والدین کی مغفرت کے لیے دعا - 5

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
wpid-c540243ad51.jpeg
 

وجی

لائبریرین
رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا ﴿٢٤
(سورة الإسراء)
ترجمہ : اے میرے رب! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے (رحمت و شفقت سے) پالا تھا ۔
 
وَ اخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیۡ صَغِیۡرًا ﴿ؕ۲۴﴾
اور ان کے لئے عاجزی کا بازو بچھا (ف۶۲) نرم دلی سے اور عرض کر کہ اے میرے رب تو ان دونوں پر رحم کر جیسا کہ ان دنوں نے مجھے چھٹپن میں پالا

جالندھری]‏ اور عجز و نیاز سے ان کے آگے جھکے رہو اور ان کے حق میں دعا کرو کہ اے پروردگار! جیسا انہوں نے مجھے بچپن میں (شفقت) سے پرورش کیا ہے تو بھی ان (کے حال) پر رحمت فرما ‏
‏ [محمودالحسن‏] اور جھکا دے ان کے آگے کندھے عاجزی کر نیاز مندی سے اور کہہ اے رب ان پر رحم کر جیسا پالا انہوں نے مجھ کو چھوٹا سا ف٧‏
‏[جوناگڑھی]‏ اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھے رکھنا (١) اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے۔‏

تفسیر ابن كثیر
اٹل فیصلے محکم حکم
یہاں قضی معنی میں حکم فرمانے کے ہے تاکیدی حکم الہٰی جو کبھی ٹلنے والا نہیں یہی ہے کہ عبادت اللہ ہی کی ہو اور والدین کی اطاعت میں سرمو فرق نہ آئے ۔ ابی ابن کعب ، ابن مسعود اور ضحاک بن مزاحم کی قرأت میں قضی کے بدلے وصی ہے ۔ یہ دونوں حکم ایک ساتھ جیسے یہاں ہیں ایسے ہی اور بھی بہت سی آیتوں میں ہیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت (ان اشکرلی ولوالدیک) میرا شکر کر اور اپنے ماں باپ کا بھی احسان مند رہ ۔ خصوصا ان کے بڑھاپے کے زمانے میں ان کا پورا ادب کرنا ، کوئی بری بات زبان سے نہ نکلنا یہاں تک کے ان کے سامنے ہوں بھی نہ کرنا ، نہ کوئی ایسا کام کرنا جو انہیں برا معلوم ہو، اپنا ہاتھ ان کی طرف بے ادبی سے نہ بڑھانا ، بلکہ ادب عزت اور احترام کے ساتھ ان سے بات چیت کرنا ، نرمی اور تہذیب سے گفتگو کرنا ، ان کی رضا مندی کے کام کرنا ، دکھ نہ دینا ، ستانا نہیں ، ان کے سامنے تواضع ، عاجزی ، فروتنی اور خاکساری سے رہنا ان کے لئے ان کے بڑھاپے میں ان کے انتقال کے بعد دعائیں کرتے رہنا ۔ خصوصا دعا کہ اے اللہ ان پر رحم کر جیسے رحم سے انہوں نے میرے بچپن کے زمانے میں میری پرورش کی ۔ ہاں ایمانداروں کو کافروں کے لئے دعا کرنا منع ہو گئی ہے گو وہ باپ ہی کیوں نہ ہوں ؟ ماں باپ سے سلوک و احسان کے احکام کی حدیثیں بہت سی ہیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے منبر پر چڑھتے ہوئے تین دفعہ آمین کہی، جب آپ سے وجہ دریافت کی گئی تو آپ نے فرمایا میرے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے اور کہا اے نبی اس شخص کی ناک خاک آلود ہو، جس کے پاس تیرا ذرک ہو اور اس نے تجھ پر درود بھی نہ پڑھا ہو ۔ کہئے آمین چنانچہ میں نے کہا آمین کہی ۔ پھر فرمایا اس شخص کی ناک بھی اللہ تعالٰی خاک آلود کرے جس کی زندگی میں ماہ رمضان آیا اور چلا بھی گیا اور اس کی بخشش نہ ہوئی ۔ آمین کہئے چنانچہ میں نے اس پر بھی آمین کہی ۔ پھر فرمایا اللہ اسے بھی برباد کرے ۔ جس نے اپنے ماں باپ کو یا ان میں سے ایک کو پا لیا اور پھر بھی ان کی خدمت کر کے جنت میں نہ پہنچ سکا کہئے آمین میں نے کہا آمین ۔
مسند احمد کی حدیث میں ہے جس نے کسی مسلمان ماں باپ کے یتیم بچہ کو پالا اور کھلایا پلایا یہاں تک کہ وہ بےنیاز ہو گیا اس کے لئے یقینا جنت واجب ہے اور جس نے کسی مسلمان غلام کو آزاد کیا اللہ اسے جہنم سے آزاد کرے گا اس کے ایک ایک عضو کے بدلے اس کا ایک ایک عضو جہنم سے آزاد ہو گا ۔ اس حدیث کی ایک سند میں ہے جس نے اپنے ماں باپ کو یا دونوں میں سے کسی ایک کو پا لیا پھر بھی دوزخ میں گیا اللہ اسے اپنی رحمت سے دور کرے ۔
مسند احمد کی ایک روایت میں یہ تینوں چیزیں ایک ساتھ بیان ہوئی ہیں یعنی گردن آزاد کرنا خدمت والدین اور پرورش یتیم ۔ ایک روایت میں ماں باپ کی نسبت یہ بھی ہے کہ اللہ اسے دور کرے اور اسے برباد کرے الخ ۔ ایک روایت میں تین مرتبہ اس کے لئے یہ بدعا ہے ۔ ایک روایت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نام سن کر درود نہ پڑھنے والے اور ماہ رمضان میں بخشش الہٰی سے محروم رہ جانے والے اور ماں باپ کی خدمت اور رضا مندی سے جنت میں نہ پہنچنے والے کے لئے خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بدعا کرنا منقول ہے ۔ ایک انصاری نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ میرے ماں باپ کے انتقال کے بعد بھی ان کے ساتھ میں کوئی سلوک کر سکتا ہوں ؟ آپ نے فرمایا ہاں چار سلوک
(١) ان کے جنازے کی نماز
(٢) ان کے لئے دعا و استغفار
(٣) ان کے وعدوں کو پورا کرنا
(٤) ان کے دوستوں کی عزت کرنا اور وہ صلہ رحمی جو صرف ان کی وجہ سے ہو ۔
یہ ہے وہ سلوک جو ان کی موت کے بعد بھی تو ان کے ساتھ کر سکتا ہے (ابوداؤد ابن ماجہ ) ایک شخص نے آ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں جہاد کے ارادے سے آپ کی خدمت میں خوشخبری لے کر آیا ہوں ۔ آپ نے فرمایا تیری ماں ہے ؟ اس نے کہا ہاں فرمایا جا اسی کی خدمت میں لگا رہ ۔ جنت اسی کے پیروں کے پاس ہے ۔ دوبارہ سہ بارہ اس نے مختلف مواقع پر اپنی یہی بات دہرائی اور یہی جواب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دہرایا (نسائی ابن ماجہ وغیرہ) فرماتے ہیں اللہ تمہیں تمہارے باپوں کی نسبت وصیت فرماتا ہے اللہ تمہیں تماری ماؤں کی نسبت وصیت فرماتا ہے ۔ پچھلے جملے کو تین بار بیان فرمایا اللہ تمہیں تمہارے قرابت داروں کی بابت وصیت کرتا ہے ، سب سے زیادہ نزدیک والا پھر اس کے پاس والا (ابن ماجہ مسند احمد ) فرماتے ہیں دینے والے کا ہاتھ اونچا ہے اپنے ماں سے سلوک کر اور اور اپنے باپ سے اور اپنی بہن سے اور اپنے بھائی سے پھر جو اس کے بعد ہو اسی طرح درجہ بدرجہ (مسند احمد) بزار کی مسند میں ضعیف سند سے مروی ہے کہ ایک اپنی ماں کو اٹھائے ہوئے طواف کرا رہے تھے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرنے لگے کہ اب تو میں نے اپنی والدہ کا حق ادا کر دیا ہے ؟ آپ نے فرمایا ایک شمہ بھی نہیں ۔ واللہ اعلم ۔
تفسیر عثمانی
ف ٥ خدا تو حقیقۃً بچہ کو وجود عطا فرماتا ہے، والدین اس کی ایجاد کا ظاہری ذریعہ ہیں۔ اس لیے کئی آیتوں میں خدا تعالٰی کے حقوق کے ساتھ والدین کے حقوق ذکر کیے گئے۔ حدیث میں آیا ہے کہ وہ شخص خاک میں مل گیا جس نے اپنے والدین کو پایا اور ان کی خدمت کر کے جنت حاصل نہ کی۔" ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔ والدین کے ساتھ بھلائی کرنا یہ ہے کہ زندگی میں ان کی جان و مال سے خدمت اور دل سے تعظیم و محبت کرے۔ مرنے کے بعد ان کا جنازہ پڑھے، ان کے لیے دعاء و استغفار کرے۔ ان کے عہد تامقدور پورے کرے، ان کے دوستوں کے ساتھ تعظیم و حسن سلوک سے اور ان کے اقارب کے ساتھ صلہ رحمي سے پیش آئے وغیرہ ذالک۔
ف ٦ بڑھاپے میں خدمت کی احتیاج زیادہ ہوتی ہے جس سے بعض اوقات اہل و عیال بھی اکتانے لگتے ہیں زیادہ پیرانہ سالی میں ہوش و حواس بھی ٹھکانے نہیں رہتے۔ بڑی سعادت مند اولاد کا کام ہے کہ اس وقت بوڑھے والدین کی خدمت گزاری و فرمانبرداری سے جی نہ ہارے۔ قرآن نے تنبیہ کی کہ جھڑکنا اور ڈانٹنا تو کجا ان کے مقابلہ میں زبان سے "ہوں" بھی مت کر۔ بلکہ بات کرتے وقت پورے ادب و تعظیم کو ملحوظ رکھو۔ ابن مسیب نے فرمایا ایسی طرح بات کرو جیسے ایک خطاوار اور غلام سخت مزاج آقا سے کرتا ہے۔
تفسیر صلاح الدین
٢٣۔١ اس آیت میں اللہ تبارک و تعالٰی نے اپنی عبادت کے بعد دوسرے نمبر پر والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے، جس سے والدین کی اطاعت، ان کی خدمت اور ان کے ادب و احترام کی اہمیت واضح ہے۔ گویا ربوبیت الٰہی کے تقاضوں کے ساتھ اطاعت والدین کے تقاضوں کی ادائیگی بھی ضروری ہے۔ احادیث میں بھی اس کی اہمیت اور تاکید کو خوب واضح کر دیا گیا ہے، پھر بڑھاپے میں بطور خاص ان کے سامنے ' ہوں ' تک کہنے اور ان کو ڈانٹنے ڈپٹنے سے منع کیا ہے، کیونکہ بڑھاپے میں والدین تو کمزور، بےبس اور لا چار ہوتے ہیں، جب کہ اولاد جوان اور وسائل معاش پر قابض ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں جوانی کے دیوانے جذبات اور بڑھاپے کے سرد و گرم تجربات میں تصادم ہوتا ہے۔ ان حالات میں والدین کے ادب و احترام کے تقاضوں کو ملحوظ رکھنا بہت ہی مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ تاہم اللہ کے ہاں سرخ رو وہی ہوگا جو ان تقاضوں کو ملحوظ رکھے گا۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top