والیِ شہر کو جگاؤ تو ( اے وطن کے لوگو )

ایم اے راجا

محفلین
ایم اے راجا نے کہا:
ایک مزید تازہ آمد حاضر ہے۔

( اے وطن کے لوگو )

والیِ شہر کو جگاؤ تو
حالتِ زار کچھ دکھاؤ تو

آگ ہے اور خون ہے ہر سُو
کچھ کرو شہر کو بچاؤ تو

پھیل جائیگی خود بخود خوشبو
پھول بس ایک تم کھلاؤ تو

دشت ہے یہ،مگر تمہارا ہے
باغ کوئی یہاں لگاؤ تو

بارشوں نے جوگھر گرائے ہیں
آؤ پھر سے اُنہیں بناؤ تو

دھول نفرت کی بیٹھ جائیگی
پیار کی بارشیں بلاؤ تو

موسمِ حبس ہے،ذرا لوگو
بادِ تازہ کہیں سے لاؤ تو

چھٹ ہی جائیگی تیرگی اکدن
دیپ الفت کا تم جلاؤ تو

دھوپ ہے شہر میں بہت راجا
سائباں پیار کا اٹھاؤ تو

یہ غزل میں نے بے اختیاری اور ملک کی موجود حالت پر دکھ اور غم کی کفیت میں کہی ہے، خدا سے دعا ہیکہ وہ سر زمینِ پاک کو ان حالات سے چھٹکارہ دلائے ار ہمیں شیطان کے شر اور فساد سے محفوظ رکے۔ آمین۔
 

نایاب

لائبریرین
السلام علیکم
محترم ایم اے راجہ جی
بہت خوب
" پھیل جائیگی خود بخود خوشبو
پھول بس ایک تم کھلاؤ تو"
اللہ تعالی ہم سب کو اپنے اپنے حصے کا
امن محبت بھاٰی چارے اور سلامتی والی مہک سے
بھرپور پھول کھلانے کی توفیق سے نوازے آمین
 

الف عین

لائبریرین
لو اس کو بھی ابھی پار لگا دیا ہے۔۔۔

( اے وطن کے لوگو )
// عنوان دینے کی کیا ضرورت؟، کیا یہ نظم ہے۔ اس کو غزل ہی رہنے دو، مسلسل غزل۔

والیِ شہر کو جگاؤ تو
حالتِ زار کچھ دکھاؤ تو
// دوسرے مصرع میں ’کچھ‘ بھرتی کا ہے۔ ’اپنی حالت اسے دکھاؤ تو‘ بہتر رہے گا۔

آگ ہے اور خون ہے ہر سُو
کچھ کرو شہر کو بچاؤ تو
//محض آگ کہنے سے بھی مطلب وہی نکلتا ہے، قتل و غارت گری کی بھی آگ ہوتی ہے۔
آگ ہی آگ ہے جدھر دیکھو
زیادہ رواں بھی ہے، اور شہر کی مناسبت سے آگ ہی زیادہ بہتر بھی ہے۔

پھیل جائیگی خود بخود خوشبو
پھول بس ایک تم کھلاؤ تو
// بہت خوب، خود بخود کا محل سمجھ میں نہیں آیا۔ ’ہر طرف‘ کہنے میں کیا حرج ہے۔

دشت ہے یہ،مگر تمہارا ہے
باغ کوئی یہاں لگاؤ تو
// یہ شعر سمجھ میں نہیں آیا، دشت کو کیا صحرا سمجھ رہے ہو؟

بارشوں نے جو گھر گرائے ہیں
آؤ پھر سے اُنہیں بناؤ تو
//درست

دھول نفرت کی بیٹھ جائیگی
پیار کی بارشیں بلاؤ تو
//بارشیں کس طرح بلائی جاتی ہیں؟ اس کا کچھ متبادل سوچو۔

موسمِ حبس ہے،ذرا لوگو
بادِ تازہ کہیں سے لاؤ تو
//درست

چھٹ ہی جائیگی تیرگی اکدن
دیپ الفت کا تم جلاؤ تو
// جب دیپ استعمال کیا جائے تو تیرگی کا لفظ کچھ کھٹکتا ہے، اس کی جگہ
دور ہو جائیں گے اندھیرے سبھی
بہتر رہے گا نا؟

دھوپ ہے شہر میں بہت راجا
سائباں پیار کا اٹھاؤ تو
//دھوپ شہر ہی نہیں دشت و صحرا میں بھی ہوگی، شہر کی ہی کیا تخصیص، اس کے علاوہ اس طرح مصرع رواں ہو جاتا ہے۔
ہر طرف تیز دھوپ ہے راجا
اس کے علاوہ سائباں بنایا جاتا ہے، لگایا جاتا ہے، اٹھایا تو نہیں جاتا۔ اس کے علاوہ ’پیار کا سائباں‘ زیادہ رواں نہیں؟
ہر طرف تیز دھوپ ہے راجا
پار کا سائباں لگاؤ تو
کر دو۔
 

ایم اے راجا

محفلین
والیِ شہر کو جگاؤ تو
حالتِ زار یہ دکھاؤ تو

آگ ہی آگ ہے جدھر دیکھو
کچھ کرو شہر کو بچاؤ تو

پھیل جائیگی خود بخود خوشبو
پھول بس ایک تم کھلاؤ تو
( خود بخود یہ اشارہ کرتا ہیکہ پھول کھلانے کا صرف بندوبست کیا جائے خوشبو کو پھیلانے کی ضرورت نہیں وہ تو خود بخود ہی پھیل جائے گی)

دشت ہے یہ،مگر تمہارا ہے
باغ کوئی یہاں لگاؤ تو
( میں آپکا مطلب سمجھ گیا، لیکن دشت بھی تو ایک ویران بن ہوتا ہے، بے آب و گیاہ، اس میں بھی باغ لگانا مشکل ہوتا ہے، دشت سے ملک کو تشبیع دی ہے جہاں ویرانگی اور خزاں ہے، ایک باغ کی ضرورت ہے دشت کو گلزار بنانے کیلئے اور ویرانگی کو مٹانے کیلیئے)


بارشوں نے جوگھر گرائے ہیں
آؤ پھر سے اِ نہیں بناؤ تو

دھول نفرت کی بیٹھ جائیگی
بارشیں پیار کی بلاؤ تو
( آپ نے درست فرمایا کہ بارشوں کو بلایا نہیں جا سکتا، لیکن یہاں بات ہوئی ہے نفرت کی دھول کی جسے بٹھانے کے لیئے پیار کی بارش برسانے کا کہا گیا ہے پانی کی بارش اس سے مراد نہیں سر، اور پانی کی بارش بھی تو برسائی جا سکتی ہے، بہت سے طریقوں سے! )

موسمِ حبس ہے،ذرا لوگو
بادِ تازہ کہیں سے لاؤ تو

چھٹ ہی جائیگی تیرگی اکدن
الفتوں کے دیے جلاؤ تو
( یہ سر مجھے یوں اچھا لگ رہا ہے، اندھیرے سبھی، مجھے پسند نہیں آیا)

منزلیں دور تونہیں راجا
پیر اپنا اگر بڑھاؤ تو

( سر مقطع اگر یوں کہا جائے تو؟)[/color]​
 

الف عین

لائبریرین
یہ دوبارہ

’والیِ شہر کو جگاؤ تو
حالتِ زار یہ دکھاؤ تو‘
÷÷درست مانا جا سکتا ہے

’پھیل جائیگی خود بخود خوشبو
پھول بس ایک تم کھلاؤ تو
( خود بخود یہ اشارہ کرتا ہیکہ پھول کھلانے کا صرف بندوبست کیا جائے خوشبو کو پھیلانے کی ضرورت نہیں وہ تو خود بخود ہی پھیل جائے گی)‘
÷÷ ٹھیک ہے، ویسے مجھے اب بھی ’ہر طرف‘ زیادہ رواں لگ رہا ہے، یہ تو understood ہے کہ خود بخود ہی خوشبو پھیلے گی، کوئی مصنوعی طریقے سے نہیں پھیلائی جاتی
’دشت ہے یہ،مگر تمہارا ہے
باغ کوئی یہاں لگاؤ تو
( میں آپکا مطلب سمجھ گیا، لیکن دشت بھی تو ایک ویران بن ہوتا ہے، بے آب و گیاہ، اس میں بھی باغ لگانا مشکل ہوتا ہے، دشت سے ملک کو تشبیع دی ہے جہاں ویرانگی اور خزاں ہے، ایک باغ کی ضرورت ہے دشت کو گلزار بنانے کیلئے اور ویرانگی کو مٹانے کیلیئے)‘
÷÷دشت ویران ان معنوں میں ضرور ہوتا ہے کہ وہاں آبادی نہیں ہوتی، سنسان جنگل تو ہوتا ہے، لیکن بد صورت نہیں، اس میں اور گلزار میں صرف یہ فرق ہوتا ہے کہ دشت میں کچھ کانٹ چھانٹ نہیں کی جاتی، اور کوئی ترتیب نہیں ہوتی درختوں میں جو باغوں میں آدمی بناتا ہے۔ میں اپنی بات پر قائم ہوں۔

’دھول نفرت کی بیٹھ جائیگی
بارشیں پیار کی بلاؤ تو
( آپ نے درست فرمایا کہ بارشوں کو بلایا نہیں جا سکتا، لیکن یہاں بات ہوئی ہے نفرت کی دھول کی جسے بٹھانے کے لیئے پیار کی بارش برسانے کا کہا گیا ہے پانی کی بارش اس سے مراد نہیں سر، اور پانی کی بارش بھی تو برسائی جا سکتی ہے، بہت سے طریقوں سے! )‘
÷÷ نہیں، اس سے بھی میں مطمئن نہیں

}چھٹ ہی جائیگی تیرگی اکدن
الفتوں کے دیے جلاؤ تو
( یہ سر مجھے یوں اچھا لگ رہا ہے، اندھیرے سبھی، مجھے پسند نہیں آیا)‘
÷÷ یہ بہتر ہے اب۔

منزلیں دور تونہیں راجا
پیر اپنا اگر بڑھاؤ تو
( سر مقطع اگر یوں کہا جائے تو؟)
÷÷درست
 

فاتح

لائبریرین
بارش بلانے کا محاورہ تو بے حد سامنے کی غلطی ہے راجا صاحب۔کم از کم میں نے اسے اردو تو اردو کسی مقامی زبان میں بھی استعمال ہوتے نہیں سنا۔
 

الف عین

لائبریرین
جھڑی لگاؤ کو پہلے میں نے چھڑی پڑھا!!!!
یوں بھی لگاؤ کے ساتھ ذہن میں فوراً تھپڑ یا طمانچہ ہی آتا ہے!!
 
Top