سید شہزاد ناصر
محفلین
وحشت نے بخیہ گر کو پریشاں بنا دیا
دامن سِلا نہ تھا کہ گریبان بنا دیا
مایوسِ زیست اے غمِ پنہاں بنا دیا
درماں کو درد، درد کو درماں بنا دیا
پوچھا یہ تھا کہ غیر کو درباں بنا دیا
بولے پھر آپ کون ہیں جی ہاں بنا دیا
ٹکرا کے نا خدا نے میری کشتیِ حیات
ساحل کو میرے واسطے طوفاں بنا دیا
داغِ جگر نہ مٹنے پہ کھائے جگر پہ زخم
صحرا نہ بن سکا تو گلستاں بنا دیا
اچھا ہوا کہ نزع میں بالیں پہ آ گئے
مشکل کا وقت آپ نے آساں بنا دیا
آخر اُڑا نہ گریہِ ِ بے وقت کا مذاق
شبنم نے رو کے پھول کو خنداں بنا دیا
مانا کے بن سکی نہ پتنگے کی قبر تک
کسِ نے مزارِ شمع شبستاں بنا دیا
فطرت نے دیر و کعبہ کی سو کشمکش کے بعد
کافر نہ بن سکا تو مسلماں بنا دیا
سیرِ فلک کو بام پہ آئے جو وہ قمرؔ
تاروں نے آسماں کو چراغاں بنا دیا