والدہ کی الماری
ڈاکٹرسید عباس متقی
ڈاکٹرسید عباس متقی
خدا بخشے ہماری والدہ نہایت سگھڑ خاتون تھیں، شیریں گفتار اور نیک اطوار، کیا مجال جو کبھی کسی کو دکھ پہنچایا ہو۔ تین بہوؤں کے ساتھ گزارا کرتی تھیں اور نہایت مدبرانہ و مشفقانہ گزارہ کرتی تھیں۔ نماز و روزے کے علاوہ ذکرو وضائف کی بہت پابند تھیں ۔بڑی بہو یعنی ہماری بڑی بیگم کے ساتھ تو ا ن کی ماں بیٹی کی طرح نبھتی تھی ۔ اب اس بات کا اس سے اندازہ کیجیے کہ جب ہم نے چند در چند مجبوریوں کے تحت (ایسا ہم چند درچند مجبوریو ں کے تحت کہتے ہیں ) جب دوسری شادی کی تو ہماری بیگم سے زیادہ ان کی ساس یعنی ہماری والدہ نے ازحد برہمی کا اظہار کیا تھا اور ہماری تیسری شادی تک ہم سے خفا رہیں ۔علمی و ادبی خاندان سے علاقہ ہونے کے سبب اردو اور فارسی کے بہتر ے اشعار ازبر تھے اور بر محل استعمال پر قدرت رکھتی تھیں۔
دکنی اور ادبی محاورے تو ان کی گفتگو کا جز ولانیفک تھے ۔بڑی دراک واقع ہوئی تھیں عقل و دانائی ومعاملہ فہمی نے ان کی شخصیت کو ہر دل عزیز بنا رکھا تھا۔ کم گفتن اور کم خوردن پر عمل پیرا تھیں ، شاید یہی وجہ ہو کہ آخر دم تک فعال و کارکرد رہیں ۔
جب تک وہ بقید حیات رہیں ہم تین بھائی اور ایک بہن مع اپنی آل و اولاد کے ایک ساتھ ایک چھت کے نیچے رہا کرتے تھے۔ گو ہانڈیاں الگ الگ تھیں لیکن دل ملے ہوئے تھے ۔ ایک دستر پر ایک ساتھ بیٹھ کر روکھی سوکھی کھا لیا کرتے تھے ۔ ہم جیسے ملا صفت آدمی کو بھی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنانے کی اجازت نہ تھی ۔ حالانکہ جائے تنگ و مردمان بسیار کے مصداق گھر مچھلی بازار معلوم ہوتا تھا ۔ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی ۔
بچوں کا غل اور اس پر ان کی ماؤں ڈانٹ ڈپٹ کی مختلف النوع آوازیں
ایک نہ شد دو شد معلوم ہوتی تھیں ۔ ہم اپنے کمرے کو گوشئہ عافیت سمجھا کرتے تھے۔ دلان کا ایک گوشہ والدہ کے قبضے میں اوردوسرا گوشہ والد کے قبضے میں رہا کرتا تھا ۔ بچوں کے ماں باپ جب کمرے میں ہو اکرتے تھے تو بچے دادا دادی کے ارد گرد ہی منڈلاتے رہتے ۔ کبھی کبھی ہمارے کمرے میں بھی ہلہ بول دیا کرتے تھے ۔ والدہ کے سرہانے ایک بید المعروف بہ "تنبیہالغافلین" ضرور رہا کرتی تھی لیکن بچے کہاں لاڑ پیار کے خوگر بزرگو ں کو خاطر میں لاتے ہیں ۔اور یہ بیدمحض صدر جمہوریہ جیسے کوئی چیز ہو کر رہ گئی تھی ۔ ہر وقت ایک ہنگامہ برپا رہا کرتا تھا اور ہم شاعری میں ایک خلل ضرور پاتے تھے ، ایک اچھا اور معیاری جملہ ذہن میں ابھی ٹپکنے ہی والا ہے کہ کسی بچے کی بے وقت کی چیخ نے بھلادیا ۔ ایک مایہ ناز شعر کوندنے ہی والا ہیکہ اب اس کی ماں کی چیخ نے فراموش کردیا۔ شاید یہی وجہ ہوہہم ایک کامیاب قلم کارنہ بن سکے ورنہ ہمارے اندر بھی لکھنے پڑھنے کے جراثیم پائے جاتے ہیں ۔ دالان میں ٹی ۔وی تھا اور سب ایک ساتھ فلم یا سیریل دیکھا کرتے تھے ہم فلم دیکھ رہے ہوں تو "رشوت" دے کر سب کو خاموش رکھتے تھے تاکہ ڈائلاگ ۔ گیت اور سنگیت سے کماحقہ لطف لے سکیں ۔
والدہ کے سرہا نے ایک کہنہ آثار الماری تھی جس میں ان کے کام کی چیزوں کے علاوہ ان کے کپڑے ، زیور ، اور ادویات مقررہ ، مکان کے کاغذات کا گول ڈبا ، حمائل شریف ، دلائل الخیرات، ادعیہ وضائف کی کتابیں وغیرہ دھری رہتی تھیں ۔ نیچے کے خانے میں وہ تمام چیزیں جو وقت پر ادھر ادھر نہ ملنے کی صورت میں ڈھونڈنے والے کو یہاں مل جایا کرتی تھیں مثلاً امرت انجن کی شیشی ،زندہ طلسمات، کھانسی کی گولیاں ، دردوں کو دور کرنے والا مالش کا تیل وغیرہ وغیرہ ، لیکن اوپر کا خانہ مخصوص تھا جس میں اوپر جانے کے بعد کی چیزیں دھری تھیں۔جس میں سب سے اہم ان کا کفن اور ا ن کے شوہر یعنی ہمارے والد کا کفن دھرا تھا جسے انہوں نے مکہ مکرمہ سے منگوالیا تھا اور کبھی کبھی نہایت خلوص سے جھاڑ جھٹک کر رکھا کرتی تھیں ۔ہماری والدہ اتنی سگھڑ خاتون تھیں کہ مرنے کے بعد پیش آنے والی ضرورت تمام ہی چیزوں کو نہایت صفائی اور ستھرائی سے رکھ لیا تھا کہ گھر والوں کو بعد میں کوئی زحمت نہ اٹھانی پڑے۔ مثلاً روح پرواز کرنے کے بعد میت کے انگوٹھے باندھنے کی ڈوریاں ، نیچے بچھناے کی سوزنی (جسے عموما غسال لے جاتے ہیں) میت پر اڑھانے کی سفید اور بے داغ چادر، عطر کی شیشیاں ، پیٹ پر رکھی جانے والی نمک کی تھیلی ، سر پر باندھا جانے والا "ڈھاٹا" زم زم کے شیشے کے علاوہ تجہیز و تدفین کی معقول رقم ، جس میں سے ہم لوگ شدید ضرورت پر ادھار لیا کرتے تھے اور نہایت ایمانداری سے لوٹا بھی دیا کرتے تھے،کون تجہیز کی رقم ہڑپ کر کے آخرت برباد کرلے ، ہم کوئی اوقاف سے متعلق لوگ تو ہیں نہیں کہ خدا سے بے خوف ہوجائیں اور دھڑلے سے غبن کو شعوری طور پر اختیار کریں ۔ لوگ جب کسی مجبوری کے تحت اس الماری کو کھولتے تو کفن کی خوشبو سے لرز جایا کرتےاور موت کی تصویر ان کے آنکھوں میں گھوم جایا کرتی تھی ۔ اس لیے عموماً والدہ کی الماری والدہ ہی کھولا کرتی تھیں ۔ جب والدہ کو بہت غصہ آجایا کرتا تو وہ ایک نگہ اس الماری کے اوپری خانے پر ڈال لیتیں اور چپ سادھ لیا کرتی تھیں ۔ ہم بھی کبھی کبھی اس عمل سے اپنے غصے پر قابو پالیا کرتے تھے، اور اس خانے کو اپنی محرومیوں کے ملال کے مداوا جانتے تھے۔ اگر اپنے کفن سے عبرت لینے کی ہمت نہیں تو دوسروں کے کفن سے بھی عبرت لی جاسکتی ہے ۔ اس کے لیے کفن کا گھر میں کفن کا گھر میں ہونا ضروری ہوتا ہے کفن گھر میں نہیں ۔ خواتین تو اوپر کے خانے میں ہاتھ ڈالتے ڈرتی تھیں کہ کہیں واقعی موت کا جھٹکا نہ محسوس ہو ۔ چھوٹے بھائی کی بیوی کو یہ راز معلوم نہ تھا ، وہ بے چاری سادہ لوح ایک دن ساس کی الماری کو جو صاف کرنے بیٹھیں ، تو اوپر کی تمام چیزوں کو نہایت سلیقے سے نیچے رکھ دیا اور سوچنے لگیں یہ روئی ، عطر کی شیشیاں ، نمک کی تھیلی ، لمبی لمبی ڈوریاں اور اتنا ڈھیر سارا سفید کپڑا کیا ہے ۔ وہ حیرت سے دیکھ رہیں تھیں کہ ہم داخل خانہ ہوئے ہماری گھگھی بندہ گئی ۔ سوچنے لگے کہ شاید حضرت ملک الموت کا ہمارے گھر آنا ہوگیا ہے اور ہم ان کے جاتے ہی یسیر ہوگئے ہیں ۔ لیکن شکر ہے کہ یہ ریہرسل ثابت ہوئی ۔ ہماری بیگم نے ان سے کہا کہ اوپر کی یہ چیزیں نیچے لانے کی کیا ضرورت تھی ۔ شاید موصوفہ کا مطلب تھا کہ یہ چیزیں اوپر کی ہوا کھانے والوں کے لیے ہیں ۔ اور جب غریب کو معلوم ہو کہ بے خیالی میں اس نے کس چیز کو ہاتھ لگا دیا ہے تو وہ لرزگئیں اور خوف سے رونے لگیں ہم نے دلاسہ دیا کہ رونے کی ضرورت نہیں دیکھو تمہاری ساس نے ہنستے ہنستے موت کی ان چیزوں کو جمع کر رکھا ہے اور پھر وہ فراخ دل خاتون ہیں ، اگر کوئی ان سے پہلے بسم اللہ کردے تو انہیں کوئی اعتراض بھی نہیں ہوگا ۔ بعد میں اسے پتہ چلا کہ ہم نے اسے جو دیا تھا اسے دلاسہ نہیں کہتے ۔
آخرش ہوا وہی جس کا اندازہ تھا ایک رات ہماری والدہ ہمیں روتا بلکتا چھوڑ کر چپکے چپکےاپنے آخری سفر پر نکل کھڑی ہوئیں ۔ اپنے پیچھے جو سامان چھوڑا تھا ان کے ساتھ ہی پیچھے پیچھے چلا گیا اور ہمیں معلوم ہوگیا کہ مرنے والے کے پیچھے بس اتنی چیزیں ہی جایا کرتی ہیں ۔