سید عاطف علی
لائبریرین
والد صاحب کی ایک غزل بفرمائش محترمی محمد خلیل الرحمٰن صاحب
نہ تیری آرزو دو دن، نہ تیری آرزو برسوں
تجھے پا کر کیا کرتا ہوں اپنی جستجو برسوں
مجھے دیر و حرم جانا ضروری تھا مرے ساقی
مرے ہونٹوں کو ترسے ہیں ترے جام و سبو برسوں
بڑی تاخیر سے تیرا پیامِ بے رخی آ یا
خزاں کے واسطے ترسی بہار ِ آرزو برسوں
خزاں آتے ہوئے ڈرتی ہے ایسے گلستانوں میں
جہاں کانٹے پیا کرتے ہیں پھولوں کا لہو برسوں
اُنہی کا تیر ہے وہ آپ ہی آ کر نکالیں گے
یونہی چبھتی رہے نوکِ ہلالِ آرزو برسوں
جبینِ ماہ پر لکھے بَاِظہار ِ سحر ہم نے
شب غم کی سیاہی سے حروفِ آرزو برسوں
۔۔۔
سید خورشید علی ضیاء عزیزی جےپوری
تجھے پا کر کیا کرتا ہوں اپنی جستجو برسوں
مجھے دیر و حرم جانا ضروری تھا مرے ساقی
مرے ہونٹوں کو ترسے ہیں ترے جام و سبو برسوں
بڑی تاخیر سے تیرا پیامِ بے رخی آ یا
خزاں کے واسطے ترسی بہار ِ آرزو برسوں
خزاں آتے ہوئے ڈرتی ہے ایسے گلستانوں میں
جہاں کانٹے پیا کرتے ہیں پھولوں کا لہو برسوں
اُنہی کا تیر ہے وہ آپ ہی آ کر نکالیں گے
یونہی چبھتی رہے نوکِ ہلالِ آرزو برسوں
جبینِ ماہ پر لکھے بَاِظہار ِ سحر ہم نے
شب غم کی سیاہی سے حروفِ آرزو برسوں
۔۔۔
سید خورشید علی ضیاء عزیزی جےپوری
آخری تدوین: