وحی اور نبوت ( شہید ڈاکٹر مرتضی مھطری )

صرف علی

محفلین
وحی اور نبوت​
فہرست
وحی اور نبوت
عمومیت ہدایات
انبیاء کی خصوصیات
۱۔ اعجاز
۲۔ عصمت
گناہ سے محفوظ رہنا
خطا اور غلطی سے محفوظ رہنا
پیغمبروں اور نابالغہ افراد کے درمیان فرق
۳۔ قیادت و رہبری
۴۔ خلوص نیت
۵۔ اصلاح احوال
۶۔ مقابلہ اور جہاد
۷۔ بشری پہلو
۸۔ صاحبان شریعت پیغمبر
انبیاء کا تاریخی کردار
۱۔ تعلیم و تربیت
۲۔ عہد و یمان پر زندگی استوار کرنا
۳۔ اجتماعی قید و بند کی آزادی
مقصد بعثت انبیاء
دین یا ادیان
ختم نبوت
نبوتوں کی تجدید کے اسباب
معجزہ خاتمیت
غیر قرآنی معجزہ
معجزہ کی قدر و قیمت اور افادیت
معجزوں کی اہمیت و افادیت قرآن کی نظر میں
پیغمبر کی ہدایت کا رخ
قرآن
قرآن کیلئے مسلمانوں کی عظیم کوشش
اعجاز قرآن
قرآن کے معجزانہ پہلو
الفاظ قرآن
معانی قرآن
قرآنی موضوعات
معانی قرآن کی وسعت
اللہ اور قرآن
انسان کا خدا سے رشتہ و تعلق
قرآن‘ تورات اور انجیل
تاریخی واقعات اور قصے
قرآن اور اس کی پیشین گوئیاں
اسلام کی امتیازی خصوصیات
(الف) معرفت اور شناخت کا مسئلہ
(ب) تصور کائنات کے لحاظ سے
(ج) آئیڈیالوجی کے لحاظ سے اسلام کی خصوصیات
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
حضور اکرم کے بچپن کا دور
کاہلی اور بے کاری سے نفرت
امانت
ظلم کا مقابلہ
گھریلو اخلاق
غلاموں کے ساتھ آپ کا سلوک
صفائی و پاکیزگی اور خوشبو
ملاقات اور معاشرت
مزاج میں نرمی بھی سختی بھی
عبادت
زہد و سادہ زندگی
ارادہ و پامردی
قیادت
نظم و ضبط
تنقید سننے کی طاقت اور مداحی و چاپلوسی سے نفرت
لوگوں کی کمزوری و ناواقفیت سے غلط فائدہ نہ اٹھانا
رسول اکرم کی شخصیت‘ قیادت و رہبری کی شرائط کی بہترین مصداق
تبلیغ کا طریقہ کار
علم کی تشویق و ترغیب
 

صرف علی

محفلین
عمومی ہدایت
وحی و نبوت پر اعتقاد دنیا اور انسان کے بارے میں ایک طرح کی بصیرت و آگاہی سے پیدا ہوتا ہے یعنی تمام مخلوقات کے لئے ہدایت و رہنمائی کے اصول کی معرفت سے عمومی ہدایت کا اصول اسلامی اور توحیدی تصور کائنات کا لازمہ ہے اسی لئے نبوت پر اعتقاد اس تصور کائنات کا لازمہ ہے۔ خدا تعالیٰ اس اعتبار سے کہ واجب الوجود بالذات ہے اور واجب الوجود بالذات تمام جہتوں سے واجب ہے‘ وہ فیاض علی الاطلاق ہے اور انواع موجودات میں سے ہر نوع کو جس حد تک وہ لیاقت رکھتی ہے اور اس کے لئے ممکن ہے اپنے فضل و کرم سے نوازتا ہے اور تمام موجودات کو ان کی راہ پر ہدایت کرتا ہے۔ یہ ہدایت تمام موجودات پر محیط ہے۔ چاہے کوئی وجود معمولی ترین اور چھوٹے سے چھوٹا ذرہ ہو یا بڑے سے بڑا ستارہ اور ایک نہایت معمولی ترین بے جان وجود سے لے کر اعلیٰ ترین اور ترقی یافتہ جاندار تک جسے ہم پہچانتے ہیں یعنی انسان‘ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے جس طرح انسانوں کی ہدایت کے لئے لفظ وحی استعمال کیا ہے‘ اسی طرح جمادات‘ نباتات اور حیوانات کی ہدایت کے لئے بھی استعمال کیا ہے۔
اس دنیا میں کوئی بھی وجود ایک جیسا اور ثابت و قائم نہیں ہے بلکہ وہ ہمیشہ اپنی منزل اور مقام کو بدلتا رہتا ہے اور ایک مقصد کی طرف رواں دواں ہے۔
دوسری طرف تمام قرآئن و علامات سے پتہ چلتا ہے کہ ہر وجود میں جس طرف وہ بڑھ رہا ہے اس منزل کی طرف بڑھنے کا رجحان اور میلان اس میں پایا جاتا ہے‘ یعنی تمام موجودات اپنی ذات میں موجود پوشیدہ قوتوں کے ذریعے اپنے مقصد کی طرف کھنچی چلی جا رہی ہیں۔ یہ وہی قوت ہے‘ جسے ”الٰہی ہدایت“ سے تعبیر کیا جاتا ہے‘ قرآن کریم حضرت موسیٰ کا قول نقل کرتا ہے۔ انہوں نے اپنے زمانے کے فرعون سے کہا تھا:
ربنا الذی اعطی کل شئی خلقہ ثم ھدی (طہٰ ۵۰)
”میرا پروردگار وہ ہے جس نے ہر چیز کو ویسا وجود بخشا جو اس کے لائق تھا اور پھر اس وجود کو اس کی راہ پر چلنے کی ہدایت کی۔“
ہماری دنیا ایک بامقصد دنیا ہے یعنی اس کائنات کے تمام موجودات کے اندر اپنے ہدف کمال کی طرف بڑھنے کی کشش موجود ہے اور بامقصد ہونے سے مراد ”ہدایت الٰہی“ ہی ہے۔ قرآن کریم میں لفظ ”وحی“ کا متعدد بار ذکر ہوا ہے۔ اس لفظ کے استعمال کی شکل اور اس کے استعمال کے مختلف مقامات سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن اس لفظ کو صرف انسان کے لئے محدود نہیں کرتا بلکہ تمام اشیاء اور کم از کم زندہ موجودات میں اسے جاری و ساری سمجھتا ہے۔ اسی لئے شہد کی مکھی کے بارے میں بھی وحی کے لفظ کا استعمال کیا ہے البتہ وحی و ہدایت کے درجات مخلوقات کی ترقی و کمال کے اعتبار سے جدا ہیں۔
وحی کا بلند ترین درجہ وہی ہے جو پیغمبروں سے مربوط ہوتا ہے۔ یہ وحی اس ضرورت کی بنیاد پر ہوتی ہے جس کے لئے نوع انسانی ہدایت الٰہی کی محتاج ہوتی ہے جو ایک طرف تو انسان کو ایسے مقصد کی طرف رہنمائی کرتی ہے جو محسوسات و مادیات کے افق سے ماوراء ہے اور بہرحال انسان کے لئے ایک گزرگاہ ہوتی ہے اور دوسری طرف اجتماعی زندگی میں بشر کی اس ضرورت کو پورا کرتی ہے جس کے تحت وہ ہمیشہ ایسے قانون کا محتاج ہوتا ہے جو الٰہی ضمانت کا حامل ہو‘ اس سے قبل ہم ”مکتب“ اور ”آئیڈیالوجی“ کی بحث میں بیان کر چکے ہیں کہ انسان کو ایک کمال آفرین آئیڈیالوجی کی ضرورت ہے لیکن وہ خود اس کی تدوین و تنظیم کی قوت نہیں رکھتا‘ انبیاء بشریت کے لئے ایک ریسیور کی مانند عالم غیب سے اس قسم کا علم آگہی حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس صلاحیت سے خدا کے سوا کوئی واقف نہیں ہے۔ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے:
اللّٰہ اعلم حیث یجعل رسالۃ
( سورہ انعام‘ آیت ۱۲۴)
ہرچند وحی انسانوں کے حس و تجربہ کی پہنچ سے بالاتر ہے لیکن اس قوت کو دوسری بہت سی قوتوں کی مانند اس کے آثار کے ذریعے پہچانا جا سکتا ہے۔ وحی الٰہی‘ حامل وحی یعنی پیغمبر کی شخصیت میں بہت حیرت انگیز طریقے سے اثرانداز ہوتی ہے۔ وحی حقیقت میں اسے ”بعوث“ کر دیتی ہے یعنی اس کی قوتوں کو ابھارتی ہے اور اس میں نہیات عظیم و عمیق انقلاب وجود میں لے آتی ہے‘ یہ انقلاب بشریت کی بھلائی‘ رشد و ہدایت اور اصلاح و درستی کی سمت میں نمودار ہوتا رہا ہے‘ حقیقت پسندی کے ساتھ عمل کرتا ہے اور پیغمبر میں ایک بے نظیر و بے مثل قاطعیت کا عنصر پیدا کر دیتا ہے۔ تاریخ نے آج تک انبیاء اور ان کے تربیت یافتہ افراد کے اطمینان و یقین جیسا اطمینان و یقین کسی اور میں پیش نہیں کیا۔
انبیاء کی خصوصیات
انبیاء الٰہی جو وحی کے ذریعے مبداء اور سرچشمہ ہستی سے رابطہ برقرار کرتے ہیں ان کے کچھ امتیازات اور اوصاف ہوتے ہیں جن کی طرف ذیل میں اشارہ کیا جا رہا ہے۔
۱۔ اعجاز
جو پیغمبر بھی اللہ کی جانب سے مبعوث ہوتا ہے وہ غیر معمولی قوت کا حامل ہوتا ہے اسی غیر معمولی قوت و طاقت کے ذریعے وہ ایک یا کئی ایسے کام انجام دیتا ہے جو انسانی طاقت سے بالاتر ہوتے ہیں اور اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ان امور کو انجام دینے والا غیر معمولی الٰہی طاقت کا حامل ہے یہ بات اس کی دعوت کے برحق ہونے اور اس کی باتوں کے آسمانی ہونے کی دلیل بھی ہے۔
قرآن کریم ان غیر معمولی امور کے آثار کو کہ جنہیں پیغمبروں نے اپنے دعوے کی سچائی پر گواہی کے طور پر پیش کیا ہے۔ ”آیت“ یعنی نبوت کی علامت اور نشانی کہتا ہے۔ مسلمان متکلمین اس اعتبار سے کہ ایسی علامت دوسرے تمام افراد کی عجز و ناتوانی کو ظاہر کرتی ہے‘ اسے معجزہ کہتے ہیں۔ قرآن مجید نقل کرتا ہے کہ ہر زمانے کے لوگوں نے اپنے دور کے انبیاء سے ”آیت“ اور معجزے کا تقاضا کیا ہے اور ان پیغمبروں نے اس تقاضے اور مطالبے کا جو منطقی اور معقول بھی تھا‘ اس لئے مثبت جواب دیا کہ یہ حقیقت کی تلاش کرنے والے لوگوں کی طرف سے ہوتا تھا اور ان لوگوں کے لئے معجزے کے بغیر پیغمبر کو پہچاننے کا کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں تھا۔ لیکن اگر معجزے کا تقاضا حقیقت کی تلاش کے بجائے کسی اور مقصد سے ہوتا مثلاً کسی معاملے کی صورت میں لوگوں کی طرف سے یہ خواہش کی جاتی‘ اگر آپ فلاں کام انجام دیں گے تو ہم اس کے بدلے میں آپ کی دعوت کو قبول کر لیں گے تو انبیائے الٰہی اس کام کو انجام دینے سے انکار کر دیتے۔ قرآن کریم نے انبیاء کے بہت سے معجزات کو بیان کیا ہے مثلاً مردے کو زندہ کرنا‘ لاعلاج بیمار کو شفا دینا‘ گہوارے میں باتیں کرنا‘ عصا کو اژدھے میں تبدیل کرنا اور غیب و آئندہ کی خبر دینا۔
 

صرف علی

محفلین
۲۔ عصمت
انبیاء کی خصوصیات میں سے ایک عصمت ہے۔ عصمت یعنی گناہ و خطا سے محفوظ یعنی انبیائے کرام نہ تو نفسانی خواہشات کے زیراثر آتے ہیں جس کی وجہ سے گناہ کے مرتکب ہوتے ہوں اور نہ ہی اپنے کاموں اور فرائض کی ادائیگی میں خطا و غلطی سے دوچار ہوتے ہیں۔ انبیاء کی گناہ و خطا سے دوری انہیں انتہائی اعتماد کی صلاحیت عطا کرتی ہے۔ اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ گناہوں سے ان کی معصومیت کس نوعیت کی ہے؟ مثلاً کیا ان کی عصمت کا یہ معنی ہے کہ جب بھی وہ چاہیں کسی گناہ کے مرتکب ہوں تو ایک غیبی طاقت ان کے سامنے آ جاتی ہے انہیں وہ اس شفیق باپ کی مانند جو اپنے فرزند کو خطا و غلطی نہیں کرنے دیتا‘ گناہ کرنے سے روک دیتی ہے؟ یا یہ کہ انبیاء کی طینت و خلقت اس طرح کی ہوتی ہے کہ نہ تو ان میں گناہ کا امکان ہے اور نہ ہی خطا اور غلطی کا‘ بالکل اسی طرح جیسے ایک فرشتہ اس دلیل کی بناء پر غلطی نہیں کرتا کہ وہ ذہن سے عاری ہے یا یہ کہ پیغمبروں کے گناہ نہ کرنے کی وجہ ان میں پائی جانے والی بصیرت اور ایک طرح کا درجہ یقین و ایمان ہے۔ بے شک ان تمام صورتوں میں یہی تیسری صورت صحیح ہے۔ اب ہم ان دونوں قسم کی معصومیت کا علیحدہ علیحدہ ذکر کرتے ہیں:
گناہ سے محفوظ رہنا
انسان ایک باختیار موجود ہے اور اپنے کاموں کو اپنے فائدوں اور نقصانات‘ مصلحتوں اور خرابیوں کی تشخیص کی بنیاد پر انجام دیتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ ”تشخیص“ کاموں کے اختیار و انتخاب میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ امر محال ہے کہ انسان کسی ایسے کام کا اپنے لئے انتخاب کرے‘ جس میں اس کی اپنی تشخیص کے مطابق ایک طرف تو کسی قسم کا فائدہ نہیں ہے دوسری طرف اس میں نقصان ہی نقصان ہے مثلاً ایک عقل مند انسان جسے اپنی زندگی سے محبت ہو کبھی جان بوجھ کر اپنے آپ کو پہاڑ کی چوٹی سے نہیں گرائے گا یا مہلک زہر نہیں کھائے گا۔
لوگ اپنے ایمان اور گناہوں کی اجرت و نتائج پر توجہ رکھنے کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ ان کا ایمان جتنا زیادہ قوی ہو گا اور گناہوں کے خطرناک نتائج کی طرف توجہ جتنی شدید ہو گی‘ گناہوں سے وہ اتنا ہی دور رہیں گے اور کم ہی گناہ کا ارتکاب کریں گے۔ پس اگر درجہ ایمان شہود و عیاں کے درجے تک پہنچ جائے یعنی اس حد تک کہ آدمی گناہ کرنے کا ارادہ کرتے وقت اپنے آپ کو اس شخص کی مانند سمجھے جو دیدہ دانستہ اپنے آپ کو پہاڑ سے گرا رہا ہے یا مہلک زہر پی رہا ہے‘ تو ایسی صورت میں ارتکاب گناہ کا امکان صفر کی حد تک پہنچ جاتا ہے یعنی وہ ہرگز گناہ کی طرف رخ بھی نہیں کرتا۔ ایسی ہی حالت کو ہم عصمت یعنی گناہوں سے محفوظ رہنا کہتے ہیں۔ پس گناہ سے محفوظ رہنے کا تعلق کمال ایمان اور شدت تقویٰ سے ہے۔ لہٰذا انسان کو درجہ عصمت پر فائز ہونے کے لئے اس چیز کی ضرورت نہیں ہے کہ ایک خارجی اور غیبی قوت جبراً اسے گناہ سے باز رکھے یا معصوم شخص اپنی سرشت و خلقت کی بنیاد پر ایسا ہو کہ اس سے گناہ کی قوت یا خواہش ہی چھین لی گئی ہو۔ اگر کوئی انسان گناہ پر قادر ہی نہ ہو یا ایک جبری قوت اسے ہمیشہ گناہ کرنے سے باز رکھتی ہو تو اس کے لئے گناہ نہ کرنا کوئی کمال کی بات نہیں ہو گی‘ کیوں کہ ایسی صورت میں وہ ایک ایسے انسان کی مانند ہو گا جو کسی قید خانے میں بند ہو اور خلاف قانون کام کرنے پر قادر ہی نہیں ہے‘ ایسے انسان کا نافرمانی نہ کرنا اس کے نیک کردار اور امین ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا۔
خطا اور غلطی سے محفوظ رہنا
خطا سے پاک ہونا بھی انبیاء کی ایک طرح کی بصیرت و آگاہی کا نتیجہ ہے۔ خطا ہمیشہ اس صورت میں سرزد ہوتی ہے‘ جب انسان اپنی اندرونی یا بیرونی حس کے ذریعے کسی حقیقی شے سے ارتباط برقرار کرتا ہے اور اپنے ذہن میں اس حقیقت کی مختلف صورتیں بنا لینے کے بعد اپنی عقلی قوت کے ذریعے ان صورتوں کا تجزیہ کرتا ہے یا آپس میں انہیں ترکیب دیتا ہے اور ان میں انواع و اقسام کے تصرفات کرتا ہے۔ اس کے بعد جب وہ اپنی ذہنی صورتوں کو خارجی حقائق پر منطبق کرتا ہے اور انہیں ترتیب دیتا ہے تو اس وقت کبھی کبھی غلطی یا خطا سرزد ہوتی ہے لیکن جہاں انسان براہ راست عینی حقائق کے ساتھ ایک خاص حس کے ذریعے رابطہ برقرار کر لے اور ادراک حقیقت بعینہ واقعیت و حقیقت سے متصل ہونا ہو نہ کہ ذہنی صورت حقیقت و واقعیت سے متصل ہو تو ایسی صورت میں خطا یا غلطی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ انبیائے الٰہی بھی باطنی طور پر حقیقت ہستی سے رابطہ رکھتے ہیں لہٰذا حقیقت و واقعیت کے ادراک میں ان سے غلطی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ مثلاً اگر ہم تسبیح کے سو دانوں کو کسی برتن میں ڈال دیں اور پھر دوسرے سو دانے بھی اسی برتن میں ڈال دیں اور سو مرتبہ اس عمل کو دہرائیں تو ممکن ہے ہمارا ذہن خطا سے دوچار ہو جائے اور ہم یہ خیال کرنے لگیں کہ ہم نے یہ عمل ۹۹ مرتبہ دہرایا ہے یا ایک سو ایک مرتبہ ایسا کیا ہے لیکن اصل حقیقت میں کمی یا زیادتی کا ہونا محال ہے۔
اگرچہ اس عمل کو ۱۰۰ مرتبہ دہرایا گیا ہے لیکن دانوں کی مجموعی تعداد میں کمی یا بیشی واقع نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح جو لوگ اپنی آگاہی و بصیرت کی بناء پر اصل حقیقت کی گہرائیوں میں اتر جاتے ہیں یا ہستی و وجود اور اس کے سرچشمے کے ساتھ متحد و متصل ہو جاتے ہیں تو ان کے یہاں اشتباہ و خطا کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی اور وہ ہرگز گناہ سے معصوم اور محفوظ رہتے ہیں۔
پیغمبروں اور نابغہ افراد کے درمیان فرق
یہیں سے اس فرق کا بھی پتہ لگایا جا سکتا ہے جو انبیاء اور نابغہ روزگار شخصیات کے درمیان ہوتا ہے۔ نابغہ شخصیات وہ ہوتی ہیں جن میں قوت عقل و فکر اور حساب کرنے کی طاقت بہت زیادہ ہوتی ہے یعنی وہ اپنے حواس کے ذریعے اشیاء سے رابطہ پیدا کرتے ہیں‘ اپنی تیز عقل کی بناء پر اپنی ذہنی معلومات پر کام کرتے ہیں اور نتیجے تک پہنچ جاتے ہیں مگر اتفاق سے کبھی غلطی بھی کر جاتے ہیں۔
انبیائے الٰہی عقل و خرد اور ذہنی حساب کتاب کی قوت کے حامل ہونے کے علاوہ ایک اور قوت سے بھی بہرمند ہوتے ہیں جسے وحی کہا جاتا ہے جب کہ نابغہ شخصیات اس قوت سے بہرہ مند نہیں ہوتیں‘ اسی لئے انبیاء سے ان کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ موازنہ اس وقت صحیح ہو سکتا ہے جب دونوں کے کام ایک ہی نوع اور ایک طرح کے ہوں لیکن جب دونوں کے کام مختلف نوعیت کے ہوں تو ایک کا دوسرے پر قیاس غلط ہو گا۔ مثلاً دو افراد کی قوت بینائی‘ سماعت یا فکر کا آپس میں موازنہ کیا جائے لیکن یہ ہرگز صحیح نہیں ہو گا کہ ایک شخص کی قوت بینائی کا دوسرے شخص کی قوت سماعت سے موازنہ کریں اور یہ کہیں کہ فلاں زیادہ طاقت و قوت کا حامل ہے۔ نابغہ شخصیات کا نبوغ انسانی عقل و فکر کی قوت سے مربوط ہے جب کہ پیغمبروں کی غیر معمولی شخصیت ایک اور قوت کے ساتھ مربوط ہے جسے وحی اور مبدائے ہستی سے اتصال کہا جاتا ہے۔ اس بناء پر دونوں کو ایک دوسرے پر قیاس کرنا غلط ہو گا۔
۳۔ قیادت و رہبری
رسالت و پیغمبری کا آغاز اگرچہ اللہ کی طرف معنویت کے سفر‘ اس کی ذات سے قربت حاصل کرنے اور مخلوق سے قطع تعلق (سیرمن الخلق الی الحق) سے ہوتا ہے جس کا لازمی نتیجہ ظاہر سے روگردانی اور اصلاح باطن کی طرف متوجہ ہونا ہے‘ لیکن اس کا انجام انسانی زندگی کی اصلاح کرنے اور اسے منظم رکھنے اور ایک صحیح راستے کی طرف اس کی ہدایت (سیر بالحق فی الخلق) کی غرض سے خلق اور ظاہر کی طرف واپسی ہوتا ہے۔
”نبی“ عربی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی ہے ”خبر لانے والا“ فارسی میں لفظ پیغمبر اسی معنی کو ادا کرتا ہے اور ”رسول“ عربی زبان میں ”بھیجا گیا“ کے معنی میں ہوتا ہے اور انہیں بروئے کار لاتا ہے وہ خدا کی طرف اور ان امور کی طرف جو خداوند عالم کی خوشنودی کا باعث ہیں مثلاً صلح و صفا‘ اصلاح پسندی‘ بے ضرری‘ غیر خدا سے آزادی‘ سچائی‘ شائستگی‘ محبت و عدالت اور دیگر اخلاق حسنہ کی طرف لوگوں کو دعوت دیتا ہے وہ بشریت کو ہوائے نفس اور طرح طرح کے بتوں اور طاغوتوں سے نجات دلاتا ہے۔
علامہ اقبال نے انبیاء اور ایسے افراد کے درمیان جو اللہ کی طرف معنویت کا راستہ اختیار کئے ہوئے ہیں‘ لیکن انہیں پیغمبری کا منصب نہیں دیا گیا اور اقبال انہیں ”باطنی انسان“ کا نام دیتے ہوئے فرق کو یوں بیان کرتے ہیں:
”باطنی انسان اس سکون و اطمینان کے حاصل ہو جانے کے بعد جسے وہ اپنے معنوی اور باطنی سفر میں حاصل کرتا ہے‘ یہ نہیں چاہتا کہ وہ پھر اس دنیوی زندگی کی طرف واپس آئے‘ لیکن ایسے وقت جب کہ وہ شدید ضرورت کی بناء پر اس دنیوی زندگی میں واپس آ بھی جاتا ہے‘ تو اس کی یہ واپسی انسانی معاشرے کے لئے کوئی خاص فائدہ مند نہیں ہوتی‘ لیکن نبی کی دنیوی زندگی کی طرف واپسی خلاقیت کا پہلو رکھتی ہے اور نتیجہ خیز ہوتی ہے۔ نبی اس دنیا میں واپس آتا ہے اور زمانے کے دھارے میں اس ارادے سے وارد ہوتا ہے کہ وہ تاریخ کے بہاؤ کو اپنے اختیار میں لے اور اس طریقے سے مطلوبہ کمالات کی ایک نئی دنیا خلق کرے۔ باطنی انسان کے لئے سکون حاصل ہو جانا ہی انتہائی اور آخری منزل ہے‘ لیکن پیغمبر کے لئے اس کی روح شناسی کی قوت کا بیدار ہونا (آخری منزل ہے) جس کے ذریعے وہ دنیا کو ہلا دیتا ہے اور یہ طاقت ایسی ہوتی ہے‘ جو بشری دنیا کو بالکل بدل کر رکھ دیتی ہے۔“(احیاء فکر دینی در اسلام‘ ترجمہ: احمد آرام‘ ص ۱۴۳)
اس بناء پر خلق خدا کی قیادت و رہبری اور رضائے الٰہی اور فلاح بشریت‘ انسانی قوتوں کو حرکت میں لانا اور منظم کرنا پیغمبری کا ایسا جزو لازم ہے جسے اس سے ہرگز جدا نہیں کیا جا سکتا۔
 

صرف علی

محفلین
۴۔ خلوص نیت
انبیائے الٰہی چونکہ خدا پر مکمل اعتقاد رکھتے ہیں اور ہرگز اس بات کو فراموش نہیں کرتے کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ذمہ داری سونپی گئی ہے اور وہ اسی فریضے کو ادا کر رہے ہیں لہٰذا اپنے اس فریضے کی ادائیگی میں نہایت خلوص سے کام لیتے ہیں‘ یعنی ہدایت بشر کے سوا کہ جو تقاضائے الٰہی بھی ہے‘ کوئی اور ہدف و مقصد نہیں رکھتے اور نہ ہی لوگوں سے انجام رسالت کا ”اجر“ مانگتے ہیں۔
قرآن کریم نے سورہ الشعراء میں بہت سے انبیاء کے اقوال کو جو انہوں نے اپنی اپنی قوتوں کے سامنے پیش کئے بطور خلاصہ نقل کیا ہے۔ البتہ ہر نبی نے اپنے راستے میں آنے والی مشکل یا مشکلات کی مناسبت سے اپنی قوم کو ایک طرح کا پیغام دیا ہے‘ لیکن ایک چیز جس کا تمام پیغمبروں کے پیغام میں بار بار تذکرہ کیا گیا ہے‘ وہ یہ کہ میں ”تبلیغ رسالت پر تم سے کسی اجرت اور مزدوری کا طلب گار نہیں ہوں“ لہٰذا خلوص اور خلق سے بے نیازی بھی پیغمبری کے امتیازات میں سے ہے اور اسی لئے انبیاء کا پیغام ہمیشہ ایک بے نظیر یقین و اطمینان کے ہمراہ رہا ہے۔
انبیاء چونکہ اپنے تئیں ”مبعوث“ سمجھتے ہیں اور اپنی رسالت‘ اس کی ضرورت اور اس کے ثمر بخش ہونے پر معمولی سا بھی شک نہیں کرتے‘ لہٰذا اپنے پیغام کی اس یقین و اطمینان کے ساتھ تبلیغ کرتے ہیں‘ ایسا دفاع کرتے ہیں کہ جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
حضرت موسیٰ بن عمران اپنے بھائی ہارون کے ہمراہ ادنیٰ لباس زیب تن کئے ہوئے اور ہاتھوں میں عصا لئے ہوئے اپنی اسی ظاہری حالت کے ساتھ فرعون کے پاس جاتے ہیں اور اسے توحید کی طرف دعوت دیتے ہیں اور پورے یقین و اطمینان کے ساتھ فرماتے ہیں:
”ا گر تو نے ہماری دعوت کو قبول نہ کیا تو تیری حکومت کا زوال یقینی ہے اور اگر تو نے دعوت کو قبول کر لیا اور ہمارے راستے پر چلنا شروع کر دیا تو ہم تیری عزت و آبرو کے ضامن بن جائیں گے۔“
فرعون نے بڑے تعجب کے ساتھ کہا:
”ذرا ان لوگوں کو دیکھو‘ یہ اپنی پیروی کی صورت میں میری عزت کی ضمانت دے رہے ہیں وگرنہ میری حکومت کے زوال پذیر ہونے کی بات کرتے ہیں۔“(نہج البلاغہ‘ خطبہ ۱۹۰)
نبی اکرم نے بعثت کے ابتدائی برسوں میں جب کہ مسلمانوں کی کل تعداد شاید دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کے برابر بھی نہیں ہو گی‘ ایک نشست میں جسے تاریخ نے ”یوم الانزار“ کے نام سے محفوظ رکھا ہے‘ بزرگان بنی ہاشم کو جمع کیا اور اپنا الٰہی پیغام ان تک پہنچایا اور نہایت صریح و قطعی انداز میں انہیں اس بات کی خبر سنائی کہ میرا دین عالم گیر حیثیت اختیار کر جائے گا اور تمہاری فلاح و سعادت اسی میں ہے کہ میری پیروی کرو اور میری دعوت قبول کر لو‘ انہیں نبی اکرم کی یہ بات اتنی گراں اور ناقابل یقین لگی کہ سب نے تعجب سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور جواب دیئے بغیر وہاں سے اٹھ کر چلے گئے۔
جب نبی اکرم کے چچا جناب ابوطالب نے قریش کا یہ پیغام سنا کہ ہم اس بات کے لئے تیار ہیں کہ انہیں (پیغمبر) اپنا بادشاہ مان لیں‘ قوم کی حسین ترین لڑکی‘ ان کی زوجیت میں دے دیں اور انہیں اپنی قوم کا دولت مند ترین شخص بنا دیں‘ بشرطیکہ وہ جو کام کر رہے ہیں اور جو باتیں کہہ رہے ہیں ان سے باز آ جائیں‘ تو انہوں نے یہ پیغام آنحضرت تک پہنچایا۔ اس پر آنحضرت نے جواب میں فرمایا:
”خدا کی قسم! اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ پر آفتاب اور دوسرے ہاتھ پر ماہتاب لا کر رکھ دیں‘ میں تب بھی اللہ کی طرف انہیں بلانے سے باز نہیں آؤں گا اور پیغام الٰہی کی تبلیغ سے دست بردار نہیں ہوں گا۔“
جی ہاں! جس طرح انسانوں کی قیادت کے لئے خطا و گناہ سے محفوظ قوت وحی اور اللہ سے اتصال اپنانا ضروری ہے اور خطا و گناہ سے محفوظ رہنے کے لئے وحی کی قوت اور اللہ سے رابطے اور اتصال کی ضرورت ہے‘ اسی طرح خلوص اور یقین و اطمینان پیغمبر کی ذات کا لازمی جزو ہے۔
۵۔ اصلاح احوال
انبیائے کرام جو انسانی قوتوں کو حرکت میں لاتے ہیں اور منظم کرتے ہیں‘ ان کا یہ کام صرف فرد اور معاشرے کی اصلاح و تعمیر کی خاطر ہوتا ہے‘ دوسرے الفاظ میں ان کا یہ سارا عمل بشری سعادت کے لئے ہوتا ہے اور محال ہے کہ ان کا یہ سارا عمل فرد کو فاسد اور خراب کرنے اور معاشرے کو تباہ کرنے کے لئے ہو۔ اس بناء پر اگر نبوت کے مدعی کی دعوت کا اثر انسانوں کو فاسد کرنے‘ ان کی قوتوں کو ناکارہ بنانے یا پھر انسانوں کے فحاشی و فساد میں مبتلا ہونے یا انسانی معاشرے کی تباہی اور نوع بشر کے انحطاط کی صورت میں ظاہر ہوتا ہو تو یہ بجائے خود اس امر کی یقینی اور روشن دلیل ہے کہ یہ مدعی نبوت اپنے دعوے میں سچا نہیں ہے۔ علامہ اقبال نے اس مقام پر بھی ایک عمدہ بات کہی ہے‘ وہ فرماتے ہیں:
”ایک پیغمبر کے مذہبی مشاہدات کی قدر و قیمت کا فیصلہ (اس کی رسالت اور اللہ کے ساتھ اس کے باطنی رابطے کا حقیقی ہونا)‘ ہم یہ دیکھ کر بھی کر سکتے ہیں کہ اس کے زیراثر کس قسم کے انسان پیدا ہوئے‘ علی ہذا یہ کہ تہذیب و تمدن کی وہ دنیا تھی جس کا ظہور ان کی دعوت سے ہوا۔“ (تشکیل جدیدالہیات اسلامیہ‘ ص ۱۴۴)
۶۔ مقابلہ اور جہاد
ہر قسم کے شرک‘ خرافات و لغویات‘ جہالتوں‘ توہمات‘ خود ساختہ خیالات‘ ظلم و ستم‘ زیادتیوں اور ستم رانیوں سے ٹکر لینا اور ان سے مقابلہ کرنا بھی نبوت کے ایک مدعی کی سچائی کی علامتوں میں سے ہے۔ یعنی محال ہے کہ ایک شخص جسے اللہ کی طرف سے واقعی پیغمبر بنا کر بھیجا گیا ہو اس کے پیغام میں کوئی ایسی چیز ہو‘ جس سے شرک کی بو آتی ہو یا وہ کسی ظالم و ستم گر کی مدد کو دوڑ پڑے اور بدعنوانی و بے انصافی کی تائید کرے یا شرک‘ جہالت‘ خرافات و لغویات اور ظالموں کے ظلم و جور کے زیر خاموشی اختیار کرے اور ان سے جنگ و جدال اور جہاد کے لئے اٹھ کھڑا نہ ہو۔ توحید‘ عقل اور عدالت تمام انبیاء کے اصولوں میں سے ہے اور صرف ایسے ہی افراد کی دعوت قابل مطالعہ اور دلیل و معجزہ طلب کرنے کے لائق ہے‘ جو اس راستے پر چلتے ہوئے دعوت دیتے ہیں یعنی اگر کوئی شخص اپنے پیغام میں کوئی ایسی چیز پیش کرے جو توحید کے خلاف ہو یا اس حکم کے خلاف ہو جو تمام عقلوں کے نزدیک قطعی اور مسلم ہو یا عدل کے خلاف ظلم کی تائید میں ہو تو ایسے شخص کا پیغام نہ تو مطالعے کے لائق ہے اور نہ ہی دلیل کے مطالبے کے قابل ہے۔ اسی طرح اگر ایک مدعی نبوت گناہ یا خطا کا مرتکب ہوتا ہے یا خلق خدا کی قیادت و رہبری کی طاقت نہ رکھتا ہو‘ اگرچہ اس ناتوانی کا سبب کوئی جسمانی عیب یا جذاب جیسی نفرت انگیز بیماری ہو یا اس کی دعوت حیات انسانی کے راستے پر نہ ہو تو اس کا پیغام دلیل و معجزہ کے مطالبے کے لائق نہیں ہے۔ بہرحال ایسے افراد اگر (بفرض محال) معجزہ گر بھی ہوں اور بہت سے معجزات بھی دکھلا دیں تب بھی عقل ان کی پیروی کو جائز قرار نہیں دیتی۔
 

صرف علی

محفلین
۷۔بشری پہلو
انبیاء اپنے تمام غیر معمولی پہلوؤں مثلاً معجزہ‘ گناہ و خطا سے محفوظ رہنا‘ بے مثال قیادت و رہبری اور بے مثال تعمیری کردار نیز شرک‘ خرافات اور ظلم و ستم کے خلاف قیام کے باوجود نوع بشر سے تعلق رکھتے ہیں یعنی انبیاء تمام لوازمات بشر کے حامل ہوتے ہیں۔ دوسروں کی طرح کھاتے ہیں‘ سوتے ہیں‘ چلتے ہیں‘ اولاد پیدا کرتے ہیں اور بالآخر اس دنیا سے چلے جاتے ہیں‘ وہ تمام ضروریات جو بشریت کا لازمہ ہیں‘ ان میں ہیں۔ انبیاء دوسروں کی مانند مسئول اور شرعی تکلیف کے حامل ہیں اور جن شرعی ذمہ داریوں کو وہ لوگوں تک پہنچاتے ہیں‘ خود ان پر بھی عائد ہوتی ہیں۔ حرام و حلال ان کے لئے بھی ہے بلکہ بعض شرعی ذمہ داریاں ان کے لئے زیادہ شدید نوعیت کی ہیں جیسا کہ رسول اکرم پر نماز شب یعنی آخر شب میں بیدار رہنا اور نافلہ شب واجب تھی۔
انبیاء کبھی اپنے آپ کو تکالیف شرعی اور احکام سے مستثنیٰ نہیں کرتے تھے۔ وہ بھی دوسروں کی طرح اور دوسروں سے زیادہ اللہ سے ڈرتے تھے‘ دوسروں سے زیادہ خدا کی عبادت کرتے تھے‘ نماز پڑھتے تھے‘ روزہ رکھتے تھے‘ جہاد کرتے تھے‘ زکٰوة دیتے تھے‘ خلق خدا پر احسان کرتے تھے‘ اپنی اور دوسروں کی زندگی کے لئے دوڑ دھوپ کرتے تھے اور زندگی میں دوسروں پر بوجھ نہیں بنتے تھے۔
پیغمبروں اور دوسرے لوگوں کے درمیان فرق صرف وحی کے مسئلے اور وحی کے مقدمات و لوازم میں ہوتا ہے وحی انبیاء کو بشر ہونے سے خارج نہیں کر دیتی بلکہ انہیں انسان کامل اور دوسروں کے لئے نمونہ عمل بنا دیتی ہے۔ اسی لئے وہ دوسروں کے پیشرو اور رہبر و قائد ہیں۔
۸۔ صاحبان شریعت پیغمبر
انبیائے الٰہی بطور کلی دو گروہوں میں منقسم ہیں۔ ایک گروہ جن کی تعداد کم ہے ان پیغمبروں کا ہے جنہیں خود جداگانہ طور پر کچھ احکام و قوانین وحی کے ذریعے سپرد کئے گئے اور انہیں مامور کیا گیا کہ یہ قوانین و احکام لوگوں تک پہنچائیں اور انہیں قوانین و احکام کی بنیاد پر لوگوں کو ہدایت کریں اور ان کے ہی مطابق لوگوں کو عمل کرنے کی تلقین و تاکید کریں۔ ان انبیاء کو قرآن کی اصطلاح میں ”اولوالعزم“ کہا جاتا ہے۔ ہمیں صحیح اور یقینی طور پر یہ نہیں معلوم کہ اولوالعزم پیغمبروں کی تعداد کیا تھی۔ خصوصاً اس امر کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ قرآن مجید اس بات کو صاف و صریح الفاظ میں کہتا ہے کہ اس نے فقط بعض انبیاء کا تذکرہ کیا ہے۔ اگر قرآن مجید میں تمام اہم پیغمبروں کا ذکر کیا گیا ہوتا تو ممکن تھا کہ قرآن مجید میں مذکورہ پیغمبروں میں سے اولوالعزم پیغمبروں کی تعداد معلوم کر لی جاتی۔ بہرکیف ہم اتنا جانتے ہیں کہ حضرت نوح‘ حضرت ابراہیم‘ حضرت موسیٰ‘ حضرت عیسیٰ اور حضرت محمد (صلوات اللہ علیہم) اولوالعزم اور صاحب شریعت پیغمبر تھے اور ان میں سے ہر ایک کو وحی کے ذریعے کچھ احکام و قوانین دیئے گئے تھے تاکہ انہیں لوگوں تک پہنچا سکیں اور ان قوانین کی بنیاد پر ان کی رہنمائی کر سکیں۔
دوسرا گروہ ان انبیاء کا ہے جو بذات خود کوئی شریعت اور قوانین نہیں رکھتے بلکہ محض اس شریعت اور قوانین کی تبلیغ و ترویج پر مامور تھے جو اس زمانے میں موجود تھے۔ پیغمبروں کی اکثریت اسی گروہ میں سے تھی جیسے حضرت ہود حضرت صالح ‘ حضرت لوط حضرت اسحاق حضرت اسماعیل حضرت یعقوب حضرت یوسف حضرت یوشع حضرت شعیب حضرت ہارون حضرت زکریا اور حضرت یحییٰ یہ سب دوسرے گروہ ہی سے ہیں۔
 

صرف علی

محفلین
انبیاء کا تاریخی کردار
کیا پیغمبر تاریخ کی حرکت میں مثبت یا منفی کردار کے حامل رہے ہیں یا یہ کہ بالکل بے اثر رہے ہیں؟ اور اگر ان کا کوئی کردار رہا ہے تو کیا وہ مثبت تھا یا منفی؟
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ پیغمبروں کا تاریخ میں ایک موثر کردار رہا ہے اور وہ معاشرے میں بے اثر نہیں رہے اس کا دین و مذہب کے مخالفین نے بھی انکار نہیں کیا ہے۔ انبیاء الٰہی ماضی میں ایک عظیم قومی طاقت کے مظہر رہے ہیں۔ ماضی میں زور و زر کے بل بوتے پر سامنے آنے والی طاقتوں کے مقابلے میں قومی طاقتیں صرف ان طاقتوں پر منحصر ہوتی تھیں جو ان خاندانی قبائلی اور وطنی رجحانات کے نتیجے میں وجود میں آتی تھیں کہ قبیلے اور قوم کے سردار جن کے مظہر تصور کئے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ دوسری طاقتیں وہ تھیں جو مذہبی و ایمانی رجحانات کی بنیاد پر وجود میں آئی تھیں اور جن کے مظہر انبیاء و مرسلین اور صاحبان ادیان اور اہل دین ہوا کرتے تھے۔
اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ پیغمبران خدا ایسی قوت و طاقت تھے جنہیں مذہبی قوت حاصل تھی لیکن جو چیز قابل بحث ہے وہ یہ کہ قوت کس طرح اثرانداز ہوتی تھی۔ یہی وہ مقام ہے جہاں مختلف نظریات نے جنم لیا ہے:
۱۔ ایک گروہ نے عام طور سے اپنی تحریروں اور آثار میں ایک سادہ سا صغریٰ و کبریٰ قائم کر کے یہ دعویٰ کیا ہے کہ انبیاء کا کردار منفی رہا ہے کیوں کہ انہوں نے جس راستے کا انتخاب کیا تھا وہ معنوی اور دنیا کے برخلاف تھا۔ انبیاء کی تعلیمات کا محور دنیا سے انصراف آخرت کی طرف توجہ دلانا تھا باطن پرزور دینا اور ظاہر سے لاتعلقی ذہنیت کی طرف رجحان اور عینیت سے گریز تھا۔ اسی لئے دین و مذہب کی قوت و طاقت اور انبیاء جو اس طاقت کے مظہر تھے ہمیشہ انسان کو زندگی سے مایوس اور دل سرد کرتے رہے اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے رہے۔ اس اعتبار سے تاریخ میں انبیاء کا کردار ہمیشہ منفی رہا ہے۔ عام طور پر اس قسم کا اظہار نظر وہ لوگ کرتے ہیں جنہیں روشن فکر ہونے کا دعویٰ ہے۔
۲۔ ایک دوسرا گروہ صاحبان ادیان کے کردار اور اثرات کو ایک اور طریقے سے منفی قرار دیتا ہے۔ یہ گروہ پہلے گروہ کے برعکس صاحبان ادیان کو طالب دنیا جانتا ہے اور ان کے معنوی اور باطنی رخ کو ایک فریب اور ان کے دنیاوی پہلو پر ایک نقاب سے تعبیر کرتا ہے۔ ان لوگوں کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ دنیا پسندانہ راستہ موجود وضع کی حفاظت باقتدار و طاقت ور طبقے کے مفاد میں اور کمزور طبقے کے ضرر و نقصان کے لئے ہوتا ہے اور ہمیشہ معاشرے کی ترقی و کمال کے مقابل رہا ہے۔ ان کا یہ دعویٰ ہے کہ تاریخ بھی دوسرے تمام موجودات کی طرح جدلیاتی (Dialectic) یعنی اندرونی تضاد سے پیدا ہونے والی حرکت کی حامل ہے۔
مالکیت و اقتدار کے وجود کے سبب معاشرہ دو باہم متنازع طبقوں میں تقسیم ہو گیا ہے۔ ایک حاکم اور فائدہ حاصل کرنے والا طبقہ دوسرا محروم اور فائدہ پہنچانے والا طبقہ۔ حاکم طبقہ اپنے امتیازات کی حفاظت کی غرض سے ہمیشہ موجود صورت حال پر باقی رہنے کا طرف دار رہا ہے۔
پیداواری آلات کی جبری پیش رفت کے باوجود یہ طبقہ چاہتا ہے کہ معاشرے کو اسی حالت پر قائم رکھے لیکن محکوم طبقہ پیداواری آلات کی ترقی کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر چاہتا ہے کہ اس موجود صورت حال کو بالکل الٹ دے اور اس کی جگہ کامل و مکمل صورت حال کو لے آئے۔ حاکم طبقہ نے تین مختلف شکلوں میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ دین حکومت اور دولت دوسرے الفاظ میں زور و زر اور فریب۔ صاحبان ادیان کا کردار ستم گروں اور استحصالی طاقتوں کے مفاد میں عوام کو دھوکہ و فریب میں رکھنا تھا۔ ارباب ادیان کا آخرت کی طرف توجہ دلانے کا عمل حقیقی نہیں تھا بلکہ ان کی دنیا پرستی کے چہرے پر فریب کی نقاب تھی جو محروم انقلابی اور پیش قدم طبقے کے ضمیر اور وجدان کو مسخر کرنے کے لئے ڈالی گئی تھی پس ارباب ادیان کا تاریخی کردار اس اعتبار سے منفی تھا کہ وہ ہمیشہ قدامت پسند طبقے کا قوت بازو و محافظ اور موجودہ حالت یعنی صاحبان زور و زر کے طرف دار رہے ہیں۔ تاریخ کی توجیہ کے سلسلے میں مارکسزم کا نظریہ یہی ہے۔ مارکسزم کی نظر میں یہ تین عامل یعنی دین حکومت اور ثروت ہمیشہ اصول مالکیت کے ہمراہ اور پوری تاریخ میں انسانوں کے دشمن رہے ہیں۔
۳۔ کچھ افراد مذکورہ بالا نظریات کے برخلاف ایک اور اعتبار سے تاریخ کی تفسیر کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود دین و مذہب اور ان کے مظاہر یعنی پیغمبروں کا کردار منفی سمجھتے ہیں۔ ان لوگوں کا یہ دعویٰ ہے کہ عالم طبیعت اور تاریخ کا کمال و ارتقاء اس بنیاد پر استوار ہے کہ طاقت وروں کا غلبہ رہے اور کمزوری کا خاتمہ ہو۔ چنانچہ طاقت ور ہی ہمیشہ تاریخ کی ترقی و پیش رفت کا اور کمزور ہمیشہ تاریخ کے جمود اور تندی کا سبب رہے ہیں۔ دین و مذہب طاقت وروں کو روکنے کے لئے کمزور طبقے کی ایجاد ہے۔ ارباب ادیان عدل سچائی انصاف محبت رحم دلی اور تعاون جیسے مفاہیم کو دوسرے الفاظ میں غلامانہ اخلاق کو کمزور یعنی پسماندہ طبقہ اور ارتقاء و کمال کے دشمن طبقے کے حق میں اور طاقت ور طبقے یعنی پیش قدم طبقے کے خلاف ایجاد کرتے ہیں۔ یوں انہوں نے طاقت وروں پر منفی اثر ڈالا ہے اور کمزوری کے خاتمے نسل انسانی کی اصلاح اور غیر معمولی شخصیات کی پیدائش کی راہ میں رکاوٹ بنے لہٰذا مذہب اور انبیاء جو اس قوت مذہب کے مظہر تھے کا کردار اس اعتبار سے منفی تھا کہ وہ غلامانہ اخلاق کے طرف دار اور مالکانہ اخلاق کے جو تاریخ اور معاشرے میں ترقی و کمال کا سبب ہے کے خلاف تھے۔ جرمنی کا مشہور مادہ پرست فلسفی نطشے اسی نظریے کا حامی و طرف دار تھا۔
چونکہ نطشے کی مانند دوسرے مادی جرمن فلسفی بھی اسی روش پر چلتے رہے اور ان کی سوچ و بچار کے دھارے اسی سمت میں بہتے رہے لہٰذا اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ لکیر کے فقیر بن کر اپنے فلسفے کو مادی بنیادوں پر استوار کرتے ہوئے اسی نظریے پر گامزن رہے کہ معاصر پیغمبر اور آسمانی تعلیمات غلامانہ اخلاق و کردار کے حامی اور انسانی ترقی و کمال کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ رہے ہیں اسی سوچ اور مشینی دور کی آمد نے آج مغربی سرزمینوں کو ایسے باسیوں سے آباد کر دیا ہے جن کی اکثریت مذہب سے دوری اور بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے دہریت کی جانب گامزن ہے انوہں نے مذہب کو ایک بوجھ سمجھ کر اتار پھینکا کیوں کہ وہاں کے مفکرین اور فلاسفہ نے وہاں کے باسیوں کے ذہنوں میں وقت کے گذرنے کے ساتھ ساتھ ایک ایسی سوچ کو پروان چڑھایا جس کی بنیادیں مادیت پر استوار کی گئیں اور جنگ افلاس اور بے سر و سامانی کی اصل وجوہات مذہب کو قرار دے دیا گیا اس کے نتیجے میں آج اگر آپ یورپ جائیں تو اس بات کو نہایت آسانی سے درک کر لیں گے کہ وہاں کے شہریوں نے اپنے ادیبوں فلاسفہ اور مفکرین سے اثر لیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج صرف دس فیصد افراد جن میں زیادہ تر بوڑھے شامل ہوتے ہیں مذہبی سرگرمیوں میں حصہ لیتے اور اتوار کے دن اجتماعی عبادت میں شریک ہوتے ہیں لیکن اس کے برعکس مشرق کے اکثر فلاسفہ نے مذہب کو معاشرے میں خصوصی مقام دلانے کی کوشش کی ہے۔
۴۔ مذکورہ بالا تینوں گروہوں کو چھوڑ کر منکرین ادیان تک بھی ماضی میں پیغمبروں کے کردار کو مثبت اور مفید اور تاریخ کی ارتقائی سمت میں جانتے ہیں۔ ان گروہوں نے ایک طرف تو پیغمبروں کی اخلاقی اور اجتماعی تعلیمات اور دوسری طرف تاریخ کے عینی حائق پر توجہ دی ہے اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ گذشتہ دور میں پیغمبروں کا معاشرے کی فلاح و بہبود اور ترقی و پیش رفت میں بنیادی ترین کردار رہا ہے۔ بشری تمدن کے دو پہلو ہیں: ایک مادی اور دوسرا معنوی۔ تہذیب و تمدن کا مادی پہلو صنعت و فن سے متعلق ہے جو آج تک ارتقائی منازل طے کرتا رہا ہے اور معنوی پہلو ایک انسان کے دوسرے انسانوں سے تعلقات سے ہے تہذیب و تمدن کا معنوی و روحانی پہلو انبیاء کی تعلیمات کا مرہون منت ہے اور تہذیب و تمدن کے اسی معنوی پہلو ہی کے پرتو میں اس کے مادی پہلوؤں میں ترقی کی صلاحیت پیدا ہوئی ہے لہٰذا تہذیب و تمدن کے معنوی پہلو کے ارتقاء و کمال میں پیغمبروں کا کردار براہ راست اور بلاواسطہ رہا ہے جب کہ مادی پہلو کے ارتقاء میں بالواسطہ رہا ہے۔ ان گروہوں کی نظر میں ماضی میں انبیاء کے مثبت کردار میں کوئی کلام نہیں۔ البتہ بعض گروہ ان تعلیمات کے مثبت کردار کو صرف ماضی کی حد تک محدود و منحصر جانتے ہیں اور آج کل کے دور میں ان تعلیمات کے اثر کو غیر مفید سمجھتے ہیں۔ ان کا یہ دعویٰ ہے کہ علوم کی ترقی و پیش رفت کی وجہ سے دینی تعلیمات اپنی افادیت کھو چکی ہیں اور آئندہ ان کی افادیت میں مزید کمی واقع ہو جائے گی لیکن بعض گروہوں کا یہ دعوٰی ہے کہ ایمان اور مذہبی نظام فکر کا کردار ایسا ہے کہ علمی ترقی کبھی اس کی جگہ نہیں لے سکتی اسی طرح فلسفی مکاتب بھی اس کے قائم مقام نہیں ہو سکتے۔ ان مختلف کرداروں کے درمیان جو انبیاء نے ماضی میں ادا کئے ہیں کہیں کہیں اور کبھی کبھی ایسے مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں جہاں بشر کے اجتماعی شعور کا ارتقاء دینی تعلیمات کی پشت پناہی سے بے نیاز ہوتا ہے لیکن بنیادی کردار وہی ہے جو ماضی میں تھا اور آئندہ بھی اپنی قوت سے باقی رہے گا۔
 

صرف علی

محفلین
اب ہم تاریخی ارتقاء و کمال میں پیغمبروں کی تعلیمات کے موثر کردار کے چند نمونے پیش کرتے ہیں:
۱۔ تعلیم و تربیت
زمانہ ماضی میں تعلیم و تربیت کا باعث دینی و مذہبی بیداری رہی ہے۔ ماضی میں مذہبی رجحان معلم اور ماں باپ کا یار و مددگار رہا ہے یہ مورد ان موارد میں سے ہے جہاں اجتماعی شعور کے ارتقاء نے مذہبی محرک کی ضرورت کو دور کر دیا ہے۔
۲۔ عہد و پیمان پر زندگی استوار کرنا
انسان کی سماجی زندگی معاہدوں اقرار ناموں قراردادوں اور وعدوں عہد کا احترام کرنے پر قائم ہے۔ عہد و پیمان کا احترام انسانی تمدن کا ایک رکن ہے اور یہ رکن ہمیشہ مذہب کے ذمہ رہا ہے اور ابھی تک اس ذمہ داری کو سنبھالنے کے لئے مذہب کی جگہ کسی دوسرے نے نہیں لی۔ ویل ڈیورنٹ جو مذہب مخالف ہے اپنی کتاب ”درسہائے تاریخ“ میں لکھتا ہے:
”مذہب نے اپنے آداب و رسوم کی مدد سے انسانی معاہدوں اور میثاقوں کو انسان اور خدا کے درمیان باعظمت رابطوں کی شکل دے دی ہے اور اسی راستے سے استحکام و پائیداری کا باعث بن گیا ہے۔“(درسہائے تاریخ ص ۵۵)
مذہب کلی طور پر اخلاقی اور انسانی اقدار کے لئے زرضمانت کی حیثیت رکھتا ہے اور مذہب سے ہٹ کر اخلاقی اقدار کی حیثیت ان نوٹوں کی سی ہے جن کے عوض حکومت کے خزانے میں زرضمانت موجود نہ ہو جس کی بے اعتباری و بے وقعتی بہت جلد ظاہر ہو جاتی ہے۔
۳۔ اجتماعی قید و بند کی آزادی
ہر طرح کے ظلم و ستم و استبداد اور سرکش عناصر سے مقابلہ انبیاء۱ کا اہم ترین کردار رہا ہے۔ قرآن ان کے کلیدی کردار کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ قرآن کریم اولاً تو عدل و انصاف کے قیام کو بعثت و رسالت کے ہدف کے عنوان سے ذکر کرتا ہے اور ثانیاً اپنے واقعات میں ظالموں جابروں اور استبدادی طاقتوں کے خلاف انبیاء۱ کی جدوجہد کو بارہا بیان کرتا ہے۔ قرآن نے چند آیتوں میں اس بات کی تصریح کی ہے کہ جوطبقہ ہمیشہ سے انبیاء۱ کے ساتھ مصروف پیکار رہا ہے وہ استبدادی اور ظالم طاقتوں کا طبقہ ہے۔
کارل مارکس اور اس کے پیروکاروں کا یہ نظریہ کہ دین حکومت اور دولت و ثروت حاکم طبقے کے تین مختلف چہرے ہیں جو مظلوم و مجبور طبقے کے مخالف رہے ہیں ایک بے قیمت نظریہ ہے اور تاریخ کے مسلمہ حقائق کے خلاف ہے۔ ڈاکٹر ارانی نظریہ مارکس کی توجیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”مذہب ہمیشہ حاکم اور برسراقتدار طبقے کا آلہ کار رہا ہے اور ضعیف و کمزور طبقے کو مغلوب کرنے کے لئے تسبیح و صلیب نے ہمیشہ استبدادی قوتوں کے ساتھ ہی حرکت کی ہے۔“
(یہ قول ڈاکٹر ارانی کتاب ”اصول علم روح“ سے نقل کیا گیا ہے)
تاریخ کی اس قسم کی توجیہات اور اس قسم کے فلسفہ تاریخ کو قبول کرنا صرف ایک ہی صورت میں ممکن ہے اور وہ یہ کہ آدمی حقائق سے چشم پوشی کر لے اور تاریخی واقعات کو نظرانداز کر دے۔
علی علیہ السلام تیغ و تسبیح دونوں کے مرد میدان تھے تلوار کے بھی دھنی تھے اور تسبیح کے بھی۔ علی۱ کا شعار کیا تھا:
کونا للظالم خصما و للمظلوم عونا
”ہمیشہ ظالم کے دشمن اور ستم رسیدہ کے یار و مددگار رہو۔“
( نہج البلاغہ حصہ مکتوبات نمبر ۴۷ ]امام حسن۱ اور امام حسین۱ کو خطاب[)
علی۱ کو پوری زندگی تیغ و تسبیح عزیز رہی اور وہ زور و زر کے دشمن رہے علی۱ کی تلوار ہمیشہ صاحبان اقتدار اور مالکان سیم و زر کے خلاف برسرپیکار رہی۔ کتاب مھزلة العقل البشری میں ”ڈاکٹر علی الوردی“ کے بقول علی۱ نے اپنی شخصیت سے مارکس کے فلسفے کو باطل کر دیا ہے۔
مارکس کے نظریے سے زیادہ عبث اور لایعنی نظریہ ”نطشے“ کا ہے جو مارکس کے نظریے کے بالکل برعکس ہے یعنی چونکہ یہ معاشرے کو کمال عطا کرنے والا اور پیش قدم طبقہ صرف طاقت وروں کا ہے اور دین کمزوروں کی حمایت کے لئے اٹھا ہے لہٰذا جمود و انحطاط کا عامل رہا ہے گویا انسانی معاشرہ اس وقت ارتقاء و کمال کے راستے پر بڑی تیزی کے ساتھ آگے بڑھے گا جب اس پر لاقانونیت اور جنگل کے قانون کی حکومت ہو گی۔ مارکس کی نظر میں کمال کا سبب محروموں کا طبقہ ہے اور نبی اس طبقے کے مخالف رہے ہیں۔ مارکس کہتا ہے کہ دین طاقت وروں اور دولت مندوں کی اختراع ہے جب کہ ”نطشے“ کہتا ہے کہ دین کمزوروں اور محروموں کی اختراع ہے۔ کارل مارکس کا ایک اشتباہ یہ ہے کہ اس نے صرف طبقاتی مفادات کے تضاد کی بنیاد پر تاریخ کی توجیہ کی ہے اور تاریخ کے انسانی پہلو کو نظرانداز کر دیا ہے۔(ملاحظہ فرمائیں رسالہ قیام انقلاب مہدی از دیدگاہ فلسفہ تاریخ مولف استاد شہید مطہری)
دوسرا اشتباہ یہ ہے کہ اس ارتقاء و کمال کا عامل صرف محروم اور کمزور طبقے کو سمجھا ہے۔
تیسری غلطی یہ ہے کہ انبیاء۱ کو حاکم طبقے کا بازو اور طرف دار قرار دیا ہے یعنی اس نے دانا تر انسان کو سب سے طاقت ور انسان کے برابر سمجھا ہے اور سب سے طاقت ور انسان ہی کو انسانی معاشرے کو آگے بڑھانے والا عامل مانا ہے۔(۱)
 

صرف علی

محفلین
مقصد بعثت انبیاء
تاریخ کے ارتقائی سفر میں انبیاء۱ کا کردار کسی حد تک واضح ہو گیا ہے۔ اب ایک دوسرا مسئلہ زیربحث ہے اور وہ یہ کہ انبیاء۱ کے مبعوث ہونے کا اصل مقصد کیا تھا؟ دوسرے الفاظ میں رسولوں کے بھیجنے اور کتابوں کے نازل کرنے کی غایت نہائی کیا تھی؟ پیغمبروں کا حرف آخر کیا ہے؟ ممکن ہے یہ کہا جائے کہ اصل ہدف و مقصد لوگوں کو ہدایت لوگوں کی سعادت و خوش بختی لوگوں کی نجات اور لوگوں کی فلاح و بہبود ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ انبیاء لوگوں کو راہ ر است کی طرف ہدایت کرنے اور لوگوں کے لئے خوش بختی اور نجات کا سامان مہیا کرنے اور لوگوں کی خیر و صلاح اور فلاح و بہبود کے لئے مبعوث ہوئے ہیں۔ اس وقت اس مسئلے پر گفتگو کرنا مقصود نہیں بلکہ بحث اس میں ہے کہ یہ راہ راست کس انتہائی منزل مقصود پر ختم ہوتی ہے؟ مکتب انبیاء۱ کی نظر میں لوگوں کی سعادت و بھلائی کا کیا مطلب ہے؟ یہ مکتب کون سی قیود و مشکلات مشخص کرتا ہے جن سے لوگوں کو نجات دینا چاہتا ہے؟ یہ مکتب خیر و صلاح اور فلاح و بہبود کو کس چیز میں سمجھتا ہے؟
قرآن نے ان تمام مطالب و معانی کی طرف اشارہ یا تصریح کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے دو مفاہیم و معانی کا بھی ذکر کیا ہے جن سے اصلی مقصد کی طرف رسائی ہوتی ہے یعنی پیغمبروں کی ساری تعلیمات انہی دو باتوں کی تمہید ہے۔ وہ ہیں ایک خدا کو پہچاننا اور اس کی قربت حاصل کرنا اور دوسری انسانی معاشرے میں عدل و انصاف قائم کرنا اور قائم رکھنا۔
قرآن کریم ایک طرف کہتا ہے:
یا ایھا النبی انا ارسلناک شاھداً و نذیراً و داعیاً للّٰہ باذنہ و سراجاً منیراً (احزاب ۴۵ ۴۶)
”اے پیغمبر! ہم نے تم کو گواہ خوشخبری دینے والا ڈرانے والا اللہ کی طرف سے اس کی اجازت سے بلانے والا اور روشن چراغ بنا کر بھیجا۔“
اس آیت میں جن پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ کی طرف بلانا ہی وہ چیز ہے جسے اصل ہدف قرار دیا جا سکتا ہے۔
دوسری طرف تمام پیغمبروں کے بارے میں قرآن کا ارشاد ہے:
ولقد ارسلنا رسلنا بالبینات و انزلنا معھم الکتاب و المیزان لیقوم الناس بالقسط
”ہم نے اپنے پیغمبروں کو روشن دلائل دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور معیار و میزان کو نازل کیا تاکہ لوگوں کے درمیان عدل و انصاف قائم رکھ سکیں۔“
اس آیت میں واضح طور پر عدل و انصاف قائم کرنے کو انبیاء۱ کی رسالت و بعثت کا ہدف قرار دیا گیا ہے۔ اللہ کی طرف بلانے اسے پہچاننے اور اس کے قریب ہونے سے مراد توحید نظری اور توحید عملی و فردی کی طرف دعوت دینا ہے جب کہ معاشرے میں عدل و انصاف قائم کرنے سے مراد توحید عملی و اجتماعی کی طرف بلانا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پیغمبروں کا اصل مقصد خدا کو پہچاننا اور اس کی پرستش کرنا ہے اور دوسری تمام چیزیں یہاں تک کہ اجتماعی عدل و انصاف بھی اس ہدف تک پہنچنے کا ایک وسیلہ ہے یا اصل ہدف عدل و انصاف کا قیام ہے جب کہ اللہ کو پہچاننا اور اس کی عبادت کرنا اس اجتماعی مقصد تک پہنچنے کا وسیلہ ہے یا اس مسئلے کو یوں بھی پیش کیا جا سکتا ہے کہ آیا اصل ہدف توحید نظری اور توحید عملی و فردی ہے یا اصل ہدف توحید عملی و اجتماعی ہے۔ اس سلسلے میں کئی نظریات قائم کئے جا سکتے ہیں:
۱۔ پیغمبران خدا۱ دو مقصد رکھتے ہیں۔ ان دو مقاصد میں سے ایک کا تعلق انسان کی اخروی زندگی سے ہے (یعنی توحید نظری اور توحید عملی و فردی) اور دوسرا مقصد انسان کی دنیاوی سعادت سے متعلق ہے (یعنی توحید اجتماعی)۔ انبیائے کرام۱ اس اعتبار سے کہ انسان کی دنیوی سعادت کی فکر میں رہے ہیں لہٰذا انہوں نے توحید اجتماعی کو برقرار کیا اور اس لحاظ سے کہ انسان کی اخروی سعادت مدنظر تھی توحید نظری اور توحید عملی و فردی کو بھی جو محض ذہنی و روحانی ہے قائم کیا۔
۲۔ اصل مقصد توحید اجتماعی ہے جب کہ توحید نظری اور توحید عملی فردی توحید اجتماعی کا لازمی مقدمہ ہے۔ توحید نظری کا تعلق خدا شناسی سے ہے۔ انسان کے لئے اپنی ذات کی حد تک خدا کو پہچاننے یا نہ پہچاننے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کی روح کو حرکت دینے والا اللہ ہو یا دوسری ہزاروں چیزیں جیسا کہ بطریق اولیٰ اللہ کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ انسان اس کو پہچانے یا نہ پہچانے۔
اس کی عبادت کرے یا نہ کرے لیکن اس لحاظ سے کہ انسان کا کمال ”ہم“ ہونے اور توحید اجتماعی میں ہے اور یہ چیز توحید نظری اور توحید عملی و فردی کے بغیر ممکن نہیں ہے اسی سے خدا نے اپنے بندے پر اپنی معرفت اور عبادت فرض کی ہے تاکہ توحید اجتماعی کی عملی شکل سامنے آئے۔
۳۔ اصل ہدف اللہ کو پہچاننا اور اس کی قربت حاصل کرنا اور اس تک پہنچنا ہے اور توحید اجتماعی اسی بلند مقصد تک پہنچنے کا ذریعہ اور مقدمہ ہے کیوں کہ جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے توحیدی اور الٰہی تصورات کائنات میں کائنات کی ماہیت ”اسی سے“ اور ”اسی کی طرف“ سے عبارت ہے۔ اس لحاظ سے انسان کا کمال اس کی طرف جانے اور اس کی قربت حاصل کرنے ہی میں ہے۔ انسان کو ایک خاص امتیاز حاصل ہے اور وہ یہ ہے کہ آیہ شریفہ و اذا نفخت فیہ من روحی (سورئہ حجر آیت ۲۹) اور جب میں نے اس میں اپنی (عالی و برتر) روح میں سے پھونکا کی رو سے انسان کی حقیقت الٰہی نظر آتی ہے۔ خدا جوئی انسان کی فطرت ہے۔ اس لحاظ سے اس کی نیک بختی اس کا کمال اس کی نجات اس کی بھلائی صداقت اور استغفار اللہ کی معرفت اس کی پرستش اور اس کی قربت کی منزلیں طے کرنے میں ہے لیکن چونکہ انسان طبیعتاً مدنی و اجتماعی ہے یعنی اگر انسان کو معاشرے سے جدا کر لیں تو وہ انسان نہیں رہ سکتا اور اگر معاشرے میں عادلانہ اجتماعی نظام کی حکمرانی نہ ہو تو انسان میں پائی جانے والی خدا جوئی کی فطرت بیدار نہیں ہو سکتی۔ تمام انبیاء۱ عدل و انصاف قائم کرنے اور ظلم و استحصال کو ختم کرنے میں مصروف رہے ہیں۔ اس بناء پر عدل آزادی برابری اور جمہوریت جیسی اجتماعی اقدار اور اس طرح اجتماعی اخلاق مثلاً جود و سخا عفو و درگزر محبت و احسان کوئی ذاتی قدر و قیمت نہیں رکھتے اور محض ذاتی طور پر انسان کے لئے ان میں کوئی کمال کا پہلو نہیں ہے۔ ان سب کی تمام تر قدر و قیمت اور اہمیت مقدمے اور وسیلے کی حد تک ہے اور اگر انہیں اصل مقصد سے الگ کر کے دیکھا جائے تو ان کا ہونا یا نہ ہونا برابر ہے۔ یہ سب حصول کمال کے ذرائع ہیں نہ کہ خود کمال۔ یہ فلاح و نجات کے لئے مقدمہ ہیں نہ کہ خود فلاح و نجات رستگاری کے وسائل ہیں نہ کہ خود رستگاری۔
۴۔ چوتھا نظریہ یہ ہے جیسا کہ تیسرے نظریے میں بیان ہوا انسان کی غرض و غایت اور اس کا کمال بلکہ ہر موجود کا حقیقی کمال اور ہدف خدا کی طرف حرکت کرنے پر تمام ہوتا ہے۔ اس بات کا دعویٰ کرنا کہ انبیاء۱ و رسل اپنے ہدف کے اعتبار سے ثنوی تھے ایک ایسا شرک ہے جو ناقابل معافی ہے۔ جیسا کہ یہ دعوٰی کرنا بھی کہ پیغمبروں کا اصل مقصد بندگان خدا کی دنیوی فلاح و سعادت ہے اور دنیوی سعادت عدل آزادی برابری و برادری کے سائے میں عالم طبیعت کے عطیات و انعامات سے مستفید ہوئے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی محض مادہ پرستی ہے۔
لیکن تیسرے نظریے کے برخلاف اگرچہ اجتماعی و اخلاقی اقدار انسان کی حقیقی قدر و قیمت تک پہنچنے کے لئے یعنی انسان کو خدا پرستی اور خدا تعالیٰ تک پہنچانے کے لئے وسیلہ ہیں لیکن اپنی ذات میں بے قدر و قیمت نہیں ہیں۔
اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ مقدمہ اور ذوالمقدمہ (اصل مقصد) کے درمیان رابطہ و تعلق دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک قسم میں مقدمے کی قدر و قیمت صرف اتنی ہوتی ہے کہ وہ ذوالمقدمہ یعنی مقصد تک پہنچا دے اور اصل مقصد تک پہنچ جانے کے بعد اس مقدمے کا ہونا یا نہ ہونا برابر ہوتا ہے مثلاً ایک انسان نہر سے عبور کرنا چاہتا ہے تو اس کے لئے وہ ایک بڑے پتھر کو وسیلہ قرار دیتا ہے نہر سے عبور کرنے کے بعد اب اس انسان کے لئے اس پتھر کا ہونا یا نہ ہونا برابر ہے۔ اس لئے کہ اصل مقصد دوسرے کنارے پر پہنچنا تھا۔ اسی طرح مکان کی چھت پر جانے کے لئے سیڑھی کا استعمال اور بڑی کلاس میں داخلے کے لئے چھوٹی کلاس کا نتیجہ ہے۔
دوسری قسم اس رابطے کی ہے جہاں مقدمہ اصل مقصد تک پہنچنے کا ذریعہ تو ہوتا ہے اور اصل قدر و قیمت بھی اس مقصد کی ہی ہوتی ہے لیکن اصل مقصد تک پہنچنے کے بعد اس کا وجود و عدم مساوی نہیں ہوتا اور مقصد کے حاصل ہونے کے بعد بھی مقدمہ کا وجود اسی طرح ضروری ہوتا ہے جس طرح حصول مقصد سے پہلے تھا مثلاً پہلی اور دوسری کلاس کی معلومات کا ہونا اس سے بالاتر کلاس کی معلومات کے لئے ضروری ہے لیکن ایسا نہیں کہ اوپر کی کلاس تک پہنچنے کے بعد ان معلومات کی ضرورت نہیں رہتی کیوں کہ اگر بالفرض ابتدائی کلاسوں میں جو معلومات حاصل کی تھیں وہ سب فراموش ہو جائیں طالب علم کا ذہن بالکل خالی ہو جائے تو کیا اسے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا اور کیا وہ بالاتر کلاس میں پڑھ سکے گا؟ نہیں! بلکہ ان سابقہ معلومات کا ہونا بے حد ضروری ہے اور تبھی وہ اوپر کلاس میں تعلیم جاری رکھ سکتا ہے۔
اس دوسری قسم میں جو راز پوشیدہ ہے وہ یہ کہ کبھی مقدمہ ذوالمقدمہ (اصل مقصد) کا کم تر درجہ ہوتا ہے اور کبھی نہیں۔ سیڑھی مکان کی چھت کے درجات و مراتب میں سے نہیں ہے جیسا کہ نہر کے درمیان رکھا جانے والا بڑا پتھر نہر کے اس پار کے درجات میں سے نہیں ہے لیکن نچلی کلاسوں کی معلومات اور بالائی کلاسوں کی معلومات ایک ہی حقیقت کے دو مختلف رخ ہیں۔
معاشرتی و اخلاقی اقدار اللہ کی معرفت و پرستش کے حوالے سے دوسری قسم میں داخل ہیں یعنی ایسا نہیں ہے کہ اگر انسان کو خود اللہ کی کامل معرفت حاصل ہو جائے اور وہ اس کی عبادت کرنے لگے تو اس کے نزدیک عدل و انصاف سچائی بھلائی جود و کرم احسان و خیرخواہی عفو و مروت اور محبت وغیرہ سب کا وجود و عدم برابر ہو اس لئے کہ بلند و بالا انسانی اخلاق ایک طرح کے خدائی رنگ کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ روایت میں بھی ہے:
تخلقوا باخلاق اللّٰہ
(جامع الاسرار سید حیدر آملی ص ۳۶۳)
”اپنے کو الٰہی اخلاق و اصاف سے آراستہ کرو۔“
اخلاق عالیہ سے آراستہ ہونا اگرچہ غیر شعوری طور پر سہی لیکن درحقیقت خدا شناسی اور خدا پرستی کا ہی ایک درجہ اور مرتبہ ہے یعنی انسان کا ان اقتدار سے تعلق الٰہی اوصاف سے متصف ہونے کے ساتھ فطری لگاؤ سے پیدا ہوتا ہے اگرچہ انسان ان اوصاف کے فطری رشتہ و تعلق کی طرف بالکل متوجہ نہ ہو بلکہ کبھی کبھی وہ شعوری طور پر اس کا منکر بھی ہو۔
اسی لئے اسلامی تعلیمات کی رو سے عدالت احسان اور جود و سخا جیسے اخلاق فاضلہ کے حامل افراد اگرچہ مشرک ہی کیوں نہ ہوں لیکن دوسری دنیا میں ان کے اعمال بے اثر نہیں رہیں گے اس قسم کے افراد کا کفر و شرک اگر عناد اور سرکشی کی بناء پر نہ ہو تو ان لوگوں کو دوسری دنیا میں کچھ نہ کچھ اجر ضرور ملے گا۔ درحقیقت اس قسم کے افراد لاشعوری طور پر خدا پرستی کے کسی نہ کسی درجے تک پہنچ چکے ہوتے ہیں۔
(مزید تفصیل کیلئے مولف کی کتاب عدل الٰہی کے آخری باب کی طرف رجوع کریں)
 

صرف علی

محفلین
دین یا ادیان؟
علم دین سے تعلق رکھنے والے علماء اور مذاہب کی تاریخ لکھنے والے عام طور سے ادیان کے بارے میں بحث کرتے ہوئے دین ابراہیم۱ دین یہود دین مسیحی اور دین اسلام کی بات کرتے ہیں گویا ہر ایک صاحب شریعت پیغمبر کو ایک علیحدہ دین لانے والا سمجھتے ہیں عام لوگوں کے درمیان بھی یہی اصطلاح رائج ہے۔
لیکن قرآن مجید اس بارے میں ایک خاص اصطلاح اور طرز بیان رکھتا ہے جس کا سرچشمہ قرآن ہی کا خاص نظریہ ہے قرآن مجید کی نظر میں حضرت آدم۱ سے لے کر حضرت خاتم الانبیاءٰ تک اللہ کا دین ایک ہی ہے۔ تمام پیغمبر چاہے وہ صاحب شریعت ہوں یا ان کے علاوہ سبھی ایک مکتب کے داعی تھے اور ایک دین کے مبلغ تھے۔ مکتب انبیاء۱ کے اصول جنہیں دین کہا جاتا ہے ایک ہیں البتہ ایک تو سب کے درمیان فرعی مسائل میں کچھ اختلاف ضروری ہے جو عصری تقاضوں ماحول اور لوگوں کی خصوصیات کے اعتبار سے نظر آتا ہے لیکن ان تمام مختلف شکلوں کی حقیقت ایک ہی ہے سب ایک ہی مقصد و ہدف کی طرف رواں ہیں۔ دوسرا فرق تعلیمات کی علمی سطح پر نظر آتا ہے کیوں کہ جیسے جیسے انبیاء۱ آتے رہے اور شریعتیں لاتے رہے اور اپنی مقدس تعلیمات سے بندگان خدا کو فائدہ پہنچاتے رہے ویسے ویسے انسانی معاشرہ علوم و معارف میں ترقی و کمال کی منزلیں طے کرتا رہا اور تدریجاً آگے بڑھتا رہا اسی بناء پر ہر بعد میں آنے والے صاحب شریعت پیغمبر نے اپنی تعلیمات کو اس سطح سے بلند رکھا جہاں تک اس سے قبل والے پیغمبر نے پہنچایا تھا۔ مگر حقیقت میں سب کا موضوع ایک تھا لیکن مبداء و معاد اور دنیا کے بارے میں اسلامی تعلیمات اور گذشتہ پیغمبروں کی تعلیمات کے درمیان علمی سطح کے اعتبار سے زمین سے آسمان تک فرق نظر آئے گا۔ دوسرے الفاظ میں ان انبیاء۱ کی تعلیمات سے فائدہ حاصل کرنے میں ایک طالب علم کی حیثیت سے تھا جسے ان الٰہی اساتذہ نے یکے بعد دیگرے آہستہ آہستہ پہلے درجے سے ترقی دیتے ہوئے آخر میں بالائی درجے تک پہنچایا ہے۔ یہ دنیا کا تدریجی ارتقاء ہے نہ کہ ادیان کا اختلاف۔ قرآن مجید نے کہیں بھی لفظ دین کو جمع (ادیان) کی صورت میں استعمال نہیں کیا۔ قرآن مجید میں جس چیز کا وجود تھا وہ دین تھا نہ کہ ادیان۔
ایک واضح فرق پیغمبروں اور بڑے بڑے فلسفیوں اور ماہرین کے درمیان یہ بھی ہے کہ فلاسفہ میں سے ہر ایک کا ایک مخصوص نظریہ اور مکتب فکر تھا لیکن پیغمبران خدا ہمیشہ ایک دوسرے کی تائید و تصدیق کرنے والے رہے ہیں انہوں نے کبھی ایک دوسرے کی نفی نہیں کی۔ پیغمبروں میں سے اگر کوئی کسی دوسرے پیغمبر کے زمانے اور ماحول میں ہوتا تو اسی کے قوانین اور احکام کی مانند قوانین لاتا۔
قرآن اس بات کو صراحت سے بیان کرتا ہے کہ (از آدم۱ تا خاتم) تمام انبیاء۱ کا ایک سلسلہ تھا اور سب ایک آسمانی سلسلے میں منسلک تھے گذشتہ انبیاء۱ اپنے بعد آنے والے پیغمبروں کی بشارت دیتے رہے اور بعد میں آنے والے انبیاء۱ گذشتہ انبیاء۱ کی تصدیق و تائید کرتے رہے نیز قرآن کریم اس امر کی بھی تصریح کرتا ہے کہ تمام انبیاء۱ سے اس بات کا سخت عہد و پیمان لیا گیا ہے کہ وہ سب ایک دوسرے کے مبشر و مصدق ہوں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: (اے میرے رسول) اس وقت کو یاد کرو جب خداوند عالم نے تمام پیغمبروں سے عہد و پیمان لیا کہ جب میں تم کو کتاب اور حکمت دوں گا پھر تمہارے پاس ایک پیغمبر تمہاری رسالت کی تصدیق کرتے ہوئے آئے گا تو تم سب اس کے اوپر ضرور ایمان لانا اور اس کی ضرور مدد کرنا پھر (خدا نے فرمایا) کہ کیا تم نے اقرار کیا اور کیا تم نے میرا عہد اپنے ذمے لے لیا؟ (تو ان سب نے) کہا: ہم نے اقرار کیا (پھر خدا نے) فرمایا: ”تم گواہ رہنا اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں۔“(آل عمران آیت ۸۱)
قرآن کریم نے کہ جو دین خدا کو آدم۱ سے خاتم تک ایک ہی جاری رہنے والے سلسلے کی حیثیت سے پہچنواتا ہے نہ کہ چند کڑیوں کے عنوان سے اس سلسلے کا صرف ایک نام رکھا ہے اور وہ ہے اسلام۔ ہمارے کہنے کا یہ مقصد نہیں ہے کہ دین خدا ہر دور اور ہر زمانے میں اپنے اس نام سے پکارا جاتا رہا ہے یا یہی نام لوگوں کے درمیان مشہور و معروف رہا ہے بلکہ مقصد یہ ہے کہ دین کی حقیقت ایک ایسی ماہیت رکھتی ہے جس کا بہترین معرف اور عنوان لفظ اسلام ہے۔
قرآن کہتا ہے:
ان الدین عنداللّٰہ الاسلام(آل عمران آیت ۱۹)
یا دوسری جگہ کہتا ہے:
ماکان ابراھیم یہودیاً و لانصرانیا و لکن کان حنیفاً مسلماً (آل عمران آیت ۶۷)
”ابراہیم نہ تو یہودی تھے اور نہ عیسائی بلکہ حق کی تلاش کرنے والے اور مسلم تھے۔“
ختم نبوت
ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ پیغمبران خدا باوجود جزوی اختلافی مسائل کے سب صرف ایک پیغام کے حامل و مبلغ اور ایک مکتب سے وابستہ تھے یہ مکتب انسانی معاشرے کی فکری صلاحیت کے مطابق درجہ بدرجہ پیش کیا گیا یہاں تک کہ انسانی معاشرہ فکری رشد کے لحاظ سے اس حد تک پہنچ گیا کہ یہ مکتب اور یہ نظریہ مکمل و جامع شکل میں پیش کیا گیا۔ جب مکتب اس درجہ عروج و کمال کو پہنچ گیا تو نبوت کا سلسلہ بھی ختم کر دیا گیا اور وہ عظیم و مقدس شخصیت جن کے ذریعے سے یہ مکتب کامل شکل میں پیش کیا گیا وہ حضرت محمد مصطفی۱ کی ذات ہے اور اس مکتب کا آخری مکمل نصاب اور آخری آسمانی کتاب قرآن مجید ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد خداوندی ہے:
وتمت کلمہ ربک صدقاً وعدلاً لامبدل لکلماتہ(سورئہ انعام آیت ۱۱۵)
”تمہارے پروردگار کا سچا اور عادلانہ پیغام پورا ہو گیا اس میں کوئی تبدیلی لانے کی کسی میں طاقت نہیں ہے۔“
اب ہمیں غور کرنا ہو گا کہ ماضی میں کیوں نبوتوں کی تجدید ہوتی رہی ہے اور ایک کے بعد دوسرے پیغمبر برابر آتے رہے اگرچہ وہ تمام پیغمبر صاحبان قانون و شریعت نہیں تھے بلکہ ان میں سے اکثر انبیاء۱ اپنے زمانے میں موجود شریعت و قانون ہی کے مبلغ رہے ہیں اور حضرت محمد کے بعد یہ سلسلہ انبیاء۱ کیوں ختم کر دیا گیا اور نہ صرف یہ کہ کوئی صاحب شریعت پیغمبر نہیں آیا اور نہ آئے گا بلکہ مبلغ کی حیثیت سے بھی کوئی پیغمبر نہیں آیا اور نہ قیامت تلک آئے گا کیوں؟ اس مقام پر ہم مختصر طور پر نبوتوں کی تجدید کے علل و اسباب پر نگاہ ڈالتے ہیں۔
 

صرف علی

محفلین
نبوتوں کی تجدید کے اسباب
اگرچہ نبوت ایک متصل اور جاری رہنے والا اسلام اور پیغام الٰہی ہے یعنی دین صرف ایک حقیقت ہے ایک سے زیادہ نہیں ہے۔ صاحب شریعت اور مبلغ کی حیثیت سے آنے والے پیغمبروں کی تجدید اور متواتر ایک کے بعد دوسرے پیغمبر کے آنے اور حضرت خاتم الانبیاء۱ کی شریعت محمدی(ص) کے بعد اس سلسلے کے منقطع ہو جانے کے علل و اسباب حسب ذیل ہیں:
۱۔ زمانہ قدیم کا انسان اپنی استعداد اور فکر کے اعتبار سے اس قابل نہ تھا کہ اپنی آسمانی کتاب کی حفاظت کر سکے اسی وجہ سے آسمانی کتابیں عموما تحریف کا شکار ہو جایا کرتیں یا بالکل ہی فنا ہو جاتیں اس بناء پر یہ ضروری ہو جاتا تھا کہ پیغام کی تکرار کی جائے۔ نزول قرآن کا زمانہ یعنی آج سے چودہ سو سال قبل کا دور تھا جب انسانی معاشرہ اپنے زمانہ طفلی کو بہت پیچھے چھوڑ کر حد بلوغ کو پہنچ چکا تھا اور اس وقت انسان اپنی علمی و دینی میراث کی حفاظت کرنے پر قادر ہو چکا تھا اسی وجہ سے سب سے آخری مقدس و مکمل کتاب یعنی قرآن کریم میں کوئی تحریف نہیں ہو سکی مسلمان اس کی ہر آیت کی حفاظت اس کے وقت نزول سے ہی اپنے ذہنوں اور تحریروں کے ذریعے کرتے رہے اور اس طرح سے اس کی حفاظت کرتے رہے کہ اس میں کسی قسم کے تغیر و تبدل تبدیلی و تحریف حذف و اضافہ کا امکان ہی باقی نہ رہے یہی وجہ ہے کہ اس مقدس اور آسمانی کتاب میں کسی قسم کی کوئی تحریف نہیں ہو سکی اور اس طرح نبوتوں کی تجدید کے اسباب میں سے ایک سبب تو بالکل ہی ختم ہو گیا۔
۲۔ گذشتہ ادوار میں بشریت اپنی صلاحیت اور فکری قابلیت کے اعتبار سے اس بات پر قادر نہیں تھی کہ اپنی زندگی کے لئے مکمل طور پر کوئی آئین اور لائحہ عمل مرتب کر سکے جس کی راہنمائی میں وہ اپنے سفر کو جاری رکھ سکے اس لئے ضروری تھا کہ مرحلہ بہ مرحلہ اور منزل بہ منزل اس کی رہنمائی کی جاتی رہے اور ایک یا کئی رہبر و رہنما ہمیشہ اس کے ساتھ رہیں۔
لیکن حضرت خاتم الانبیاء کے مبارک دور میں اور اس کے بعد قوت و توانائی جو کلی اور مکمل لائحہ عمل مرتب کر سکے انسان کو حاصل ہو چکی تھی لہٰذا مرحلہ بہ مرحلہ اور منزل بہ منزل والا لائحہ عمل مرتب کرنے کی ضرورت ختم ہو گئی اور اس کا سلسلہ منقطع کر دیا گیا۔ شریعتوں کی تجدید کا سبب مذکورہ بالا اسباب کے علاوہ یہ بھی تھا کہ انسان اس بات پر قادر نہیں تھا کہ اپنے واسطے کوئی مکمل اور جامع پروگرام بنا سکے اور جب یہ قوت و طاقت اور صلاحیت اس میں پیدا ہو گی تو مکمل اور جامع پروگرام تیار کرنے کا کام خود اس کے اختیار میں دے دیا گیا اور نبوتوں اور شریعتوں کی تجدید کا یہ دوسرا سبب بھی ختم ہو گیا۔ امت کے علماء ماہر اور سپیشلسٹ ہونے کی بناء پر اسلام کے پیش کردہ مکمل و جامع لائحہ عمل اور ضابطہ حیات سے استفادہ کرتے ہوئے آئین اور دستورالعمل کی ترتیب و تدوین کر کے بشریت کی رہنمائی کر رہے ہیں۔
۳۔ پیغمبروں کی کثیر تعداد دین کی مبلغ تھی نہ کہ صاحب شریعت بلکہ صاحب شریعت پیغمبروں کی تعداد شاید ایک ہاتھ کی انگلیوں کی تعداد سے زیادہ نہیں ہے۔ مبلغ کی حیثیت سے آنے والے پیغمبروں کا کام اس شریعت کی تبلیغ و ترویج اور تفسیر کرنا اور اسے نافذ کرنا تھا جو ان کے زمانے کے افراد کے درمیان موجود تھی۔ اس خاتمیت کے دور میں کہ جو عصر علم و دانش ہے علمائے اسلام اس بات پر قادر ہیں کہ اسلام کے عمومی اصولوں کی معرفت اور زمان و مکان کی شرائط سے واقفیت اور آگاہی حاصل کر کے ان عمومی اصولوں کو زمان و مکان کے تقاضوں سے احکام الٰہی کا استخراج و استنباط کریں۔ اسی عمل کا نام اجتہاد ہے اور امت اسلامی کے لائق و قابل علماء مبلغ کی حیثیت سے آنے والے انبیاء۱ کے بہت سے فرائض اور صاحب شریعت انبیاء۱ کے کچھ فرائض اپنی طرف سے کوئی شریعت لائے بغیر عمل اجتہاد کے ذریعے امت کی رہنمائی کے خاص فریضے کو انجام دیتے ہیں۔ اس لحاظ سے جہاں دین کی ضرورت ہمیشگی حیثیت کی حامل ہے بلکہ بشریت جس قدر تہذیب و تمدن اور ترقی و کمال کی منزلیں طے کرتی جاتی ہے دین کی احتیاج اور زیادہ ہو جاتی ہے وہاں نبوت و شریعت کی تجدید اور کسی جدید آسمانی کتاب یا نئے پیغمبر کے آنے کی ضرورت بھی ہمیشہ کے لئے ختم ہو گی اور نبوت کا سلسلہ بھی۔
(ختم نبوت کی مفصل بحث کیلئے مولف کی کتاب ”ختم نبوت“ کا مطالعہ کریں)
اس بحث سے یہ بات واضح ہو گئی کہ ختم نبوت میں بشر کی اجتماعی اور فکری بلوغت اور پختگی کا نہایت اہم کردار رہا ہے اور اس کردار کے کئی پہلو ہیں:
۱۔ فکری اور اجتماعی بلوغت نے آسمانی کتاب کو تحریف سے محفوظ رکھا ہے۔
۲۔ یہ فکری رشد اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ انسان نے اپنے ارتقائی پروگرام کو منزل بہ منزل کے بجائے ایک ہی مرحلے میں اپنی تحویل میں لے لیا اور اس سے استفادہ کیا۔
۳۔ اجتماعی اور فکری پختگی اور سمجھداری اسے اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ وہ دین کو برقرار کرے اور اس کی ترویج و تبلیغ امربالمعروف اور نہی عن المنکر جیسے فرائض کی ذمہ داری قبول کرے۔ اس سے مبلغ کی حیثیت سے آنے والے پیغمبروں کی ضرورت ختم ہو گئی اور اب اس ضرورت کو امت کے علماء پورا کرتے ہیں۔
۴۔ بشریت اپنی فکری پختگی کے لحاظ سے اس منزل پر پہنچ گئی کہ وہ اجتہاد کی روشنی میں کلیات وحی کی توجیہ و تفسیر کر سکے اور زمان و مکان کے بدلتے ہوئے تقاضوں سے ہم آہنگ ہر مسئلے کو اس سے متعلقہ اصول کی طرف موڑ سکے۔ اس اہم کام کو بھی امت کے علماء انجام دے رہے ہیں۔
معلوم ہوا کہ ختم نبوت کے معنی یہ نہیں کہ اب انسان کو وحی کے ذریعے سے پہنچنے والی الٰہی اور تبلیغی تعلیم کی ضرورت نہیں رہی اور چونکہ انسان کو اس فطری بلوغ کی وجہ سے ان تعلیمات کی ضرورت نہیں رہی اس لئے نبوت کا سلسلہ بھی ختم کر دیا گیا۔ نہیں ہرگز نہیں بلکہ جدید وحی اور جدید نبی و رسول کی ضرورت نہیں نہ کہ الٰہی دین اور اس کی تعلیمات کی ضرورت ختم ہو گئی ہے۔
مشہور و عظیم اسلامی مفکر علامہ اقبال اسلامی مسائل میں اپنی تمام تر نکتہ چینیوں اور دقت نظر (جن سے ہم نے اس کتاب اور دوسری کتابوں میں بہت زیادہ استفادہ کیا ہے) کے باوجود فلسفہ ختم نبوت کی توجیہ و تفسیر میں سخت اشتباہ سے دوچار ہوئے ہیں۔ موصوف نے اس بحث کی بنیاد چند اصولوں پر رکھی ہے:
 

صرف علی

محفلین
۱۔ وحی:
اس کے لغوی معنی ”آہستہ اور رازدارانہ انداز میں بات کرنا“ ہیں۔ اس لفظ کا قرآن مجید میں وسیع مفہوم ہے جو مرموز اور خفیہ ہدایتوں کی بہت سی قسموں پر محیط ہے اور جو جماد نباتات اور حیوان کی ہدایت سے لے کر انسان تک کی ہدایت کے لئے استعمال ہوا ہے۔ اس کے بارے میں علامہ اقبال کہتے ہیں: اصول وجود کے ساتھ یہ اتصال کسی طرح بھی صرف انسان کے لئے مخصوص نہیں ہے۔ قرآن میں لفظ وحی کا طریقہ استعمال یہ بتاتا ہے کہ یہ کتاب اس ”وحی“ کو زندگی کی ایک خاصیت جانتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس کی شکل اور خاصیت زندگی کے ارتقاء کے مرحلوں کے مطابق مختلف ہوتی ہے وہ گھاس جو کسی جگہ پر اگتی ہے اور آزادی کے ساتھ نشوونما پاتی ہے وہ جانور جو زندگی کے نئے ماحول سے ہم آہنگ ہونے کے لئے ایک نئے عضو کا حامل ہوتا ہے اور وہ انسان جو زندگی کی اندرونی گہرائیوں میں ایک نئی روشنی کر لیتا ہے۔ یہ سب کے سب وحی کے مختلف حالات کے نمائندے ہیں جو وحی کو قبول کرنے والی ظرفیت و صلاحیت کی ضرورتوں کے مطابق یا ان نوعی ضرورتوں کے مطابق جن سے وہ ظرف تعلق رکھتا ہے مختلف و گوناگوں شکلوں میں نمایاں ہوتی ہے۔
(احیاء فکر دینی در اسلام ص ۱۴۴ ۱۴۵)
۲۔ وحی جبلی قوت جیسی ایک چیز ہے اور وحی کی ہدایت جبلی ہدایت جیسی چیز ہے۔
۳۔ وحی طبیعت انسان کی ہدایت کا نام ہے یعنی انسانی معاشرہ اس اعتبار سے کہ وہ ایک وحدت ہے اور مخصوص راستہ اور حرکت کے قوانین رکھتا ہے اس لئے اس بات کا محتاج ہے کہ اس کی ہدایت کی جائے نبی وہ وصول کرنے والا آلہ (Receiver) ہے جو جبلی طور پر ان پیغامات کو جن کی احتیاج نوع بشر کو ہے حاصل کر لیتا ہے۔ علامہ اقبال کہتے ہیں:
”حیات جہانی ایک نور کی صورت میں اپنی حاجتوں کو دیکھتی ہے اور ایک بحری لحظے میں اپنی سمت کو معین کر لیتی ہے۔ یہ وہی چیز ہے جسے ہم دین کی زبان میں پیغمبر تک وحی کا پہنچنا“ کہتے ہیں۔“
(احیاء فکر دینی در اسلام ص ۱۶۸)
۴۔ تمام جاندار اپنے وجود کی ابتدائی منزلوں میں (جبلی قوت کے ذریعے ہدایت پاتے ہیں اور جیسے جیسے ترقی و تکامل کے درجوں میں بلند ہوتے جاتے ہیں اور احساس تخیل اور سوچنے کی قوت ان کے اندر زیادہ ہوتی جاتی ہے ویسے ویسے ان کی جبلی قوت ان کی جانشین ہوتی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے حشرات سب سے زیادہ اور سب سے قوی جبلتیں رکھتے ہیں اور انسان سب سے کمتر جبلی قوتوں کے حامل ہوتے ہیں۔
۵۔ انسانی معاشرہ اجتماعی لحاظ سے ایک ترقی پذیر معاشرہ ہے اور راہ کمال پر گامزن ہے اور جس طرح ابتدائی مراحل میں حیوانات جبلی شعور کے محتاج ہوتے ہیں اور جوں جوں احساس و تخیل اور کبھی فکر کی قوت ان کے اندر بڑھتی جاتی ہے اسی طرح فکری اور حسی ہدایتیں جبلی شعور کی جانشین ہوتی جاتی ہیں۔ انسانی معاشرہ بھی اپنے تکاملی سفر میں اس منزل پر پہنچ گیا جہاں تعقل اور سوچنے سمجھنے کی قوت کی رشد و پختگی اس کے اندر پائی گئی اور یہی امر جبلی شعور و قوت (وحی) کے ضعف اور کم تری کا سبب بن گیا ہے۔ علامہ موصوف کہتے ہیں: ”بشریت کے دور طفلی میں روحانی طاقت ایک چیز کو ظاہر کرتی ہے جس کو میں ”پیغمبرانہ خود آگاہی“ کا نام دیتا ہوں تیار شدہ احکام بزرگوں کے فیصلوں اور تجربے سے حاصل شدہ منتخبات کی پیروی سے انسان اپنی انفرادی فکر اور راہ زندگی کے انتخاب میں تضیع اوقات سے بچتا ہے لیکن عقل کے کامل ہونے اور اس میں تنقیدی قوت کے پیدا ہو جانے کے بعد زندگی اپنے فائدے کے لئے اس قسم کی خود آگاہی کو نشوونما دینے کے لئے پہلے مرحلے کی روحانی طاقت (وحی) کو روک دیتی ہے۔ انسان پہلے خواہشات اور جبلی قوت کا محکوم و مطیع ہوتا ہے۔ استدلال کرنے والی عقل و جو ماحول پر اس کے مسلط ہونے کا واحد سبب ہے بجائے خود ایک ترقی و پیش رفت ہے اور چونکہ عقل وجود میں آئی تو چاہئے کہ معرفت کی دوسری شکلوں (جبلی شعور اور رہنمائی) کو روک کر اسے تقویت پہنچائیں۔
(احیاء فکر دینی در اسلام ص ۱۴۵)
۶۔ دنیائے بشریت دو بنیادی ادوار پر مشتمل ہے: ایک وحی کی رہنمائی کا زمانہ دوسرا عالم طبیعت اور تاریخ میں عقل و فکری رہنمائی کا زمانہ اگرچہ قدیم دنیا میں فلسفے کے چند مکتب (جیسے یونان اور روم) موجود تھے لیکن ان کی کوئی خاص اہمیت نہیں تھی اور انسانیت ابھی دور طفلیت سے گزر رہی تھی علامہ اقبال کہتے ہیں:
”اس میں کوئی شک نہیں کہ قدیم دنیا جس میں انسان موجودہ حالت کے مقابلے میں ابتدائی دور کی زندگی رکھتا تھا اور کم و بیش و ہم و تخیل کا تابع تھا اگرچہ اس نے چند فلسفی مکتب قائم کر لئے تھے لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ قدیم دنیا میں فلسفی نظریات کا قائم کرنا محض فکر و نظر کا کام تھا کیوں کہ اس وقت تک انسان مبہم دینی عقائد اور رائج سنتوں اور طریقوں سے آگے نہ بڑھ سکا تھا اور زندگی کے عینی اور حقیقی حالات کے بارے میں کوئی قابل اعتماد نظریہ ہمارے لئے مہیا نہیں کر سکا تھا۔“(احیاء فکر دینی در اسلام ص ۱۴۵)
۷۔ پیغمبر اکرم جن پر نبوت کا خاتمہ ہوا کا تعلق دنیائے قدیم سے بھی تھا اور دنیائے جدید سے بھی۔ اپنے سرچشمہ ہدایت یعنی وحی (نہ کہ طبیعت و تاریخ کے تجرباتی مطالعے) کے لحاظ سے قدیم دنیا سے تعلق رکھتے تھے اور اپنی روحانی تعلیمات کے اعتبار سے یعنی طبیعت و تاریخ کے مطالعے عقل و فکر کی دعوت کے لحاظ سے جس کے پیدا ہونے کے بعد وحی کا کام تمام ہو جاتا ہے جدید دنیا سے تعلق رکھتے تھے۔ علامہ موصوف کہتے ہیں:
”پس جب مسئلہ وحی پر اس نقطہ نگاہ سے غور کیا جائے تو کہنا چاہئے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ رسول اکرم قدیم اور جدید دنیا کے درمیان کھڑے ہیں جہاں تک آنحضرت کا رابطہ الہامی سرچشمے سے ہے تو اس لحاظ سے آپ کا تعلق قدیم دنیا سے ہے اور جہاں تک آپ کی روح ہدایت کا تعلق ہے تو اس لحاظ سے آپ جدید دنیا سے متعلق ہیں- زندگی نے آپ کے اندر معرفت کے نئے سرچشمے آشکار کئے۔(طبیعت اور تاریخ کے مطالعے کے ذریعے معرفت) جو آج کی جدید روش زندگی سے مطابقت رکھتے ہیں۔ اسلام اور عقل کا ظہور ایک استقرائی دلیل ہے۔ ظہور اسلام کے ساتھ خود رسالت کے ختم ہو جانے کی ضرورت آشکار ہو جانے کے نتیجے میں رسالت بھی اپنے حد کمال کو پہنچ جاتی ہے اور یہ چیز خود اس امر کا بین ثبوت ہے کہ زندگی ہمیشہ مرحلہ طفلی اور خارج سے رہبری کی سطح پر نہیں رہ سکتی۔ اسلام میں غیب گوئی اور میراثی حکومت کو غلط اور باطل قرار دینا عقل کی طرف مستقل توجہ اور قرآن سے تجربہ حاصل کرنا اور اس کتاب میں عالم طبیعت اور تاریخ کو انسانی معرفت کے سرچشمے کے عنوان سے جو اہمیت دی گئی ہے یہ سب دور رسالت کے خاتمے کی مختلف علامتیں ہیں۔“
یہ ہیں علامہ اقبال کی نظر میں فلسفہ نبوت کے ارکان و اصول ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ فلسفہ قابل اعتراض ہے اور اس کے بہت سے اصول غیر صحیح ہیں۔ پہلا اعتراض جو اس فلسفے پر وارد ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر اس فلسفے کو درست مان لیا جائے تو نہ صرف یہ کہ مزید کسی وحی اور نبی کی ضرورت نہیں رہتی بلکہ وحی کی رہنمائی کی بھی قطعاً ضرورت نہیں رہتی کیوں کہ تجرباتی عقل کی ہدایت وحی کی ہدایت کی جگہ لے چکی ہے۔ اگرچہ یہ فلسفہ صحیح ہو تو پھر یہ فلسفہ دین کے خاتمے کا فلسفہ ہے نہ کہ ختم نبوت کا۔ (اس فلسفے کی رو سے وحی اسلام کا کام صرف یہ اعلان کرنا ہے کہ دین کے دور کا خاتمہ اور عقل و علم کے دور کا آغاز ہو گیا ہے۔ یہ نظریہ نہ صرف اسلام کے ایک ضروری امر کے خلاف ہے بلکہ خود اقبال کے نظریے کا مخالف ہے کیوں کہ اقبال کی تمام تر کوششیں اس امر پر صرف ہوئی ہیں کہ علم و عقل انسانی معاشرے کے لئے لازم ہیں لیکن کافی نہیں ہیں۔ انسان دین اور مذہبی ایمان کا اتنا ہی نیازمند ہے جتنا سائنس کا۔
علامہ اقبال خود صراحتاً کہتے ہیں کہ زندگی ثابت اصولوں اور بدلتے رہنے والے فرد کی محتاج ہے اور اسلام میں اجتہاد کا کام اصول پر فروع کا منطبق کرنا ہے۔
موصوف کہتے ہیں:
”اس نئی تہذیب و ثقافت (اسلامی ثقافت) نے عالمی وحدت کی بنیاد اصول توحید پر رکھی ہے۔ اسلام نظام حکومت کے عنوان سے اس امر کے لئے ایک عملی ذریعہ ہے بلکہ اصول توحید کو نوع بشر کی عقلی اور باہمی زندگی میں ایک زندہ عامل و سبب قرار دیتا ہے۔ اسلام خدا کے ساتھ وفادار رہنے کا مطالبہ کرتا ہے نہ کہ عالم اور استبدادی حکومت کے ساتھ وفادار رہنے کا۔ چونکہ خدا ہی پر زندگی کی آخری روحانی بنیاد ہے لہٰذا خدا سے وفاداری عملاً خود آدمی کی مثالی طبیعت(یعنی خواہش آرزو اور مطلوبہ کمال کی جستجو کی طبیعت) سے وفاداری ہے۔ وہ معاشرہ جو حقیقت کے ایسے تصور پر قائم ہوا ہو اسے چاہئے کہ اپنی زندگی میں ”ابدیت“ اور ”تغیر“ دونوں مقولوں کے درمیان آپس میں ہم آہنگی پیدا کرے۔ اسی طرح اپنی اجتماعی زندگی کو منظم کرنے کے واسطے اپنے لئے ابدی اصول رکھتا ہو کیوں کہ جو چیز بھی ابدی اور دائمی ہے وہ اس دائمی تغیر پذیر دنیا میں ہمارے واسطے مستحکم بنیادیں مہیا کرتی ہے لیکن جب ابدی اصولوں کے معنی یہ سمجھے جائیں کہ وہ ہر تغیر و تبدل کے مخالف ہیں یعنی اس چیز سے معارض ہیں جسے قرآن خدا کی ایک عظیم ترین نشانی قرار دیتا ہے تو اس وقت وہ اس کا سبب بنیں گے کہ جو چیز ذاتاً متحرک ہے اسے حرکت سے روک دیں سیاسی و اجتماعی علوم میں یورپ کی شکست پہلے اصول(یعنی ہر قسم کے ابدی اصول کی نفی اور زندگی کے بنیادی اصول کی ابدیت سے انکار) کو مجسم کر دیتی ہے اور ان آخری پانچ سو (۵۰۰) برسوں میں اسلام کی بے حرکتی دوسرے اصول(اصول حرکت و تغیر سے انکار اور ابدیت پر اعتقاد) اسلام میں حرکت کا اصول کیا ہے؟ یہ وہی اصول ہے جسے اصول اجتہاد کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔“
(احیائے فکر دینی در اسلام ص ۱۶۸ ۱۲۹)
 

صرف علی

محفلین
مذکورہ بالا بیان کے مطابق وحی کی رہنمائی کی ضرورت ہمیشہ باقی ہے اور تجرباتی عقل کی رہنمائی وحی کی رہنمائی کا بدل نہیں ہو سکتی۔ خود اقبال بھی ہدایت و رہنمائی کی دائمی احتیاج کی بقاء کے سو فی صد حامی ہیں لیکن انہوں نے ختم نبوت کے لئے جو فلسفہ بیان کیا ہے اس کا لازمہ یہ ہے کہ جدید وحی اور جدید رسالت کی احتیاج ہی نہیں بلکہ ہدایت کی بھی احتیاج ختم ہو جائے اور درحقیقت اس فلسفے کی رو سے نہ صرف نبوت کا سلسلہ ختم ہوتا ہے بلکہ دین بھی ختم ہو جاتا ہے۔
ختم نبوت کے بارے میں اقبال کی اشتباہ آمیز توجیہ اس امر کا سبب بنی ہے کہ ان کی بحث و گفتگو سے یہ غلط نتیجہ نکالا جائے اور یہ خیال کیا جائے کہ ختم نبوت کا دور یعنی وحی سے انسان کی بے نیازی کا دور آن پہنچا ہے اور انسان کے لئے پیغمبروں کی تعلیم و تربیت کی ضرورت بچے کے لئے کلاس کے استاد کی مانند ہے۔ جس طرح بچہ ہر سال اوپر والی کلاس میں جاتا ہے تو اس کا استاد بھی تبدیل ہوتا رہتا ہے اسی طرح انسان بھی مختلف زمانوں سے ہوتا ہوا ایک بالاتر مرحلے میں قدم رکھ چکا ہے اور اس کے لئے قانون و شریعت تبدیل ہو چکی ہے جس طرح بچہ آخری کلاس میں پہنچتا ہے اور اپنی تعلیم مکمل کرنے کا سرٹیفکیٹ لیتا ہے اور اس کے بعد اپنے ٹیچر اور استاد کی مدد کے بغیر اپنی تحقیقات کو جاری رکھتا ہے اسی طرح انسان نے بھی ختم نبوت کے اعلان کے ساتھ ہی اپنی تعلیم مکمل کرنے کا سر۱ٹیفکیٹ لے لیا اور جدید تعلیم کے حصول سے بے نیاز ہو گیا۔ بغیر کسی مدد کے بذات خود طبیعت و تاریخ کا مطالعہ شروع کر دیا اور اجتہاد کا مطلب بھی یہی ہے۔ پس ختم نبوت سے مراد انسان کا خود کفائی تک پہنچنا ہے بلاشک ختم نبوت کے سلسلے میں اس قسم کی تفسیر غلط ہے۔ ختم نبوت کی اس قسم کی تفاسیر ایسے نتائج کی حامل ہیں جو نہ تو اقبال کے لئے قابل قبول ہیں اور نہ ہی ان کے لئے جنہوں نے اقبال کی تحریر سے اس قسم کے نتائج اخذ کئے ہیں۔
ثانیاً اگر اقبال کا نظریہ درست ہو تو عقل تجربی کے پیدا ہونے کے بعد جس کو اقبال ”درونی تجربے“ کا نام دیتا ہے (اولیاء اللہ کے مکاشفات) کا بھی خاتمہ ہو جائے کیوں کہ فرض یہ ہے کہ یہ امور ایک قسم کے فطری شعور کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں اور عقل تجربی کے ساتھ فطری شعور کا مرحلہ ختم ہوتا ہے حالانکہ خود اقبال کی تصریح کے مطابق باطنی تجربہ ہمیشہ کے لئے باقی ہے اور اسلام کی نظر میں باطنی و اندرونی تجربہ معرفت کے تین سرچشموں میں سے ایک ہے۔(بقیہ دو سرچشمے طبیعت اور تاریخ ہیں)
اقبال ۱شخصی طور پر شدید عرفانی میلان رکھتے ہیں اور معنوی الہامات کے زبردست حامی ہیں وہ کہتے ہیں:
”یہ فکر اس معنی میں نہیں ہے کہ ”باطنی تجربے“ کی کہ جو کیفیت کے لحاظ سے پیغمبرانہ تجربے سے مختلف نہیں ہے حیاتی واقعیت کا جو سلسلہ تھا وہ منقطع ہو گیا۔ قرآن ”انفس“ یعنی خود اور ”آفاق“ یعنی جہان (دنیا) کو علم و معرفت کا سرچشمہ سمجھتا ہے۔ خداوند عالم اپنی نشانیوں کو اندرونی تجربے میں بھی ظاہر کرتا ہے اور بیرونی تجربے میں بھی اور آدمی کا فرض یہ ہے کہ تجربے کی تمام علامتوں کی معرفت کو عدالت کے حضور میں فیصلہ کے لئے رکھے۔ خاتمیت کو اس معنی میں نہیں لینا چاہئے کہ زندگی کی آخری اور حتمی سرنوشت عواطف کی جگہ پر عقل کا کامل جانشین ہو جانا ہے ایسی چیز نہ تو ممکن ہے اور نہ وہ مطلوب ہے۔ اس فکر و نظر کی عاقلانہ قدر و قیمت اس امر میں ہے کہ یہ باطنی تجربے کے مقابلے میں ایک مستقل پرکھنے والی طاقت پیدا کرتی ہے اور یہ امر اس عقیدے سے حاصل ہوتا ہے کہ اشخاص کے مافوق الطبیعت سے اتصال کے دعوے کا اعتبار انسانی تاریخ میں ختم ہو چکا ہے___ اس بناء پر اب باطنی اور عارفانہ تجربے پر چاہے وہ جتنا بھی غیر معمولی اور غیر معروف ہو ایک مکمل طبیعی اور قدرتی تجربے کے زاویے سے نگاہ ڈالی جائے اور انسانی تجربے کی دوسری نشانیوں کی مانند اس کو تنقیدی نظر سے بحث و نظر کا موضوع قرار دیا جائے۔“(احیاء فکر دینی در اسلام ص ۱۴۶ ۱۴۷)
اقبال کا اپنی گفتگو کے آخری حصے میں مقصود یہ ہے کہ نبوت کے ختم ہو جانے کے ساتھ الہامات اور اولیاء اللہ کے مکاشفات و کرامات ختم نہیں ہو گئے ہیں۔ البتہ ان کا گذشتہ اعتبار ختم ہو گیا ہے۔ ماضی میں جب کہ ابھی تجربی عقل پیدا نہیں ہوئی تھی تو معجزہ و کرامت ایک مکمل طبیعی اور قابل قبول اور شک و شبہ سے خالی و عاری سند ہوا کرتی تھی لیکن پختہ فکر اور عقلی کمال کے حامل انسان کے واسطے (دور خاتمیت کے انسان کے لئے) یہ امور اب کوئی حجت اور سندیت نہیں رکھتے لہٰذا ہر واقعے کی طرح انہیں بھی عقلانی تجربے کی کسوٹی پر پرکھنا چاہئے۔
خاتمیت سے قبل کا زمانہ معجزہ و کرامات کا زمانہ تھا یعنی معجزہ و کرامات عقل کو اپنے زیراثر رکھتے تھے لیکن خاتمیت کا زمانہ عقل کا زمانہ ہے۔ عقل کرامت کے مشاہدے کو کسی چیز کی دلیل نہیں مانتی مگر یہ کہ وہ اپنے معیاروں کے ساتھ الہام کے ذریعے کسی کشف شدہ حقیقت کی صحت و اعتبار کو ظاہر کرے اقبال کی گفتگو کا یہ حضہ بھی دور خاتمیت سے پہلے کے لحاظ سے بھی اور دور خاتمیت کے بعد کے لحاظ سے بھی صحیح نہیں ہے ہم بعد میں معجزے اور خاتمیت کے عنوان سے اس پر روشنی ڈالیں گے۔
ثالثاً یہ کہ علامہ اقبال وحی کو فطری قوت کی ایک قسم سمجھتے ہیں جو غلط ہے اور یہی نظریہ ان کے دیگر اشتباہات کا موجب بنا ہے فطری قوت یا فطری شعور جس طرح کہ اقبال خود اس طرف متوجہ ہیں ایک سو فیصد طبیعی (غیر اکتسابی) ناآگہانہ اور حس و عقل کے مقابلہ میں بہت پست اور معمولی ہے جس کو قانون خلقت نے حیوان (حشرات یا ان سے بھی نچلے درجے کے حیوانات) کے وجود کے ابتدائی مرحلوں میں بھی ودیعت کیا ہے جو بالاتر درجے (حس و عقل) کی ہدایتوں کی رشد و نمو کے ساتھ کمزور پڑ جاتا ہے اور ختم ہو جاتا ہے لہٰذا انسان جو فکری اعتبار سے حیوانات میں سب سے زیادہ بے نیاز ہے فطری شعور کے اعتبار سے حیوانات میں سب سے زیادہ کمزور ہے لیکن اس کے برعکس وحی حس و عقل کی رہنمائی سے بالاتر اور کسی حد تک اکتسابی ہے اور وحی کی آگاہی اور علم بدرجہ اولی حس و عقل کی آگاہی اور بصیرت سے بالاتر ہے اور وہ معلومات جو وحی کے ذریعے سے کشف و آشکار ہوتی ہیں عقل تجربی کی معلومات سے بے حد وسیع اور بہت ہی عمیق ہیں۔ ہم (مکتب اور آئیڈیالوجی کے حصے میں) یہ ثابت کر چکے ہیں کہ انسان کی تمام انفرادی و اجتماعی صلاحیتوں اجتماعی رابطوں کی پیچیدگیوں اور ارتقائی رفتار کی انتہا معین نہ ہونے کے باوجود ہمیں یہ اعتراف کر لینا چاہئے کہ جس چیز کو اجتماعی مفکروں اور فلسفیوں نے آئیڈیالوجی کے نام سے پیش کیا ہے وہ گمراہی اور انسان کی شکست کے سوا کچھ نہیں۔ آئیڈیالوجی کے لحاظ سے انسان کے لئے ایک راستے سے زیادہ نہیں ہے اور وہ وحی سے حاصل شدہ آئیڈیالوجی ہے اور اگر وحی کی آئیڈیالوجی کو قبول نہ کریں تو ہمیں قبول کر لینا چاہئے کہ انسان کے پاس کوئی آئیڈیالوجی نہیں ہے۔
آج کل کے مفکرین یہ یقین رکھتے ہیں کہ بشر کے آئندہ سفر کی راہ معین کرنا انسانی آئیڈیالوجی کی شکل میں صرف منزل بہ منزل کی شکل میں ممکن ہے یعنی صرف یہی صورت ممکن ہے کہ ہر منزل پر بعد والی منزل کی راہ معین کی جائے لیکن جہاں تک اس چیز کا تعلق ہے کہ اس منزل کے بعد والی منزلیں کہاں ہیں اور سب سے آخری منزل کیا اور کہاں ہو گی؟ کچھ نہیں معلوم۔ ایسے اجتماعی نظریوں کا نتیجہ اور انجام بھی معلوم ہے۔
اے کاش علامہ اقبال جو عرفا کے آثار کا کم و بیش مطالعہ کر چکے ہیں اور مولانا روم کی مثنوی سے انہیں خاص طور پر انس ہے ان کتابوں کا ذرا غور سے مطالعہ کرتے تو ختم نبوت کے لئے بہتر سرمایہ تحقیق حاصل کر سکتے۔ عرفا اس نکتے تک پہنچ گئے ہیں کہ نبوت کا سلسلہ اس حیثیت سے ختم ہوا کہ انسان کے تمام انفرادی و اجتماعی مراحل و منازل اور وہ راستہ جس پر انسان کو چلنا چاہئے سب ایک جگہ آشکار ہیں اور اب اس کے بعد انسان آئیڈیالوجی کے لحاظ سے جو چیز بھی کشف کرے گا وہ ان مراحل اور راستوں سے زیادہ نہیں ہو گا جو آشکار ہو چکے ہیں اور وہ انہی کی پیروی کرنے پر مجبور ہے۔
الخاتم من ختم المراتب باسرھا
خاتم وہ شخص ہوتا ہے جس نے تمام مراتب و درجات کو طے کر لیا ہو اور کسی مرحلے اور منزل کو طے کرنا باقی نہ چھوڑا ہو یہ ہے ختم نبوت کا معیار نہ کہ معاشرے کی عقل تجربی کی پختگی علامہ اقبال اگر ان مردان خدا کے آثار پر غور و فکر کرتے جن کے وہ عقیدت مند ہیں تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ وحی فطری شعور نہیں ہے بلکہ وہ ایک روح اور حیات ہے جو عقلانی روح و حیات سے بالاتر و بلند تر ہے۔
مولانا روم کہتے ہیں:
غیر فہم جان کہ در گاو و خراست
آدمی را عقل و جانی دیگر است
”انسان کی عقل اور روح گائے اور گدھے میں موجود فہم اور روح سے مختلف ہے۔“
باز غیر عقل و جان آدمی
ھست جانی در نبی و در ولی
”پھر انسان کی عقل و روح سے مختلف وہ روح ہے جو نبی اور ولی کو عطا ہوتی ہے۔“
جسم ظاہر روح مخفی آمدہ است
جسم ہم چون آستین جان ہم چون دست
”جسم ظاہر ہوتا ہے اور روح مخفی ہوتی ہے جسم آستین کی طرح ظاہر ہوتا ہے اور روح (آستین کے اندر چھپے ہوئے) ہاتھ کی طرح مخفی ہوتی ہے۔“
باز عقل از روح مخفی تربوز
حس بسوی روح زودتر رہ برد
”پھر عقل ہے جو روح سے بھی زیادہ مخفی ہوتی ہے اور حس (عقل کی بہ نسبت) روح کا ادراک جلدی کر لیتی ہے۔
روح وحی از عقل پنہان تر بود
زانکہ او غیب است و او زان سر بود
”پھر وحی کی روح عقل سے بھی زیادہ پوشیدہ ہوتی ہے اس لئے کہ وہ غیبی چیز ہے اور عقل تو انسان کے سر میں ہوتی ہے۔“
عقل احمد از کسی پنہان نشد
روح و حیش مدرک ہر جان نشد
”احمد مجتبیٰ کی عقل کسی سے پوشیدہ اور مخفی نہیں تھی لیکن آنحضرت کی وحی کی روح کو ہر شخص نہیں سمجھ سکا۔“
روح وحی را مناسبھا است نیز
درنیابد عقل کان آمد عزیز
”وحی کی روح کے لئے کچھ مناسبات اور بھی ہیں لیکن عقل اس کا ادراک نہیں کر سکتی۔“
لوح محفوظ است و را پیشوا
ازچہ محفوظ است؟ محفوظ از خطا
”لوح محفوظ کے ذریعے اس وحی کی رہنمائی ہوتی ہے لوح محفوظ کس چیز سے محفوظ ہے وہ خطا سے محفوظ ہے۔“
نی نجوم است ونہ رمل است نہ خواب
وحی حق واللہ اعلم بالصواب
”وحی نہ تو علم نجوم سے متعلق ہے نہ علم رمل ہے اور نہ خواب ہے پس وہ حق تعالیٰ کی وحی ہے اور (اس کے بارے میں) اللہ ہی صحیح علم رکھتا ہے۔“
چوتھا اعتراض یہ ہے کہ علامہ اقبال اپنے مذکورہ فلسفے میں اسی طرح اشتباہ سے دوچار ہوئے ہیں جس طرح سے مغربی دنیا ہوئی ہے یعنی سائنس کو ایمان کا جانشین بنانا۔ بلاشک علامہ اقبال سائنس کی جانشینی کے نظریے کے سخت مخالف ہیں لیکن فلسفہ ختم نبوت میں انہوں نے جو راستہ اپنایا ہے وہ اسی نتیجہ تک پہنچتا ہے اقبال وحی کی تعریف فطری قسم کی چیز سے کرتے ہیں اور اس امر کے مدعی ہیں کہ کارخانہ عقل و فکر کے کام شروع کر دینے کے بعد جبلت اور فطری شعور کا فریضہ انجام کو پہنچ جاتا ہے اور خود جبلت خاموش ہو جاتی ہے یہ بات صحیح تھی مگر اس صورت میں جب کہ عقل و فکر اسی کام کو شروع کرتی جس کو طبیعت و جبلت انجام دیتی تھی لیکن اگر ہم یہ فرض کریں کہ جبلت کا فریضہ کچھ اور ہے اور عقل و فکر کا کچھ اور تو پھر اس کی کوئی دلیل نہیں کہ عقل و فکر کے مشغول کار ہو جانے کے ساتھ ہی جبلت اور فطری شعور کا کام ختم ہو جائے۔
پس اگر بالفرض ہم وحی کو ایک قسم کی جبلت اور فطری شعور سمجھیں اور یہ مان لیں کہ اس کا کام ایک قسم کا تصور کائنات اور اجتماعی مسلک کا پیش کرنا ہے جس کا امکان عقل و فکر کے ہاں نہیں ہے تو پھر بھی اس امر کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ بقول (خود اقبال ) عقل برہان استقرائی کی پختگی کے ساتھ ہی جبلت کا کام ختم ہو جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ علامہ اقبال شہرت و بلندی علمی کمال اور اسلام کا درد رکھنے کے باوجود اس لحاظ سے کہ ان کی تہذیب ایک مغربی تہذیب ہے اور اسلامی تہذیب ان کی ثانوی تہذیب ہے یعنی انہوں نے اپنی تمام تعلیم مغربی مضامین میں حاصل کی ہے اور اسلامی تہذیب میں خاص کر فتنہ و عرفان اور بس تھوڑا بہت فلسفہ کا مطالعہ ہے لہٰذا بعض جگہ زبردست اشتباہ کا شکار ہوئے ہیں۔ ہم نے ”اصول فلسفہ و روش ریالزم“ کے مقدمہ میں اقبال کی اس کمزوری کی طرف اشارہ کیا ہے۔
اسی وجہ سے سید جمال الدین اسد آبادی سے ان کا موازنہ کرنا صحیح نہیں ہے ایک تو سید جمال الدین اپنے ذاتی فضل و کمال کے لحاظ سے بھی ایک قدآور اور مضبوط شخصیت ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی اصلی تعلیم اسلامی تھی اور مغربی تعلیم اور ثقافت ثانوی حیثیت رکھتی تھی اس کے علاوہ مرحوم سید جمال الدین نے اسلامی ملکوں کے دورے کئے تھے اور بہت ہی قریب سے ان ملکوں کے سیاسی و اجتماعی حالات کا مطالعہ کیا تھا لیکن اقبال کو یہ سب خصوصیات حاصل نہ تھیں اسی وجہ سے سید جمال الدین اقبال کی طرح بعض اسلامی ممالک (مثلاً ایران اور ترکی) کے واقعات کے سلسلے میں کسی صورت میں بھی اشتباہ کا شکار نہیں ہوئے۔
 

صرف علی

محفلین
معجزئہ ختمی مرتبت
قرآن کریم حضرت ختمی مرتبت کا ہمیشہ زندہ رہنے والا معجزہ ہے۔ حضرت ابراہیم حضرت موسیٰ حضرت یحییٰ جیسے گذشتہ انبیاء کی اعجاز نمائی کا موضوع‘ جن کے پاس آسمانی کتاب بھی تھی اور معجزہ بھی‘ ان کتابوں سے مختلف تھا مثلاً شعلہ ور آگ کا ٹھنڈک اور سلامتی میں بدل جانا یا خشک لکڑی کا اژدھا بن جانا یا مردوں کو زندہ کرنا۔ ظاہر سی بات ہے کہ ان معجزات میں سے ہر ایک وقتی و عارضی اور جلد ختم ہو جانے والا تھا‘ مگر حضرت خاتم الانبیاء کے معجزہ کا موضوع خود حضرت کی لائی ہوئی کتاب ”قرآن مجید“ ہے۔ حضرت کی کتاب ایک ہی وقت میں کتاب بھی ہے اور آپ کی رسالت کی دلیل بھی اور اسی دلیل کی بنیاد پر دیگر معجزات کے برخلاف خاتمیت زندہ جاوید ہے نہ کہ عارضی اور جلد ختم ہو جانے والا۔
حضرت خاتم الانبیاء کے معجزے کا نوع کتاب سے ہونا ایک ایسی چیز ہے‘ جو آنحضرت کے عصر و زمانے سے جو علم و دانش‘ تہذیب و تمدن اور علم و معارف کی ترقی اور پیش رفت کا زمانہ ہے‘ مناسب رکھتی ہے اور یہ ترقی اس بات کا امکان فراہم کرتی ہے کہ اس کتاب کے بہت سے اعجازی پہلو تدریجاً روشن ہوں‘ جو پہلے ظاہر نہیں ہوئے تھے‘ جیسا کہ اس کا جاویدانی ہونا‘ آپ کے ہمیشگی پیغام اور رسالت سے مناسبت رکھتا ہے کہ جو ہمیشہ باقی اور ناقابل نسخ ہے۔
قرآن کریم نے اپنے معجزانہ اور فوق بشریت پہلو کی خبر اپنی چند آیتوں میں صریحاً دی ہے۔(مثلاً قرآن کی یہ آیت: ان کنتم فی ریب ممانزلنا علی عبدنما فاتو ابسورة من مثلہ(بقرہ/۲۳) اگر تم لوگ اس چیز کے بارے میں جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کی ہے شک و تردد میں مبتلا ہو‘ تو تم اس جیسی ایک سورہ ہی بنا لاؤ۔) جیسا کہ قرآن نے اپنے علاوہ خاتم الانبیاء کے دوسرے معجزات کے واقع ہونے کی تصریح کی ہے۔
قرآن کریم میں معجزات سے متعلق بہت سے مسائل بیان ہوتے ہیں‘ جیسے پیغمبران الٰہی کی رسالت کا معجزے کے ساتھ ہونے کی ضرورت اور یہ کہ معجزہ ”بینہ“ اور دلیل قاطع ہے اور یہ کہ انبیاء و رسل معجزے کو خدا کے اذن و اجازت سے پیش کرتے ہیں اور یہ کہ پیغمبران خدا اسی حد تک معجزہ پیش کرتے ہیں جو ان کے قول کی صداقت و سچائی کی دلیل و نشانی ہو۔ وہ حضرات اس کے پابند نہیں ہیں کہ لوگوں کی بے سوچی سمجھی خواہشات کی متابعت کریں اور لوگوں کی منشا کے مطابق معجزات دکھاتے رہیں اور جو شخص جس وقت اور جس روز معجزے کا مطالبہ کرے‘ اسے فوراً قبول کر لیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں سمجھئے کہ پیغمبروں نے معجزے کی نمائش گاہ قائم نہیں کی ہے اور معجزہ سازی کا کارخانہ نہیں کھول رکھا ہے اور بھی اسی طرح کے مسائل ہیں‘ جو قرآن میں موجود ہیں۔
قرآن کریم نے جس طرح ان مسائل کو پیش کیا ہے‘ اسی طرح بہت سے پیغمبران ماسبق جیسے حضرت نوح حضرت ابراہیم حضرت لوط حضرت صالح حضرت ہود حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ کے معجزات کو بھی پوری صداقت کے ساتھ نقل کیا ہے اور ان کی صحت کی گواہی دی ہے‘ جس کی کسی بھی صورت میں تاویل نہیں ہو سکتی۔
بہت سے مستشرقین اور عیسائی علماء نے ایسی چند آیتوں کو جن کا مفہوم یہ ہے کہ قرآن نے مشرکین کے ان کی خواہش کے مطابق معجزہ کے مطالبے پر منفی جواب دیا ہے‘ انہی آیتوں کو بطور سند پیش کرتے ہوئے اس بات کا دعویٰ کیا ہے کہ پیغمبر اسلام لوگوں سے کہا کرتے تھے کہ میں قرآن کے سوا کوئی دوسرا معجزہ نہیں رکھتا۔ اگر تم قرآن کو بطور معجزہ قبول کرتے ہو‘ تو بہتر ہے ورنہ میرے پاس کوئی دوسرا معجزہ نہیں ہے‘ بعض ”روشن فکر“ اور اہل قلم مسلمان مورخین نے بھی حال ہی میں اسی نظریے کو قبول کر لیا ہے اور اس کی توجیہ اس شکل سے کی ہے کہ معجزہ قانع کنندہ دلیل ہے لیکن ان لوگوں کے لئے جو فکری اور عقلی لحاظ سے بالغ و رشید نہ ہوں اور جو اس قسم کے حیرت انگیز امور کی تلاش میں رہتے ہیں‘ لیکن بالغ و رشید اور پختہ عقل والا انسان اس طرح کے امور کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتا اور اسے تو منطق سے سروکار ہوتا ہے‘ پیغمبر اسلام۱ کا منطق و عقل کا دور ہے نہ کہ توہمات اور ذہنی تخیلات کا (اسی لئے) پیغمبر اسلام نے بہ اذن خدا قرآن مجید کے علاوہ ہر قسم کے معجزے کی درخواست قبول کرنے سے انکار فرمایا۔ وہ لوگ کہتے ہیں:
”گذشتہ انبیاء کا معجزات اور غیر معمولی امور سے مدد لینا لازم و ضروری اور ناگزیر تھا‘ کیوں کہ اس دور میں ان حضرات کا عقلی دلیلوں کے ذریعے رہنمائی کرنا بے حد دشوار بلکہ محال تھا___ پیغمبر اسلام کے ظہور کے زمانے میں انسانی معاشرہ طفلی دور کو بہت پیچھے چھوڑ کر فکری بلوغ کے دور میں قدم رکھ رہا تھا۔ کل تک جو بچہ اپنی ماں کا محتاج تھا تاکہ اس کا ہاتھ پکڑ کر چلنا سیکھ سکے‘ اب اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اپنی عقل استعمال کر سکتا ہے___
پیغمبر اسلام کا یہ عمل بغیر دلیل و حکمت نہیں تھا کہ مفکرین و معاندین آپ سے معجزات پیش کرنے پر اصرار کرتے‘ لیکن آپ ان کی دعوت کا مثبت جواب نہیں دیتے بلکہ اپنی دعوت کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لئے عقلی و تجرباتی اور تاریخی شواہد کے ذریعے استدلال کرنے پر زور دیتے ہیں‘ مفکرین کے اس تمام اصرار و ہٹ دھرمی کے باوجود پیغمبر اسلام ایسے معجزات (جیسے انبیائے ماسلف پیش کیا کرتے تھے) پیش کرنے سے بہ اذن خدا اجتناب کرتے تھے اور انکار فرما دیتے تھے اور صرف قرآن پر (ایسے معجزے کی حیثیت سے جس کی نظیر نہیں مل سکتی) اکتفا فرماتے تھے۔ حضرت خاتم الانبیاء کا معجزہ قرآن مجید رسالت کی خاتمیت کی بھی دلیل ہے۔ یہ وہ کتاب ہے‘ جو عالم خلقت کے حقائق اور تمام جہات میں مکمل ہم آہنگی کے ساتھ زندگی کی تعلیمات اور رہنمائیوں پر مشتمل ہے۔ ایک ایسا معجزہ ہے‘ جو بالغ و رشید انسان کے لئے مفید ہے نہ کہ اس بچے کے لئے جو اوہام اور ذہنی تخیلات کا پابند ہو۔“(ڈاکٹر حبیب اللہ پائدار: فلسفہ تاریخ از نظر قرآن‘ ص ۱۵‘ ۱۶)
اور بعض کہتے ہیں:
”وہ فضا جس میں گذشتہ انسان سانس لیتا رہا ہے‘ ہمیشہ خرافات اور موہومات اور خوارق عادات سے بھری رہی ہے اور سوائے اس چیز کے جو عقل و ادراک کے خلاف ہو‘ اس کے ذہن میں اثر ہی نہیں کرتی‘ یہی وجہ ہے کہ ہم تاریخ میں بشریت کو دیکھتے ہیں کہ وہ ہمیشہ ”اعجاز“ کی تلاش و جستجو میں مصروف اور ”غیب“ کی شیفتہ اور دلک دادہ رہی ہے۔ یہ حساسیت ہر چیز کے بارے میں جو عقل و شعور میں نہ آنے والی ہو‘ ان انسانوں میں بہت زیادہ پائی جاتی ہے‘ جو تمدن سے زیادہ دور ہوتے ہیں۔ یہ لوگ ”طبیعت“ سے جتنے زیادہ نزدیک ہیں‘ اتنے ہی زیادہ ”ماورائے طبیعت“ کے مشتاق رہتے ہیں اور بے ہودگی اسی حقیقت کی معیوب اولاد ہے‘ صحرائی انسان ہمیشہ ”معجزہ“ کی تلاش میں رہتا ہے۔ اس کی دنیا حیرت انگیز ارواح و اسرار سے بھری ہوئی ہے___ گذشتہ انسان کی روح فقط اس وقت متاثر ہوتی تھی‘ جب اس کی نگاہوں کے سامنے کوئی تعجب خیز امر واقع ہو رہا ہو‘ جس کو وہ رمز و راز سے پر‘ سحر انگیز اور مبہم چیز سمجھتا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ نہ صرف تمام پیغمبر بلکہ تمام بادشاہ‘ تمام طاقت ور اور ہر قوم کے حکماء اپنے افکار و اعمال کی توجیہ عجیب و غریب اور غیر معمولی امور سے کرتے رہے ہیں اور اس میں پیغمبروں کا گروہ جن کی رسالت کی بنیاد ہی ”غیب“ پر رکھی گئی ہے‘ انہیں دوسروں سے زیادہ ضرورت تھی کہ معجزے سے کام لیں کیوں کہ ان کے زمانے کے لوگوں کے ایمان میں ”اعجاز“، منطق و علم اور محسوس و مسلم اور عینی حقیقت سے زیادہ کارآمد تھا‘ لیکن حضرت محمد کی بات اس قاعدہ سے مستثنیٰ ہے‘ وہ معاشرہ جس کے ترقی یافتہ اور سب سے بڑے تجارتی شہر میں صرف سات آدمی لکھنا پڑھنا جانتے تھے اور ”خاندانی فخر‘ شمشیرزنی‘ سرمایہ‘ دولت‘ اونٹ اور اولاد (وہ بھی لڑکے)“ کے سوا کچھ سوچتے ہی نہیں تھے‘ ایسے معاشرہ میں آپ کتاب کو اپنے معجزے کے طور پیش کرتے ہیں۔ یہ بات خود ایک معجزہ ہے کہ ایک ایسے ملک میں ایسی کتاب جہاں تاریخ کتاب کے کسی ایک نسخہ کا بھی سراغ نہیں دیتی‘ اس کا خدا ”روشنائی‘ قلم“ اور ”تحریر“ کی قسم کھاتا ہے‘ ایسی قوم جو قلم کو چند بدحال‘ عاجز اور بے افتخار افراد کا وسیلہ سمجھتی ہے۔ یہ خود ایک معجزہ ہے‘ جس کو ہمیشہ دیکھا جا سکتا ہے اور ہر روز اس اعجاز آمیز پہلو کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے اور یہ وہ تنہا معجزہ ہے‘ جس کو دوسرے معجزات کے برخلاف عقلمند اور دانشمند انسان اور ہر وہ معاشرہ جو زیادہ ترقی یافتہ اور زیادہ متمدن ہو‘ وہ سب اس کے اعجاز کو زیادہ درست‘ زیادہ صحیح اور زیادہ عمیق پائیں گے۔“
 

صرف علی

محفلین
یہ کتاب وہ اکیلا معجزہ ہے‘ جس پر اعتقاد رکھنا صرف امور غیبی ہی کے معتقدین پر منحصر نہیں ہے بلکہ ہر مفکر اس کے اعجاز کا معترف ہے۔ یہ وہ تنہا معجزہ ہے‘ جو نہ صرف عوام کے لئے بلکہ روشن فکروں کے لئے بھی ہے___ وہ تنہا معجزہ ہے‘ جو دوسرے معجزات کے برخلاف اپنے دیکھنے والوں میں پائی جانے والی تعجب اور اعجاز کی حس کو بیدار نہیں کرتی‘ ایک رسالت کو قبول کرنے کے واسطے صرف ایک مقدمہ اور وسیلہ نہیں ہے بلکہ اس پر یقین کرنے اور ایمان لانے والوں کی تعلیم و تربیت کے لئے ہے۔ یہ خود قبول کرنے کا مقصد ہے‘ خود رسالت ہے اور بالآخر حضرت محمد کا یہ معجزہ غیر بشری امور سے نہیں ہے اگرچہ ایک غیر بشری عمل ہے اور اس لحاظ سے گذشتہ انبیاء کے معجزات کے برخلاف جو لوگوں کے یقین کرنے کے واسطے صرف ایک عامل و سبب کے طور پر کام میں لائے جاتے رہے (وہ بھی چند گنے چنے افراد کے لئے جو انہیں دیکھتے تھے) اور اس کے علاوہ ان معجزات کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔
محمد کا معجزہ بلند ترین انسانی استعداد و صلاحیت کی نوع سے ہے اور انسان کے لئے بلند ترین نمونہ کار اور دستورالعمل کے طور پر کام کر سکتا ہے۔ ایسا دستورالعمل جو ہمیشہ اس کے قبضہ اختیار میں ہے۔ محمد ۱کوشش کرتے ہیں کہ لوگوں کی تلاش و جستجو کا رخ غیر عادی امور‘ کرامات اور خوارق عادات سے موڑ کر عقلی و منطقی علمی و طبیعی اور اجتماعی و اخلاقی مسائل کی طرف موڑ دیں اور ”عجائب و غرائب“ کے سلسلے میں ان کی حساسیت کو ہٹا کر ”واقعات و حقائق“ کی طرف موڑ دیں اور یہ کوشش کوئی معمولی چیز نہیں ہے‘ وہ بھی ایسے لوگوں کے ساتھ جو غیر طبیعی چیزوں کے سوا کسی چیز کے سامنے جھکنا اور کسی کو ماننا جانتے ہی نہیں‘ پھر مزید برآں ایسے شخص کے ذریعے جو اپنے آپ کو ان کے درمیان پیغمبر کہتا ہے۔ اپنے کو پیغمبر بتانا اور لوگوں کو اپنی خدائی رسالت کی طرف دعوت دینا اور عین اسی حالت میں باقاعدہ طور پر یہ اعتراف کرنا کہ میں ”غیب کی خبر نہیں رکھتا“ تعجب میں ڈال دینے والا کام ہے اور آپ کی انسانی قدر و منزلت کے علاوہ جو چیز بہت زیادہ جذبات کو ابھارتی ہے‘ وہ آپ کی غیر معمولی سچائی ہے‘ جس کا احساس آپ کے کام میں ہوتا ہے اور جو ہر دل کو تقدیس کے لئے اور ہر فکر کو تعظیم اور تحسین و تعریف پر آمادہ کرتا ہے۔
آپ سے پوچھتے ہیں‘ اگر آپ پیغمبر ہیں تو مال تجارت کا نرخ (بازار کے بھاؤ) ہمیں بتا دیں تاکہ ہم اپنی تجارت میں نفع حاصل کر سکیں‘ قرآن آپ کو حکم دیتا ہے کہ تم کہہ دوِ کہ میں اپنی ذات کے لئے نہ نفع کا مالک ہوں اور نہ نقصان کا‘ سوائے اس کے کہ جو اللہ کو منظور ہو۔ اگر میں غیب کی خبر رکھتا‘ تو بہت زیادہ نیکیاں کرتا اور کوئی شر مجھے چھو بھی نہ سکتا‘ میں تو ان لوگوں کے لئے جو اایمان رکھتے ہیں‘ فقط ڈرانے والا اور خوشخبری دینے والا ہوں۔
( سورہ اعراف‘ ۱۸۸)
لیکن جو پیغمبر غیب دان و غیب گو نہ ہو اور جو روحوں‘ پریوں اور جنات سے گفتگو نہ کرے اور روزانہ جس سے کوئی کرامت ظاہر نہ ہو‘ وہ صحرائی لوگوں کی نظر میں کیا حقیقت و اہمیت رکھ سکتا ہے۔ محمد انہیں کائنات کے بارے میں غور و فکر‘ طہارت‘ دوستی‘ علم‘ وفا اور آدمی کے وجود اور زندگی اور قسمت و انجام کے معنی سمجھنے کی طرف بلاتے ہیں اور وہ لوگ آپ سے پے در پے معجزہ طلب کرتے ہیں اور غیب گوئی اور کرامت کی خواہش کرتے ہیں اور خدا آپ ہی کی زبان سے ایسے لہجہ میں کہ گویا ایسے کام کی آپ سے ہرگز ہرگز توقع اور امید نہیں رکھی جا سکتی‘ فرماتا ہے:
سبحان ربی ھل کنت الابشرا رسولا(ڈاکٹر علی شریعتی‘ اسلام شناسی‘ ص ۵۰۲۔۵۰۶)
سبحان اللہِ کیا میں ایک بھیجے ہوئے بشر کے سوا (کچھ اور) ہوں۔ اس گروہ نے جن زیادہ تر آیات کو بطور سند اختیار ہے۔ وہ سورہ اسرا ء کی آیات ۹۰۔۹۳ ہیں‘ جن میں ارشاد خداوندی ہے:
وقالو الن نومن لک حتی تفجرلنا من الارض ینبوعا او تکون لک جنة من نخیل و عنب فتفجر الانھار خلا لھا تفجیرا او تسقط السماء کما زعمت علینا کسفا او تآتی باللّٰہ و الملائکة قبیلا اویکون لک بیت من زخرف اوتآتی فی السماء ولن نومن لرقیک حتی تنزل علینا کتابا نقرؤہ قل سبحان ربی ھل کنت الابشرا رسولا
”وہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم تو آپ کی تصدیق نہیں کریں گے‘ جب تک کہ آپ ہمارے لئے زمین سے چشمہ جاری نہ کر دیں یا آپ کے پاس خرما اور انگور کا کوئی باغ نہ ہو‘ جس میں آپ نہریں جاری کر دیں یا جیسا کہ آپ گمان کرتے ہیں‘ ہمارے اوپر آسمان کا کوئی ٹکڑا نہ گرا دیں یا خدا اور ملائکہ کو ہمارے روبرو حاضر نہ کر دیں یا آپ کے پاس سونے کا گھر نہ ہو یا آپ آسمان پر نہ چڑھ جائیں اور آپ کے آسمان پر پہنچ جانے پر ہم ایمان نہیں لائیں گے۔ جب تک کہ آپ ہم پر آسمان سے کوئی خط نہ نازل کر دیں‘ جس کو ہم پڑھیں۔ اے رسول آپ ان کو کہہ دیجئے کہ پاک و منزل ہے میرا پروردگار‘ کیا میں ایک بھیجے ہوئے بشر کے علاوہ (کچھ اور) ہوں۔“
یہ لوگ (بعض روشن فکر مسلمان مورخین) کہتے ہیں کہ یہ آیتیں ظاہر کرتی ہیں کہ مشرکین پیغمبر سے قرآن کے علاوہ کوئی اور معجزہ چاہتے تھے اور پیغمبر ایسا معجزہ پیش کرنے سے اجتناب اور انکار کرتے تھے۔ اوپر جن مطالب کا ہم نے تذکرہ کیا ہے ان میں سے بعض کی خاص کر جو مطالب دوسرے معجزات کی بہ نسبت قرآن کے معجزہ ہونے کی خصوصیت کو اجاگر کرتے ہیں‘ تائید کرتے ہوئے افسوس کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ ہم ان تمام نظریات کی تائید نہیں کر سکتے۔ ہماری نظر میں جو مسائل قابل بحث ہیں‘ وہ حسب ذیل ہیں:
۱۔ پیغمبر اسلام کے پاس قرآن مجید کے علاوہ کوئی دوسرا معجزہ نہیں تھا اور قرآن کے علاوہ کوئی دوسرا معجزہ طلب کرنے والوں کے اصرار کے باوجود ان کی بات کو قبول نہیں کرتے تھے۔ اسراء کی آیات اس امر کی دلیل ہیں۔
۲۔ معجزہ ہونے کی قدر و قیمت اور افادیت کتنی ہے؟ آیا معجزہ اور خارق عادت کا تعلق ایسی چیز سے تھا‘ جو انسان کے عہد طفلی کے دور سے جب کہ عقل و منطق کارآمد نہیں تھی‘ مناسبت رکھتی تھی اور ہر شخص یہاں تک کہ کئی بادشاہ ان امور کے ذریعے اپنے اعمال و کردار کی توجیہ کرتے رہے ہیں۔ پیغمبران خدا بھی مجبور تھے کہ انہیں امور کے ذریعے اپنی تعلیمات حقہ کی توجیہ کریں اور لوگوں کو مطمئن کریں۔ پیغمبر اسلام جن کا معجزہ کتاب ہے‘ اس قاعدہ سے مستثنیٰ ہیں۔ آنحضرت نے کتاب اور درحقیقت عمل و منطق کے ذریعے اپنے کو پہچنوایا۔
 

صرف علی

محفلین
غیر قرآنی معجزہ
کیا پیغمبر اسلام قرآن کے سوا کوئی معجزہ نہیں رکھتے تھے؟ یہ مسئلہ جہاں تاریخ و سنت حدیث متواتر کے لحاظ سے ناقابل قبول ہے‘ وہاں نص قرآن کے بھی خلاف ہے۔ معجزہ شق القمر کا ذکر ہے خود قرآن میں آیا ہے۔ بالفرض اگر کوئی چاند کے دو ٹکڑے ہونے کی توجیہ و تاویل کرے (اگرچہ اس واقعہ کی تاویل نہیں کی جا سکتی) تو معراج کے واقعہ اور سورہ اسراء کی توجیہ و تفسیر کیوں کر کی جا سکتی ہے۔ قرآن صاف صاف لفظوں میں کہتا ہے:
سبحان الذی اسریٰ بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الی المسجد الاقصی الذی بارکنا حولہ لنریہ من آیاتنا
”پاک و بے نیاز ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد الحرام سے مسجدالاقصیٰ (بیت المقدس) تک لے گئی‘ جس کے گرد ہم نے برکتیں نازل کی ہیں تاکہ ہم اسے اپنی نشانیاں دکھائیں۔“
کیا یہ واقعہ ایک امر خارق عادت اور معجزہ نہیں ہے۔ سورہ مبارکہ تحریم میں پیغمبر خدا کا ایک راز کی بات اپنی بیوی سے کہنا اور پھر اس بیوی کا اس راز کو حضرت کی ایک دوسری بیوی سے کہہ دینے(۱) کے قصے میں آیا ہے کہ پیغمبر نے اس بیوی سے کہا کہ تو نے وہ راز دوسری بیوی سے کیوں کہا؟ پھر ان دونوں بیویوں کے درمیان جو باتیں ہوئی تھیں‘ ان کو حضرت نے دہرا دیا‘ تو اس بیوی نے تعجب سے پوچھا کہ آپ کو اس کی خبر کس نے دی؟ رسول اکرم نے فرمایا‘ مجھے میرے خدا نے آگاہ کر دیا۔ کیا یہ غیب کی خبر نہیں ہے؟ معجزہ نہیں ہے؟ سورہ اسراء کی آیات نمبر ۹۰۔۹۳ اور بعض دوسری اس قسم کی آیتیں جو بطور سند پیش کی جاتی ہین‘ ان کا قصہ دوسری نوعیت کا ہے‘ وہاں ”آیت“، ”نشانی“ اور ”بینہ“ (دلیل) کے معنی میں معجزہ طلب کرنے کا مسئلہ ان لوگوں کی طرف سے نہیں ہے‘ جو واقعتا تردد کی حالت میں ہوں اور ثبوت کے لئے دلیل و برہان کے خواہش مند ہوں۔ یہ آیتیں اور سورة عنکبوت کی آیت نمبر ۵۰(اس آیت پر بعد میں گفتگو کی جائے گی) مشرکوں کی خاص منطق کو معجزہ خواہی میں اور قرآن کی خاص منطق کو پیغمبروں کے معجزے کے فلسفے میں ظاہر و روشن کرتی ہیں۔
سورہ اسراء کی آیات ۹۰۔۹۳ میں مشرکوں کی بات اس طرح شروع ہوتی ہے:
لن نومن لک___ حتی تفجر لنا___ یعنی ہم آپ کے فائدے کے لئے آپ پر ایمان نہیں لائیں گے اور آپ کے گروہ میں شامل نہیں ہوں گے‘ مگر یہ کہ آپ ہمارے فائدے کے لئے ہمارے سامنے اس خشک و سنگلاخ زمین سے کوئی چشمہ جاری کر دیں (یعنی ایک طرح کا لین دین) یا درختوں سے بھرا ہوا گھنا باغ جس کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں یا آپ سونے سے بھرا ہوا گھر رکھتے ہوں‘ جس سے ہم بھی فائدہ حاصل کر سکیں یا آپ آسمان کا ایک ٹکڑا (جیسا کہ آپ گمان کرتے ہیں کہ قیامت کے دن ایسا ہو گا) ہمارے اوپر گرا دیں (یعنی عذاب اور قوت اور انجام کار نہ کہ معجزہ) یا خدا اور فرشتوں کو ہمارے سامنے حاضر کریں یا آپ آسمان پر چڑھ جائیں اور ہمارے واسطے اور ہمارے نام اور فخر کے واسطے خصوصی خط بھیجیں (یہاں بھی ایک طرح کا لین دین کیا جا رہا ہے البتہ روپے پیسے کے ذریعے نہیں بلکہ فخر و مباہات کے عنوان سے‘ وہ بھی موضوع کے محال ہونے کی طرف توجہ کئے بغیر)۔
مشرکین نے یہ نہیں کہا کہ لن نومن لک___ جس کے معنی یہ ہیں کہ آپ جب تک فلاں معجزہ پیش نہیں کریں گے‘ ہم آپ پر ایمان نہیں لائیں گے‘ بلکہ انہوں نے کہا تھا کہ لن نومن لک جس کے معنی یہ ہیں‘ ہم آپ کے فائدے کے لئے ایمان نہیں لائیں گے اور آپ کے گروہ میں شامل نہیں ہوں گے‘ یعنی ایک مصلحت آمیز تصدیق‘ عقیدے کی خرید و فروخت۔ آمن بہ اور آمن لہ میں فرق ہے‘ علمائے اصول فقہ نے سورہ توبہ کی آیت کی آیت نمبر۶۱ جس میں رسول خدا کے بارے میں ہے کہ یومن باللّٰہ ویومن للمومنین سے اسی لطیف و باریک نکتے کو اخذ کیا ہے۔ مشرکین نے اس تصدیق اور مصلحت آمیز تائید کے مقابلہ میں جن چیزوں کو طلب کیا تھا‘ ان کے علاوہ ایک مطالبہ تفجر لنا من الارض ینبوعاً کا تھا یعنی آپ ہمارے فائدے کے لئے ایک چشمہ جاری کر دیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہ اجرت طلب کرنا ہے نہ کہ دلیل اور معجزہ طلب کرنا۔
پیغمبر۱ کی غرض بعثت یہ ہے کہ وہ لوگوں کو حقیقی معنی میں مومن بنائیں نہ یہ کہ معجزے کی قیمت کے عوض لوگوں کا عقیدہ خریدیں‘ خود مولف محترم(ڈاکٹر علی شریعی مرحوم) یہ لکھتے ہیں کہ وہ لوگ پیغمبر سے کہتے تھے‘ اگر آپ پیغمبر ہیں تو منڈی کا بھاؤ ہمیں پہلے سے بتا دیا کریں تاکہ ہم اپنی تجارت میں نفع حاصل کر سکیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ معجزہ اور دلیل طلب کرنا کشف حقیقت کے لئے نہیں تھا بلکہ پیغمبر کو روپیہ حاصل کرنے کا وسیلہ بنانا تھا۔ ظاہر سی بات ہے پیغمبر کا جواب یہی ہو گا کہ اگر مجھے ایسی باتوں کے لئے غیب سے آگاہ کیا ہوتا‘ تو میں اس غیب دانی کو خود اپنے دنیوی کاموں کے لئے وسیلہ بناتا‘ لیکن معجزہ اور غیب دانی ان کاموں کا وسیلہ نہیں ہے۔ میں پیغمبر ہوں‘ خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا۔ مشرکین یہ گمان کرتے تھے کہ معجزہ ایسی چیز ہے‘ جو پیغمبر کے اختیار میں ہے‘ وہ جس وقت چاہیں‘ جہاں چاہیں اور جس مقصد کے لئے چاہیں‘ معجزہ دکھا سکتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ وہ لوگ آپ سے چشمہ جاری کرنے سونے کا گھر رکھنے‘ پہلے سے قیمتوں کی خبر دینے کا مطالبہ کرتے تھے‘ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ معجزہ خود وحی کی مانند ہے‘ اس طرف سے وابستہ ہے نہ کہ اس طرف سے۔ جس طرح وحی پیغمبر ۱کی خواہش کے تابع نہیں ہے‘ بلکہ اس طرف سے ایک فیضان ہوتا ہے‘ جو پیغمبر۱ کو اپنے زیراثر کر لیتا ہے‘ اسی طرح معجزہ بھی اس طرف سے ایک فیضان ہے‘ جو پیغمبر کے ارادے کو اپنے زیراثر کر لیتا ہے اور پیغمبر کے ذریعے سے جاری ہوتا ہے۔
اور وحی باذن اللہ ہونے کا مطلب بھی یہی ہے اور معجزہ بھی اذن خدا سے ظاہر ہوتا ہے اور سورة عنکبوت کی آیت نمبر ۵۰ کا بھی یہی مطلب ہے‘ جس سے راہب اور علمائے مسیحی غلط فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں:
انما الایات عنداللّٰہ و انما انا نذیر مبین
”نشانیاں اور معجزات تو خدا کے پاس ہیں اور میں تو صرف ڈرانے والا ہوں۔“
معجزے کے عنوان سے غیب کی خبر دینا بھی ایسا ہی ہے‘ یہ امر جہاں تک پیغمبر۱ کی ذات و شخصیت سے متعلق ہے‘ آپ ۱غیب سے بے خبر ہیں۔ قل لا اقول لکم انی ملک ولا اعلم الغیب ( سورہ انعام‘ آیت ۵۰) (اے رسول۱۱ کہہ دو کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میں فرشتہ ہوں اور مجھے غیب کا علم بھی نہیں)‘ لیکن جہاں پر پیغمبر غیب اور ماورائے طبیعت کے زیراثر ہوتے ہیں‘ وہاں پوشیدہ رازوں کی خبر دیتے ہیں اور جب آپ سے سوال کیا جاتا ہے کہ آپ نے کہاں سے اور کیسے جانا تو فرماتے ہیں کہ خدائے علیم و خبیر نے مجھے خبر دی ہے۔ اگر پیغمبر یہ فرماتے ہیں کہ میں غیب نہیں جانتا اور اگر میں غیب دان ہوتا‘ تو بہت سی دولت اس کے ذریعے سے حاصل کر لیتا۔
لوکنت اعلم الغیب لا استکثرت من الخیر( سورہ اعراف‘ آیت ۱۸۸)
 

صرف علی

محفلین
اس بات سے حضرت رسول خدا مشرکوں کی بات کا منہ توڑ جواب دینا چاہتے تھے کہ میرا غیب جاننا معجزے کی حد میں ہے اور ایک خاص مقصد اور وحی الٰہی کے وسیلے سے ہے۔ اگر میری غیب دانی میرے اپنے اختیار میں ہوتی اور اسے ہر مقصد کے واسطے کام میں لایا جا سکتا اور اس کے وسیلے سے جیبیں بھرنا ممکن ہوتا‘ تو بجائے اس کے کہ تمہیں منڈی کے بھاؤ کے متعلق پیشگی خبر دیتا‘ خود میں اپنی جیب بھرتا۔ قرآن مجید میں ایک اور جگہ پر ارشاد ہوتا ہے:
عالم الغیب لا یظہر علی غیبہ احدا الامن ارتضیٰ من رسول
( سورہ جن‘ آیات ۲۶‘ ۲۷)
”خداوند عالم عالم غیب کا جاننے والا ہے‘ وہ کسی کو اپنے غیب سے آگاہ نہیں کرتا‘ سوائے اس رسول کے جس کو اس کی رضا اور خوشنودی حاصل ہو۔“
یقینا رسول اکرم ان رسولوں میں سے ایک ہیں‘ جنہیں اللہ کی خوشنودی حاصل ہے۔ ان سب باتوں سے قطع نظر قرآن نے اپنی بہت سی آیات میں پیغمبروں کے معجزا ت کو بیان کیا ہے۔ حضرت ابراہیم کے معجزات‘ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ کے معجزات‘ اس صورت میں یہ کس طرح ممکن ہے کہ جس وقت پیغمبر اسلام سے لوگ معجزہ کے طالب ہوں‘ جیسا کہ گذشتہ پیغمبروں سے لوگ معجزہ دکھانے پر اصرار کرتے تھے اور وہ پیغمبر ان کی بات قبول بھی کرتے اور معجزہ دکھا دیا کرتے تھے‘ تو پیغمبر فرمائیں سبحان اللہ! میں ایک بھیجے ہوئے بشر سے زیادہ کچھ نہیں ہوں‘ کیا وہ لوگ (مشرکین) یہ بات کہنے کا حق نہیں رکھتے تھے کہ آیا وہ سب گذشتہ انبیاء جن کے معجزات خود آپ نہایت آب و تاب کے ساتھ نقل کرتے ہیں‘ بشر نہیں تھے؟ یا پیغمبر نہ تھے؟ آیا ممکن ہے‘ کہ ایسا صریح تناقض قرآن مجید میں پایا جائے؟ آیا ممکن ہے‘ کہ مشرکین ایسے تناقض کی طرف متوجہ نہ ہوئے ہوں؟
اگر روشن فکری کی یہ منطق صحیح ہو‘ تو پیغمبر کو بجائے اس کے کہ فرمائیں‘ سبحان اللہ میں ایک بشر سے زیادہ نہیں ہوں یہ فرمانا چاہئے تھا کہ سبحان اللہ میں خاتم الرسل ہوں‘ میں دوسرے پیغمبروں کے قاعدے سے مستثنیٰ ہوں‘ مجھ سے ان باتوں کا مطالبہ نہ کرو‘ جن کا مطالبہ گذشتہ پیغمبروں سے ان کی امت والے کیا کرتے تھے‘ نہ یہ کہ یہ فرمائیں کہ میں بھی ایک رسول ہوں‘ تمام رسولوں کی طرح۔ پس معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین جو چیز پیغمبر سے طلب کرتے تھے‘ وہ معجزہ یعنی حقیقت کو معلوم اور یقین حاصل کرنے کی غرض سے ”آیت“ و ”بینہ“، ”نشانی و دلیل“، حقیقت کی تلاش کرنے والوں کو جس کا حق حاصل تھا کہ اس کو پیغمبری کا دعویٰ کرنے والے سے طلب کرنا نہیں تھا‘ بلکہ وہ ایسی چیز تھی‘ جو عام طور سے پیغمبروں کی شان کے خلاف تھی کہ ایسی درخواستوں کو قبول کریں‘ یہی وجہ ہے جس کی بناء پر پیغمبر نے فرمایا کہ سبحان اللہ میری حیثیت ایک بشر اور رسول سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔
یعنی جو چیز تم مجھ سے چاہتے ہو‘ وہ ایسی چیز نہیں ہے‘ جسے ایک حقیقت کی جستجو کرنے والا رسولوں اور پیغمبروں سے طلب کرے اور رسولوں پر اس کا مثبت جواب دینا لازم ہو‘ یہ تو ایک دوسری چیز ہے‘ یہ ایک قرارداد اور معاملہ ہے‘ یہ صرف مجھے دیکھنا اور خدا کو نہ دیکھنا ہے اور (خدا سے غافل اور بے نیاز ہو کر) مستقلاً مجھ سے کچھ مانگنا ہے‘ یہ اظہار تکبر اور خودخواہی اور دوسروں کے مقابلے میں اپنے واسطے امتیاز ثابت کرنا ہے‘ یہ امور محال کے ایک سلسلہ کا تقاضا ہے اور مجھے اس امر کا اعتراف ہے کہ عوام کی خواہش اور ان کا میلان ہمیشہ معجزہ سازی کی طرف ہوتا ہے‘ نہ صرف پیغمبروں اور اماموں کے واسطے بلکہ ہر قبر‘ ہر پتھر اور ہر درخت کے واسطے‘ لیکن کیا یہ وجہ اس امر کا سبب ہو جائے گی‘ کہ ہم پیغمبر کے لئے (سوائے قرآن کے) ہر معجزہ و کرامت کو غیر ممکن سمجھ لیں؟ اس کے علاوہ معجزات اور کرامات کے درمیان فرق ہے‘ معجزہ یعنی الٰہی دلیل و نشانی جو خدا کی طرف سے مامور ہونے کو ثابت کرنے کے لئے وجود میں آتا ہے اور دوسرے الفاظ میں اس چیلنج کے ساتھ ہوتا ہے کہ اگر کوئی اس کی مثل لا سکتا ہو‘ تو لائے اس کے لئے کوئی الٰہی مقصد ضروری ہے‘ اس لئے وہ چند شرطوں کے ساتھ مخصوص ہے اور کرامت بھی ایک غیر معمولی امر ہے‘ جو صرف اثر و نتیجہ ہوتا ہے‘ اس روحانی قوت اور نفس کی پاکیزگی کا جو کسی انسان کامل یا نیم کامل میں پیدا ہو جاتی ہے اور یہ کسی الٰہی مقصد کے اثبات کے لئے مخصوص نہیں ہے۔ ایسے امور (جنہیں کرامت کہا جاتا ہے اور کرامت کی تعریف میں آتے ہیں) بہت زیادہ وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں‘ یہاں تک کہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک معمول کے مطابق فعل ہے اور کسی شرط سے مشروط نہیں ہے۔ معجزہ خدا کی زبان ہے‘ جو کسی شخص کی تائید کرتی ہے‘ لیکن کرامت ایسی زبان نہیں ہے۔
معجزہ کی قدر و قیمت اور افادیت
معجزے کی قدر و قیمت اور افادیت کتنی ہے؟ علمائے منطق و فلسفے نے ان مطالب کو جو کسی استدلال کے موقع پر کام میں لائے جاتے ہیں‘ ان کی قدر و قیمت کے لحاظ سے چند قسموں میں تقسیم کیا ہے‘ ان عناصر میں سے بعض برہانی اور استدلالی اہمیت رکھتے ہیں اور علمی و عقلی تردید کی گنجائش باقی نہیں چھوڑتے‘ جیسے وہ عناصر جنہیں ایک ریاضی دان اپنے استدلال کے لئے استعمال کرتا ہے اور بعض کا تعلق صرف قانع کر دینے کی حد تک ہوتا ہے‘ جیسے وہ عناصر اور مواد جنہیں مقررین و خطبا اپنی تقاریر میں استعمال کرتے ہیں اور جن کی اگر موشگافی کی جائے تو بسا اوقات وہ استدلال صحیح نہیں ہوتا لیکن اگر ان میں دقت نہ کی جائے تو عملاً ایک حرکت و بیداری پیدا کرتے ہیں‘ بعض اجزاء و عناصر میں صرف جذباتی کیفیت ہوتی ہے‘ اور وہ صرف جذبات کو ابھارنے کا کام دیتے ہیں اور بعض عناصر دوسری کیفیتوں اور اہمیتوں کے حامل ہوتے ہیں۔
 

صرف علی

محفلین
معجزوں کی اہمیت و افادیت قرآن کی نظر میں
قرآن مجید جس طرح آثار خلقت کو ”خدا کی نشانیاں“ اور خدا کے وجود کی ناقابل تردید قطعی دلیل سمجھتا ہے‘ اسی طرح انبیاء کے معجزات کو بھی کھلی ہوئی نشانیوں کے عنوان سے بیان کرتا ہے اور انہیں ان کے پیش کرنے والوں (انبیاء ) کے دعوؤں کی سچائی پر دلیل قاطع اور عقلی و منطقی جہت شمار کرتا ہے۔
قرآن نے معجزے کے بارے میں تفصیل سے بحث کی ہے اور پیغمبروں سے ان لوگوں کی طرف سے معجزہ طلب کرنے کو جو بغیر دلیل و شہادت کے (دعوائے نبوت) کی تصدیق کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے تھے‘ معقول و منطقی قرار دیا ہے اور پیغمبروں کی طرف سے نشانی اور دلیل طلب کرنے کی حد میں (یعنی ایسی معقول اور منطقی حد میں جو ان کی سچائی کی دلیل ہو‘ نہ کہ ان لوگوں کی خواہشات کی حد میں کہ جو پیغمبروں سے نفع کمانے یا خود کو مصروف رکھنے یا تماشا دیکھنے کی غرض سے معجزہ طلب کرتے تھے)‘ مثبت اور عملی جواب کو بڑے خوبصورت انداز میں نقل کیا ہے اور بہت سی آیتوں کو اس کے ساتھ مخصوص کیا ہے۔ قرآن مجید نے اس امر کی طرف معمولی سا اشارہ بھی نہیں کیا ہے کہ معجزہ صرف ان سادہ لوح‘ معمولی اور عامیانہ ذہنوں کے لئے (جو بشر کے دور طفلی سے مناسبت رکھتے ہیں) قانع اور مطمئن کرنے والی دلیل ہے بلکہ معجزے کو برہان کا نام دیا ہے۔
(ملاحظہ فرمائیں تفسیرالمیزان‘ سورہ بقرہ کی آیت ۲۳ کے ذیل میں اور کتاب وحی نبوت از آقائے تقی شریعتی‘ ص ۲۱۴)
پیغمبر کی ہدایت کا رخ
معجزہ خاتمیت اس لحاظ سے کہ کتاب ہے اور قول و بیان و علم و زبان کی صنف سے ہے‘ ہمیشہ باقی رہنے والا ہے۔ اس کتاب اعجاز کے گوشے تدریجاً اور آہستہ آہستہ زیادہ روشن ہوتے جاتے ہیں‘ آج قرآن مجید کے بہت سے تعجب خیز امور ہمارے زمانے کے لوگوں پر ظاہر اور واضح ہوئے ہیں‘ جو اس سے پہلے ظاہر نہیں تھے اور یہ بات کل تک ممکن بھی نہیں تھی‘ قرآن مجید کو دانش ور طبقہ عام لوگوں سے بہتر سمجھتا ہے۔ اسی لحاظ سے حضرت رسول خدا کا معجزہ کتاب کی نوع سے قرار دیا گیا ہے تاکہ یہ دور خاتمیت سے مناسب رکھتا ہو‘ لیکن___
کیا یہ معجزہ اس لحاظ سے کتاب کی نوع سے قرار دیا ہے کہ ضمناً انسان کو غیب و شہود کی طرف‘ نامعقول سے عقلی و منطقی امور کی طرف اور ماورائے طبیعت سے طبیعت کی طرف رہنمائی کرے؟ کیا حضرت محمد ۱کی یہ کوشش تھی کہ لوگوں کی تلاش و جستجو کا رخ غیر عادی امور اور کرامات و خوارق عادات کی طرف سے عقلی و منطقی‘ علمی و طبیعی‘ اجتماعی و اخلاقی امور کی طرف موڑ دیں اور عجیب و غریب امور کے سلسلے میں ان کی دلچسپی کو واقعات و حقائق کی طرف موڑ دیں۔
ظاہراً معلوم نہیں ہوتا کہ یہ نظریہ صحیح ہو اور اگر یہ نظریہ صحیح ہو‘ تو ہمیں یہ کہنا چاہئے کہ تمام انبیاء غیب کی طرف دعوت دیتے تھے اور محمد ۱محسوس اور ظاہری چیزوں کی طرف دعوت دیتے تھے لیکن پھر قرآن کریم کی سینکڑوں آیتیں انہیں ”عجیب و غریب امور“ کے ساتھ کیوں مخضوص کی گئی ہیں‘ بے شک قرآن کا ایک بنیادی امتیاز آیات الٰہی ہونے کے اعتبار سے عالم شہادت و طبیعت کے مطالعے کی دعوت دینا بھی ہے‘ لیکن طبیعت کے مطالعے کی دعوت کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ذہنوں کو ہر غیر طبیعی امر کی طرف سے موڑ دیا جائے‘ بلکہ اس کے برعکس آیات اور نشانیوں کی حیثیت سے طبیعت کے مطالعے کی دعوت دینا طبیعت سے ماورائے طبیعت کی طرف عبور کرنے کے معنی میں ہے۔ قرآن کی نظر میں غیب کا راستہ عالم شہود سے‘ ماورائے طبیعت کار استہ طبیعت سے اور معقولات کا راستہ محسوسات سے ہو کر گذرتا ہے۔
حضرت محمد کے کام کی اہمیت اس میں ہے کہ جس طرح آپ طبیعت‘ تاریخ اور معاشرے میں غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں اور ان لوگوں کو جو غیر طبیعی امور کے سوا کسی بات کو تسلیم نہیں کرتے تھے‘ عقل و منطق اور علم کے ذریعے دین کا تابع و مطیع بناتے ہیں۔ اسی طرح آپ کوشش کرتے ہیں کہ ان لوگوں کی قوت فکر کو بھی جو عقل و منطق کا دم بھرتے ہیں اور عقلی و طبیعی و محسوس چیزوں کے علاوہ کسی چیز کو نہیں مانتے ایک برتر و بلند تر منطق سے آشنا کریں۔ اس دنیا و مافیا کے متعلق جو نظریہ عمومی طور پر مذہب اور بالخصوص اسلام پیش کرتا ہے‘ اس کو ان نظریات کے مقابلے میں جس کو انسانی علوم اور خالص فلسفے پیش کرتے ہیں‘ جو بنیادی امتیاز حاصل ہے‘ وہ یہ ہے کہ بقول ولیم جیمز مذہبی نظریات میں ایسے عناصر پائے جاتے ہیں‘ جو مادی عناصر کے علاوہ ہیں اور ان میں ایسے قوانین بھی موجود ہیں‘ جو انسانی معاشرے کے جانے پہچانے قوانین سے مختلف ہیں‘ قرآن نہیں چاہتا کہ طبیعت و محسوسات کی طرف توجہ کو ماورائے طبیعت اور غیر محسوس امور کا جانشین بنا دے۔ قرآن کی اہمیت اسی میں ہے کہ کائناتی مطالعے کی طرف خاص توجہ کے باوجود (جسے قرآن میں ”شہادت“ سے تعبیر کیا گیا ہے) غیب پر ایمان لانے کو اپنی دعوت میں سرفہرست قرار دیا ہے۔
الم‘ ذالک الکتاب لاریب فیہ ھدی للمتقین الذین یومنون بالغیب
( سورہ بقرہ‘ آیت ۱۔۳)
یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ قرآن ان امور سے لوگوں کو منحرف کرنے کی فکر میں ہو‘ جب کہ وہ خود بھی ”عجیب و غریب امور“ سے ہے یعنی معجزہ ہے‘ اس کے علاوہ اس نے ایک سو سے زیادہ آیات ”انہی عجیب و غریب امور“ سے متعلق پیش کی ہیں‘ میری سمجھ میں اس جملے کے معنی نہیں آتے کہ کتاب خدا وہ واحد و تنہا معجزہ ہے‘ جس کا اعتقاد محض امور غیبی کے معتقدین پر منحصر نہیں ہے‘ کیا اور کیسا اعتقاد؟ کیا یہ اعتقاد کہ یہ ایک کتاب ہے؟ اور بہترین مطالب پر مشتمل ہے؟ یا یہ عقیدہ کہ یہ معجزہ ہے؟ کسی چیز کے الٰہی دلیل ہونے کے معنی میں معجزہ ہونے پر ایمان غیب پر ایمان کے مساوی ہے‘ کیسے ممکن ہے کہ کوئی شخص بیک وقت غیب پر ایمان بھی رکھتا ہو اور اس سے عاری بھی ہو؟
یہ بھی کہا گیا ہے کہ ”محمد کا معجزہ غیر بشری امور کی صنف سے نہیں ہے‘ اگرچہ ایک غیر بشری فعل ہے۔“ اس جملے کے معنی بھی میرے لئے مبہم ہی ہیں اور اس کی تفسیر دو طرح سے کی جا سکتی ہے‘ ایک یہ کہ محمد کا معجزہ (قرآن) اس بناء پر کہ وحی ہے نہ کہ خود آنحضرت کا قول پس ایک غیر بشری عمل ہے‘ لیکن اس کے ساتھ ساتھ جہاں وہ قول بشری نہیں ہے بلکہ قول خدا ہے‘ وہاں امور بشری سے بھی ہے اور ایک ایسا عادی کام ہے‘ جو بشری کاموں کے مترادف ہے‘ میرے خیال میں یہ بعید معلوم ہوتا ہے کہ جملہ کا مطلب یہ ہو (جو بیان کیا گیا) کیوں کہ اس صورت میں قرآن کو دوسری آسمانی کتابوں کے مقابلے میں کوئی امتیاز حاصل نہیں ہے‘ اس وجہ سے کہ وہ تمام کتابیں مبدائے وحی سے صادر ہوئی ہیں‘ لہٰذا غیر بشری فعل ہے‘ لیکن اس لحاظ سے کہ کوئی غیر معمولی پہلو نہیں رکھتیں غیر بشری امور سے نہیں ہیں‘ جیسا کہ ہمارے پاس کچھ ایسے کلمات ہیں‘ جو احادیث قدسیہ کے نام سے مشہور ہیں اور عین وہ بھی کلام خدا ہیں‘ جو وحی و الہام کئے گئے ہیں‘ لیکن ان کا تعلق غیر بشری امور سے نہیں ہے۔
قرآن مجید کو تمام آسمانی کتابوں اور احادیث قدسیہ پر جو امتیاز حاصل ہے‘ وہ اسی وجہ سے ہے کہ یہ ایک غیر بشری امر بھی ہے‘ یعنی وحی ہے اور غیر بشری امور سے بھی ہے‘ یعنی اعجاز اور قدرت مافوق البشر کی حد میں ہے‘ اسی لئے قرآن کہتا ہے:
قل لئن اجتمعت الانس و الجن علی ان یا تو ابمثل ھذا القرآن لا یاتون بمثلہ ولو کان بعضھم لبعض ظھیرا( سورہ اسراء‘ آیت ۸۸)
”اے رسول کہہ دو اگر تمام جن و انس اس بات کے لئے جمع ہو جائیں کہ اس قرآن کی مثل بنا لائیں‘ تو وہ اس کی مثل نہ لا سکیں گے اگرچہ وہ ایک دوسرے کے مددگار اور پشت پناہ بھی ہوں۔“
اس جملے کی دوسری تفسیر یہ ہے کہ حضرت محمد کا معجزہ‘ سابقہ تمام انبیاء کے معجزات جیسے عصا کو اژدھا بنا دینا اور مردوں کو زندہ کر دینا کہ جن کا تعلق بشری فعل کی نوعیت سے نہیں ہے‘ کے برخلاف بشری کاموں کی نوع سے ہے کیوں کہ اس کا تعلق کلام و بیان و علم اور کلچر سے ہے‘ لیکن اس کے باوجود ایک غیر بشری عمل اور فعل ہے‘ یعنی بشری طاقت سے باہر ہے‘ اس کا سرچشمہ ایک غیبی اور ماورائے طبیعی طاقت ہے‘ اگر مقصود یہ ہو‘ اور یہی ہونا بھی چاہئے تو یہ خود غیب کا‘ ماورائے طبیعت کا‘ خارق العادت کا اور بالآخر ان تمام چیزوں کا اقرار و اعتراف ہے‘ جنہیں عجیب و غریب امور کہا جاتا ہے‘ پھر کیوں شروع سے ہم معجزے اور خارق عادت امور کو خرافات و نامعقول امور کی مانند سمجھیں۔ کیا ہمیں شروع سے ہی معجزے اور غیر معمولی فعل کے حساب کو خرافات و اوہام کے حساب سے جدا رکھنا نہیں چاہئے تھا تاکہ ناواقف اور کم علم افراد ان تعبیرات سے کچھ اور نہ سمجھیں‘ جو ہمارا مقصد بھی نہیں ہے اور بنیادی طور پر ”پیغمبر اسلام کی کتاب معجزہ ہے“ جیسی مشہور تعبیر کو بدل کر ہم یہ کیوں کہیں کہ ”پیغمبر کا معجزہ کتاب ہے“ تاکہ نامناسب تعبیر و تفسیر کرنے کی گنجائش پیدا ہو۔
اسی محترم دانش ور کا ایک مقالہ تہران یونیورسٹی کے شعبہ ادبیات کے رسالہ ”فلق“ میں قرآن اور کمپیوٹر کے زیرعنوان شائع ہوا تھا‘ جس کو مسئلہ اعجاز کے بارے میں ان کے نقطہ نظر کی تصحیح اور ان کے غور و فکر کی تدریجی ترقی و ارتقاء کی علامت سمجھا جا سکتا ہے۔
اس مقالے میں قرآن مجید کے الفاظ کو کمپیوٹر کی علامتوں سے بدلنے اور قرآن کی حقیقتوں کے کشف و اظہار کے لئے انسانی ترقی و تمدن کے اس عظیم مظہر (کمپیوٹر) سے استفادہ کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے‘ جو درحقیقت بہت بہرمحل پیشکش ہے‘ پھر اس مقالے میں ان بعض مصری دانش وروں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے‘ جنہوں نے اس سلسلے میں بہت کام کیا ہے‘ اور اس کے ساتھ بعض ایرانی مسلمان انجینئروں کی طرف بھی اشارہ کیا ہے‘ جو اس سلسلے میں کام کرنے کا ارادہ کر سکتے ہیں یا کر چکے ہیں‘ اس کے بعد ”قرآن کا اعجاز کیسے ثابت کیا جا سکتا ہے“ کے عنوان سے اسی مقالے میں ایک دلچسپ بحث کی ہے اور اسی کے ضمن میں ایک نہایت اہم اور قیمتی کتاب ”سیرتحویل قرآن“ کی طرف اشارہ کیا ہے‘ جو حال ہی میں شائع ہو کر منظرعام پر آئی ہے اور اس کتاب کے بلند پایہ مولف کی گراں قدر کشف و تحقیق کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے ثابت کیا ہے کہ آیتوں کے چھوٹے بڑے ہونے اور رسول اکرم پر وحی شدہ کلمات میں روز بروز اضافے نے ۲۳ سال کی مدت میں ایک دقیق منظم اور خارق عادت منحنی قائم کی ہے۔
پھر خود اس طرح اضافہ کرتے ہیں:
”دنیا میں کون مقرر اور سخن ور ایسا ہے‘ جس کی عبادت کی لمبائی سے ہر جملہ کی ادائیگی کا سال معین کیا جا سکتا ہے؟ بالخصوص جب کہ یہ عبارت کسی ایسی کتاب کا متن نہ ہو‘ جو ایک ادیب یا علمی شخصیت کا شاہکار ہو‘ اور جو اس کی طرف سے ایک معین وقت میں رشتہ تحریر میں لایا گیا ہو بلکہ یہ وہ کلام ہے جو ایک انسان کی پرتلاطم زندگی کے ۲۳ برسوں میں اس کی زبان پر جاری ہوا‘ خاص کر جب ایسی کتاب بھی نہ ہو‘ جو کسی خاص موضوع یا معین شدہ عنوان کے تحت تالیف کی گئی ہو بلکہ جس میں طرح طرح کے ایسے مسائل ہوں‘ جو معاشرے کی ضرورتوں کے پیش نظر اور مختلف سوالات کے جوابات کے طور پر عنوان کئے گئے ہوں‘ ایسے حوادث و واقعات یا مسائل جو ایک طویل جدوجہد کے دوران پیش آتے ہیں اور ایک رہبر و رہنما کے ذریعے سے بیان ہوتے ہیں اور پھر انہیں منظم شکل میں جمع کر لیا جاتا ہے۔
(رسالہ فلق‘ کتاب اول‘ ص ۲۵)
 

صرف علی

محفلین
قرآن
قرآن کریم ہماری آسمانی کتاب اور ہمارے پیغمبر کا جاویدانی معجزہ ہے۔ یہ کتاب ۲۳ سال کی مدت میں تدریجاً ہمارے پیغمبر پر نازل ہوئی‘ قرآن کریم جو پیغمبر اکرم کی کتاب بھی ہے اور آپ کے اعجاز کا مظہر بھی‘ یہ کتاب عصائے موسیٰ اور دم عیسیٰ کے اثر سے صدہا گنا بزرگ و عظیم اثرات کی حامل ہے‘ پیغمبر اکرم لوگوں کے سامنے آیات قرآنی کی تلاوت فرماتے تھے اور ان آیات کی کشش و جاذبیت لوگوں کو اسلام کی طرف کھینچ لیتی تھی‘ تاریخ اسلام میں اس موضوع سے متعلق واقعات کی تعداد شمار کی حد سے باہر ہے۔ قرآن مجید ۱۱۴ سورتوں کا مجموعہ ہے اور یہ تمام سورتیں تقریباً ۲۶۰۵ آیتوں پر مشتمل ہیں اور ان تمام آیتوں میں ۷۸ ہزار کلمے ہیں۔
مسلمانوں نے صدر اسلام سے لے کر عصر حاضر تک قرآن پر بے انتہا توجہ دی ہے اور اس کے اہتمام کے سلسلے میں بے مثال دلچسپی کا ثبوت دیا ہے‘ جو قرآن کے ساتھ ان کی عقیدت کی دلیل ہے۔
قرآن کریم رسول اکرم کے مبارک زمانے ہی میں ایک جماعت کے ذریعے جسے خود حضرت رسول خدا نے ہی معین فرمایا تھا اور جو کاتبان وحی کے نام سے مشہور ہوئی‘ لکھا جاتا رہا اس کے علاوہ اکثر مسلمان مرد اور عورتیں‘ چھوٹے اور بڑے پورا قرآن یا اس کی اکثر آیتوں کے زبانی یاد کرنے سے ایک عجیب عشق رکھتے تھے‘ قرآن کو نمازوں میں بھی پڑھتے تھے اور نمازوں کے علاوہ بھی دوسرے اوقات و حالات میں اس کی تلاوت کو ثواب سمجھتے تھے۔
اس کے علاوہ قرآن مجید کی تلاوت سے (روحانی) لذت حاصل کرتے تھے اور تلاوت قرآن ان کی روح کے آرام و سکون کا سرمایہ تھی۔
قرآن کیلئے مسلمانوں کی عظیم کوشش
مسلمانوں نے ہر زمانے میں اپنی آسمانی کتاب سے شوق و عشق کی بناء پر اپنے علمی و فکری وسائل کے مطابق قرآن مجید کے سلسلے میں کام کئے ہیں‘ جیسے اسے حفظ کرنا اور اپنے سینوں کے سپرد کر دینا‘ قرات و تجوید کے اساتذہ اور ماہرین کی قرات‘ معانی کی تفسیر‘ لغات کی تشریح و توضیح کے لئے مخصوص لغت کی کتابوں کی تصنیف و تالیف‘ تمام آیتوں کلموں یہاں تک کہ پورے قرآن میں جتنے حروف ہیں‘ ان کو بھی شمار کر لینا‘ یہ سب کام بڑی محنت سے کئے گئے ہیں۔ قرآن کے معانی و مطالب پر باریک بینی کے ساتھ تحقیق اور قانونی‘ اخلاقی‘ اجتماعی‘ فلسفی‘ عرفانی اور سائنسی مسائل میں قرآن مجید سے استفادہ کرنا‘ اپنے اقوال اور تحریروں کو قرآنی آیات سے زینت دینا‘ قرآنی آیات کے نفیس کتبے تیار کرنا یا چونے کے اوپر آیتوں کا لکھنا‘ ٹائلوں یا دوسری چیزوں پر قرآنی سورتوں اور آیتوں کو خوش خط و خوش نما خطوط اور طرز تحریر سے لکھنا‘ سنہرے حروف میں قرآن نویسی‘ اپنے لڑکے اور لڑکیوں کو ہر علم سکھانے سے پہلے قرآن کی تعلیم دینا‘ قرآن کو پڑھنے اور سمجھنے کے لئے علم صرف و نحو کے قواعد کی ترتیب و تدوین اور اس کی باریکیوں کو سمجھنے کے لئے‘ علم معانی و بیان و بدیع کی اختراع و ایجاد‘ عربی زبان کی تمام لغات کو جمع کرنا وغیرہ وغیرہ۔
اس کے علاوہ قرآن سے مسلمانوں کے عشق و محبت ہی کا نتیجہ تھا‘ جو عقلی و ادبی علوم کا ایک سلسلہ وجود میں آیا ورنہ اگر قرآن نہ ہوتا‘ تو یہ علوم بھی وجود میں نہ آتے۔
اعجاز قرآن
قرآن مجید حضرت رسول خدا کا ہمیشہ رہنے والا معجزہ ہے‘ مکہ میں نازل ہونے کی ابتداء ہی سے جب کہ چھوٹی چھوٹی سورتوں سے آغاز نزول ہوا‘ تو رسول اکرم نے باقاعدہ طور پر اس کا مثل و مانند لانے کے لئے کفار مکہ کو چیلنج کیا‘ یعنی آپ نے یہ دعویٰ کیا کہ قرآن میرا کلام نہیں ہے بلکہ اللہ کا کلام ہے یا کسی اور بشر کے بس میں نہیں ہے کہ وہ اس کی نظیر پیش کر سکے اور اگر تمہیں یقین نہ ہو تو اس کی آزمائش کر لو‘ لیکن یہ جان لو‘ اگر تمام جن و انس بھی ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دیں‘ تاکہ اس قرآن کا مثل لے آئیں‘ تو بھی وہ اس پر قادر نہ ہوں گے۔
پیغمبر کے مخالفین نہ تو اس زمانے میں اور نہ اس کے بعد سے آج تک جس کو چودہ صدیاں گذر گئیں (بلکہ اس سے بھی زیادہ عرصہ گذر گیا) اس چیلنج کا جواب دے سکے ہیں۔ اس زمانے کے مخالفین کا آخری جواب یہ تھا کہ یہ تو جادو ہے۔ مخالفین کا یہ الزام خود قرآن مجید کے غیر معمولی ہونے کا اعتراف اور قرآن کے مقابلے میں ان کا ایک طرح کا اظہار عاجزی ہے۔ پیغمبر اکرم کے دشمنوں نے جہاں تک ممکن تھا‘ ان کو کمزور و مغلوب کرنے کے لئے کسی موقع کو ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ البتہ صرف ایک کام تھا‘ جس پر انہوں نے کوئی اقدام نہیں کیا‘ کیوں کہ وہ اس کام میں سو فیصد ناامید تھے‘ یعنی یہ کام وہی تھا‘ جس کا بار بار پیغمبر اسلام نے اعلانیہ طور پر چیلنج کیا تھا‘ مگر ان کے پاس اس کا کوئی جواب ہی نہیں تھا۔
خود قرآن مجید نے بھی اس امر کی تصریح کی ہے‘ یعنی قرآن کی مانند کم از کم ایک سورہ لانے کا چیلنج (اگرچہ ایک سطر کی صورت ہی ہو‘ جیسے سورہ انااعطیناک الکوثر)۔
قرآن کے معجزانہ پہلو
قرآن کریم مختلف پہلوؤں کے اعتبار سے معجزہ‘ یعنی طاقت بشری سے بالاتر ہے‘ یہاں پر ہم اس کے بارے میں مختصر طور پر گفتگو کریں گے۔ قرآن کریم کا معجزہ ہونا کلی اعتبار سے دو جہات سے ہے۔ ایک لفظی دوسری معنوی‘ قرآن کا لفظی اعجاز حسن و زیبائی کی صنف سے ہے اور اس کا معنوی اعجاز علمی دنیا سے متعلق ہے‘ پس قرآن کا اعجاز ایک تو زیبائی اور ہنر کے پہلو سے ہے اور دوسرے فکری و علمی پہلو سے۔ ان دونوں پہلوؤں میں سے ہر ایک خصوصاً علمی پہلو کئی گوشوں کا حامل ہے۔(۱)
 

صرف علی

محفلین
الفاظ قرآن
قرآن مجید کا اسلوب نہ شعری ہے اور نہ نثری۔ شعری اس وجہ سے نہیں ہے کہ اس میں وزن اور قافیہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ شعر عام طور سے ایک شاعرانہ تخیل کے تحت وجود میں آتا ہے۔ شعر کی بنیاد یا صحت و درستی مبالغہ و افراط پر ہوتی ہے‘ جو ایک طرح کا جھوٹ ہے۔ قرآن میں نہ تو شعری تخیلات کا وجود ہے اور نہ خیالی تشبیہات کا۔ اس کے ساتھ ساتھ قرآن نثر بھی نہیں ہے کیوں کہ اسے جو نظم‘ آہنگ اور ایک (مخصوص انداز) موسیقی حاصل ہے‘ وہ کسی نثری کلام میں آج تک دیکھنے یا سننے میں نہیں آئی۔ مسلمانوں نے ہمیشہ قرآن کریم کی تلاوت اس کے مخصوص انداز میں خوش لحنی کے ساتھ کی ہے اور کرتے ہیں‘ دینی احکام میں یہ موجود ہے کہ قرآن کریم کو اچھے انداز سے پڑھا کرو۔ آئمہ اطہار علیہم اسلام کبھی کبھی اپنے گھروں میں ایسی دلربا و دلکش آواز میں تلاوت کرتے تھے کہ اس گلی میں راستہ چلنے والے ٹھہر جاتے تھے۔ کوئی بھی نثری کلام قرآن کی طرح آہنگ نہیں رکھتا‘ وہ بھی ایسا انداز و آہنگ جو روحانی عوامل سے مناسبت رکھتا ہو نہ کہ ایسا آہنگ جو لہو و لعب کی محافل سے مناسبت رکھتا ہو۔ ریڈیو کی ایجاد کے بعد کوئی بھی روحانی کلام روحانی آوازوں کے متحمل ہونے اور دلکشی و دلربائی کے لحاظ سے قرآن کی برابری نہیں کر سکا۔ اسلامی ملکوں کے علاوہ دوسرے غیر اسلامی ملکوں نے بھی اس کے دلکش آہنگ کی وجہ سے ہی اپنے ریڈیو کے پروگراموں میں اسے جگہ دی ہے۔
عجیب بات یہ ہے کہ قرآن کریم کا حسن صورت اور اس کی زیبائی و دلکشی نے زمان و مکان کے پردوں کو لپیٹ کر پیچھے پھینک دیا ہے۔ بہت سی باتیں اور بہت سے کلاموں کی دلکشی کسی خاص وقت اور زمانے سے مربوط ہوتی ہے‘ جو دوسرے زمانے کے ذوق سے قطعاً میل نہیں کھاتی یا وہ کلام کم از کم کسی ایک قوم و ملت کے مذاق کے مطابق ہوتا ہے‘ جو مثلاً کسی مخصوص زبان سے بہرہ مند ہوتے ہیں‘ لیکن قرآن کی زیبائی اور دلکشی نہ تو کسی زمانے سے مخصوص ہے اور نہ کسی جگہ‘ قوم و نسل اور زبان والوں سے۔ وہ تمام لوگ جو قرآن کے مفاہیم اور زبان سے آشنا ہو گئے ہیں‘ انہوں نے اس کو اپنے ذوق کے مطابق پایا ہے‘ جتنا بھی زمانہ گزرتا جاتا ہے اور جس قدر مختلف قومیں قرآن سے آشنائی حاصل کرتی جاتی ہیں‘ اتنی ہی قرآن کی خوبیوں سے متاثر اور اس کی زیبائی و دلکشی پر فریفتہ ہوتی جاتی ہیں۔
متعصب یہودیوں اور عیسائیوں اور چند دوسرے مذاہب کے ماننے والوں نے ان اسلامی چودہ صدیوں کی طویل مدت کے دوران قرآن کی عظمت و منزلت کو گھٹانے اور کمزور کرنے کے لئے طرح طرح سے مقابلے کئے ہیں اور قسم قسم کے ہتھکنڈے آزمائے ہیں۔ کبھی قرآن میں تحریف ہونے کا پروپیگنڈہ کیا‘ کبھی قرآن میں بیان شدہ بہت سے قصوں کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کی اور کبھی دوسرے مختلف طریقوں سے قرآن کے خلاف سرگرم عمل رہے‘ لیکن کبھی انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ اپنے ماہر اور تجربہ کار مقرروں اور ادیبوں سے مدد حاصل کر کے قرآن کے چیلنج کا جواب دیں اور قرآن کی مانند کم از کم چھوٹا سا ہی سورہ بنا لائیں اور دنیا والوں کے سامنے پیش کر دیں۔ اسی طرح تاریخ اسلام میں بھی بہت سے ایسے افراد پیدا ہوئے ہیں‘ جو اصطلاح میں ”زنادقہ“ یا ”ملاحدة“ کے نام سے پکارے جاتے ہیں اور ان میں سے چند افراد تو غیر معمولی شہرت کے مالک تھے‘ اس گروہ نے بھی مختلف طریقوں سے دین کے خلاف عام طور پر اور قرآن کے خلاف خاص طور پر بہت سی باتیں کہیں ہیں‘ ان میں سے کئی افراد تو عربی زبان میں فن خطابت کے بادشاہ شمار کئے جاتے ہیں‘ کبھی کبھی یہ لوگ بھی قرآن کے ساتھ نزاع اور مخاصمت پر اتر آتے ہیں‘ لیکن ان سب طریقوں کا جو تنہا نتیجہ نکلا ہے‘ وہ یہ کہ انہوں نے قرآن کی عظمت کو روشن تر اور اس کے مقابلے میں اپنے کو حقیر تر ظاہر کر دیا ہے۔
تاریخ نے اس موقع پر ابن راوندی‘ ابوالعلا معری اور عرب کے نامور شاعر ابولطیب متنبی کے متعلق بہت سی کہانیاں اس بارے میں ثبت کی ہیں- یہ وہ لوگ تھے‘ جنہوں نے قرآن کو ایک بشری فعل ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔
بہت سے افراد نبوت کا دعویٰ کر کے اٹھے اور انہوں نے کچھ کلام پیش کئے‘ جو ان کے خیال میں قرآن کے مشابہ تھے اور ان لوگوں نے یہ دعویٰ کیا کہ ان کے یہ کلام بھی قرآن کی مانند ہیں اور خدا کی طرف سے ہیں ”طلیحہ“ اور ”مسیلمہ“ اور ”سجاح“ کا تعلق اسی گروہ سے ہے۔ اس گروہ نے بھی بالآخر ایک دوسری طرح سے اپنی عاجزی اور قرآن مجید کی عظمت کو واضح و روشن کیا۔
عجیب بات یہ ہے کہ خود پیغمبر کا کلام جن کی زبان مقدس پر کلام الٰہی جاری ہوا‘ قرآن سے مختلف ہے۔ پیغمبر خدا کے بہت سے کلمات‘ خطبوں‘ دعاؤں‘ مختصر جملوں اور حدیثوں کی شکل میں موجود ہیں اور فصاحت کی انتہائی بلندی پر ہیں‘ مگر کسی طرح سے بھی قرآن کا رنگ و بو اس کے اندر موجود نہیں ہے۔ یہ خود اس امر کی واضح دلیل ہے کہ قرآن اور پیغمبر کے کلام کے سرچشمے الگ الگ ہیں۔ قرآن کا منبع اور ہے اور احادیث کا منبع دوسرا ہے۔ حضرت علی تقریباً ۱۰ سال کی عمر سے قرآن سے آشنا ہیں‘ یعنی علی کا سن مبارک مذکورہ حدود میں تھا کہ قرآن کی ابتدائی آیتیں نازل ہوئیں اور علی اس پیاسے کی طرح جو صاف و شفاف پانی تک پہنچ جائے‘ ان آیتوں کو حفظ فرما لیا کرتے تھے اور پیغمبر اکرم ۱کی آخری عمر مبارک تک علی کا نام کاتبان وحی میں سرفہرست تھا۔ علی حافظ قرآن تھے اور ہمیشہ قرآن کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ راتوں کو جب عبادت کے لئے کھڑے ہوتے تھے‘ تو آیات قرآنی کی تلاوت سے خوش رہتے تھے۔ ان تمام چیزوں کے باوجود اگر قرآن کی بناوٹ اور ترتیب اور اس کا اندازہ تقلید کے قابل ہوتا‘ تو علی کو اس بے نظیر صلاحیت کی بناء پر جو آپ کو فصاحت و بلاغت کے میدان میں حاصل تھی اور قرآن کے بعد آپ کے کلام کی کوئی نظیر اور مثال نہیں مل سکتی‘ قرآن کے انداز بیان کے زیراثر ہونے کی بناء پر قرآن ہی کے طرز و انداز کی پیروی کرنا چاہئے تھی اور آپ کے تمام خطبے اور تمام تحریریں خود بخود آیات قرآنی کی شکل میں ڈھل جاتیں‘ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کا انداز علی کے کلام کے انداز سے مکمل طور پر مختلف اور جدا ہے۔ حضرت علی اپنے روشن اور فصیح و بلیغ خطبوں کے ضمن میں جب کبھی کوئی قرآنی آیت پیش کرتے تو وہ آپ کے کلام سے بالکل علیحدہ محسوس ہوتی‘ بالکل ایسے ہی جیسے کوئی بڑا ستارہ چھوٹے ستاروں کے درمیان اپنی غیر معمولی چمک دمک اور امتیازی شان کا حامل ہوتا ہے۔ قرآن مجید نے ایسے موضوعات کو پیش نہیں کیا ہے‘ جو عام طور سے تقریر و خطابت میں انسان کی ہنرنمائی کا ذریعہ ہوتے ہیں اور اگر لوگ اپنی خطابت کے جوہر دکھانا چاہتے ہیں تو فخر‘ مدح‘ ہجو (کسی کی مذمت کرنا)‘ مرتبہ‘ غزال اور قدرتی حسن و جمال کی تعریف و توصیف کے ذریعے اپنی تقریروں اور اپنے کلام میں خوبصورتی اور جاذبیت پیدا کرتے ہیں۔
قرآن نے نہ تو ان موضوعات کو پیش کیا ہے اور نہ ان موضوعات کے بارے میں داد سخن دی ہے۔ قرآن نے جن موضوعات کو پیش کیا ہے‘ وہ سب کے سب معنوی ہیں اور توحید‘ معاد‘ نبوت‘ اخلاق‘ احکام‘ مواعظ و نصائح اور قصوں سے عبارت ہیں اور ان سب حالات میں دلکشی و زیبائی کی اعلیٰ منزل پر پہنچا ہوا ہے۔
قرآن کریم میں کلمات کی ترتیب و تنظیم بے نظیر و بے عدیل ہے‘ آج تک کوئی شخص بھی قرآن مجید کی حسن و زیبائی پر دھبہ ڈالے بغیر قرآن کے ایک کلمے کو بھی ادھر سے ادھر نہیں کر سکا ہے اور نہ آج تک کوئی شخص قرآن کی نظیر لا سکا ہے۔ اس لحاظ سے قرآن ایک حسین و خوش نما عمارت کی مانند ہے کہ نہ تو کوئی شخص اس میں تبدیلی اور اس کے اجزاء کو ادھر سے ادھر کر کے اس کی زیبائی و خوشنمائی میں کوئی اضافہ کر سکتا ہے اور نہ اس سے بہتر یا اس کی مانند بنا سکتا ہے۔ قرآن مجید کی بناوٹ اور اس کا اسلوب بیاں بالکل نرالہ ہے نہ تو اس سے پہلے کوئی اس کی مثال ملتی ہے اور نہ (قرآن کے تمام تر چیلنج کے باوجود) اس کے بعد ملتی ہے اور نہ ملے گی‘ یعنی نہ تو اس سے پہلے کسی نے اس اسلوب میں کوئی بات کہی اور نہ اس کے بعد کوئی شخص اس کا مثل لا سکا یا اس اسلوب کی تقلید کر سکا۔
قرآن کا چیلنج آج بھی اسی طرح پہاڑ کی مانند قائم اور اٹل ہے اور ہمیشہ اٹل رہے گا۔ آج بھی تمام اہل ایمان دنیا کے تمام لوگوں کو دعوت دے رہے ہیں کہ اس مقابلے میں شرکت کریں اور اگر آج بھی قرآن کا مثل و مانند پیدا ہو جائے‘ تو مسلمان اپنے دعوے اور ایمان سے دستبردار ہو جائیں گے لیکن انہیں اس بات پر مکمل یقین ہے کہ اس قسم کی چیز کبھی ممکن نہیں ہے۔
 
Top