عبد الرحمن
لائبریرین
جزاک اللہ خیرا!خوب درد دل رکھتےهیں آپ. رسید حاضر هے باقی بعد میں
منتظر ہوں رضا بھائی!
جزاک اللہ خیرا!خوب درد دل رکھتےهیں آپ. رسید حاضر هے باقی بعد میں
جلدی آیے گا! ایسے نازک مسائل میں "ماہرین تعلیمات "کا ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اور اگر منیجر گڑبڑ کرے تو گھبرائے گا مت، اپنے محمد احمد بھائی موجود ہیں۔
بہت سخت مزاج ہیں آپ!ماں باپ جو بچوں پر غصہ اُتارتے ہیں کہ "نتیجہ ایسا کیوں آیا؟"، "فیل کیوں ہوئے" ۔ یہ سب دراصل اُن کی اپنی لاپرواہی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اگر بچوں کو سارا سال ماں باپ کی توجہ ملتی رہے۔ وقتاً فوقتاً اصلاح ہوتی رہے اور ماں باپ کو اس بات کا بھی اندازہ ہو کہ اُن کے بچے پڑھائی میں کیسے ہیں اور اُن کا نتیجہ کیسا آئے گا۔
تاہم میں اس بات کا بھی قائل ہوں کہ بچوں پر پڑھائی میں سختی (controlled aggression) بھی ضروری ہے۔ کیونکہ بے جا لاڈ پیار سے بچے پڑھائی کو اہمیت نہیں دیتے، جس کی وجہ سے بچوں کی بنیادی تعلیم اچھی نہیں ہو پاتی۔ اور بنیاد اچھی نہ ہو تو پورا تعلیمی کرئیر متاثر ہو جاتا ہے۔
بس زیادہ گہرائی میں جانے کی ضرورت نہیں۔ نام ہی کافی ہے۔اپنے محمد احمد بھائی اگست 9, 2007 کے بعد سے محفل میں نہیں آئے۔ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ فصیح بھیا پر کوئی مشکل گھڑی آئی تو وہ برسوں کی خلیج کو پاٹ کر آن کی آن میں یہاں موجود ہوں گے۔
تاہم میں اس بات کا بھی قائل ہوں کہ بچوں پر پڑھائی میں سختی (controlled aggression) بھی ضروری ہے۔ کیونکہ بے جا لاڈ پیار سے بچے پڑھائی کو اہمیت نہیں دیتے، جس کی وجہ سے بچوں کی بنیادی تعلیم اچھی نہیں ہو پاتی۔ اور بنیاد اچھی نہ ہو تو پورا تعلیمی کرئیر متاثر ہو جاتا ہے۔
بہت سخت مزاج ہیں آپ!
اور یاد رکھنے کی خاص بات یه که وه دھاگه هم خود یعنی والدین هوتے هیننازک بیل کو اوائل عمری میں ہی تربیت کے دھاگے سے باندھ دیا جائے تو ٹھیک رہتا ہے، ورنہ بعد میں آپ گلہ ہی کرتے رہیں گے کہ یہ بیل کس سمت مُڑ گئی۔
بہت اچھی باتیں کیں آپ نے ساقی بھائی! میڈیا سے مجھے ایک بات یاد آئی۔ ایک رسالے میں پڑھا تھا کہ ٹی وی اور کمپیوٹر نے بچوں کے اندر سے پڑھائی سے خاطر خواہ غفلت پیدا کردی ہے۔ اگر ان کے بجائے بچوں کو صحت مند تفریح فراہم کی جائے تو جسمانی ورزش کے ساتھ ساتھ ذہنی نشو نما بھی احسن طریقے سے ہوگی۔ایسے سنگین مسائل سے نپٹنے کا طریقہ تو حکومتی سطح پر ہو نا چاہیے ، طلبا و طالبات کے نصاب میں ان کے ذہنی معیار کے مطابق ایسی تحاریر شامل ہونی چاہیں جو ان میں ہمت ، جواں مردی، اخوت،محبت، اور بھائی چارے جیسی فضا کو پیدا کرنے میں مدد دے ۔میڑک تک کے بچوں کے لیے جو نصاب مقرر کیا جائے اسے ماہرین تعلیم اور ماہرین نفسیات اور مذہبی ماہرین کے متفقہ فیصلے اور ریسرچ کے بعد لاگو کیا جائے۔
دوسری بڑی چیز جو معاشرے میں بگاڑ کا باعث ہے وہ ہمارا شتر بے مہار میڈیا ہے ۔ نوجوان نسل جو کچھ میڈیا پر دیکھتی ہے اس سچ مان لیتی ہے ۔ابھی کل خبر پڑھ رہا تھا کہ امریکہ میں اسکول کی دو بچیوں نے اپنی سہیلی کو چھریوں کے وار کر کے شدید زخمی کر کے جنگل میں پھینک دیا ۔ جب ان سے اس خطرناک حرکت کے متعلق دریافت کیا گیا تو انہوں نے کسی ڈرامے یا فلم کا حوالہ دے کر بتا یا کہ اس میں کہا گیا ہے اگر آپ ہماری تنظیم یا جماعت مین شامل ہونا چاہتے ہیں تو آپ کو کم از کم ایک قتل ضرور کرنا ہو گا ۔اس لیے ہم نے اپنی دوست پر حملہ کیا۔۔
جی بزرگ مالی صاحب! درست فرمایا آپ نے!نازک بیل کو اوائل عمری میں ہی تربیت کے دھاگے سے باندھ دیا جائے تو ٹھیک رہتا ہے، ورنہ بعد میں آپ گلہ ہی کرتے رہیں گے کہ یہ بیل کس سمت مُڑ گئی۔
جی بزرگ مالی صاحب! درست فرمایا آپ نے!
معاف کردیجے!یعنی اب بزرگوں کا مذاق بھی اُڑایا جانے لگا ہے۔ اگر آپ ہمارے زیرِ تربیت ہوتے تو تیر کی طرح سیدے ہوتے۔
معاف کردیجے!
پھر تو واقعی فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔لگتا ہے ہماری سخت گیر تربیت سے خوفزدہ ہو گئے۔
فکر نہ کریں ہم تو خود ابھی زیرِ تربیت ہیں۔
بیٹے کی عمر بہ مشکل 6 5 ہوگی اور وہ نرسری کلاس کا طالب علم لگتا تھا۔ باپ اپنے بچے کو اپنی کلاس میں فیل ہونے کی وجہ سے اسکول سے واپسی پر بری طرح ڈانٹ رہا تھا ۔اس سرزنش کے کچھ دھندلے الفاظ ابھی تک میرے کانوں میں گونج رہے ہیں۔ حافظہ سے محو ہوجانے کی بنا پر کمی بیشی کے ڈر سے نقل کرنے پر معذور ہوں۔[/quote
ابا کے منہ سے نکلنے والے درشت الفاظ اور بچے کے خوف زدہ اور لٹکے ہوئے چہرے کی صرف ایک جھلک سے ہی دل کٹ کر رہ گیا۔ اس وقت مجھے اس معصوم پر بہت ترس آیا۔ سوچنے لگا جب والد نے سرعام اپنے ہی بیٹے کا تماشا بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تو کیسے امید کی جاسکتی ہے کہ گھر جاکر درگت نہیں بنائی ہوگی۔ اسی وقت دل میں تہیہ کرلیا تھا کہ اس حوالے سے کسی دن کچھ معروضات پیش کروں گا، لیکن حالات نے جس تیزی سے اس شدت پسندی کی طرف رخ کیا اس کو دیکھ کر بار بار اپنی غفلت پر آہ نکل جاتی ہے۔
اب سے کچھ وقت پہلے تک یہ ہورہا تھا کہ بچے نتیجے کی خرابی پر اپنے والدین کے رد عمل سے خوف زدہ ہوتے تھے۔ ان سے پٹنے کا ڈر ہوتا تھا۔ خود بچوں پر بھی اداسی کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔ جس کے وہ کئی دنوں تک زیر اثر رہتے تھے۔ لیکن پھر وہ چند ہی ایام میں ایک نئے عزم، ایک نئے حوصلے ، ایک نئے جوش کے ساتھ دوبارہ میدان عمل میں کودنے کے لیے کمر کس لیا کرتے تھے۔ مگر اب صورت حال کچھ اس طرح کی ہوگئی ہے کہ والدین کے روز بہ روز بڑھتے ہوئے دباؤ کے سبب اور ان کومادیت میں سب سے آگے دیکھنے کے جنون نے اولاد کے ناتواں کندھوں پر بڑا بوجھ ڈال دیا ہے۔ جس کا حل معصوم ذہنوں نے ایک ایسے سنگین فعل میں نکالا ہے جس میں ماںباپ کو پچھتانے کے سوا اور کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ جی ہاں! اب طلبہ خود کشیاں کرکے اپنے آپ کو ان جھنجھٹوں سے آزاد کرلیتے ہیں۔
یہ درد ناک خبر میرے سامنے ہے: "مردان کے علاقے لوند خوڑ میں 17 سالہ نوجوان واجد علی نے میٹرک کا امتحان دیا مگر اسے فیل ہونے کا خوف تھا، جس کے باعث رات کے وقت گھر کے قریب کھیتوں میں اس نے پستول سے خود ہی فائر کر کے اپنی زندگی کا خاتمہ کردیا۔" یہ ایک خبر محض نمونے کے طور پر پیش کردی گئی، ورنہ اب روزانہ ایسی بے شمار خبریں اخبارات کی زینت بن رہی ہیں۔
دیکھا آپ نے بات کہاں سے کہاں جا پہنچی ہے۔ وہ بچے جن کی باتوں میں شوخی، لہجے میں معصومیت اور طبیعت میں ظرافت ہوتی تھی، جن کی نٹ کھٹ اداؤں سے گھر کے افراد میں خوشی کی لہریں دوڑ جایا کرتی تھیں، اب اپنی جان کے دشمن بن بیٹھےہیں۔ اتشویش ناک سوال یہ ہے کہ یہ ناجائز اور شدید خیال کس طرح ان کے ننھے ذہنوں کے نہاں خانوں میں داخل ہوگیا؟
معذرت کے ساتھ اس سوال کا جواب بھی خود عرض کردیتا ہوں کہ بچوں کو اس حد تک پہنچانے اور پڑھائی کے معاملے میں انہیں نفسیاتی مریض بنانے میں ماں باپ کا بڑا کردار ہے۔ پتا نہیں اسناد میں اعلی نمبرات کو ہم نے قابلیت کی ضمانت کیوں سمجھ لیا ہے؟ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ لیاقت کا معیار اچھے نتائج پر نہیں، کتاب میں موجود پوشیدہ علوم تک رسائی پر ہوتا ہے۔
پھر جس طرح امتحان میں ناکامی کے سبب طلبہ کو اپنے سرپرستوں کی طرف سے جن کڑوی کسیلی باتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس سے جہاں ایک طرف ان کا دل اپنے ہی محسنوں سےخراب ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے، وہاں دوسری جانب بچوں کے اندر احساس کمتری اور عدم اعتماد بھی سرایت کر جاتا ہے۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو کچھ صلاحیتیں بچوں میں ہوتی ہیں، ان سے بھی محروم ہوجاتے ہیں۔ حالاں کہ بندہ یہ بات دعوے سے کہتا ہے کہ 95 فیصد طلبہ ایسے ہوتے ہیں جو پڑھنے کے نہایت شوقین ہوتے ہیں لیکن ظاہر بات ہے ہر ایک کی ذہنی سطح ایک جیسی نہیں ہوتی۔ اگر والدین اللہ سے مانگیں اور فیل ہونے پر بجائے اگلا پچھلا ایک کرنے کے مزید حوصلہ بڑھائیں اور پیار و محبت سے محنت جاری رکھنے کی تلقین کریں تو کچھ بعید نہیں کہ کل کو یہی بچے ملک و قوم کے لیے فخر کا باعث بنیں۔ بہ صورت دیگر خود کشی جیسے قلب و جگر کو زخمی کردینے والے واقعات آئے دن جنم لیتے رہیں گے۔
جس واقعہ نے آپ کو یہ تحریر لکھنے پر ابھارا ہے، وہ ایک بچے کے ساتھ اس کے والد کا رویہ تھا،
ہمارے معاشرے میں اکثر والدین ، اولاد کی تربیت کے معاملے میں کوتاہی کرتے ہیں، اس حوالے سے
1- ایک تو وہ گھرانے ہیں جہاں اس تعلیم و تربیت کی اہمیت اور اس حوالے سے شعور کی کمی ہے، ایسے گھرانے عموما لو مڈل کلاس یا مڈل کلاس ہیں، بچے کو سکول بھیجنا ہی ان کے ہاں اس ذمہ داری سے سبکدوش ہونے کے لیے کافی ہے،
2-آسودہ گھرانوں میں اضافی طور پر ٹیوشن کا اہتمام کیا جاتا ہے اور اس کو اپنی ذمہ داردی پورا کرنے کے انتہائی اقدام کے مترادف گردانا جاتا ہے،
3-باشعور گھرانوں میں اولاد کی تعلیم و تربیت کو صرف سکول اور استاد پر نہیں چھوڑا جاتا، بلکہ ذاتی توجہ دی جاتی ہے، یہ شعور تعلیم یافتہ افراد میں عموما لیکن کچھ خاص ان پڑھ افراد میں بھی پایا جاتا ہے
جہاں تک عمومی طور پر والدین کے اولاد کے ساتھ رویہ کا تعلق ہے، تو ہمارے معاشرے کی حالت بہت افسوس ناک ہے،
انفرادی طور ہر ہر باشعور اور تعلیم یافتہ فرد پر لازم ہے کہ معاشرے میں آگاہی پھیلانے کی کوشش کرے، ، اس بارے میں جو کچھ ہو سکتا ہے کرے،اور سب سے پہلے درست اقدامات اور سمت کا تعین اور پھر اس کے مطابق آگاہی پھیلانے کی کوشش کرے
آپ نے بہت اچھے انداز سے ایک اہم مسئلہ کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کی ہے ،بیٹے کی عمر بہ مشکل 6 5 ہوگی اور وہ نرسری کلاس کا طالب علم لگتا تھا۔ باپ اپنے بچے کو اپنی کلاس میں فیل ہونے کی وجہ سے اسکول سے واپسی پر بری طرح ڈانٹ رہا تھا ۔اس سرزنش کے کچھ دھندلے الفاظ ابھی تک میرے کانوں میں گونج رہے ہیں۔ حافظہ سے محو ہوجانے کی بنا پر کمی بیشی کے ڈر سے نقل کرنے پر معذور ہوں۔
ابا کے منہ سے نکلنے والے درشت الفاظ اور بچے کے خوف زدہ اور لٹکے ہوئے چہرے کی صرف ایک جھلک سے ہی دل کٹ کر رہ گیا۔ اس وقت مجھے اس معصوم پر بہت ترس آیا۔ سوچنے لگا جب والد نے سرعام اپنے ہی بیٹے کا تماشا بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تو کیسے امید کی جاسکتی ہے کہ گھر جاکر درگت نہیں بنائی ہوگی۔ اسی وقت دل میں تہیہ کرلیا تھا کہ اس حوالے سے کسی دن کچھ معروضات پیش کروں گا، لیکن حالات نے جس تیزی سے اس شدت پسندی کی طرف رخ کیا اس کو دیکھ کر بار بار اپنی غفلت پر آہ نکل جاتی ہے۔
اب سے کچھ وقت پہلے تک یہ ہورہا تھا کہ بچے نتیجے کی خرابی پر اپنے والدین کے رد عمل سے خوف زدہ ہوتے تھے۔ ان سے پٹنے کا ڈر ہوتا تھا۔ خود بچوں پر بھی اداسی کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔ جس کے وہ کئی دنوں تک زیر اثر رہتے تھے۔ لیکن پھر وہ چند ہی ایام میں ایک نئے عزم، ایک نئے حوصلے ، ایک نئے جوش کے ساتھ دوبارہ میدان عمل میں کودنے کے لیے کمر کس لیا کرتے تھے۔ مگر اب صورت حال کچھ اس طرح کی ہوگئی ہے کہ والدین کے روز بہ روز بڑھتے ہوئے دباؤ کے سبب اور ان کومادیت میں سب سے آگے دیکھنے کے جنون نے اولاد کے ناتواں کندھوں پر بڑا بوجھ ڈال دیا ہے۔ جس کا حل معصوم ذہنوں نے ایک ایسے سنگین فعل میں نکالا ہے جس میں ماںباپ کو پچھتانے کے سوا اور کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ جی ہاں! اب طلبہ خود کشیاں کرکے اپنے آپ کو ان جھنجھٹوں سے آزاد کرلیتے ہیں۔
یہ درد ناک خبر میرے سامنے ہے: "مردان کے علاقے لوند خوڑ میں 17 سالہ نوجوان واجد علی نے میٹرک کا امتحان دیا مگر اسے فیل ہونے کا خوف تھا، جس کے باعث رات کے وقت گھر کے قریب کھیتوں میں اس نے پستول سے خود ہی فائر کر کے اپنی زندگی کا خاتمہ کردیا۔" یہ ایک خبر محض نمونے کے طور پر پیش کردی گئی، ورنہ اب روزانہ ایسی بے شمار خبریں اخبارات کی زینت بن رہی ہیں۔
دیکھا آپ نے بات کہاں سے کہاں جا پہنچی ہے۔ وہ بچے جن کی باتوں میں شوخی، لہجے میں معصومیت اور طبیعت میں ظرافت ہوتی تھی، جن کی نٹ کھٹ اداؤں سے گھر کے افراد میں خوشی کی لہریں دوڑ جایا کرتی تھیں، اب اپنی جان کے دشمن بن بیٹھےہیں۔ اتشویش ناک سوال یہ ہے کہ یہ ناجائز اور شدید خیال کس طرح ان کے ننھے ذہنوں کے نہاں خانوں میں داخل ہوگیا؟
معذرت کے ساتھ اس سوال کا جواب بھی خود عرض کردیتا ہوں کہ بچوں کو اس حد تک پہنچانے اور پڑھائی کے معاملے میں انہیں نفسیاتی مریض بنانے میں ماں باپ کا بڑا کردار ہے۔ پتا نہیں اسناد میں اعلی نمبرات کو ہم نے قابلیت کی ضمانت کیوں سمجھ لیا ہے؟ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ لیاقت کا معیار اچھے نتائج پر نہیں، کتاب میں موجود پوشیدہ علوم تک رسائی پر ہوتا ہے۔
پھر جس طرح امتحان میں ناکامی کے سبب طلبہ کو اپنے سرپرستوں کی طرف سے جن کڑوی کسیلی باتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس سے جہاں ایک طرف ان کا دل اپنے ہی محسنوں سےخراب ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے، وہاں دوسری جانب بچوں کے اندر احساس کمتری اور عدم اعتماد بھی سرایت کر جاتا ہے۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو کچھ صلاحیتیں بچوں میں ہوتی ہیں، ان سے بھی محروم ہوجاتے ہیں۔ حالاں کہ بندہ یہ بات دعوے سے کہتا ہے کہ 95 فیصد طلبہ ایسے ہوتے ہیں جو پڑھنے کے نہایت شوقین ہوتے ہیں لیکن ظاہر بات ہے ہر ایک کی ذہنی سطح ایک جیسی نہیں ہوتی۔ اگر والدین اللہ سے مانگیں اور فیل ہونے پر بجائے اگلا پچھلا ایک کرنے کے مزید حوصلہ بڑھائیں اور پیار و محبت سے محنت جاری رکھنے کی تلقین کریں تو کچھ بعید نہیں کہ کل کو یہی بچے ملک و قوم کے لیے فخر کا باعث بنیں۔ بہ صورت دیگر خود کشی جیسے قلب و جگر کو زخمی کردینے والے واقعات آئے دن جنم لیتے رہیں گے۔
میرا کیا تجربہ ہوگا جناب، بس جو فوراً زہن میں آیا پیش کر دیا۔ ابھی تو خود میں طالب علم ہوںبہت عمدہ تجاویز ہیں لئیق بھائی!
اپنے تجربے اور مشاہدے کی روشنی میں مزید رہ نمائی کرتے رہے گا۔
ایک قدرتی چشمہ پر جانا تھا۔۔۔کہاں جانے کی جلدی ہے؟
محترم سید زبیر صاحب جزاک الله آپ نے میرے نقطہء نگاه کی مفصل وضاحت فرما کر مجھے سراپا سپاس کیا، تربیت کے عنصر کو ہم سرے سے بھلا ہی دیتے ہیں۔ ایک شعوری تربیت اور ایک لاشعوری تربیت۔ شعوری تربیت میں تو ہم اپنے بچوں کو باقاعدہ طور پر کچھ امور کی طرف توجہ دلاتے ہیں اور ترغیب یا تنبیہ و ممانعت کرتے ہیں وہ بھی زیادہ تر اُساتذہ اور معاشرے کے سپرد کر دی گئی ہے اور دوسری طرف لاشعوری تربیت بھی عین فطری عمل ہے۔ کہ ہم اپنے عملی کردار سے اپنے بچوں کو کیا معیار سکھا رہے ہیں۔ ہم بچوں کو کہیں بیٹا ٹی وی مت دیکھیں پڑھائی کریں ۔ لیکن خود دلجمعی کے ساتھ بیٹھ کر چینلز گھما رہے ہوتے ہیں اور ان کا دل جلا رہے ہوتے ہیں اور اگر ان پر رحم آ جائے تو پھر انہیں بھی ساتھ بٹھا لیتے ہیں۔ معمولی معمولی باتوں پر چیخ چلا رہے ہوتے ہیں۔ جھوٹ بولنے کی عملی ترغیب دے رہے ہوتے ہیں۔ دوسروں گا غصہ بچوں پر نکال رہے ہوتے ہیں۔۔۔الخ ایک نا ختم ہونے والی بے قاعدگیوں کی فہرست ہے۔ تو ہمارے بچے بھی اسی سانچے میں ڈھلتے جاتے ہیں۔بہت چشم کشا تجزیہ پیش کیا ہے ۔ میرا خیال ہے جس کے غلط ہونے کے وسیع امکانات بھی ہیں ۔ والدین کی سب سے پہلی ترجیح بچہوں کی صحت اور بہترین تربیت ہونی چاہئیے ۔ بہترین تربیت ہی زندگی گزارنے کی تعلیم ہے ورنہ دیگر علوم تو پیشہ ورانہ تعلیم کے زمرے میں آتے ہیں ، ضروری نہیں کہ ایک بہترین قابل ڈاکٹر ایک اچھا با اخلاق ، با تہذیب ، با کردار شخص بھی ہو ۔ بہترین تربیت ہی دونوں جہانوں میں کامیابی کی کلید ہے ۔تعلیم اور دولت یہ نصیبوں کی بات ہے ۔ والدین کی ذمہ داری بچوں کی اچھی صحت اور اچھی تربیت ہے درسی تعلیم ضرور دلائیں یہ بھی ذمہ داری ہے مگر ترجیح تربیت ہی کو ہے ۔میں ابھی ایک پرائیویٹ کیڈٹ کالج کی ملازمت چھوڑ کر آیا ہوں وہاں کے تجربات و مشاہدات ان شا اللہ جلد شئیر کروں گا ۔ کہ کن کے بچے کیسے بچے کن لوگوں کے زیر تربیت ہوتے ہیں ۔
جزاک اللہ خیرا ناصر بھائی! بہت عمدہ تجزیہ پیش کیا ہے آپ نے!آپ نے بہت اچھے انداز سے ایک اہم مسئلہ کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کی ہے ،
ہمارے معاشرے میں اکثر والدین ، اولاد کی تربیت کے معاملے میں کوتاہی کرتے ہیں، اس حوالے سے
1- ایک تو وہ گھرانے ہیں جہاں اس تعلیم و تربیت کی اہمیت اور اس حوالے سے شعور کی کمی ہے، ایسے گھرانے عموما لو مڈل کلاس یا مڈل کلاس ہیں، بچے کو سکول بھیجنا ہی ان کے ہاں اس ذمہ داری سے سبکدوش ہونے کے لیے کافی ہے،
2-آسودہ گھرانوں میں اضافی طور پر ٹیوشن کا اہتمام کیا جاتا ہے اور اس کو اپنی ذمہ داردی پورا کرنے کے انتہائی اقدام کے مترادف گردانا جاتا ہے،
3-باشعور گھرانوں میں اولاد کی تعلیم و تربیت کو صرف سکول اور استاد پر نہیں چھوڑا جاتا، بلکہ ذاتی توجہ دی جاتی ہے، یہ شعور تعلیم یافتہ افراد میں عموما لیکن کچھ خاص ان پڑھ افراد میں بھی پایا جاتا ہے
جہاں تک عمومی طور پر والدین کے اولاد کے ساتھ رویہ کا تعلق ہے، تو ہمارے معاشرے کی حالت بہت افسوس ناک ہے،
انفرادی طور ہر ہر باشعور اور تعلیم یافتہ فرد پر لازم ہے کہ معاشرے میں آگاہی پھیلانے کی کوشش کرے، ، اس بارے میں جو کچھ ہو سکتا ہے کرے،اور سب سے پہلے درست اقدامات اور سمت کا تعین اور پھر اس کے مطابق آگاہی پھیلانے کی کوشش کرے