑا جشن ہوتا ہے۔ میرے جیسے کئی کھانگڑ مریض تکیے سے سر اٹھا کر دیکھتے ہیں کہ کون آیا ، کس کے پاس آیا اور کیا لایا۔ مریضان دائمی، کہ تیمارداران جن کے شاید مرکھپ گئے ہیں، دوسروں کی ٹوکری یا شاپر میں ملفوف فروٹ پیسٹری تک گِن لیتے ہیں۔
تیماردار کو دیکھتے ہی مریض کمبل پھاڑ کے اٹھ بیٹھتا ہے۔ اگر رشتہ دار آیا ہو تو ٹفن بکس کھل جاتے ہیں۔ ننّھے منے بچے وارڈ میں قلقاریاں کرتے ہیں، اور ان کے شور سے ہسپتال میں گھر جیسا ماحول بننے لگتا ہے۔
تیماردار اگر دفتر کا ساتھی ہو تو دفتر کے حالات زیر بحث آتے ہیں۔ صاحبان کی غیبت چلتی ہے۔ کسی منحوس دفتری فٹیک کی خبر سن کر خدا کا شکر ادا کیا جاتا ہے کہ اس نازک گھڑی میں ہم وہاں نہیں تھے اور بیماری نے ہمیں بچا لیا۔
تیماردار کے چلے جانے کے بعد بھی اس مریض کی شان بنی رہتی ہے۔ سب اس کے بیڈ کے قریب حلقہ نشیں ہوتے ہیں۔ پھر جب تک وہ ٹوکری کا مونہہ کھول نہ لے گفتگو چلتی رہتی ہے۔
پہلے روز دفتر والوں نے ہمارے سرہانے فروٹ باسکٹ رکھی تو ہم خوشی سے اچھل پڑے۔ کئی روز تک باسکٹ کی پنّی نہ کھولی کہ عزت بنی رہے۔ بالاخر امرود کے کیڑوں نے صدا دی کہ صاحب آپ کھاتے ہیں یا ہم پہل کریں۔ کیلوں کا رنگ امریش پوری جیسا ہو گیا، تب نکالے۔ قندھاری انار آخری روز تک سجے رہے کہ وارڈ میں رعب و دبدبہ قائم رہے۔
ہم شروع ہی سے ڈائری لکھنے کے شوقین ہیں۔ ایک مولانا صاحب عیادت کو آئے۔ انہوں نے بیمار ہونے کے بہت سے فضائل سنائے۔ جانے لگے تو ہم نے ڈائری لکھی "جناب عبدلقدوس صاحب ہزاروی آج مورخہ 20 دسمبر کو تشریف لائے، عیادت فرمائی، اور بنا کچھ کھائے پیے رخصت ہوگئے۔
پھر یہ وزیٹر ڈائری ان کے سامنے دھری کہ قبلہ دستخط فرما دیجئے۔
انہوں نے تحریر پڑھی، پھر کھسیانے ہو کر نکل گئے۔ ہم قیلولہ سے جاگے تو پھلوں کا ایک تازہ شاپر سرہانے پڑا ہوا تھا۔
ایک اور ہمدم دیرینہ تشریف لائے۔ پہلے فروٹ کا شاپر تھمایا، پھر کہا ڈائری پہ نوٹ کر لیجئے ، سنا ہے بڑا حساب کتاب کرنے لگے ہو۔ ہم نے کہا پھل کی کوالٹی دیکھ کر فیصلہ کریں گے کہ درجہء اوّل لکھنا ہے یا چہارم۔ کل کلاں آپ نے بھی بیمار ہونا ہے، جیسا کھلاؤ گے ویسا ہی کھاؤ گے۔
ایک اور صاحب بڑی سرعت سے آئے۔ گرم جوشی سے ملے۔ کہنے لگے گزر رہا تھا، سوچا دیکھ لوں کون کون مُودھا پڑا ہے، ہم نے کہا سو دو سو روپے فروٹ کے پکڑائیے، ہم ابھی سیدھے ہو جاتے ہیں۔ وہ سرعت سے باہر نکلے اور آج تک نہیں لوٹے۔
ایک اور صاحب فون پہ عیادت کرتے ہوئے اخلاقاً پوچھ بیٹھے کہ کسی چیز کی ضرورت ہو تو مطلع کیجئے- ہم نے کہا بس خاص نہیں، تازہ پھل، دودھ، جوس بسکٹ سب بھجوا دیجئے۔ ایک چکّی نہانے کا صابن اور چھوٹی بوتل شہد کی۔ مزید ہو سکے تو یوفون کا سپر پیکیج کروا دیجئے، نیٹ کو ترس رہے ہیں۔
انہوں نے شاید جوشِ میں آ کے سِم ہی چبا لی۔ عرصہ ہوا نمبر بند جا رہا ہے۔
رفتہ رفتہ حلقہء تیمارداراں میں ہماری ڈھٹائی کے قصّے مشہور ہوئے تو لوگوں نے ادھر آنا ہی چھوڑ دیا۔ آخر ایک روز فروٹ باسکٹ قومی خزانے کی طرح خالی ہو گئی تو ہم نے ڈاکٹر سے کہا قبلہ اب ہم بالکل ٹھیک ہیں۔ براہ کرم ڈسچارج فرما دیجئے۔
ڈاکٹر صاحب تو پہلے ہی ادھار کھائے بیٹھے تھے۔ فوراً کمپاؤنڈر کو بلایا اور کہا یہ اب بالکل ٹھیک ہیں۔ بلڈ پریشر ، پلس ، ٹمپریچر سب اے ون ہے۔ ان کی ڈسچارج سلپ آج ہی بنا دیجئے۔
کوئی دو ماہ بعد ایک ضروری کام سے پھر اسی ہسپتال جانا ہوا۔ کام نپٹا کے نکلے تو اس وارڈ پہ نگاہ پڑ گئی جہاں ہم نے 15 دن قیدِ علالت کاٹی تھی۔ ہمارے قدم بے ساختہ فروٹ کینٹین کی طرف اٹھ گئے۔
وارڈ میں کچھ بھی تو نہ بدلا تھا۔ کھانا تقسیم کرنے والے خان بابا، بستر چادریں بدلنے والا وقاص ہیرو، اور جعلی بلڈ پریشر گراف بنانے والا مٹھل سائیں۔ ہاں مریض ضرور بدل چکے تھے۔ کئی کھانگڑوں نے تکیوں سے سر اٹھا کر دیکھا کہ کون آیا ہے، کس کے پاس آیا ہے اور کیا لایا ہے۔
کسی واقف کار مریض کی تلاش میں ادھر ادھر دیکھ ہی رہے تھے کہ حمید بھائی نظر آ گئے۔ 8 سال پہلے جس محلے میں ہم رہتے تھے، یہ وہاں گراں فروش تھے۔ ٹانگوں پہ پلستر تھا اور ہائے ہائے کا ورد جاری۔
ہم نے فروٹ انکے سرہانے رکھا تو ان کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ مسکرا کے بولے ، ملک صاحب درد اتنا شدید ہے کہ آپ کو دیکھ کے مسکرا بھی نہیں سکتا۔ ہم نے کہا مسکراہٹ قوم کی امانت ہے، اس کےلئے سنبھال رکھیے بس جلدی ٹھیک ہو جائیے۔ گاہک آپ کے منتظر ہیں۔
واپسی پہ میری جیب ان کی دعاؤں سے بھری ہوئی تھی۔ میں جانتا تھا کہ مریض اور مسافر کی دعا رب تعالی کے ہاں بڑی مقبول ہے، اور ہسپتال میں لیٹا شخص مسافر بھی ہوتا ہے اور مریض بھی۔
مزاروں پہ پھولوں کی چادریں ضرور چڑھائیے، لیکن کبھی کبھار سول ہسپتال جاکر کسی مریض پر پھلوں کا ٹوکرا بھی چڑھا دیجئے۔ اس کےلئے دعا کیجئے، اور اپنے لئے دعا کروائیے۔ یقین مانیں بڑے پہنچے ہوئے ہوتے ہیں یہ لوگ۔ دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں۔
۔۔۔
از ظفر اعوان
تیماردار کو دیکھتے ہی مریض کمبل پھاڑ کے اٹھ بیٹھتا ہے۔ اگر رشتہ دار آیا ہو تو ٹفن بکس کھل جاتے ہیں۔ ننّھے منے بچے وارڈ میں قلقاریاں کرتے ہیں، اور ان کے شور سے ہسپتال میں گھر جیسا ماحول بننے لگتا ہے۔
تیماردار اگر دفتر کا ساتھی ہو تو دفتر کے حالات زیر بحث آتے ہیں۔ صاحبان کی غیبت چلتی ہے۔ کسی منحوس دفتری فٹیک کی خبر سن کر خدا کا شکر ادا کیا جاتا ہے کہ اس نازک گھڑی میں ہم وہاں نہیں تھے اور بیماری نے ہمیں بچا لیا۔
تیماردار کے چلے جانے کے بعد بھی اس مریض کی شان بنی رہتی ہے۔ سب اس کے بیڈ کے قریب حلقہ نشیں ہوتے ہیں۔ پھر جب تک وہ ٹوکری کا مونہہ کھول نہ لے گفتگو چلتی رہتی ہے۔
پہلے روز دفتر والوں نے ہمارے سرہانے فروٹ باسکٹ رکھی تو ہم خوشی سے اچھل پڑے۔ کئی روز تک باسکٹ کی پنّی نہ کھولی کہ عزت بنی رہے۔ بالاخر امرود کے کیڑوں نے صدا دی کہ صاحب آپ کھاتے ہیں یا ہم پہل کریں۔ کیلوں کا رنگ امریش پوری جیسا ہو گیا، تب نکالے۔ قندھاری انار آخری روز تک سجے رہے کہ وارڈ میں رعب و دبدبہ قائم رہے۔
ہم شروع ہی سے ڈائری لکھنے کے شوقین ہیں۔ ایک مولانا صاحب عیادت کو آئے۔ انہوں نے بیمار ہونے کے بہت سے فضائل سنائے۔ جانے لگے تو ہم نے ڈائری لکھی "جناب عبدلقدوس صاحب ہزاروی آج مورخہ 20 دسمبر کو تشریف لائے، عیادت فرمائی، اور بنا کچھ کھائے پیے رخصت ہوگئے۔
پھر یہ وزیٹر ڈائری ان کے سامنے دھری کہ قبلہ دستخط فرما دیجئے۔
انہوں نے تحریر پڑھی، پھر کھسیانے ہو کر نکل گئے۔ ہم قیلولہ سے جاگے تو پھلوں کا ایک تازہ شاپر سرہانے پڑا ہوا تھا۔
ایک اور ہمدم دیرینہ تشریف لائے۔ پہلے فروٹ کا شاپر تھمایا، پھر کہا ڈائری پہ نوٹ کر لیجئے ، سنا ہے بڑا حساب کتاب کرنے لگے ہو۔ ہم نے کہا پھل کی کوالٹی دیکھ کر فیصلہ کریں گے کہ درجہء اوّل لکھنا ہے یا چہارم۔ کل کلاں آپ نے بھی بیمار ہونا ہے، جیسا کھلاؤ گے ویسا ہی کھاؤ گے۔
ایک اور صاحب بڑی سرعت سے آئے۔ گرم جوشی سے ملے۔ کہنے لگے گزر رہا تھا، سوچا دیکھ لوں کون کون مُودھا پڑا ہے، ہم نے کہا سو دو سو روپے فروٹ کے پکڑائیے، ہم ابھی سیدھے ہو جاتے ہیں۔ وہ سرعت سے باہر نکلے اور آج تک نہیں لوٹے۔
ایک اور صاحب فون پہ عیادت کرتے ہوئے اخلاقاً پوچھ بیٹھے کہ کسی چیز کی ضرورت ہو تو مطلع کیجئے- ہم نے کہا بس خاص نہیں، تازہ پھل، دودھ، جوس بسکٹ سب بھجوا دیجئے۔ ایک چکّی نہانے کا صابن اور چھوٹی بوتل شہد کی۔ مزید ہو سکے تو یوفون کا سپر پیکیج کروا دیجئے، نیٹ کو ترس رہے ہیں۔
انہوں نے شاید جوشِ میں آ کے سِم ہی چبا لی۔ عرصہ ہوا نمبر بند جا رہا ہے۔
رفتہ رفتہ حلقہء تیمارداراں میں ہماری ڈھٹائی کے قصّے مشہور ہوئے تو لوگوں نے ادھر آنا ہی چھوڑ دیا۔ آخر ایک روز فروٹ باسکٹ قومی خزانے کی طرح خالی ہو گئی تو ہم نے ڈاکٹر سے کہا قبلہ اب ہم بالکل ٹھیک ہیں۔ براہ کرم ڈسچارج فرما دیجئے۔
ڈاکٹر صاحب تو پہلے ہی ادھار کھائے بیٹھے تھے۔ فوراً کمپاؤنڈر کو بلایا اور کہا یہ اب بالکل ٹھیک ہیں۔ بلڈ پریشر ، پلس ، ٹمپریچر سب اے ون ہے۔ ان کی ڈسچارج سلپ آج ہی بنا دیجئے۔
کوئی دو ماہ بعد ایک ضروری کام سے پھر اسی ہسپتال جانا ہوا۔ کام نپٹا کے نکلے تو اس وارڈ پہ نگاہ پڑ گئی جہاں ہم نے 15 دن قیدِ علالت کاٹی تھی۔ ہمارے قدم بے ساختہ فروٹ کینٹین کی طرف اٹھ گئے۔
وارڈ میں کچھ بھی تو نہ بدلا تھا۔ کھانا تقسیم کرنے والے خان بابا، بستر چادریں بدلنے والا وقاص ہیرو، اور جعلی بلڈ پریشر گراف بنانے والا مٹھل سائیں۔ ہاں مریض ضرور بدل چکے تھے۔ کئی کھانگڑوں نے تکیوں سے سر اٹھا کر دیکھا کہ کون آیا ہے، کس کے پاس آیا ہے اور کیا لایا ہے۔
کسی واقف کار مریض کی تلاش میں ادھر ادھر دیکھ ہی رہے تھے کہ حمید بھائی نظر آ گئے۔ 8 سال پہلے جس محلے میں ہم رہتے تھے، یہ وہاں گراں فروش تھے۔ ٹانگوں پہ پلستر تھا اور ہائے ہائے کا ورد جاری۔
ہم نے فروٹ انکے سرہانے رکھا تو ان کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ مسکرا کے بولے ، ملک صاحب درد اتنا شدید ہے کہ آپ کو دیکھ کے مسکرا بھی نہیں سکتا۔ ہم نے کہا مسکراہٹ قوم کی امانت ہے، اس کےلئے سنبھال رکھیے بس جلدی ٹھیک ہو جائیے۔ گاہک آپ کے منتظر ہیں۔
واپسی پہ میری جیب ان کی دعاؤں سے بھری ہوئی تھی۔ میں جانتا تھا کہ مریض اور مسافر کی دعا رب تعالی کے ہاں بڑی مقبول ہے، اور ہسپتال میں لیٹا شخص مسافر بھی ہوتا ہے اور مریض بھی۔
مزاروں پہ پھولوں کی چادریں ضرور چڑھائیے، لیکن کبھی کبھار سول ہسپتال جاکر کسی مریض پر پھلوں کا ٹوکرا بھی چڑھا دیجئے۔ اس کےلئے دعا کیجئے، اور اپنے لئے دعا کروائیے۔ یقین مانیں بڑے پہنچے ہوئے ہوتے ہیں یہ لوگ۔ دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں۔
۔۔۔
از ظفر اعوان