والدین کے نام!

عبد الرحمن

لائبریرین
بیٹے کی عمر بہ مشکل 6 5 ہوگی اور وہ نرسری کلاس کا طالب علم لگتا تھا۔ باپ اپنے بچے کو اپنی کلاس میں فیل ہونے کی وجہ سے اسکول سے واپسی پر بری طرح ڈانٹ رہا تھا ۔اس سرزنش کے کچھ دھندلے الفاظ ابھی تک میرے کانوں میں گونج رہے ہیں۔ حافظہ سے محو ہوجانے کی بنا پر کمی بیشی کے ڈر سے نقل کرنے پر معذور ہوں۔

ابا کے منہ سے نکلنے والے درشت الفاظ اور بچے کے خوف زدہ اور لٹکے ہوئے چہرے کی صرف ایک جھلک سے ہی دل کٹ کر رہ گیا۔ اس وقت مجھے اس معصوم پر بہت ترس آیا۔ سوچنے لگا جب والد نے سرعام اپنے ہی بیٹے کا تماشا بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تو کیسے امید کی جاسکتی ہے کہ گھر جاکر درگت نہیں بنائی ہوگی۔ اسی وقت دل میں تہیہ کرلیا تھا کہ اس حوالے سے کسی دن کچھ معروضات پیش کروں گا، لیکن حالات نے جس تیزی سے اس شدت پسندی کی طرف رخ کیا اس کو دیکھ کر بار بار اپنی غفلت پر آہ نکل جاتی ہے۔

اب سے کچھ وقت پہلے تک یہ ہورہا تھا کہ بچے نتیجے کی خرابی پر اپنے والدین کے رد عمل سے خوف زدہ ہوتے تھے۔ ان سے پٹنے کا ڈر ہوتا تھا۔ خود بچوں پر بھی اداسی کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔ جس کے وہ کئی دنوں تک زیر اثر رہتے تھے۔ لیکن پھر وہ چند ہی ایام میں ایک نئے عزم، ایک نئے حوصلے ، ایک نئے جوش کے ساتھ دوبارہ میدان عمل میں کودنے کے لیے کمر کس لیا کرتے تھے۔ مگر اب صورت حال کچھ اس طرح کی ہوگئی ہے کہ والدین کے روز بہ روز بڑھتے ہوئے دباؤ کے سبب اور ان کومادیت میں سب سے آگے دیکھنے کے جنون نے اولاد کے ناتواں کندھوں پر بڑا بوجھ ڈال دیا ہے۔ جس کا حل معصوم ذہنوں نے ایک ایسے سنگین فعل میں نکالا ہے جس میں ماںباپ کو پچھتانے کے سوا اور کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ جی ہاں! اب طلبہ خود کشیاں کرکے اپنے آپ کو ان جھنجھٹوں سے آزاد کرلیتے ہیں۔

یہ درد ناک خبر میرے سامنے ہے: "مردان کے علاقے لوند خوڑ میں 17 سالہ نوجوان واجد علی نے میٹرک کا امتحان دیا مگر اسے فیل ہونے کا خوف تھا، جس کے باعث رات کے وقت گھر کے قریب کھیتوں میں اس نے پستول سے خود ہی فائر کر کے اپنی زندگی کا خاتمہ کردیا۔" یہ ایک خبر محض نمونے کے طور پر پیش کردی گئی، ورنہ اب روزانہ ایسی بے شمار خبریں اخبارات کی زینت بن رہی ہیں۔

دیکھا آپ نے بات کہاں سے کہاں جا پہنچی ہے۔ وہ بچے جن کی باتوں میں شوخی، لہجے میں معصومیت اور طبیعت میں ظرافت ہوتی تھی، جن کی نٹ کھٹ اداؤں سے گھر کے افراد میں خوشی کی لہریں دوڑ جایا کرتی تھیں، اب اپنی جان کے دشمن بن بیٹھےہیں۔ اتشویش ناک سوال یہ ہے کہ یہ ناجائز اور شدید خیال کس طرح ان کے ننھے ذہنوں کے نہاں خانوں میں داخل ہوگیا؟

معذرت کے ساتھ اس سوال کا جواب بھی خود عرض کردیتا ہوں کہ بچوں کو اس حد تک پہنچانے اور پڑھائی کے معاملے میں انہیں نفسیاتی مریض بنانے میں ماں باپ کا بڑا کردار ہے۔ پتا نہیں اسناد میں اعلی نمبرات کو ہم نے قابلیت کی ضمانت کیوں سمجھ لیا ہے؟ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ لیاقت کا معیار اچھے نتائج پر نہیں، کتاب میں موجود پوشیدہ علوم تک رسائی پر ہوتا ہے۔

پھر جس طرح امتحان میں ناکامی کے سبب طلبہ کو اپنے سرپرستوں کی طرف سے جن کڑوی کسیلی باتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس سے جہاں ایک طرف ان کا دل اپنے ہی محسنوں سےخراب ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے، وہاں دوسری جانب بچوں کے اندر احساس کمتری اور عدم اعتماد بھی سرایت کر جاتا ہے۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو کچھ صلاحیتیں بچوں میں ہوتی ہیں، ان سے بھی محروم ہوجاتے ہیں۔ حالاں کہ بندہ یہ بات دعوے سے کہتا ہے کہ 95 فیصد طلبہ ایسے ہوتے ہیں جو پڑھنے کے نہایت شوقین ہوتے ہیں لیکن ظاہر بات ہے ہر ایک کی ذہنی سطح ایک جیسی نہیں ہوتی۔ اگر والدین اللہ سے مانگیں اور فیل ہونے پر بجائے اگلا پچھلا ایک کرنے کے مزید حوصلہ بڑھائیں اور پیار و محبت سے محنت جاری رکھنے کی تلقین کریں تو کچھ بعید نہیں کہ کل کو یہی بچے ملک و قوم کے لیے فخر کا باعث بنیں۔ بہ صورت دیگر خود کشی جیسے قلب و جگر کو زخمی کردینے والے واقعات آئے دن جنم لیتے رہیں گے۔​
 

شمشاد

لائبریرین
بہت اچھا لکھا ہے آپ نے لیکن والدین بھی کیا کریں۔
تعلیم اتنی مہنگی ہے کہ والدین کے لیے فیسیں ادا کرنا ایک مسئلہ ہے، اوپر سے کاپیوں کتابوں کا خرچ، ظاہر ہے والدین بچوں پر دباؤ ڈالیں گے کہ کہیں فیل نہ ہو جائیں اور مزید ایک سال پھر سے اسی جماعت کے لیے فیسوں اور کاپیوں کتابوں کا خرچ اٹھانا پڑے۔
 
آپ نے ایک اہم مسئلے کی طرف درست نکتہ دانی کی ہے۔ والدین کی مجبوری اور فکر مندی اور پریشانی ان کو بچوں سے ڈانٹ ڈپٹ کے لئے اکساتی ہے۔ کوئی باپ اپنے بچے کو ڈانٹ کر یا تکلیف دے کر خوش نہیں ہوتا مگر والدین خود سے اپنے حالات اور مسائل کی وجہ سے اس قدر زہنی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں کہ ان کا خود پر اختیار نہیں ہوتا اور بے اختیاری میں بچوں پر ناجائز سختی کرتے ہیں۔
اسکا حل یہ ہوسکتا ہے کہ والدین سب سے پہلے خود کو زہنی دباؤ سے آزاد کرائیں۔ میں نے تو ذاتی طور پر زہنی دباؤ اور زہنی انتشار کا بہترین حل اللہ عزوجل کے ذکر میں ہی دیکھا اور محسوس کیا ہے۔
نماز پڑھیں اور رب کو یاد کرتے رہیں انشآاللہ زہنی دباؤ سے نجات ملے گی۔ پھر بچوں کی پڑھائی میں مدد کریں، ہوم ورک وغیرہ میں ان کی مدد کریں۔ نتیجے کے بعد ان پر برسنے کی بجائے پڑھائی کے دوران ہی ان کے مسائل کو سمجھنے اور انہیں حل کرنے کی کوشش کریں۔ آج کل بچوں سے دوستی کرنا زیادہ کارآمد ہے ۔
 

ساقی۔

محفلین
ایسے سنگین مسائل سے نپٹنے کا طریقہ تو حکومتی سطح پر ہو نا چاہیے ، طلبا و طالبات کے نصاب میں ان کے ذہنی معیار کے مطابق ایسی تحاریر شامل ہونی چاہیں جو ان میں ہمت ، جواں مردی، اخوت،محبت، اور بھائی چارے جیسی فضا کو پیدا کرنے میں مدد دے ۔میڑک تک کے بچوں کے لیے جو نصاب مقرر کیا جائے اسے ماہرین تعلیم اور ماہرین نفسیات اور مذہبی ماہرین کے متفقہ فیصلے اور ریسرچ کے بعد لاگو کیا جائے۔

دوسری بڑی چیز جو معاشرے میں بگاڑ کا باعث ہے وہ ہمارا شتر بے مہار میڈیا ہے ۔ نوجوان نسل جو کچھ میڈیا پر دیکھتی ہے اس سچ مان لیتی ہے ۔ابھی کل خبر پڑھ رہا تھا کہ امریکہ میں اسکول کی دو بچیوں نے اپنی سہیلی کو چھریوں کے وار کر کے شدید زخمی کر کے جنگل میں پھینک دیا ۔ جب ان سے اس خطرناک حرکت کے متعلق دریافت کیا گیا تو انہوں نے کسی ڈرامے یا فلم کا حوالہ دے کر بتا یا کہ اس میں کہا گیا ہے اگر آپ ہماری تنظیم یا جماعت مین شامل ہونا چاہتے ہیں تو آپ کو کم از کم ایک قتل ضرور کرنا ہو گا ۔اس لیے ہم نے اپنی دوست پر حملہ کیا۔۔
 
آخری تدوین:

عبد الرحمن

لائبریرین
آپ نے ایک اہم مسئلے کی طرف درست نکتہ دانی کی ہے۔ والدین کی مجبوری اور فکر مندی اور پریشانی ان کو بچوں سے ڈانٹ ڈپٹ کے لئے اکساتی ہے۔ کوئی باپ اپنے بچے کو ڈانٹ کر یا تکلیف دے کر خوش نہیں ہوتا مگر والدین خود سے اپنے حالات اور مسائل کی وجہ سے اس قدر زہنی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں کہ ان کا خود پر اختیار نہیں ہوتا اور بے اختیاری میں بچوں پر ناجائز سختی کرتے ہیں۔
اسکا حل یہ ہوسکتا ہے کہ والدین سب سے پہلے خود کو زہنی دباؤ سے آزاد کرائیں۔ میں نے تو ذاتی طور پر زہنی دباؤ اور زہنی انتشار کا بہترین حل اللہ عزوجل کے ذکر میں ہی دیکھا اور محسوس کیا ہے۔
نماز پڑھیں اور رب کو یاد کرتے رہیں انشآاللہ زہنی دباؤ سے نجات ملے گی۔ پھر بچوں کی پڑھائی میں مدد کریں، ہوم ورک وغیرہ میں ان کی مدد کریں۔ نتیجے کے بعد ان پر برسنے کی بجائے پڑھائی کے دوران ہی ان کے مسائل کو سمجھنے اور انہیں حل کرنے کی کوشش کریں۔ آج کل بچوں سے دوستی کرنا زیادہ کارآمد ہے ۔
بہت عمدہ تجاویز ہیں لئیق بھائی!
اپنے تجربے اور مشاہدے کی روشنی میں مزید رہ نمائی کرتے رہے گا۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ایسے سنگین مسائل سے نپٹنے کا طریقہ تو حکومتی سطح پر ہو نا چاہیے ، طلبا و طالبات کے نصاب میں ان کے ذہنی معیار کے مطابق ایسی تحاریر شامل ہونی چاہیں جو ان میں ہمت ، جواں مردی، اخوت،محبت، اور بھائی چارے جیسی فضا کو پیدا کرنے میں مدد دے ۔میڑک تک کے بچوں کے لیے جو نصاب مقرر کیا جائے اسے ماہرین تعلیم اور ماہرین نفسیات اور مذہبی ماہرین کے متفقہ فیصلے اور ریسرچ کے بعد لاگو کیا جائے۔

اور یہ سب تحاریر پہلے اساتذہ اور والدین کو بھی پڑھوائی جائیں۔
 

عبد الرحمن

لائبریرین
بہت اچھا لکھا ہے آپ نے لیکن والدین بھی کیا کریں۔
تعلیم اتنی مہنگی ہے کہ والدین کے لیے فیسیں ادا کرنا ایک مسئلہ ہے، اوپر سے کاپیوں کتابوں کا خرچ، ظاہر ہے والدین بچوں پر دباؤ ڈالیں گے کہ کہیں فیل نہ ہو جائیں اور مزید ایک سال پھر سے اسی جماعت کے لیے فیسوں اور کاپیوں کتابوں کا خرچ اٹھانا پڑے۔
شمشاد بھائی! آپ نے بالکل درست بات کہی۔ بڑھتی ہوئی طوفانی مہنگائی نے شعبہء تعلیم کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔ بلکہ بعض جگہ تو تعلیمی ادارے کاروباری اداروں میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ ایسے حالات میں والدین کے تحفظات اپنی جگہ بالکل بجا ہیں۔ لیکن میری ناچیز رائے میں ان سب مسائل کے باوجود ہمیں کوئی ایسا لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے جس کے بعد طلبہ خود کشی کاارتکاب کرنا تو دور کی بات اس کا تصور بھی نہ کریں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
عبدالرحمٰن بھائی ! آپ نے ایک انتہا کا منظر نامہ پیش کیا ہے۔

جب کہ مجھے اکثر "دوسری انتہا" بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ یعنی ماں باپ کو کچھ نہیں پتہ تو ہوتا کہ بچے پڑھ رہے ہیں تو کیسا پڑھ رہے ہیں۔ اپنا کام وقت پر کرتے ہیں یا نہیں۔ کلاس میں اُن کی کیا پوزیشن ہے۔ اسکول سے ملنے والا کام مکمل ہوتا ہے یا نہیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ مرد حضرات تو روزی روزگار کے حصول کے لئے گھروں سے بیشتر وقت غائب ہوتے ہیں ۔ اور مائیں امورِ خانہ داری میں اس قدر مصروف ہو جاتی ہیں کہ بچوں کی طرف توجہ دینے کا خیال ہی نہیں ملتا۔

پھر اگر ماں باپ کو کچھ وقت میسر آ جائے تو وہ ٹی وی ویڈیو کی نذر ہو جاتا ہے۔

میرا خیال ہے کہ ذہین سے ذہین بچے بھی خود سے کم ہی پڑھتے ہیں، اُنہیں توجہ کے ساتھ پڑھنے بھیجنا، پڑھنے بٹھانا اور رہنمائی کرنا شدید ضروری چیز ہے۔ ہمارے گھروں میں اس چیز کا بڑا فقدان ہے اور ساری ذمہ داری اسکول پر چھوڑ دی جاتی ہے۔

اکثر لوگ تو ایسے اسکولز بھی پسند کرتے ہیں جس میں بچے صبح کے گئے شام کو گھر لوٹتے ہیں۔ یعنی تعلیم اور تربیت کا سارا کام اسکول والوں کے ذمے۔ اور ماں باپ بری الذمہ۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ماں باپ جو بچوں پر غصہ اُتارتے ہیں کہ "نتیجہ ایسا کیوں آیا؟"، "فیل کیوں ہوئے" ۔ یہ سب دراصل اُن کی اپنی لاپرواہی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اگر بچوں کو سارا سال ماں باپ کی توجہ ملتی رہے۔ وقتاً فوقتاً اصلاح ہوتی رہے اور ماں باپ کو اس بات کا بھی اندازہ ہو کہ اُن کے بچے پڑھائی میں کیسے ہیں اور اُن کا نتیجہ کیسا آئے گا۔

تاہم میں اس بات کا بھی قائل ہوں کہ بچوں پر پڑھائی میں سختی (controlled aggression) بھی ضروری ہے۔ کیونکہ بے جا لاڈ پیار سے بچے پڑھائی کو اہمیت نہیں دیتے، جس کی وجہ سے بچوں کی بنیادی تعلیم اچھی نہیں ہو پاتی۔ اور بنیاد اچھی نہ ہو تو پورا تعلیمی کرئیر متاثر ہو جاتا ہے۔
 

عبد الرحمن

لائبریرین
عبدالرحمٰن بھائی ! آپ نے ایک انتہا کا منظر نامہ پیش کیا ہے۔

جب کہ مجھے اکثر "دوسری انتہا" بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ یعنی ماں باپ کو کچھ نہیں پتہ تو ہوتا کہ بچے پڑھ رہے ہیں تو کیسا پڑھ رہے ہیں۔ اپنا کام وقت پر کرتے ہیں یا نہیں۔ کلاس میں اُن کی کیا پوزیشن ہے۔ اسکول سے ملنے والا کام مکمل ہوتا ہے یا نہیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ مرد حضرات تو روزی روزگار کے حصول کے لئے گھروں سے بیشتر وقت غائب ہوتے ہیں ۔ اور مائیں امورِ خانہ داری میں اس قدر مصروف ہو جاتی ہیں کہ بچوں کی طرف توجہ دینے کا خیال ہی نہیں ملتا۔

پھر اگر ماں باپ کو کچھ وقت میسر آ جائے تو وہ ٹی وی ویڈیو کی نذر ہو جاتا ہے۔

میرا خیال ہے کہ ذہین سے ذہین بچے بھی خود سے کم ہی پڑھتے ہیں، اُنہیں توجہ کے ساتھ پڑھنے بھیجنا، پڑھنے بٹھانا اور رہنمائی کرنا شدید ضروری چیز ہے۔ ہمارے گھروں میں اس چیز کا بڑا فقدان ہے اور ساری ذمہ داری اسکول پر چھوڑ دی جاتی ہے۔

اکثر لوگ تو ایسے اسکولز بھی پسند کرتے ہیں جس میں بچے صبح کے گئے شام کو گھر لوٹتے ہیں۔ یعنی تعلیم اور تربیت کا سارا کام اسکول والوں کے ذمے۔ اور ماں باپ بری الذمہ۔
احمد بھائی! بہت شان دار نکتہ بیان کیا ہے آپ نے۔ واقعی چند سطور میں آج کا المیہ لکھ دیا ۔

یہ ہماری بے اعتدالیاں ہی ہے جنہوں نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا ۔

آپ کےان نکات پر ایک چھوٹی سی بات کا اضافہ کرنا چاہوں گا۔ سارا سال والدین اپنے بچوں کی پڑھائی سے چشم پوشی کرتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ امتحان کے دنوں میں بھی۔ مگر آنکھیں اس وقت کھلتی ہیں جب رزلٹ کارڈ سامنے آتا ہے۔ مگر اس وقت اپنی کوتاہیوں پر نظر کرنے کے بجائے سارا ملبہ اولاد پر ہی گرتا ہے جو دہرا ظلم ہے۔ اگر پہلے سے ہی مناسب حکمت عملی سے کام لیا جاتا تو میرے خیال میں یہاں تک نوبت ہی نہ پہنچتی۔
 

عبد الرحمن

لائبریرین
اس سے پہلے کہ سوال اُٹھے میں پہلے ہی عذر بتائے دیتا ہوں ،،، دفتر میں ہوں تو توجہ سے نہ لکھ سکوں گا :)
جلدی آیے گا! ایسے نازک مسائل میں "ماہرین تعلیمات "کا ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اور اگر منیجر گڑبڑ کرے تو گھبرائے گا مت، اپنے محمد احمد بھائی موجود ہیں۔
 
Top