مہوش علی
لائبریرین
وال سٹریٹ جنرل کا یہ مضمون بہت اچھا لگا
اس مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایرانی ملا پچھلی صدیوں کا قدامت پسند انسان نہیں ہے، بلکہ کافی پروگریسو ہے اور طالبان کے برخلاف کافی لچک رکھتا ہے کہ ماڈرن ورلڈ کے ساتھ چل سکے۔
اور صرف یہ ایک آرٹیکل ہی نہیں، بلکہ آہستہ آہستہ ایران نے میڈیا وار میں بھی جگہ بنانی شروع کر دی ہے اور اب ویسٹرن میڈیا میں ایران کے متعلق حقائق بھی چھپنا شروع ہو گئے ہیں۔ وجہ اسکی یہ ہے کہ کافی تعداد میں ویسٹرن جنرلسٹ ایران کا دورہ کر چکے ہیں اور اس سے انہوں نے چیزوں کو "براہ راست" سیکھا ہے۔
//////////////////
اصل میں اس مضمون میں ایران کے ایک ٹی وی ڈرامے سیریل کا ذکر ہے کہ جس میں دکھایا گیا ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں ایک فلسطینی ایرانی شخص نے کس طرح جرمن یہودیوں کو جعلی پاسپورٹ جاری کر کے ایرانی یہودی دکھایا تھا تاکہ انکی جانیں بچائی جا سکیں۔
اس ڈرامے کہ اب بہت ڈیمانڈ ہے اور ویسٹرن میڈیاز رابطہ کر رہے ہیں کہ وہ اس ڈرامے کو یورپین زبانوں میں "ڈب" کر کے یورپ میں چلانا چاہتے ہیں۔
/////////////////////
عالم اسلام کے لیے اس آرٹیکل میں پیغام
اس تفصیل سے ہمیں ایک پیغام ملتا ہے کہ ہم مسلمانوں کو (یا کم از کم یورپ میں رہنے والے مسلمانوں کو) میڈیا میں آگے آنا چاہیے اور یورپی زبانوں میں ایسے ڈرامے بنانے چاہیے ہیں جہاں مسلم فیملیز کی کہانیاں دکھائی جائیں اور اس طرح مسلم کلچر کو عام کیا جائے تاکہ یورپی لوگ ہم سے خوف نہ کھائیں بلکہ ہمارے کلچر کو سیکھنے کا ان میں شوق پیدا ہو اور وہ ہمارے ساتھ Move کر سکیں۔
اس آرٹیکل سے قبل بھی یہ میرے محسوسات تھے کہ ہم یورپ کے مسلمان اس میدان میں پیچھے ہیں۔
میں نے دیکھا تھا کہ انڈیا نے کس طرح اپنی فلموں کے ذریعے اپنے کلچر کی یلغار یورپ میں کی ہے اور انہیں کتنی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ جبکہ مسلمان ابھی تک یورپ میں مکمل "بیگانے" ہیں اور عام یورپین کو انکے فیملی سسٹم کے متعلق بہت غلط فہمیاں ہیں۔
بلکہ اس سے قبل شاید کینیڈا میں بھی ایسا ہی کوئی مسلم سیریل دکھایا گیا تھا جسکی وجہ سے مسلم کمیونٹی میں بہت جوش و خروش پیدا ہوا تھا اور کینیڈین لوگ بھی شوق سے اسے دیکھتے تھے۔
بہرحال، یہ مثبت چیزیں دیکھ کر دل خوش ہوتا ہے۔
اس مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایرانی ملا پچھلی صدیوں کا قدامت پسند انسان نہیں ہے، بلکہ کافی پروگریسو ہے اور طالبان کے برخلاف کافی لچک رکھتا ہے کہ ماڈرن ورلڈ کے ساتھ چل سکے۔
اور صرف یہ ایک آرٹیکل ہی نہیں، بلکہ آہستہ آہستہ ایران نے میڈیا وار میں بھی جگہ بنانی شروع کر دی ہے اور اب ویسٹرن میڈیا میں ایران کے متعلق حقائق بھی چھپنا شروع ہو گئے ہیں۔ وجہ اسکی یہ ہے کہ کافی تعداد میں ویسٹرن جنرلسٹ ایران کا دورہ کر چکے ہیں اور اس سے انہوں نے چیزوں کو "براہ راست" سیکھا ہے۔
//////////////////
اصل میں اس مضمون میں ایران کے ایک ٹی وی ڈرامے سیریل کا ذکر ہے کہ جس میں دکھایا گیا ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں ایک فلسطینی ایرانی شخص نے کس طرح جرمن یہودیوں کو جعلی پاسپورٹ جاری کر کے ایرانی یہودی دکھایا تھا تاکہ انکی جانیں بچائی جا سکیں۔
اس ڈرامے کہ اب بہت ڈیمانڈ ہے اور ویسٹرن میڈیاز رابطہ کر رہے ہیں کہ وہ اس ڈرامے کو یورپین زبانوں میں "ڈب" کر کے یورپ میں چلانا چاہتے ہیں۔
/////////////////////
عالم اسلام کے لیے اس آرٹیکل میں پیغام
اس تفصیل سے ہمیں ایک پیغام ملتا ہے کہ ہم مسلمانوں کو (یا کم از کم یورپ میں رہنے والے مسلمانوں کو) میڈیا میں آگے آنا چاہیے اور یورپی زبانوں میں ایسے ڈرامے بنانے چاہیے ہیں جہاں مسلم فیملیز کی کہانیاں دکھائی جائیں اور اس طرح مسلم کلچر کو عام کیا جائے تاکہ یورپی لوگ ہم سے خوف نہ کھائیں بلکہ ہمارے کلچر کو سیکھنے کا ان میں شوق پیدا ہو اور وہ ہمارے ساتھ Move کر سکیں۔
اس آرٹیکل سے قبل بھی یہ میرے محسوسات تھے کہ ہم یورپ کے مسلمان اس میدان میں پیچھے ہیں۔
میں نے دیکھا تھا کہ انڈیا نے کس طرح اپنی فلموں کے ذریعے اپنے کلچر کی یلغار یورپ میں کی ہے اور انہیں کتنی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ جبکہ مسلمان ابھی تک یورپ میں مکمل "بیگانے" ہیں اور عام یورپین کو انکے فیملی سسٹم کے متعلق بہت غلط فہمیاں ہیں۔
بلکہ اس سے قبل شاید کینیڈا میں بھی ایسا ہی کوئی مسلم سیریل دکھایا گیا تھا جسکی وجہ سے مسلم کمیونٹی میں بہت جوش و خروش پیدا ہوا تھا اور کینیڈین لوگ بھی شوق سے اسے دیکھتے تھے۔
بہرحال، یہ مثبت چیزیں دیکھ کر دل خوش ہوتا ہے۔