حسان خان
لائبریرین
وحشت آگیں ہے فسانہ مری رسوائی کا
عاشقِ زار ہوں اک آہوئے صحرائی کا
پاؤں زنداں سے نہ نکلا ترے سودائی کا
داغ دل ہی میں رہا لالۂ صحرائی کا
دھیان رہتا ہے قدِ یار کی رعنائی کا
سامنا روز ہے یاں آفتِ بالائی کا
کوہِ غم مثلِ پرِ کاہ اٹھا لیتا ہوں
ناتوانی میں بھی عالم ہے توانائی کا
لحدِ تیرہ میں مجھ پر جو لگا ہونے عذاب
پھر گیا آنکھوں میں عالم شبِ تنہائی کا
کون سا دل ہے نہیں جس میں خدا کی منزل
شکوہ کس منہ سے کروں میں بتِ رعنائی کا
مردِ درویش ہوں تکیہ ہے توکل میرا
خرچ ہر روز ہے یاں آمدِ بالائی کا
بوسۂ چشمِ غزالاں مجھے یاد آتے ہیں
نہیں بھولا میں مزا میوۂ صحرائی کا
زندگانی نے مجھے مردہ بنا رکھا ہے
ملک الموت سے سائل ہوں مسیحائی کا
مصرعِ سرو میں لاکھوں ہی نکالوں شاخیں
باندھوں مضموں جو قدِ یار کی رعنائی کا
جب سے شیطان کا احوال سنا ہے میں نے
پائے بت پر بھی ارادہ ہے جبیں سائی کا
ہوئی حجت مجھے غنچے کے چٹکنے کی صدا
شک پڑا تھا دہنِ یار میں گویائی کا
وہ تماشا ہے ترا حُسنِ پرآشوب اے ترک
آنکھوں کی راہ سے دم نکلے تماشائی کا
کس طرح سے دلِ وحشی کا میں کہنا مانوں
کوئی قائل نہیں دیوانے کی دانائی کا
یہی زنجیر کے نالے سے صدا آتی ہے
قیدخانے میں برا حال ہے سودائی کا
اک پری کو بھی نہ شیشے میں اتارا میں نے
یاد کیا آئے گا اس گنبدِ مینائی کا
بعد شاعر کے ہو مشہور کلامِ شاعر
شہرہ البتہ کہ ہو مردے کی گویائی کی
شہر میں قافیہ پیمائی بہت کی آتش
اب ارادہ ہے مرا بادیہ پیمائی کا
(خواجہ حیدر علی آتش)