عرفان سعید
محفلین
رابن لیونسن۔ کنگ
بی بی سی نیوز، ٹورونٹو
تصویر کے کاپی رائٹJAMIE CLARKE
جیمی کلارک اپنے بیٹے خھوبی کے ہمراہ
آپ ایک نوجوان کو موبائل چھوڑ کر خود سے بات کرنے کے لیے کیسے آمادہ کریں گے؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے جیمی کلارک منگولیا تک جا نکلے۔
منگولیا کی ایک دور دراز وادی میں اپنی موٹرسائیکل کی پشت پر سوار مہم جو جیمی کلارک اپنے خیالات کو بھٹکنے کی آزادی دیتے ہیں۔
کئی گھنٹے بعد وہ اپنے موٹر سائیکل کو بریک لگا کر ہیلمنٹ کو جھٹکا دیتے ہوئے نقشے پر نظریں دوڑاتے ہیں۔
مہم جوئی کے متعلق یہ ان کی پسندیدہ چیز ہے۔۔۔ خلوت، قدرتی منظر اور اپنی تقدیر پر اختیار۔
لیکن جیسے ہی ان کے 18 سالہ بیٹے نے ان کی پیچھے آکر اپنی موٹرسائیکل کو بریک لگائی تب اپنے سفر کے بارے میں جیمی کی رائے بدل گئی۔
ان کے لیے اپنے خیالات میں گم رہنا پریشان کن تھا۔
’اوہ میرے خدا، یہ بہت ہی برا ہوا۔ مجھے میری سوچوں کے ساتھ تنہا نہیں چھوڑنا چاہیے۔‘
تصویر کے کاپی رائٹJAMIE CLARKE
لیکن یہی وجہ تھی کہ دونوں نے مل کر اس مہم جوئی میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔
لمبے عرصے سے مہم جوئی اور کوہ پیمائی سے وابستہ کلارک کو ایسا لگنے لگا تھا کہ وہ اپنے بیٹے ’خھوبی‘ کے ساتھ تعلق کھوتے جا رہے ہیں۔ کنیڈین شہر کیلگری میں واقع ان کے گھر میں کلارک کا بیٹا ہمیشہ اپنے فون پر ہی لگا رہتا۔
وہ کسی حد تک خود کو موردِالزام ٹھہراتے ہیں۔ سب کی طرح کلارک کے پاس بھی ایک سمارٹ فون ہے اور جب ان کا بیٹا چھوٹا تھا تب انھیں بھی اس کے ساتھ بلیک بیری پر گیمز کھیلنا پسند تھا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کلارک کا کہنا تھا ’آج اگر انفرادی یا ایک خاندان کے طور ہر ہمیں کوئی لت لگ گئی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم (والدین) نے اسے برقرار رکھا ہے۔‘
’یہ کارآمد چیزیں ہیں، لیکن ہمیں ایسا لگنا شروع ہو گیا تھا کہ یہ چیزیں ہم پر قابو پا رہی ہیں نہ کہ ہم ان پر۔‘
یہ معاملہ چند سال قبل بھی زیرِ بحث آیا تھا جب کلارک اپنی 50 ویں سالگرہ منانے کے لیے ہفتے کے آخری دن خاندان کے ہمراہ ایک سکئی لاج گئے تھے۔
اس علاقے میں موبائل فون اور وائی فائی سگنکل نہیں آتے۔
خھوبی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا ’اس سے قبل میں نے کبھی کوئی ویک اینڈ اپنے فون کے بغیر نہیں گزارا تھا۔ یہ خاصا عجیب تھا۔‘
تصویر کے کاپی رائٹJAMIE CLARKE
خھوبی اعتراف کرتے ہیں کہ اس وقت جب انھیں جانا پڑا تو وہ کافی خفا تھے۔ کیونکہ سنیپ چیٹ یا انسٹاگرام کے بغیر انھیں کوئی اندازہ نہیں تھا کہ ان کے دوست کیا کر رہے ہیں۔
اس سے ان کے والد ٹیکنالوجی کی ان کی خاندانی زندگی میں اہمیت اور اسے ٹھیک کرنے کے طریقہ کار کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہو گئے۔
موٹرسائیکل پر پورے منگولیا کا سفر کرنا ایک لمبے عرصے سے ان کا خواب تھا۔ اب جب اس کا بیٹا بڑا ہوچکا ہے تو کیوں نہ اس کے ساتھ یہ سفر کیا جائے۔
تقریباً ایک سال پہلے انھوں نے خھوبی سے اس بارے میں بات کی۔ مگر انھیں منانے میں کچھ وقت لگا۔
خھوبی کہتے ہیں ’میں نے فوراً انکار کر دیا تھا۔‘
لیکن اس سفر کی تیاری میں اتنا مزا آنے لگ کیا کہ خھوبی منگولیا جانے کے لیے بہت پُرجوش ہو گئے۔
خھوبی کو موٹرسائیکل لائسنس ملتے ہی دونوں باپ بیٹے نے کافی لمبے سفر پر جا کر پریکٹس کی۔ خھوبی کے والد دو بار ایورسٹ سر کر چکے ہیں لیکن خھوبی خود کبھی کسی پہاڑ پر نہیں چڑھے۔ اس لیے انھیں پہاڑوں پر چڑھنے کی پریکٹس بھی کرنا تھی۔
تصویر کے کاپی رائٹJAMIE CLARKE
وہ 28 جولائی کو روانہ ہوئے اور اگلے مہینے میں موٹرسائیکل، گھوڑے اور اونٹ کے ذریعہ منگولیا میں 2200 کلومیٹر (1367 میل) سے زیادہ کا سفر طے کیا۔
اگرچہ یہ سفر یقینی طور پر انسٹاگرام پر پوسٹ کرنے کے قابل تھا لیکن واپس آنے تک انھوں نے آن لائن تصاویر پوسٹ کرنے سے گریز کیا۔
خھوبی کہتے ہیں کہ فون سے دور رہنا ان کے لیے ایک چیلنج تھا۔
وہ کہتے ہیں ’مجھے لگتا ہے کہ سارا وقت میں اپنے فون کی یاد میں گم تھا۔ آپ کی ہر چیز میں دلچسپی ختم ہو جاتی ہے۔ جب بھی میں بور ہوتا ہوں تو یو ٹیوب آن کرسکتا ہوں یا نیٹ فلکس دیکھ سکتا ہوں۔ لیکن وہاں میں کیا کروں گا؟ ستارے دیکھوں گا یا اپنی انگلیاں گھماؤں گا۔‘
لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اہم چیز یہ ہے کہ انھیں اپنے والد کو جاننے کا موقع ملا۔ خاص طور پر اس وقت جب وہ اپنے خیموں میں ہوتے یا کھانا پکاتے ہوئے ساتھ وقت گزارتے تھے۔
تصویر کے کاپی رائٹJAMIE CLARKE
Image captionخھوبی
وہ کہتے ہیں ’مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ جب وہ کام اور خاندان سے دور جاتے ہیں تو میری جینریشن کے زیادہ قریب آ جاتے ہیں۔‘
اسی طرح باپ بیٹے کے روایتی زاویہ سے نکلتے ہی کلارک کو بھی یہ جان کر حیرت ہوئی کہ ان کا بیٹا کتنا بڑا ہو گیا ہے۔
کلارک کہتے ہیں ’اس طرح مجھے خھوبی کو ایک نئے انداز سے دیکھنے میں مدد ملی۔ میں اسے ایک ایسے بچے کی طرح دیکھتا تھا جو ہر بار اپنی جیکٹ ٹیبل پر بھول جاتا تھا، برتن نہیں دھوتا تھا، میں نے اسے بالغ پن کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے دیکھا اور میں اس چیز سے متاثر ہوا کہ وہ دباؤ کے زیرِ اثر کتنی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے۔‘
والدین کو میڈیا اور ٹیکنالوجی کے بارے میں تعلیم دینے والی ایک غیر منافع بخش تنظیم ’کامن سینس میڈیا‘ کی ایڈیٹر کیرولین نور کا کہنا ہے ’آپ کو اپنے بچوں کے ساتھ صرف تعلق بنانے کے لیے دنیا کے دوسرے کونے میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔‘
وہ کہتی ہیں ’والدین پورا سال گھر میں سکرین فری ٹائم زون قائم کرسکتے ہیں، خاص کر چھٹیوں کے آس پاس۔‘
تصویر کے کاپی رائٹJAMIE CLARKE
مشورہ دیتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ ان اوقات میں کوئی مزے دار کام کرنے کی کوشش کریں، جیسے کوئی کھیل کھیلنا، سیر کے لیے جانا یا فلم دیکھنا وغیرہ۔
چھٹیوں میں صوفے پر لیٹے لیٹے فون تک رسائی آسان ہے، لیکن نور کہتی ہیں کہ آپ اپنے بچوں سے جو عادت اپنانے کی توقع رکھتے ہیں، اس کا نمونہ بننے کی کوشش کریں۔
وہ کہتی ہیں ’ایک خاندان کے طور پر انٹرنیٹ سے دور ان پلگ ہو کر وقت گزارنا ایک خاندانی اقدار کےطور پر کیوں اہم ہے، اس بارے میں بات کرنا والدین کے لیے بہت ضروری ہے۔‘
’واضح طور پر کہیں کہ ’میں اپنا فون آف کر رہا ہوں تاکہ ہم ایک خاندان کے طور پر وقت بتا سکیں۔‘‘
نور یہ بھی کہتی ہیں کہ ٹیکنالوجی کی اہمیت کم کرنے یا اپنے بچوں کو اس کے استعمال سے روکنے کی کوشش بھی نہیں کرنی چاہیے۔
وہ کہتی ہیں ’میں سمجھتی ہوں کہ والدین یہ سوچ کر بہت زیادہ پریشان ہو جاتے ہیں کہ ’یہ میڈیا میرے بچوں کے طرز عمل کو تبدیل کر رہا ہے۔‘‘
’لیکن درحقیقت یہ سب اس لیے تبدیل ہو رہا ہے کہ بچے خاندان کے ساتھ وقت گزارنے کے بجائے پاپ کلچر میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔‘
’ٹک ٹوک اور اسنیپ چیٹ جیسی ایپس آج کل کے نوجوانوں کی زندگی کا حصہ ہیں جن کا مقصد ہی یہ ہے کہ صارفین زیادہ سے زیادہ دیر تک انھیں استعمال کریں تاکہ یہ ایپس اشتہارات سے پیسے کما سکیں۔‘
نور کہتی ہیں یہ زیادہ بری چیز ہے۔
تصویر کے کاپی رائٹJAMIE CLARKE
کلارک کا کہنا ہے کہ اب جب ان کا سفر ختم ہوچکا ہے تو وہ اور ان کا بیٹا کوشش کر رہے ہیں کہ جو کچھ انھوں نے اپنے سفر سے سیکھا تھا اسے روزمرہ زندگی میں بھی لاگو کر سکیں۔
کلارک کہتے ہیں ’مجھے ٹیکنالوجی کی اہمیت کا احساس ہو گیا ہے اور یہ بھی کہ یہ کتنا وقت کھا جاتی ہے۔ اور شاید ہم دونوں کو یہ یاد کرنے کی ضرورت ہے کہ کون کنٹرول میں ہے، آپ یا ٹیکنالوجی۔‘
خھوبی کا کہنا ہے کہ وہ ٹیکنالوجی کو کچھ ایسا بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جسے ضرورت کے مطابق استعمال کیا جا سکے نا کہ ہر حال میں۔
وہ کہتے ہیں ’جب آپ کسی گروپ میں بیٹھے ہیں تو آپ کو ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارنا چاہیے، لیکن ہر شخص اپنے فون پر مصروف ہوتا ہے۔ اسی لیے میں نے اپنی عادات کو تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے۔‘
لوگوں کو اپنی بھرپور توجہ نہ دینا بہت غیر مہذب حرکت ہے۔
ربط
بی بی سی نیوز، ٹورونٹو
تصویر کے کاپی رائٹJAMIE CLARKE
جیمی کلارک اپنے بیٹے خھوبی کے ہمراہ
آپ ایک نوجوان کو موبائل چھوڑ کر خود سے بات کرنے کے لیے کیسے آمادہ کریں گے؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے جیمی کلارک منگولیا تک جا نکلے۔
منگولیا کی ایک دور دراز وادی میں اپنی موٹرسائیکل کی پشت پر سوار مہم جو جیمی کلارک اپنے خیالات کو بھٹکنے کی آزادی دیتے ہیں۔
کئی گھنٹے بعد وہ اپنے موٹر سائیکل کو بریک لگا کر ہیلمنٹ کو جھٹکا دیتے ہوئے نقشے پر نظریں دوڑاتے ہیں۔
مہم جوئی کے متعلق یہ ان کی پسندیدہ چیز ہے۔۔۔ خلوت، قدرتی منظر اور اپنی تقدیر پر اختیار۔
لیکن جیسے ہی ان کے 18 سالہ بیٹے نے ان کی پیچھے آکر اپنی موٹرسائیکل کو بریک لگائی تب اپنے سفر کے بارے میں جیمی کی رائے بدل گئی۔
ان کے لیے اپنے خیالات میں گم رہنا پریشان کن تھا۔
’اوہ میرے خدا، یہ بہت ہی برا ہوا۔ مجھے میری سوچوں کے ساتھ تنہا نہیں چھوڑنا چاہیے۔‘
تصویر کے کاپی رائٹJAMIE CLARKE
لیکن یہی وجہ تھی کہ دونوں نے مل کر اس مہم جوئی میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔
لمبے عرصے سے مہم جوئی اور کوہ پیمائی سے وابستہ کلارک کو ایسا لگنے لگا تھا کہ وہ اپنے بیٹے ’خھوبی‘ کے ساتھ تعلق کھوتے جا رہے ہیں۔ کنیڈین شہر کیلگری میں واقع ان کے گھر میں کلارک کا بیٹا ہمیشہ اپنے فون پر ہی لگا رہتا۔
وہ کسی حد تک خود کو موردِالزام ٹھہراتے ہیں۔ سب کی طرح کلارک کے پاس بھی ایک سمارٹ فون ہے اور جب ان کا بیٹا چھوٹا تھا تب انھیں بھی اس کے ساتھ بلیک بیری پر گیمز کھیلنا پسند تھا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کلارک کا کہنا تھا ’آج اگر انفرادی یا ایک خاندان کے طور ہر ہمیں کوئی لت لگ گئی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم (والدین) نے اسے برقرار رکھا ہے۔‘
’یہ کارآمد چیزیں ہیں، لیکن ہمیں ایسا لگنا شروع ہو گیا تھا کہ یہ چیزیں ہم پر قابو پا رہی ہیں نہ کہ ہم ان پر۔‘
یہ معاملہ چند سال قبل بھی زیرِ بحث آیا تھا جب کلارک اپنی 50 ویں سالگرہ منانے کے لیے ہفتے کے آخری دن خاندان کے ہمراہ ایک سکئی لاج گئے تھے۔
اس علاقے میں موبائل فون اور وائی فائی سگنکل نہیں آتے۔
خھوبی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا ’اس سے قبل میں نے کبھی کوئی ویک اینڈ اپنے فون کے بغیر نہیں گزارا تھا۔ یہ خاصا عجیب تھا۔‘
تصویر کے کاپی رائٹJAMIE CLARKE
خھوبی اعتراف کرتے ہیں کہ اس وقت جب انھیں جانا پڑا تو وہ کافی خفا تھے۔ کیونکہ سنیپ چیٹ یا انسٹاگرام کے بغیر انھیں کوئی اندازہ نہیں تھا کہ ان کے دوست کیا کر رہے ہیں۔
اس سے ان کے والد ٹیکنالوجی کی ان کی خاندانی زندگی میں اہمیت اور اسے ٹھیک کرنے کے طریقہ کار کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہو گئے۔
موٹرسائیکل پر پورے منگولیا کا سفر کرنا ایک لمبے عرصے سے ان کا خواب تھا۔ اب جب اس کا بیٹا بڑا ہوچکا ہے تو کیوں نہ اس کے ساتھ یہ سفر کیا جائے۔
تقریباً ایک سال پہلے انھوں نے خھوبی سے اس بارے میں بات کی۔ مگر انھیں منانے میں کچھ وقت لگا۔
خھوبی کہتے ہیں ’میں نے فوراً انکار کر دیا تھا۔‘
لیکن اس سفر کی تیاری میں اتنا مزا آنے لگ کیا کہ خھوبی منگولیا جانے کے لیے بہت پُرجوش ہو گئے۔
خھوبی کو موٹرسائیکل لائسنس ملتے ہی دونوں باپ بیٹے نے کافی لمبے سفر پر جا کر پریکٹس کی۔ خھوبی کے والد دو بار ایورسٹ سر کر چکے ہیں لیکن خھوبی خود کبھی کسی پہاڑ پر نہیں چڑھے۔ اس لیے انھیں پہاڑوں پر چڑھنے کی پریکٹس بھی کرنا تھی۔
تصویر کے کاپی رائٹJAMIE CLARKE
وہ 28 جولائی کو روانہ ہوئے اور اگلے مہینے میں موٹرسائیکل، گھوڑے اور اونٹ کے ذریعہ منگولیا میں 2200 کلومیٹر (1367 میل) سے زیادہ کا سفر طے کیا۔
اگرچہ یہ سفر یقینی طور پر انسٹاگرام پر پوسٹ کرنے کے قابل تھا لیکن واپس آنے تک انھوں نے آن لائن تصاویر پوسٹ کرنے سے گریز کیا۔
خھوبی کہتے ہیں کہ فون سے دور رہنا ان کے لیے ایک چیلنج تھا۔
وہ کہتے ہیں ’مجھے لگتا ہے کہ سارا وقت میں اپنے فون کی یاد میں گم تھا۔ آپ کی ہر چیز میں دلچسپی ختم ہو جاتی ہے۔ جب بھی میں بور ہوتا ہوں تو یو ٹیوب آن کرسکتا ہوں یا نیٹ فلکس دیکھ سکتا ہوں۔ لیکن وہاں میں کیا کروں گا؟ ستارے دیکھوں گا یا اپنی انگلیاں گھماؤں گا۔‘
لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اہم چیز یہ ہے کہ انھیں اپنے والد کو جاننے کا موقع ملا۔ خاص طور پر اس وقت جب وہ اپنے خیموں میں ہوتے یا کھانا پکاتے ہوئے ساتھ وقت گزارتے تھے۔
تصویر کے کاپی رائٹJAMIE CLARKE
Image captionخھوبی
وہ کہتے ہیں ’مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ جب وہ کام اور خاندان سے دور جاتے ہیں تو میری جینریشن کے زیادہ قریب آ جاتے ہیں۔‘
اسی طرح باپ بیٹے کے روایتی زاویہ سے نکلتے ہی کلارک کو بھی یہ جان کر حیرت ہوئی کہ ان کا بیٹا کتنا بڑا ہو گیا ہے۔
کلارک کہتے ہیں ’اس طرح مجھے خھوبی کو ایک نئے انداز سے دیکھنے میں مدد ملی۔ میں اسے ایک ایسے بچے کی طرح دیکھتا تھا جو ہر بار اپنی جیکٹ ٹیبل پر بھول جاتا تھا، برتن نہیں دھوتا تھا، میں نے اسے بالغ پن کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے دیکھا اور میں اس چیز سے متاثر ہوا کہ وہ دباؤ کے زیرِ اثر کتنی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے۔‘
والدین کو میڈیا اور ٹیکنالوجی کے بارے میں تعلیم دینے والی ایک غیر منافع بخش تنظیم ’کامن سینس میڈیا‘ کی ایڈیٹر کیرولین نور کا کہنا ہے ’آپ کو اپنے بچوں کے ساتھ صرف تعلق بنانے کے لیے دنیا کے دوسرے کونے میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔‘
وہ کہتی ہیں ’والدین پورا سال گھر میں سکرین فری ٹائم زون قائم کرسکتے ہیں، خاص کر چھٹیوں کے آس پاس۔‘
تصویر کے کاپی رائٹJAMIE CLARKE
مشورہ دیتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ ان اوقات میں کوئی مزے دار کام کرنے کی کوشش کریں، جیسے کوئی کھیل کھیلنا، سیر کے لیے جانا یا فلم دیکھنا وغیرہ۔
چھٹیوں میں صوفے پر لیٹے لیٹے فون تک رسائی آسان ہے، لیکن نور کہتی ہیں کہ آپ اپنے بچوں سے جو عادت اپنانے کی توقع رکھتے ہیں، اس کا نمونہ بننے کی کوشش کریں۔
وہ کہتی ہیں ’ایک خاندان کے طور پر انٹرنیٹ سے دور ان پلگ ہو کر وقت گزارنا ایک خاندانی اقدار کےطور پر کیوں اہم ہے، اس بارے میں بات کرنا والدین کے لیے بہت ضروری ہے۔‘
’واضح طور پر کہیں کہ ’میں اپنا فون آف کر رہا ہوں تاکہ ہم ایک خاندان کے طور پر وقت بتا سکیں۔‘‘
نور یہ بھی کہتی ہیں کہ ٹیکنالوجی کی اہمیت کم کرنے یا اپنے بچوں کو اس کے استعمال سے روکنے کی کوشش بھی نہیں کرنی چاہیے۔
وہ کہتی ہیں ’میں سمجھتی ہوں کہ والدین یہ سوچ کر بہت زیادہ پریشان ہو جاتے ہیں کہ ’یہ میڈیا میرے بچوں کے طرز عمل کو تبدیل کر رہا ہے۔‘‘
’لیکن درحقیقت یہ سب اس لیے تبدیل ہو رہا ہے کہ بچے خاندان کے ساتھ وقت گزارنے کے بجائے پاپ کلچر میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔‘
’ٹک ٹوک اور اسنیپ چیٹ جیسی ایپس آج کل کے نوجوانوں کی زندگی کا حصہ ہیں جن کا مقصد ہی یہ ہے کہ صارفین زیادہ سے زیادہ دیر تک انھیں استعمال کریں تاکہ یہ ایپس اشتہارات سے پیسے کما سکیں۔‘
نور کہتی ہیں یہ زیادہ بری چیز ہے۔
تصویر کے کاپی رائٹJAMIE CLARKE
کلارک کا کہنا ہے کہ اب جب ان کا سفر ختم ہوچکا ہے تو وہ اور ان کا بیٹا کوشش کر رہے ہیں کہ جو کچھ انھوں نے اپنے سفر سے سیکھا تھا اسے روزمرہ زندگی میں بھی لاگو کر سکیں۔
کلارک کہتے ہیں ’مجھے ٹیکنالوجی کی اہمیت کا احساس ہو گیا ہے اور یہ بھی کہ یہ کتنا وقت کھا جاتی ہے۔ اور شاید ہم دونوں کو یہ یاد کرنے کی ضرورت ہے کہ کون کنٹرول میں ہے، آپ یا ٹیکنالوجی۔‘
خھوبی کا کہنا ہے کہ وہ ٹیکنالوجی کو کچھ ایسا بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جسے ضرورت کے مطابق استعمال کیا جا سکے نا کہ ہر حال میں۔
وہ کہتے ہیں ’جب آپ کسی گروپ میں بیٹھے ہیں تو آپ کو ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارنا چاہیے، لیکن ہر شخص اپنے فون پر مصروف ہوتا ہے۔ اسی لیے میں نے اپنی عادات کو تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے۔‘
لوگوں کو اپنی بھرپور توجہ نہ دینا بہت غیر مہذب حرکت ہے۔
ربط