والیِ شہر کو جگاؤ تو ( اے وطن کے لوگو )

غیاث

محفلین
السلام علیکم
ماشاء اللہ راجہ صاحب ۔
والی شہر کو جگانا چاہتے ہیں مگر عوام کو بھی تو جگا$ٰں کہ یہ حلوہ کھانے ،کھلانے والےوالی ہیں یہ وقت آنے پر اپنی گدڑی سمیٹ کر بھاگ جاتے ہیں۔
انسے نجات کی کوئی سبیل نکالیں۔
 

ایم اے راجا

محفلین
میں نے آج ایک گانا سنا اسکا ایک مصرع یوں تھا شاید، کیوں بہاروں کو پھر سے بلاتے نہیں، تو مجھت خیال آیا کہ اگر بہاروں کو پھر سے بلایا جا سکتا ہے تو پھر پیار کی بارش کو کیوں نہیں !
 

ایم اے راجا

محفلین
سر میں نے یہ عرض کی تھی کہ میں نے ایک گانا سنا ھا جسکے چند مصرعے یو ں تھے شاید،
ایک دنیا اجڑ گئی ہے تو کیا۔ دوسرا تم جہاں کیوں بساتے نہیں۔ یو ں تھا اور اس میں ایک مصرعہ یہ بھی، کیوں بہاروں کو پھر سے بلاتے نہیں
میرا کہنے کا مطلب یہ ہیکہ اگر بہاروں کو پھر سے بلایا جاسکتا ہے تو پیار کی بارش کو کیوں نہیں بلایا جا سکتا، میں صرف یہ جانا چاہتا ہوں۔
 

ایم اے راجا

محفلین
والیِ شہر کو جگاؤ تو
حالتِ زار یہ دکھاؤ تو

آگ ہی آگ ہے جدھر دیکھو
کچھ کرو شہر کو بچاؤ تو

پھیل جائیگی خود بخود خوشبو
پھول بس ایک تم کھلاؤ تو


ہے تو صحرا،مگر تمہارا ہے
باغ کوئی یہاں لگاؤ تو


بارشوں نے جوگھر گرائے ہیں
آؤ پھر سے اِ نہیں بناؤ تو


موسمِ حبس ہے،ذرا لوگو
بادِ تازہ کہیں سے لاؤ تو


چھٹ ہی جائیگی تیرگی اکدن
الفتوں کے دیے جلاؤ تو


منزلیں دور تونہیں راجا
پیر اپنا اگر بڑھاؤ تو

اب دیکھیں ذرا اسے سر، بارشوں والا شعر میں نے حذف کر دیا ہے۔
 

ایم اے راجا

محفلین
والیِ شہر کو جگاؤ تو
حالتِ زار یہ دکھاؤ تو

آگ ہی آگ ہے جدھر دیکھو
کچھ کرو شہر کو بچاؤ تو

پھیل جائیگی خود بخود خوشبو
پھول بس ایک تم کھلاؤ تو


ہے تو صحرا،مگر تمہارا ہے
باغ کوئی یہاں لگاؤ تو


بارشوں نے جوگھر گرائے ہیں
آؤ پھر سے اِ نہیں بناؤ تو


موسمِ حبس ہے،ذرا لوگو
بادِ تازہ کہیں سے لاؤ تو


چھٹ ہی جائیگی تیرگی اکدن
الفتوں کے دیے جلاؤ تو


منزلیں دور تونہیں راجا
پیر اپنا اگر بڑھاؤ تو

اب دیکھیں ذرا اسے سر، بارشوں والا شعر میں نے حذف کر دیا ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
آ گیا ہوں بھائی، اب اس کو بھی دو بارہ دیکھتا ہوں، پچھلے اعتراضات اور خامیوں کی روشنی میں۔
 

الف عین

لائبریرین
دیکھ لیا ہے دوبارہ۔
والیِ شہر کو جگاؤ تو
حالتِ زار یہ دکھاؤ تو
//پچھلی بات دیکھو

آگ ہی آگ ہے جدھر دیکھو
کچھ کرو شہر کو بچاؤ تو
//درست۔

پھیل جائیگی خود بخود خوشبو
پھول بس ایک تم کھلاؤ تو
//درست

ہے تو صحرا،مگر تمہارا ہے
باغ کوئی یہاں لگاؤ تو
//پہلے مصرع میں ’ہی‘ کی کمی محسوس ہو رہی ہے۔ یوں کہو تو روانی مار کھاتی ہے لیکن مفہوم درست ہو جاتا ہے
ہے تو صحرا، پہ ہے تمہارا ہی

بارشوں نے جوگھر گرائے ہیں
آؤ پھر سے اِ نہیں بناؤ تو
//درست، پہلے بھی اسے درست کہا تھا

موسمِ حبس ہے،ذرا لوگو
بادِ تازہ کہیں سے لاؤ تو
//درست، پہلے بھی اسے درست کہا تھا

چھٹ ہی جائیگی تیرگی اکدن
الفتوں کے دیے جلاؤ تو
//پچھلی بات دیکھو

منزلیں دور تونہیں راجا
پیر اپنا اگر بڑھاؤ تو
//درست، ویسے ’اگر‘ کی جگہ ’ذرا‘ استعمال کیا جائے تو؟
 

ایم اے راجا

محفلین
اگر یو کر دیا جائے تو
ہے تو صحرا ہی پر تمہارا ہے
باغ کوئی یہاں لگاؤ تو

اور مقطع میں ذرا ہی ٹھیک بندھ رہا ہے

منزلیں دور تونہیں راجا
پیر اپنا ذرا بڑھاؤ تو

ویسے بعد میں دھیان آیا کہ “اگر“ اس بات کی نشاندی نہیں کرتا کہ تم رکے ہوئے ہو قدم آگے اور منزلوں کو پانے کیلیئے پیر آگے بڑھانا شرط ہے، یعنی اگر مشروط بناتا ہے منزلوں کو پیر بڑھانے سے، کیا خیال ہے سر؟
 

الف عین

لائبریرین
صحرا والی ترمیم اچھی ہے، کر دو یوں ہی۔
دوسرے شعر کے ’اگر‘ میں تمہاری دلیل درست ہے لیکن اگر میں یہاں روانی نہیں۔ کہ اس سے پہلے ’اپنا‘ بھی الف پر ختم ہوتا ہے، اور آگے ’گربڑ‘ گڑبڑ کرتے ہیں۔ درست تو ہے، تمہاری مرضی اگر یوں کرنا چاہو تو۔۔
 
Top