مختصر نویسی کا معجزہ
از ڈاکٹر اجمل نیازی
ایزرا پاونڈ نے کہا تھا کہ وہ مقناطیس کہاں چلا گیا ہے کہ جو لوگوں کو اپنی طرف کھینچتا تھا ، یہ گمشدگی ایک ہمہ گیر ضیاع کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ واصف صاحب نے وہ مقناطیس کہیں سے حاصل کر لیا ہے۔ یہ چیزیں کبھی کہیں سے مل ہی جاتی ہیں۔ اس کبھی اور کہیں کا کسی دوسرے کو پتہ نہیں چل پاتا۔ واصف صاحب کے اردگرد خاص کشش کا دائرہ بڑھتا جاتا ہے۔ ان کے لہجے میں ایک اجنبی جاذبیت ہے جو دلوں کو موڑ کر لے آتی ہے۔ ہمارے ہاں بات کرنے والا بڑا بڑا آدمی پڑا ہے۔ ڈاکٹر محمد اجمل اور اشفاق احمد دونوں کا انداز جدا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے ہاں فکر کی گہرائیاں ہیں ، اشفاق صاحب بات کو مزے دار بنا دیتے ہیں۔ واصف صاحب کو بھی بات کرنے کا وجدان نصیب ہوا ہے۔ وہ فکر کو ذکر میں بدل دیتے ہیں۔ واصف صاحب کے ہونے کی خبر ادبی حلقوں میں اشفاق صاحب نے سب سے پہلے کی۔
باتیں تقریر سے یکسر مختلف ہوتی ہیں۔ واصف صاحب تقریر نہیں کرتے ، مکالمے کو مشاہدے اور مشاہدے کو مکاشفے کا رنگ دیتے ہیں ، کئی لوگ مراقبے کا لطف بھی اٹھا لیتے ہیں۔ اس طرح نظر نہ آنے والے منظر نظر آنے والی تصویروں میں آپ سے آپ ڈھلتے ہیں۔ مختلف سوچوں ، ارادوں ، آرزوں والے آدمی یہاں اپنے مطلب کی چیز منتخب کر لیتے ہیں ، ہر شخص یہ سمجھتا ہے جیسے کوئی صرف اسی سے مخاطب ہے۔ واصف صاحب وجدانی لہر میں بولتے ہیں۔ لکھتے بھی اسی ادا میں ہوں گے۔ وہ کچھ بولتے ہیں تو ٹیپ ریکارڈر میں محفوظ کرکے مرتب کرلیا جاتا ہے۔ یہ ان کی گفتگو ہے جو کرن کرن سورج اور دل دریا سمندر کی صورت میں کتاب بن گئی ہے۔ ان کی باتیں سن کر ایسا لگتا ہے جیسے خیال نے وصال پالیا ہے۔ یہ ایک صاحب کمال شخص کا کلام ہے جو صاحب حال بھی ہے اور صاحب قال بھی ہے ، جیسے آرزوں اور جستجو کو ایک ٹھکانا مل گیا ہو۔ کرن کرن سورج اختصار اور ارتکاز کا امتزاج ہے ، فقرے اور مصرعے کا فرق مٹ گیا ہے۔ میرا دھیان خلیل جبران کی طرف جاتا ہے وہ حکایت کہتے تھے ، یہ حقیقت کہتے ہیں۔ اس حکایت میں حقیقت ظہور کرتی ہے ، اس حقیقت میں حکایت چھپتی پھرتی ہے۔ بہرحال ایک بات پکی ہے کہ مختصر نویسی کے لئے کسی بھی اسلوب اور صنف کا انتخاب کیا جائے اور کوئی اس میں کامیابی حاصل کرلے تو اس سے زیادہ مکمل اور موثر اظہار کچھ نہیں۔ہماری تحریریں فضول حرفوں کا انبار بنتی جارہی ہیں جن میں کام کا لفظ تلاش کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ بات کو غیر ضروری طول دینا ہمارا مشغلہ بن گیا ہے۔ عشاء کی نماز کے بعد فجر کی اذان تک بولے چلے جانا کارنامہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ کارنامہ ہے اگر بولنے والا عطا اللہ شاہ بخاری کا ہم زاد ہو ، مگر اب لوگوں کے پاس وقت نہیں اور لمبی تقریروں کا زمانہ گیا۔ گفتگو ، بات چیت ،گپ شپ کو بہت پسند کیا جاتا رہا ہے۔ ایسے میں کوئی جملہ ، کوئی نکتہ ، کوئی کنایہ سامنے والے آدمی کو ہلا دیتا ہے ، اسے سرشار بھی کردیتا ہے ، اسے مسکرانے یا قہقہ لگانے یا رونے یا سوچنے پر اکسا سکتا ہے۔ اس طرح کی بات لمبی بات میں ممکن نہیں۔ راز کی بات تفصیل میں نہیں ہوسکتی۔ راز تخلیق بھی ہوتا ہے ۔ راز فاش بھی ہوتا ہے۔ یہ دونوں باتیں اچانک ہوتی ہیں۔ ہر آدمی کے پاس کوئی نہ کوئی راز ہوتا ہے جو کسی دوسرے کے پاس نہیں ہوتا۔ اسے دریافت کرنا ، پھر اسے بیان کرکے دوسروں کو اپنے اپنے راز کی خبر دینا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ جب ہمراز رنگ بالمقابل آنکھوں میں چمک اٹھیں تو وہ حیران رہ جاتا ہے۔ حیران ہونے سے زیادہ مستی والی حالت کوئی اور نہیں۔
جب کسی بیان مین کوئی لفظ زائد نہ ہو تو ہر لفظ گنجینہ معنی کا طلسم بن جاتا ہے۔ ایک پوری دنیا ایک پورے لفظ میں موجود ہوتی ہے۔ شرط یہ ہے کہ لفظ زندہ اور بیدار ہو۔ آج کے ادیب دانشور کی زبان و قلم سے خفتہ اور مردہ لفظ چمٹ کر رہ گئے ہیں۔ احادیث رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ایک محبوب یاداشت ہیں۔ حدیث مختصر گوئی کا اعلی ترین نمونہ ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے زیادہ خوبصورت ، موثر ، مکمل اور بامعنی بات کرنے والا اور کوئی نہیں۔ان کی باتوں کے ایک ایک لفظ میں زندگی کی تعبیر اور تقدیر اپنی ساری انتہاوں اور ابتداوں کے ساتھ موجود ہوتی ہیں۔ اس کے بعد قائد اعظم کی تقریریں سنائی دینے لگتی ہیں۔ ان کے مٹھی بھر لفظوں میں ملت اسلامیہ اور مسلمانان برصغیر کی تمناوں کا جہان ابھرتا دکھائی دیتا ہے۔ سیاست دان لیڈروں کی لمبی لمبی تقریریں ان مختصر خطابات کے سامنے ہیچ ہیں۔ لفظ شناسی اور مردم شناسی ایک جیسے فن ہیں۔ واصف صاحب بھی ان فنون کی باریکیوں اور نزاکتوں سے خوب واقف ہیں۔ یہ مشکل کام ہے۔ محمد علی جوہر اپنے رسالے کامریڈ میں لمبے لمبے اداریے لکھتے تھے ، پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ میرے پاس مختصر لکھنے کا وقت نہیں ہے۔ اس سے زیادہ مختصر نویسی کے کمال کی وضاحت ممکن نہیں۔ کسی بات کی وضاحت میں مشکل پیش نہیں آتی۔ خیالوں کے دریا بہانے سے دریا کو کوزے میں بند کرنا کہیں دشوار ہے۔ آدمی کا اندر تو سمندر ہے۔ اسے لفظ و خیال کے کٹوروں میں ڈال کر سب کو تقسیم کرنا کہ ہر آدمی کو سب کچھ مل جائے ، کوئی پیاسا نہ رہے ، کوئی ڈوب نہ مرے ، جان جوکھوں کا کام ہے۔ایک ایک آیت اور ایک ایک حدیث بڑی بڑی حقیقتوں کا خلاصہ بن گئی ہے۔ ایک طرح سے مختصر نویسی سنت رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی گہرائی میں میسر آتی ہے۔
واصف صاحب عشق کے نمائندے کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ واصف صاحب نے شاعری بھی کی ہے۔ اس لئے وہ لفظوں کے بے دریغ اصراف کو اچھا نہیں سمجھتے۔ ان کے مجموعہ کلام "شب چراغ" کی روشنی تاریکیوں کو دوست بنانے کا ہنر عام کرنے والی ہے۔انہوں نے مضامین بھی لکھے ہیں۔واصف صاحب کی یہ تحریریں مضمون کے علاوہ بھی کچھ ہیں۔ انہیں کسی ایک صنف سخن کے کمرے میں بند نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بظاہر موضوعاتی مضامین ہیں مگر خیال موضوع سے بچھڑنے کے بعد بھی تاثر کی اکائی کو قائم رکھتا ہے جس طرح کہ دریا کا پانی سیلاب کی شکل میں کناروں سے بہت دور جا کر بھی دریا کا حصہ رہتا ہے۔ "کرن کرن سورج" اور "دل دریا سمندر" ایک ہی سکے کے دو رخ نظر آتے ہیں۔کسی تصویر کو دو مختلف مقامات سے دکھایا جانے لگتا ہے۔ واصف صاحب بیک وقت کئی مقامات سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ "کرن کرن سورج" کے چھوٹے چھوٹے جملے بڑے بڑے مضامین کو سمیٹے ہوئے ہیں۔ "دل دریا سمندر" کے مضامین ایک ایک جملے کا پھیلاو ہیں۔ دائرہ جتنا بڑھ جائے مرکزی نکتہ یا محور سے جدا تو نہیں ہوسکتا۔ سمٹنا اور پھیلنا ہی فن کی رمز ہے۔ کرن کرن مل کر سورج بنتی ہے ۔ سورج کرن کرن میں بکھرتا ہے۔ دل ایک قطرہ ہے ، کبھی دریا کبھی سمندر ، دل دریا سمندروں ڈونگھے۔ میرے خیال میں کرن اور لہر میں کچھ فرق نہیں۔واصف صاحب کے جملوں اور مضمونچوں میں اسلوب تاثیر اور معنویت کے اعتبار سے بعد نہیں۔ وہ اہل خبر میں سے ہیں ، اور اہل خیر میں سے ہیں۔ ورنہ اب لوگ بری خبریں اڑانے میں لگے ہوئے ہیں۔ واصف صاحب نے خبر کو تخلیقی لہجہ دے کر خیال بنا دیا ہے۔ اس خیال میں اصل خبر ہے۔ سرسید کے مضامین یا آج کے انشائیہ میں خبر اور خیال دونوں نہیں ۔ واصف صاحب ادیب ، شاعر کے علاوہ بھی کوئی رول رکھتے ہیں۔ وہ اگر چاہتے تو بڑے آرام سے اپنی تحریروں کو کوئی نیا سا نام دے سکتے تھے اور لوگ بڑی خوشی سے اسے دل و جان سے تسلیم کرلیتے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ اکثر صوفیوں نے شاعری کو اپنے اظہار کا رستہ بنایا ، کچھ نے نثر کا وسیلہ اختیار کیا ، واصف صاحب نے یہ دونوں ذرائع اپنی صوابدید پر رکھے ہوئے ہیں۔ وہ ایک درویش دانشور ہیں۔ پڑھے لکھے اور فکر و درد والے۔ لوگوں کو بالکل الگ انداز میں اپنی جانب بلا رہے ہیں۔انہوں نے نثر میں موجود رواج سے بالکل انوکھا ایک تخلیقی مزاج بنانے کی کوشش کی ہے۔ ان کی باتوں میں پرانے بھید بھرے ہوتے ہیں۔ اس طرح دوسروں کو اپنے اپنے بھولے ہوے بھید بھی یاد آنے لگتے ہیں۔ باتیں تو بلند دروازے کھولنے والی ہوتی ہیں۔
دہلیز کے اندر تو ہر کسی کا اپنا ، اپنا ہوتا ہے یقین دلانے والی بات اتنی ہوتی ہے کہ یہ سب آپ کا ہے۔ واصف صاحب نے اس دنیا کے مشاہدات کو کسی اور دنیا کی کیفیات میں ملا کر ایک گہری دانائی کا پیکر تراشا ہے۔ قدیم زندگی کی روایت کو جدید دنوں کے اسلوب میں قابل قبول خوشبو عطا کردی ہے۔ دولت شہرت کی دوڑ میں لوگ افراتفری اور نفسا نفسی کا بری طرح شکار بنے ہوئے ہیں۔ ایسے میں انہیں اخلاص کی طرف آنے پر مجبور کرنا بلکہ مائل کرنا ایک خاص ڈیوٹی معلوم ہوتی ہے۔مجبور کرنے اور مائل کرنے میں جو امتیاز ہے اسی میں لوگ اس طرح کی باتوں کا مذاق اڑاتے ہیں کہ یہ کونسے جہان کی باتیں ہیں۔ انہیں دقیانوسی تصور کرتے ہیں۔ واصف صاحب نے منتشر سوچوں کو اپنے مطمئن ارادوں سے ہم آہنگ کرلیا ہے۔ یہ تخلیقی اور تحریکی کاروائی جدائی کے بعد وصال کے ایک واقعہ کی طرح ہے۔ آج کل خواہش ، محرومیاں ، ارادے ، جذبے سب کچھ ہیں ، مگر کوئی چیز واقعہ نہیں بن پاتی۔ واصف صاحب نے زندگی میں اصل واقعہ دیکھ لیا ہے۔حقیقت ان کی سہیلی بن گئی ہے ، جب کہ سچائیوں کو انسانوں کا دشمن بنانے والوں نے اندھیر نگری مچا رکھی ہے۔
--واصف علی واصف کی زندگی میں لکھا گیا--