واقعہ شق القمراور جدید سائنس


Lunar Rilles
اپالو 10اور 11کے ذریعے ناسا نے چاند کی جو تصویر لی ہے اس سے صاف طور پر پتہ چلتا ہے کہ زمانہ ماضی میں چاند دو حصوں میں تقسیم ہوا تھا۔ یہ تصویر ناسا کی سرکاری ویب سائٹ پر موجود ہے اور تاحال تحقیق کامرکز بنی ہوئی ہے۔ ناسا ابھی تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچی ہے۔ اس تصویر میں راکی بیلٹ کے مقام پر چاند دو حصوں میں تقسیم ہوا نظر آتاہے۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں مصر کے ماہر ارضیات ڈاکٹر زغلول النجار سے میزبان نے اس آیت کریمہ کے متعلق پوچھا:
ترجمہ:۔ ”قیامت قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا یہ اگر کوئی معجزہ دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں یہ پہلے سے چلا آتا ہوا جادو ہے۔انہوں نے جھٹلایا اور اپنی خواہشوں کی پیروی کی اور ہر کام ٹھہرے ہوئے وقت پر مقرر ہے۔“۔( القمر، 1-3)
(ڈاکٹر زغلول النجار یونیورسٹی جدہ میں ماہر ارضیات کے پروفیسر ہیں۔ قرآن مجید میں سائنسی حقائق کمیٹی کے سربراہ ہیں۔ اور مصر کی سپریم کونسل آف اسلامی امور کی کمیٹی کے بھی سربراہ ہیں)۔ انہوں نے میزبان سے کہا کہ اس آیت کریمہ کی وضاحت کے لیے میرے پاس ایک واقعہ موجود ہے۔ انہوں نے اس واقعہ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ایک دفعہ میں برطانیہ کے مغرب میں واقع کارڈف یونیورسٹی میں ایک لیکچر دے رہا تھا۔ جس کو سننے کے لیے مسلم اور غیر مسلم طلباء کی کثیر تعداد موجود تھی۔ قرآن میں بیان کردہ سائنسی حقائق پر جامع انداز میں گفتگو ہو رہی تھی کہ ایک نو مسلم نوجوان کھڑ ا ہوا اور مجھے اسی آیت کریمہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سر کیا آپ نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر غور فرمایا ہے، کیا یہ قرآن میں بیان کردہ ایک سائنسی حقیقت نہیں ہے۔ ڈاکٹر زغلول النجار نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ نہیں! کیونکہ سائنس کی دریافت کردہ حیران کن اشیاء یا واقعات کی تشریح سائنس کے ذریعے کی جاسکتی ہے مگر معجزہ ایک مافوق الفطرت شے ہے ، جس کو ہم سائنسی اصولوں سے ثابت نہیں کرسکتے۔ چاند کا دو ٹکڑے ہونا ایک معجزہ تھا جس کو اللہ تعالیٰ نے نبوت محمدی ﷺ کی سچائی کے لیے بطور دلیل دکھایا۔ حقیقی معجزات ان لوگوں کے لیے قطعی طورپر سچائی کی دلیل ہوتے ہیں جو ان کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ ہم اس کو اس لیے معجزہ تسلیم کرتے ہیں کیونکہ اس کا ذکر قرآن وحدیث میں موجود ہے۔
اگر یہ ذکر قرآن وحدیث میں موجود نہ ہوتا تو ہم اس زمانے کے لوگ اس کو معجزہ تسلیم نہ کرتے۔ علاوہ ازیں ہمارا اس پر بھی ایمان ہے کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ پھر انہوں نے چاند کے دو ٹکڑے ہونے کے واقعہ کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ احادیث کے مطابق ہجرت سے 5سال قبل قریش کے کچھ لوگ حضور ﷺ کے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ اگر آپ واقعی اللہ کے سچے نبی ہیں تو ہمیں کوئی معجزہ دکھائیں۔ حضور ﷺ نے ان سے پوچھا کہ آپ لوگ کیا چاہتے ہیں ؟ انہوں نے ناممکن کام کا خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس چاند کے دو ٹکڑے کر دو۔ چناچہ حضور ﷺ نے چاند کی طرف اشارہ کیا اور چاند کے دو ٹکڑے ہو گئے حتٰی کہ لوگوں نے حرا پہاڑ کو اس کے درمیان دیکھا یعنی اس کا ایک ٹکڑا پہاڑ کے اس طرف اور ایک ٹکڑا اس طرف ہو گیا۔ ابن مسعودی فرماتے ہیں سب لوگوں نے اسے بخوبی دیکھا اور آپ ﷺنے فرمایا دیکھو ،یاد رکھنا اور گواہ رہنا۔ کفار مکہ نے یہ دیکھ کر کہا کہ یہ ابن ابی کبشہ یعنی رسول اللہ ﷺ کا جادو ہے۔ کچھ اہل دانش لوگوں کا خیال تھا کہ جادو کا اثر صرف حاضر لوگوں پر ہوتاہے۔ اس کا اثر ساری دنیا پر تو نہیں ہو سکتا۔ چناچہ انہوں نے طے کیا کہ اب جو لوگ سفر سے واپس آئیں ان سے پوچھو کہ کیا انہوں نے بھی اس رات چاند کو دو ٹکڑے دیکھا تھا۔
چناچہ جب وہ آئے ان سے پوچھا ، انہوں نے بھی اس کی تصدیق کی کہ ہاں فلاں شب ہم نے چاند کے دو ٹکڑے ہوتے دیکھا ہے۔ کفار کے مجمع نے یہ طے کیا تھا کہ اگر باہر کے لوگ آ کر یہی کہیں تو حضور ﷺ کی سچائی میں کوئی شک نہیں۔ اب جو باہر سے آیا ، جب کبھی آیا ، جس طرف سے آیا ہر ایک نے اس کی شہادت دی کہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھاہے۔ اس شہادت کے باوجود کچھ لوگوں نے اس معجزے کا یقین کر لیا مگر کفار کی اکثریت پھر بھی انکار پر اَڑی رہی۔
اسی دوران ایک برطانوی مسلم نوجوان کھڑا ہوا اور اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ میرا نام داود موسیٰ پیٹ کاک ہے۔ میں اسلامی پارٹی برطانیہ کا صدر ہوں۔ وہ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولا کہ سر ! اگر آ پ اجازت دیں تو اس موضوع کے متعلق میں بھی کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ مَیں نے کہا کہ ٹھیک ہے تم بات کرسکتے ہو! اس نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ اسلام قبول کرنے سے پہلے جب میں مختلف مذاہب کی تحقیق کر رہا تھا، ایک مسلمان دوست نے مجھے قرآن شریف کی انگلش تفسیر پیش کی۔ مَیں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور اسے گھر لے آیا۔ گھر آکر جب میں نے قرآن کو کھولا تو سب سے پہلے میری نظر جس صفحے پر پڑی وہ یہی سورة القمر کی ابتدائی آیات تھیں۔ ان آیات کا ترجمہ اور تفسیر پڑھنے کے بعد میں نے اپنے آپ سے کہا کہ کیا اس بات میں کوئی منطق ہے ؟ کیا یہ ممکن ہے کہ چاند کے دو ٹکڑے ہوں اور پھر آپس میں دوبارہ جڑ جائیں۔ وہ کونسی طاقت تھی کہ جس نے ایسا کیا ؟ ان آیات کریمہ نے مجھے اس بات پر آمادہ کیا کہ میں قرآن کا مطالعہ برابر جاری رکھوں۔ کچھ عرصے کے بعد مَیں اپنے گھریلو کاموں میں مصروف ہوگیا مگر میرے اندر سچائی کو جاننے کی تڑپ کا اللہ تعالیٰ کو خوب علم تھا۔ یہی وجہ ہے کہ خدا کا کرنا ایک دن ایسا ہوا کہ میں ٹی وی کے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔ ٹی وی پر ایک باہمی مذاکرے کا پروگرام چل رہاتھا۔ جس میں ایک میزبان کے ساتھ تین امریکی ماہرین فلکیات بیٹھے ہوئے تھے۔ ٹی وی شو کا میزبان سائنسدانوں پر الزامات لگا رہا تھا کہ اس وقت جب کہ زمین پر بھوک ، افلاس ، بیماری اور جہالت نے ڈھیرے ڈھالے ہوئے ہیں ، آپ لوگ بے مقصد خلا میں دورے کرتے پھر رہے ہیں۔ جتنا روپیہ آپ ان کاموں پر خرچ کر رہے ہیں وہ اگر زمین پر خرچ کیا جائے تو کچھ اچھے منصوبے بنا کر لوگوں کی حالت کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔
بحث میں حصہ لیتے ہوئے اور اپنے کام کا دفاع کرتے ہوئے ان تینوں سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ یہ خلائی ٹیکنالوجی زندگی کے مختلف شعبوں ادویات ، صنعت اور زراعت کو وسیع پیمانے پر ترقی دینے میں استعمال ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم سرمائے کو ضائع نہیں کر رہے بلکہ اس سے انتہائی جدید ٹیکنالوجی کو فروغ دینے میں مدد مل رہی ہے۔ جب انہوں نے بتایا کہ چاند کے سفر پر آنے جانے کے انتظامات پر ایک کھرب ڈالر خرچ آتا ہے تو ٹی وی میزبان نے چیختے ہوئے کہا کہ یہ کیسا فضول پن ہے ؟ ایک امریکی جھنڈے کو چاند پر لگانے کے لیے ایک کھرب ڈالر خرچ کرنا کہاں کی عقلمندی ہے ؟ سائنسدانوں نے جوابا ً کہا کہ نہیں ! ہم چاند پر اس لیے نہیں گئے کہ ہم وہاں جھنڈا گاڑ سکیں بلکہ ہمارا مقصد چاند کی بناوٹ کا جائزہ لیناتھا۔ دراصل ہم نے چاند پر ایک ایسی دریافت کی ہے کہ جس کا لوگوں کو یقین دلانے کے لیے ہمیں اس سے دوگنی رقم بھی خرچ کرنا پڑسکتی ہے۔ مگر تاحال لوگ اس بات کو نہ مانتے ہیں اور نہ کبھی مانیں گے۔ میزبان نے پوچھا کہ وہ دریافت کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایک دن چاند کے دو ٹکڑے ہوئے تھے اور پھر یہ دوبارہ آپس میں مل گئے۔ میزبان نے پوچھا کہ آپ نے یہ چیز کس طرح محسوس کی ؟ انہوں نے کہا کہ ہم نے تبدیل شدہ چٹانوں کی ایک ایسی پٹی وہاں دیکھی ہے کہ جس نے چاند کو اس کی سطح سے مرکز تک اور پھر مرکز سے اس کی دوسری سطح تک، کو کاٹا ہوا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے اس بات کا تذکرہ ارضیاتی ماہرین سے بھی کیا ہے۔ ان کی رائے کے مطابق ایسا ہرگز اس وقت تک نہیں ہوسکتا کہ کسی دن چاند کے دو ٹکڑے ہوئے ہوں اور پھر دوبارہ آپس میں جڑ بھی گئے ہوں۔ برطانوی مسلم نوجوان نے بتایا کہ جب مَیں نے یہ گفتگو سنی تو اپنی کرسی اچھل پڑا اوربے ساختہ میرے منہ سے نکلا کہ اللہ نے امریکیوں کو اس کام کے لیے تیا رکیا کہ وہ کھربوں ڈالر لگا کر مسلمانوں کے معجزے کو ثابت کریں ، وہ معجزہ کہ جس کا ظہور آج سے 14سو سال قبل مسلمانوں کے پیغمبر ﷺکے ہاتھوں ہوا۔ مَیں نے سوچا کہ اس مذہب کو ضرور سچا ہونا چاہیے۔ میں نے قرآن کو کھولا اور سورة القمر کو پھر پڑھا۔ درحقیقت یہی سورة میرے اسلام میں داخلے کا سبب بنی۔
علاوہ ازیں انڈیا کے جنوب مغرب میں واقع مالابار کے لوگوں میں یہ بات مشہور ہے کہ مالابار کے ایک بادشاہ چکراوتی فارمس نے چاند کے دو ٹکڑے ہونے کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ اس نے سوچا کہ ضرور زمین پر کچھ ایسا ہوا ہے کہ جس کے نتیجے میں یہ واقعہ رونما ہوا۔ چنانچہ اس نے اس واقعے کی تحقیق کے لیے اپنے کارندے دوڑائے تو اسے خبر ملی کہ یہ معجزہ مکہ میں کسی نبی کے ہاتھوں رونما ہوا ہے۔ اس نبی کی آمد کی پیشین گوئی عرب میں پہلے سے ہی پائی جاتی تھی۔ چناچہ اس نے نبیﷺ سے ملاقات کا پروگرام بنایا اور اپنے بیٹے کو اپنا قائم مقام بنا کر عرب کی طرف سفر پر روانہ ہوا۔ وہاں اس نے نبی رحمت ﷺ کی بارگاہ میں حاضری دی اور مشرف بااسلام ہوا۔ نبی کریم ﷺ کی ہدایت کے مطابق جب وہ واپسی سفر پر گامزن ہوا تو یمن کے ظفر ساحل پر اس نے وفات پائی۔ یمن میں اب بھی اس کا مقبرہ موجود ہے۔ جس کو ”ہندوستانی راجہ کا مقبرہ“ کہا جاتا ہے اور لوگ اس کو دیکھنے کے لیے وہاں کا سفر بھی کرتے ہیں۔ اسی معجزے کے رونما ہونے کی وجہ سے اور راجہ کے مسلمان ہونے کے سبب مالابار کے لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا۔ اس طرح انڈیا میں سب سے پہلے اسی علاقے کے لوگ مسلمان ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے عربوں کے ساتھ اپنی تجارت کو بڑھایا۔ نبی کریم ﷺ کی بعثت سے قبل عرب کے لوگ اسی علاقے کے ساحلوں سے گزر کر تجارت کی غرض سے چین جاتے تھے۔ یہ تمام واقعہ اور مزید تفصیلات لندن میں واقع ”انڈین آفس لائبیریری“ کے پرانے مخطوطوں میں ملتاہے۔جس کاحوالہ نمبر (Arabic, 2807,152-173) ہے۔ اس واقعہ کا ذکر محمد حمید اللہ نے پنی کتاب ”محمد رسول اللہ“ میں کیا تھا۔
ناسا کی یہ تصویر اور سائنسدانوں کے بیانات سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ قرآن کریم نے جس واقعہ کا ذکر آج سے 14سو سال پہلے کیا تھا وہ بالکل برحق ہے۔ یہ نہ صرف قرآن مجید کی سچائی کی ایک عظیم الشان دلیل ہے بلکہ یہ ہمارے پیارے نبی ،امام الانبیا ءکی رسالت کی بھی لاریب گواہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ایمان کو اکمل و کامل کرے اور ہمیں قرآن وحدیث کے مطابق اپنے عملوں کو سنوارنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین۔
سبحان اللہ و بحمدہ،
مضمون بشکریہ
http://www.geourdu.com/islam/hakayat-e-islami-hayat-e-sahabah/واقعہ-شق-القمراور-جدید-سائنس/
 

سید ذیشان

محفلین
Lunar Rilles
اپالو 10اور 11کے ذریعے ناسا نے چاند کی جو تصویر لی ہے اس سے صاف طور پر پتہ چلتا ہے کہ زمانہ ماضی میں چاند دو حصوں میں تقسیم ہوا تھا۔ یہ تصویر ناسا کی سرکاری ویب سائٹ پر موجود ہے اور تاحال تحقیق کامرکز بنی ہوئی ہے۔ ناسا ابھی تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچی ہے۔

اس بات کے لئے ناسا کی ویب سائٹ کا کوئی ریفرنس موجود ہے؟
 

سعادت

تکنیکی معاون
اس بات کے لئے ناسا کی ویب سائٹ کا کوئی ریفرنس موجود ہے؟
اس بارے میں مجھے علم نہیں

ناسا کے قمری سائنس انسٹیٹیوٹ کی ویب سائٹ پر موجود ایک سائنسدان کا شق القمر کے ثبوت کے بارے میں بیان:
My recommendation is to not believe everything you read on the internet. Peer-reviewed papers are the only scientifically valid sources of information out there. No current scientific evidence reports that the Moon was split into two (or more) parts and then reassembled at any point in the past.

Brad Bailey
NLSI Staff Scientist
June 21, 2010

ترجمہ:​
میرا مشورہ ہے کہ انٹرنیٹ پر موجود ہر چیز کا اعتبار نہ کریں۔ سائنسی طور پر درست معلومات کا واحد ذریعہ ہم پیشہ سائنسدانوں کے جائزہ شدہ مقالات ہیں۔ ابھی تک اس بات کا کوئی سائنسی ثبوت نہیں مل سکا کہ ماضی میں چاند کے دو (یا زیادہ) ٹکڑے ہوئے ہوں اور بعد میں باہم مِل گئے ہوں۔

بریڈ بیلے
این-ایل-ایس-آئی سٹاف سائنسدان
21 جون، 2010
 

سید ذیشان

محفلین
ناسا کے قمری سائنس انسٹیٹیوٹ کی ویب سائٹ پر موجود ایک سائنسدان کا شق القمر کے ثبوت کے بارے میں بیان:



Brad Bailey

NLSI Staff Scientist

June 21, 2010
[/eng]



ترجمہ:​

جی شکریہ، میں نے اسی لئے ریفرنس مانگا تھا کہ مجھے معلوم تھا کہ ناسا والوں نے ایسی کوئی بات نہیں کی ہے۔
 

رانا

محفلین
شق القمر کا معجزہ بہرحال ایک حقیقت ہے۔ سائنسی قوانین میں اسکی کہیں نہ کہیں گنجائش ضرور موجود ہوگی۔ عدم علم سے عدم شے لازم نہیں۔ سائنس سے تعلق رکھنے والی اتنی قرآنی سچائیاں اب تک پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہیں تو یہ بھی کبھی نہ کبھی سائنسی طور پر ثابت ہوجائے گا۔
شق القمر کی ایک امکانی سائنسی توجیہ حضرت مرزا طاہر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالی نے اس ویڈیو میں بیان کی ہے۔ یہ ایک امکانی توجیہ ہے جو اس وقت تک کی موجودہ ثابت شدہ سائنس سے متصادم بھی نہیں۔
یوٹیوب کی ویڈیو کا لنک

.
 

سید ذیشان

محفلین
شق القمر کا معجزہ بہرحال ایک حقیقت ہے۔ سائنسی قوانین میں اسکی کہیں نہ کہیں گنجائش ضرور موجود ہوگی۔ عدم علم سے عدم شے لازم نہیں۔ سائنس سے تعلق رکھنے والی اتنی قرآنی سچائیاں اب تک پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہیں تو یہ بھی کبھی نہ کبھی سائنسی طور پر ثابت ہوجائے گا۔
شق القمر کی ایک امکانی سائنسی توجیہ حضرت مرزا طاہر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالی نے اس ویڈیو میں بیان کی ہے۔ یہ ایک امکانی توجیہ ہے جو اس وقت تک کی موجودہ ثابت شدہ سائنس سے متصادم بھی نہیں۔
یوٹیوب کی ویڈیو کا لنک

.

وڈیو میں نے دیکھی لیکن جو بات مولوی صاحب نے کہی ہے ویسا ممکن نہیں ہے۔ اگر چودہ سو سال پہلے چاند پر کوئی بڑا شہاب گرتا (اتنا بڑا جس سے گرد کے بہت بڑے بادل بنتے) تو وہ بادل آج بھی نظر آنے چاہیں تھے۔ یہ مولوی صاحب کی سائنس کے بارے میں لاعلمی کا ثبوت ہے۔ لیکن ایک بات کہنی پڑے گی کہ مولوی صاحب کا ڈارون تھیوری کو ماننا ایک خوش آئند بات لگی۔
معجزوں کو حقیقت ماننا یا ان کی کوئی تاویل کرنا یہ ہر ایک انسان پر منحصر ہے کہ وہ کیا کرتا ہے۔ لیکن سائنس سے شق القمر ثابت نہیں ہوتا۔
 

دوست

محفلین
جس نے اپنے نبی ﷺ کے اشارے پر چاند کے دو ٹکڑے کیے وہ اس کو دوبارہ پہلے جیسا کرنے پر بھی قادر تھا۔ اگر کسی کو نبی ﷺ کے منہ سے سننے کے بعد بھی شق القمر کے لیے سائنس کی تصدیق درکار ہے تو وہ اپنے ایمان کا جائزہ لے۔ نہ اسلام سائنس ہے اور نہ سائنس اسلام ہے۔ اسلام کو سائنس سے "اپروو" کروانے کی بچگانہ کوششیں کرنے والے اسلام کے لیے ہنسی ٹھٹھے کا سبب ہی بنے ہیں۔ براہِ کرم اپنی سائنس اسلام پر جھاڑنے کی بجائے سائنس میں جھاڑیں۔
 

سید ذیشان

محفلین
جس نے اپنے نبی ﷺ کے اشارے پر چاند کے دو ٹکڑے کیے وہ اس کو دوبارہ پہلے جیسا کرنے پر بھی قادر تھا۔ اگر کسی کو نبی ﷺ کے منہ سے سننے کے بعد بھی شق القمر کے لیے سائنس کی تصدیق درکار ہے تو وہ اپنے ایمان کا جائزہ لے۔ نہ اسلام سائنس ہے اور نہ سائنس اسلام ہے۔ اسلام کو سائنس سے "اپروو" کروانے کی بچگانہ کوششیں کرنے والے اسلام کے لیے ہنسی ٹھٹھے کا سبب ہی بنے ہیں۔ براہِ کرم اپنی سائنس اسلام پر جھاڑنے کی بجائے سائنس میں جھاڑیں۔

میرے خیال میں بھی کسی معجزے کو سائنس سے ثابت کرنا ایک سعی لا حاصل ہے۔ بھائی لوگ ایسی بڑی کوششیں کرتے ہیں لیکن آخر میں ناکام رہتے ہیں۔
 

صرف علی

محفلین
السلام علیکم
بھائی پہلے یہ سوچنا چاہیے کہ معجزہ کیا ہے اگر سائنس اس بات کو ثابت کردے تو پھر معجزہ نہیں ہوا
 
شہزاد بھائی آپ کو اس بات سے کیوں اتفاق نہیں ہے؟
بھائی جی کچھ معاملات ایسے ہوتے ہیں جن کو عقل کے بجائے عشق کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے یہ ہماری غیرت ایمانی کا معاملہ ہے قرآن میں پوری صراحت کے ساتھ بیان کر دیا جو اس کو نہ مانے اس کا ایمان مشکوک ہے لوگ بہت دور کی کوڑی لاتے ہیں مگر یہ عشق ہی ہے جو کسی دلیل کو خاطر میں نہیں لاتا اقبال نے کیا خوب کہا ہے
پختہ تر ہوتی ہے مصلحت اندیش ہو اگر عقل
عشق ہو مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل تھی محو تماشا لب و بام ابھی
سائینس کا علم اللہ نے ہی انسان کو دیا ہے اور ساتھ ہی قرآن پاک میں فرما دیا ہے تلاش کرو جو زمین اور آسمان میں ہے اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ اس علم کا مثبت استمعال کرتا ہے یا اس کو اپنے مفادات کے لئے منفی طور پر لیتا ہے تصویر ناسا کی ہی ہے اور کیا عجب نہیں کہ ایک دن اس کی تصدیق بھی ہو جائے کیونکہ ہمارا ایمان ہے کہ قرآن پاک میں جو کچھ لکھا ہے حرف بہ حرف سچ ہے اللہ ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے آمین
 

شمشاد

لائبریرین
تو جناب میں نے بھی تو یہی کہا تھا کہ قرآن میں سورۃ القمر (54) کی پہلی آیت میں اس کا ذکر موجود ہے۔
 
سائنسی تحقیق کا اعتبار کیا؟
کل سائنس کہتی تھی کہ جی سورج ساکن ہے ، یہ حرکت کرہی نہیں سکتا ، لو جی اس وقت سائنس زدہ تمام لوگوں نے مان لیا کہ سورج حرکت نہیں کرتا ، دھنادھند سائنس کی درسی کتابوں میں یہ بات عام
طالب کو علم طوطے کی طرح رٹائی جانے لگی
بعد میں تحقیق ہوئی ،اور سائنسدانوں کو خیال آیا او نہیں بھئی ۔۔۔سورج بھی حرکت کرتا ہے ،
کل تک بندرنسل کے سائنسی استاد ڈارون تھیوری انسانوں کے بچوں میں ٹھونستے آرہے تھے کہ انسان پہلے بندر تھا
اور شائد آج بھی انکی باقیات یہی کچھ پڑھاتی ہوگی ۔۔۔
لیکن قرآن میں اللہ نے کہہ دیا "اور ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا ہے " (سورہ التین)
اب جو یہ سمجھتا ہے کہ واقعی قرآن نے صحیح کہا وہ سمجھ لے کہ وہ بہترین ساخت ہے ، جو ڈارون کی تھیوری کو مان لے
وہ خود ہی سمجھ جائے کہ اسکا شمار کن میں ہے ۔۔۔یہ ہے سائنس
تو بھئی ثابت ہؤا ۔۔۔سائنس ، پھر سائنس ہے انسانوں کی اختراع ہے اس میں غلطی کا امکان سو فیصد ہے جبکہ قرآن واحادیث میں جو بات کہہ دی وہ غلطی تو دور کی شک بھی نہیں ہے
ہمارا ایمان آمنا صدقنا ہے ،جو چیز قرآن و احادیث میں ہے اور بظاہر ہم کو اس وقت سمجھ نہیں آرہی ہم اس چیز کے پیچھے بھی نہیں پڑھتے کہ "کیا ، کیوں کیسے ؟ "
بس جو کہہ دیا ہم اس پر ایمان لائے ، ہمارے لیے وہی کافی ہے ۔۔خلی ولی سائنس ۔۔۔
ہاں کفار(قرآن و احادیث کا انکار کرنے والے) کو سمجھانے کے لیے سائنس کا حوالہ دیا جاسکتا ہے ،جس سے محض قرآن و احادیث کی تائد ہوگی
اس میں کوئی مضائقہ نہیں ، جیسا کہ اس تھریڈ پر چاند کے ٹکڑے پر مضمون ہے
 

سید ذیشان

محفلین
سائنسی تحقیق کا اعتبار کیا؟
کل سائنس کہتی تھی کہ جی سورج ساکن ہے ، یہ حرکت کرہی نہیں سکتا ، لو جی اس وقت سائنس زدہ تمام لوگوں نے مان لیا کہ سورج حرکت نہیں کرتا ، دھنادھند سائنس کی درسی کتابوں میں یہ بات عام
طالب کو علم طوطے کی طرح رٹائی جانے لگی
بعد میں تحقیق ہوئی ،اور سائنسدانوں کو خیال آیا او نہیں بھئی ۔۔۔ سورج بھی حرکت کرتا ہے ،
کل تک بندرنسل کے سائنسی استاد ڈارون تھیوری انسانوں کے بچوں میں ٹھونستے آرہے تھے کہ انسان پہلے بندر تھا
اور شائد آج بھی انکی باقیات یہی کچھ پڑھاتی ہوگی ۔۔۔
لیکن قرآن میں اللہ نے کہہ دیا "اور ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا ہے " (سورہ التین)
اب جو یہ سمجھتا ہے کہ واقعی قرآن نے صحیح کہا وہ سمجھ لے کہ وہ بہترین ساخت ہے ، جو ڈارون کی تھیوری کو مان لے
وہ خود ہی سمجھ جائے کہ اسکا شمار کن میں ہے ۔۔۔ یہ ہے سائنس
تو بھئی ثابت ہؤا ۔۔۔ سائنس ، پھر سائنس ہے انسانوں کی اختراع ہے اس میں غلطی کا امکان سو فیصد ہے جبکہ قرآن واحادیث میں جو بات کہہ دی وہ غلطی تو دور کی شک بھی نہیں ہے
ہمارا ایمان آمنا صدقنا ہے ،جو چیز قرآن و احادیث میں ہے اور بظاہر ہم کو اس وقت سمجھ نہیں آرہی ہم اس چیز کے پیچھے بھی نہیں پڑھتے کہ "کیا ، کیوں کیسے ؟ "
بس جو کہہ دیا ہم اس پر ایمان لائے ، ہمارے لیے وہی کافی ہے ۔۔خلی ولی سائنس ۔۔۔
ہاں کفار(قرآن و احادیث کا انکار کرنے والے) کو سمجھانے کے لیے سائنس کا حوالہ دیا جاسکتا ہے ،جس سے محض قرآن و احادیث کی تائد ہوگی
اس میں کوئی مضائقہ نہیں ، جیسا کہ اس تھریڈ پر چاند کے ٹکڑے پر مضمون ہے

بہتر یہ ہے کہ اگر انسان سائنس کی تعلیمات سے نابلد ہو تو خاموشی اختیار کر لے۔ سائنس اور اسلام کی آپس میں کوئی لڑائی نہیں ہے لیکن آپ جیسے دقیانوسی سوچ رکھنے والے لوگ ہی مسلمانوں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ مسلمان آج کل سائنس کے میدان میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ مسلمانوں کے ابا و اجداد تو یونانی فلسفے کو پڑھتے تھے اور سائنس میں کیمسٹری، فزکس اور ریاضی میں کافی ایجادات بھی کی ہیں۔ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو کہ اب دریافت ہو رہی ہیں لیکن مسلمانوں نے بہت پہلے دریافت کر لی تھیں۔ سائنس میگزین کے آرٹیکل میں یہ بات بتائی گئی ہے کہ مشہور سائنسدان راجر پینروز نے ایسے ٹائلز (کتبے) دریافت کئے کہ جن پر بنا ڈئزائن کبھی بھی اپنے آپ کو دہراتا نہیں تھا لیکن ایران اور ترکی کی مساجد میں ایسے ڈیزائن چار سو سال پہلے ہی استعمال ہو رہے تھے۔ ربط (مسجد اصفہان کی تصویریں نیٹ پر دیکھ سکتے ہیں)۔ لیکن ہماری سہل پسندی کہ بس قرآن و حدیث کو ہی یاد کر لیا تو سب کچھ پا لیا۔ اس سے آگے دنیا میں کچھ بھی نہیں ہے۔ کیا وجہ ہے کہ مسلمانوں میں نوبل انعام صرف اور صرف تین چار لوگ جیت پائے ہیں؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ جب ہم نے بہشت میں اپنا ٹھکانا بنا دیا ہے تو پھر سائنس اور ریاضی جیسے مشکل مضامین میں مغز کھپانے کی کیا ضرورت ہے؟

کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

اگر امید نہ ہمسایہ ہو۔ تو خانہ یاس​
بہشت ہے ہمیں آرام جادواں کے لئے​
 
بہتر یہ ہے کہ اگر انسان سائنس کی تعلیمات سے نابلد ہو تو خاموشی اختیار کر لے۔
سائنس اور اسلام کی آپس میں کوئی لڑائی نہیں ہے لیکن آپ جیسے دقیانوسی سوچ رکھنے والے لوگ ہی مسلمانوں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔​
انداز گفتگو سے لگتا ہے کہ آپ نوبل انعام یافتہ سائنسدان ہیں ، جبکہ میرے علم کے مطابق سائنسدان کم ازکم عقلمند تو ہوتا ہے​
خیر میری پوسٹ پر سائنس پر تنقید نہیں تھی بلکہ اندھی تقلید اور اعتماد پر نقطہ اٹھایا تھا​
واقعہ شق القمر قرآن و حدیث دونوں سے ثابت ہے ، اگر سائنس نہیں مانتی تو ایسی سائنس کو ہم جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں ۔
معلوم نہیں آپ کا انداز گفتگو اچانک جارحانہ کیوں ہوگیا ۔۔۔۔شائد ڈارون تھیوری والی بات بری لگ گئی ۔۔​
میں نے کب لکھا کہ سائنس اور اسلام میں آپس میں متصادم ہیں؟؟ اگر سمجھ نہیں آئی بات کی تو الگ بات ہے اس کے لیے کسی باشعور آدمی سے کہہ دیتے وہ میری پوسٹ پڑھ کر آپ کو سنا دیتا ۔۔۔​
مجھے امید ہے کہ آپ کی روشن خیالی نے مسلمانون کی راہ میں رکاوٹوں کو دور کردیا ہوگا ۔۔۔​
اور یہی وجہ ہے کہ مسلمان آج کل سائنس کے میدان میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔​
مسلمانوں کا تو ویسے ہی حال ہی برا ہے تقیربا ہر شعبہ میں، سائنس کے میدان میں اگر مسلمان پیچھے ہیں تو اس پر افسوس کرنے والی کونسی بات ہے ؟؟ کل مسلمان آگے تھے آج وہ ہے ۔۔۔ سو ؟؟؟​
کیا روز محشر یہ سوال ہوگا مسلمانوں سے کہ تم نے کافروں سے اچھا موبائل فون کیوں نہیں بنایا ؟ کوئی نہیں اچھی گاڑیاں نہیں بنائی ۔۔ خلائی شٹل میں پرواز ہوکر کائنات کا چپہ چپہ کیوں نہیں چھان مارا ۔۔۔؟؟؟​
مسلمانوں کے ابا و اجداد تو یونانی فلسفے کو پڑھتے تھے اور سائنس میں کیمسٹری، فزکس اور ریاضی میں کافی ایجادات بھی کی ہیں۔ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو کہ اب دریافت ہو رہی ہیں لیکن مسلمانوں نے بہت پہلے دریافت کر لی تھیں۔​
یقینا سائنسی علم میں اسلاف کے کارنامے ہیں بلکہ یورپ تو انہی کا مرہون منت ہے ۔۔۔​
لیکن آپ شائد اس نقطہ کو نظرانداز کررہے ہیں کہ آج کا مسلمان پچھلے دور کے مسلمانوں سے کہیں زیادہ سائسنی علوم میں​
دلچسپ رکھتا ہے ، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں میٹرک ختم ہوئی اور لگے بھاگنے طواف کرنے یورپ اور امریکہ کے​
ذرا مجھے ثبوت مہیا کیجیئے کہ وہ کونسی ایجاد ہے جو صرف کافر برانڈ ہے ، اور اسکا مسلمانوں کو بالکل بھی علم نہیں ؟​
آنکھیں کھلی ہو تو دیکھ سکتے ہیں ، ایٹم بم تک ایجاد کرلیا ۔۔۔۔اور کیا چاہیئے ۔۔؟؟؟​
اور اب سائنسی تحقیق کافر و مسلمان کی نہیں بلکہ مختلف اقوام کی مشترکہ ہوتی ہیں​
سائنس میگزین کے آرٹیکل میں یہ بات بتائی گئی ہے کہ مشہور سائنسدان راجر پینروز نے ایسے ٹائلز (کتبے) دریافت کئے کہ جن پر بنا ڈئزائن کبھی بھی اپنے آپ کو دہراتا نہیں تھا لیکن ایران اور ترکی کی مساجد میں ایسے ڈیزائن چار سو سال پہلے ہی استعمال ہو رہے تھے۔ربط (مسجد اصفہان کی تصویریں نیٹ پر دیکھ سکتے ہیں)۔​
ایسے بے تکا اور بے مقصد چیزیں تو ہزاروں کی تعداد میں بنتے رہتے ہیں ، اس میں ایسی کمال کی کیا بات ہے​
لیکن ہماری سہل پسندی کہ بس قرآن و حدیث کو ہی یاد کر لیا تو سب کچھ پا لیا۔ اس سے آگے دنیا میں کچھ بھی نہیں ہے۔​
اچھا یعنی آپ سروے بھی کرچکے ہیں کہ مسلمان قرآن و حدیث سے آگے کچھ حاصل ہی نہیں کرپا رہے ۔۔ذرا سروے ریپورٹ بھی ارسال کردیتے تو عین نوازش ہوگی​
جبکہ میری ناقص علم میں تو یہ مشاہدے میں آرہا ہے کہ مسلمان قرآن و حدیث کو چھوڑ کر باقی سب فضولیات میں لگا ہؤا ہے​
اگر مسلمان صرف اسی کو تھام لیتے تو آج یہ حال نہ ہوتا​
کیا وجہ ہے کہ مسلمانوں میں نوبل انعام صرف اور صرف تین چار لوگ جیت پائے ہیں؟​
ارے تو کونسی قیامت آگئی ، آخرت میں اللہ کا انعام کافی نہیں جو دنیاوی غرض کے لیے بے تکی شے کے پیچھے بھاگے ۔۔​
آپ کو تو افسوس ایسے ہورہا ہے جیسا نوبل انعام یافتہ کو دنیا میں جنت کی بشارت دے دی گئی ہو ۔۔​
معذرت کے ساتھ ، کل کلاں کو شائد اس بات کا بھی افسوس ہوگا کہ مسلمانوں کے پاس آسکر اور آئیفا ایوارڈ بہت کم ہیں "​
اس کی وجہ یہی ہے کہ جب ہم نے بہشت میں اپنا ٹھکانا بنا دیا ہے تو پھر سائنس اور ریاضی جیسے مشکل مضامین میں مغز کھپانے کی کیا ضرورت ہے؟​
پہلا خواہش کی بہشت کی تمنا ہے ، اگر آپ کو نہیں ہے تو یہ الگ بات ہے ، سائنسی ریاضی پڑھنا فرض عین نہیں ہے​
کوئی بھوکا نہیں مرجائے گا اگر یہ سب نہ پڑھا ۔۔​
ہم نے سمجھ رکھا ہے کہ دنیا کا نظام اور رزق ہم انسانوں کے ہاتھ میں ، جیسا ٹرینڈ چل رہا ہے اگر ایسا نہ کیا تو بھوکے مرجائنگے ، اللہ پر توکل کرے اور علم بھی حاصل کرے ۔۔۔کیا مسئلہ ہے​
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:​
اگر امید نہ ہمسایہ ہو۔ تو خانہ یاس​
بہشت ہے ہمیں آرام جادواں کے لئے​
علامہ اقبال نے ایک شعر کہا ہے غالبا آپ کے سائسنی علم میں نہ ہو​
"وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہوکر
اور تم خوار ہوئے ، تارک قرآن ہوکر "
المختصر : (ذرا غور سے میری یہ بات پڑھ لے)​
میں نے پچھلی پوسٹ یہ کہنا چاہ رہا تھا کہ​
"ہر سائنسی تحقیق پر آنکھ بند کر کے یقین کرنا ، بے وقوفی ہے کیونکہ سائنس کا علم محدود ہے اورمشاہدے میں عام ہے کہ آج ایک تحقیق ہے تو کل اسی کے خلاف دوسری تحقیق ، نظریات بدلتے رہتے ہیں ۔ جبکہ قرآن واحادیث نے جو بات بتادی وہ اٹل ہے اسی کوئی روشن خیال مسترد کردے ، تو یہ اسکا مسئلہ ہے "
نیز یہ بھی سن لے کہ "مسلمانون کو پہلے قرآن و حدیث کا علم ہونا چاہیئے اور ساتھ ساتھ عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق سائنسی علوم پر بھی دسترس حاصل کرنی چاہیئے ، اس کی اہمیت کا انکار کوئی نہیں کررہا "​
 
Top