بشیر بدر وحشی اسے کہو جسے وحشت غزل سے ہے

حسان خان

لائبریرین
وحشی اسے کہو جسے وحشت غزل سے ہے​
انساں کی لازوال محبت، غزل سے ہے​
ہم اپنی ساری چاہتیں قربان کر چکے​
اب کیا بتائیں، کتنی محبت غزل سے ہے​
لفظوں کے میل جول سے کیا قربتیں بڑھیں​
لہجوں میں نرم نرم شرافت، غزل سے ہے​
اظہار کے نئے نئے اسلوب دے دیے​
تحریر و گفتگو میں نفاست غزل سے ہے​
یہ سادگی، یہ نغمگی، دل کی زبان میں​
وابستہ فکر و فن کی زیارت غزل سے ہے​
شعروں میں صوفیوں کی طریقت کا نور ہے​
اردو زباں میں اتنی طہارت غزل سے ہے​
اللہ نے نواز دیا ہے تو خوش رہو​
تم کیا سمجھ رہے ہو، یہ شہرت غزل سے ہے​
(بشیر بدر)​
 

طارق شاہ

محفلین
خان صاحب
بہت خوب غزل کا انتخاب کیا ہے آپ نے ، بہت شکریہ

مطلع میں انساں کی جگہ انسان ٹائپ ہو گیا ہے، صحیح کردیا جائے تو بہت ہی خوب ہو

وحشی اسے کہو جسے وحشت غزل سے ہے​
انساں کی لازوال محبت، غزل سے ہے​
ایک بار پھر سے بہت اچھی غزل کی عنایت پر بہت سی داد​
تشکّر​
 

باباجی

محفلین
واہ واہ بہت ہی خوب انتخاب جناب

شعروں میں صوفیوں کی طریقت کا نور ہے
اردو زباں میں اتنی طہارت غزل سے ہے
 

نایاب

لائبریرین
واہہہہہہہہہہ
بہت خوب انتخاب
لفظوں کے میل جول سے کیا قربتیں بڑھیں​
لہجوں میں نرم نرم شرافت، غزل سے ہے​
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت خوب۔۔۔!

یہ بشیر بدر کی اُن اولین غزلوں میں سے ایک ہے جن سے ہماری محترم کے کلام سے آشنائی ہوئی۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اس غزل کا بالعموم اور مطلع کا بالخصوص ایک پس منظر ہے۔

اردو کے مشہور ترقی پسند نقاد اور نظم کے بہت اچھے شاعر سلیم احمد نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ غزل وحشی صنفِ سخن ہے اور اسے اب ترک کر دینا چاہیے، انکی یہ بات بہت چلی، توصیف جو ہوئی سو ہوئی غزل گو شاعروں اور تنقید نگاروں نے ان کو بہت رگڑا اس بات پر، اور مطلع میں اس بات ہی کا بھر پور جواب ہے۔
 
Top