وراثت کی تقسیم

کعنان

محفلین
میراث میں عورت کا حصہ کم کیوں؟
مدثر جمال تونسوی
13/01/2017

یہ بات عام سا مسلمان بھی جانتا ہے کہ اسلام نے عورت پر یہ بڑی مہربانی کی ہے کہ اسے وراثت کا حق دار ٹھہرایا ہے ورنہ اسلام سے قبل کے مذاہب اور آج بھی دنیا کے اکثر مذاہب میں عورت کو وراثت سے محروم رکھا گیا ہے لیکن اس کے باوجود اسلام دشمنوں کی طرف سے دانستہ طور پر یہ اعتراض بڑے زور و شور کے ساتھ اٹھایا جاتا ہے جس سے بعض سادہ لوح مسلمان بھی شک میں مبتلا ہو جاتے ہیں وہ اعتراض یہ ہے کہ اسلام نے وراثت میں مرد کے لیے عورت سے دگنا حصہ کیوں مقرر کیا ہے؟

حالانکہ عورت کمزور ہوتی ہے؟
وہ کمانے والے بھی نہیں ہوتی؟

تو پھر بظاہر ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس کا حصہ ڈبل ہوتا مگر یہاں تو عورت کے مقابلے میں مرد کو ڈبل حصہ دیا جاتا ہے ۔۔ آخر ایسا کیوں ہے ؟
اس کا جواب بڑا ہی سادہ ہے بشرطیکہ انسان سمجھنے کے لیے آمادہ ہو
۔۔۔ فی الحال یہ چند حکمتیں دیکھ لیں جس سے واضح ہو جائے گا کہ اسلام نے وراثت کی تقسیم جو بتائی ہے وہ عین عدل و انصاف ہے ۔۔

پہلی حکمت: اسلام نے عورت کو کمانے کی ذمہ داری نہیں سونپی بلکہ اس کے تمام اخراجات کی ذمہ داری مردوں پر ڈالی ہے چاہے وہ مرد اس کا والد ہو ، بھائی ہو یا شوہر یا بیٹا ہو وغیرہ اور ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں کہ جب اس کے تمام اخراجات مرد پورے کریں گے تو اسے اگر وراثت میں مرد کے مقابلے میں کم حصہ دیا گیا تو یہ اس پر کسی طرح بھی ظلم نہیں ہے۔

دوسری حکمت: اسلام نے عورت کو کسی اور پر مال خرچ کرنے کی ذمہ داری بھی نہیں ڈالی ۔۔ جبکہ مرد کے ذمہ تو بہت سے اخراجات ہیں ، اپنی بیوی کے اخراجات ، والدین کے اخراجات اور اولاد وغیرہ کے اخراجات ۔۔ اس کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جس نے دوسروں پر بھی خرچ کرنا ہے اس کا حصہ زیادہ ہو اور جس پر دوسروں پر خرچ کرنے کی ذمہ داری نہیں ہے اس کے لیے کم حصہ ہو.

تیسری حکمت: مرد کے اخراجات عورت کے مقابلے میں زیادہ ہوتے ہیں جیسے کہ دوسری حکمت کے تحت عرض کیا گیا اس لیے ہونا یہی چاہیے کہ اس کا حصہ زیادہ ہو

چوتھی حکمت: مرد عورت کو مہر دینے ، مکان فراہم کرنے اور کھانے و پہننے کے تمام اخراجات دینے ہوتے ہیں جبکہ عورت پر مرد کو مالی طور پر کچھ دینے کی ذمہ داری نہیں سونپی گئی

پانچویں حکمت: بچوں کی تعلیم کے اخراجات اور بچوں اور خود بیوی کے علاج معالجے کا خرچہ سب مرد نے اٹھانا ہوتا ہے، عورت نے نہیں ۔ اس لیے ان سب باتوں کا واضح تقاضا ہے کہ وراثت میں مرد کو حصہ عورت سے زیادہ ہونا چاہئے اور یہی اسلام کا فیصلہ ہے.

اس کو ایک مثال سے سمجھیں : ایک شخص فوت ہوا اس کے وارث فقط دو ہیں ایک بیٹا اور ایک بیٹی ۔۔ اس شخص نے وراثت میں تیس ہزار روپے چھوڑے ۔۔ اب تقسیم کے مطابق بیٹے کو بیس ہزار اور بیٹی کو دس ہزار روپے ملے. اب والد کی وفات کے بعد دونوں نے نئی زندگی شروع کرنی ہے ۔۔ مثلا دونوں پہلے غیر شادی شدہ تھے اور اب وہ دونوں شادی کا انتظام کرتے ہیں. اب بیٹا جب شادی کرے گا تو وہ شادی کے اخراجات بھی کرے گا اور بیوی کو مہر بھی دے گا فرض کریں اگر فقط بیوی کا مہر ہی بیس ہزار ہو تو اس بیٹے کو وراثت میں ملی ساری رقم فقط ایک معاملے میں خرچ ہو گئی جبکہ اُدھر بیٹی جب شادی کی طرف بڑھے گی تو اس کا خرچہ کیا ہو گا؟ الٹا سے مہر وغیرہ میں خاوند کی طرف سے خرچ ملے گا ۔۔

فرض کریں اسے خاوند کی طرف سے بیس ہزار روپے ملے تو اب یہ بیس اور پہلے والے دس ملا کر اس کے پاس تیس ہزار ہو گئے اور ہم دیکھ چکے ہیں کہ بیٹا بیچارہ پہلے قدم پر ہی بیس ہزار سے ہاتھ دو چکا ہے اور آگے کے سارے اخراجات ابھی رہتے ہیں اس سے دیکھ لیں کہ اسلام کی طرف سے وراثت کی تقسیم بالکل عدل و انصاف پر مبنی ہے اور خاص کر عورت کے لیے تو سراسر نفع ہی ہے

ح

---------
نوٹ: لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔



 

یاز

محفلین
عورت کو نیچا دکھانا ہی مذہب کی بنیادی ضرورت ہے
استحصال زیادہ موزوں اصطلاح رہے شاید۔
مذہب کی تو یقیناً نہیں، لیکن استحصال بہت سے لوگوں کی بنیادی ضرورت ہے۔ اس کے لئے وہ مختلف ٹول استعمال کرتے ہیں۔ مذہب ان میں سے ایک ہے۔
نیز یہ کہ استحصال مختلف طبقات کا کیا جاتا ہے۔ عورت ان میں سے ایک ہے۔
 

یاز

محفلین
1817 کا بدر الفاتح یہ کہتا:
"جیسی غلامی کے ختم ہونے کی بات آپ کرتے ہیں وہ کا معاشرے نے آج تک دی ہے؟"
زبردست جناب۔
اگر نسیم حجازی نما تاریخ سے باہر نکل کر حقیقی تاریخ بھی پڑھ لی جائے تو ایسی باتیں آشکار ہو سکتی ہیں۔
ناقابلِ یقین بات لگتی ہے کہ "آئی ہیو اے ڈریم" اور اس کی تعبیر کے درمیان چند ماہ کا وقفہ تھا۔
 

ربیع م

محفلین
زبردست جناب۔
اگر نسیم حجازی نما تاریخ سے باہر نکل کر حقیقی تاریخ بھی پڑھ لی جائے تو ایسی باتیں آشکار ہو سکتی ہیں۔
ناقابلِ یقین بات لگتی ہے کہ "آئی ہیو اے ڈریم" اور اس کی تعبیر کے درمیان چند ماہ کا وقفہ تھا۔
1817 نہیں بلکہ 2017 کا بدر الفاتح بھی یہی کہتا ہے کہ وہ آزادی کہاں ہے جس کے نعرے لگائے جاتے ہیں ؟

اور اج کی غلامی ماضی کی غلامی سے زیادہ بدتر ہے .
 

یاز

محفلین
1817 نہیں بلکہ 2017 کا بدر الفاتح بھی یہی کہتا ہے کہ وہ آزادی کہاں ہے جس کے نعرے لگائے جاتے ہیں ؟

اور اج کی غلامی ماضی کی غلامی سے زیادہ بدتر ہے .
محترم بھائی! ضروری نہیں کہ میں آپ کی بات یا رائے سے متفق ہوں، لیکن میں آپ کے حقِ رائے دہی کی ضرور قدر کرتا ہوں۔ یقیناً ہم سب کو اپنا اپنا موقف اختیار کرنے یا اپنی کہنے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔
 

وجی

لائبریرین
کعنان صاحب ایک سوال میرا ہے وہ یہ کہ کیا اسلام مرد و عورت کی وراثت کے بارے میں ایک ہی طرح کے احکامات دیتا ہے یا پھر عورت کی وراثت کےبارے میں کچھ اور احکامات ہیں؟؟

عدل و انصاف
باقی جب مرد زندہ ہوتا ہے تو اسکو انصاف کے ساتھ کوئی چیز بچوں میں تقسیم کرنے کا حکم دیا گیا ہے

اور جب مرتا ہے تو خدا کے بتائے ہوئے طریقہ عدل سے تقسیم ہوتی ہے۔

عدل و انصاف میں بہت فرق ہے جو بہت سارے لوگ نہیں سمجھتے وہ یہ کہ انصاف (آدھہ)نصف سے نکلا ہے یعنی آدھہ یا برابر بھی کہ سکتے ہیں۔ کسی بھی چیز کو برابر تقسیم کرنا آسان ہے تقسیم ایک ایک حصے میں بھی ہوسکتی ہے اور کئی حصوں میں بھی مگر تمام حصے ایک دوسرے سے برابر ہوں تو صحیح تقسیم سمجھی جاتی ہے۔
اسکے برعکس عدل کا معاملہ ذرا مختلف اور یوں کہیں کہ پیچیدا ہے اگر ایسے سمجھا جائے کہ دو لوگ ہیں اور تین روٹی ہے دو لوگوں میں ایک بڑا آدمی ہے اور دوسرا چھوٹا آدمی ہے۔ انصاف کے ساتھ تقسیم میں دونوں کو برابر ایک اور آدھی روٹی تقسیم ہوگی۔ مگر عدل کے معاملے میں بڑے آدمی کی بھوک زیادہ ہوگی تو اسکو دو روٹی اور چھوٹے آدمی کو ایک روٹی دی جائے گی ۔ یعنی جسکی ضرورت زیادہ ہوگی اسکو زیادہ حصہ ملے گا اور جسکی کم ہوگی اسکو کم حصہ ملے گا۔

ایک انسان کا عدل کرنا ذرا مشکل کام ہے اسکے برعکس انصاف کرنا زیادہ آسان ۔ اسی لیئے اللہ نے انسان کو زندگی میں تقسیم کےمعاملے میں انصاف کے ساتھ برتنے کا حکم دیا ہے اور انسان کے مرنے کے بعد تقسیم کا معاملہ اپنے پاس رکھا ہے اور اسی حساب سے جسکو ذات نے بہتر سمجھا عدل کے ساتھ معاملہ کیا۔
 

کعنان

محفلین
رالسلام علیکم

سوال پوچھنے پر جزاک اللہ خیر، بھائی میں صاحب علم نہیں پھر بھی کوشش کرتا ہوں۔

کعنان صاحب ایک سوال میرا ہے وہ یہ کہ کیا اسلام مرد و عورت کی وراثت کے بارے میں ایک ہی طرح کے احکامات دیتا ہے یا پھر عورت کی وراثت کےبارے میں کچھ اور احکامات ہیں؟؟

وراثت کی تقسیم اللہ سبحان تعالی نے قرآن مجید میں بتا دی اسے کی مطابق عمل ہو گا، اگر کوئی اس پر عمل نہیں کرتا تو وہ روز محشر جواب دہ ہو گا۔

يُوصِيكُمُ اللّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِن كَانَ لَهُ وَلَدٌ فَإِن لَّمْ يَكُن لَّهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ فَإِن كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ آبَآؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لاَ تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعاً فَرِيضَةً مِّنَ اللّهِ إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا
اللہ تمہیں تمہاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کے لئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے،

پھر اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں (دو یا) دو سے زائد تو ان کے لئے اس ترکہ کا دو تہائی حصہ ہے،
اور اگر وہ اکیلی ہو تو اس کے لئے آدھا ہے،
اور مُورِث کے ماں باپ کے لئے ان دونوں میں سے ہر ایک کو ترکہ کا چھٹا حصہ (ملے گا) بشرطیکہ مُورِث کی کوئی اولاد ہو،

پھر اگر اس میت (مُورِث) کی کوئی اولاد نہ ہو اور اس کے وارث صرف اس کے ماں باپ ہوں تو اس کی ماں کے لئے تہائی ہے (اور باقی سب باپ کا حصہ ہے)،
پھر اگر مُورِث کے بھائی بہن ہوں تو اس کی ماں کے لئے چھٹا حصہ ہے (یہ تقسیم) اس وصیت (کے پورا کرنے) کے بعد جو اس نے کی ہو یا قرض (کی ادائیگی) کے بعد (ہو گی)،
تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے تمہیں معلوم نہیں کہ فائدہ پہنچانے میں ان میں سے کون تمہارے قریب تر ہے،
یہ (تقسیم) اللہ کی طرف سے فریضہ (یعنی مقرر) ہے،

بیشک اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے
سورۃ النساء4: آیت11

وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّهُنَّ وَلَدٌ فَإِن كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَإِن كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلاَلَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ فَإِن كَانُواْ أَكْثَرَ مِن ذَلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَى بِهَآ أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَآرٍّ وَصِيَّةً مِّنَ اللّهِ وَاللّهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ
اور تمہارے لئے اس (مال) کا آدھا حصہ ہے جو تمہاری بیویاں چھوڑ جائیں بشرطیکہ ان کی کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر ان کی کوئی اولاد ہو تو تمہارے لئے ان کے ترکہ سے چوتھائی ہے (یہ بھی) اس وصیت (کے پورا کرنے) کے بعد جو انہوں نے کی ہو یا قرض (کی ادائیگی) کے بعد، اور تمہاری بیویوں کا تمہارے چھوڑے ہوئے (مال) میں سے چوتھا حصہ ہے بشرطیکہ تمہاری کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر تمہاری کوئی اولاد ہو تو ان کے لئے تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ہے تمہاری اس (مال) کی نسبت کی ہوئی وصیت (پوری کرنے) یا (تمہارے) قرض کی ادائیگی کے بعد، اور اگر کسی ایسے مرد یا عورت کی وراثت تقسیم کی جا رہی ہو جس کے نہ ماں باپ ہوں نہ کوئی اولاد اور اس کا (ماں کی طرف سے) ایک بھائی یا ایک بہن ہو (یعنی اخیافی بھائی یا بہن) تو ان دونوں میں سے ہر ایک کے لئے چھٹا حصہ ہے، پھر اگر وہ بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے (یہ تقسیم بھی) اس وصیت کے بعد (ہو گی) جو (وارثوں کو) نقصان پہنچائے بغیر کی گئی ہو یا قرض (کی ادائیگی) کے بعد، یہ اللہ کی طرف سے حکم ہے، اور اللہ خوب علم و حلم والا ہے۔

سورۃ النساء4: آیت 12

والسلام
 
Top