آوازِ دوست

محفلین
ایک دِن سوچا کہ شاعری کے قواعد سے آشنائی کُچھ ایسی معیوب بات بھی نہیں ہے کہ اِسے یکسر نظراندازکر دیا جائےآخر ہمارا پہلا فین منظرِ عام پر آ چُکا تھا۔ طاہر صاحب کے آفس کا اتفاقیہ چکر لگا تو میں یہ دیکھ کر حیران (بلکہ پریشان) رہ گیا کہ اُن کی آفس ٹیبل کے شیشے کے نیچے ایک کاغذ کے ٹکڑے پر خوشخط املا کے ساتھ وہ قطعہ تحریر ہےجو ہم نے کسی جارحانہ انداز کی شعری آمد کے نتیجے میں لکھ لیا تھا اور شکیل صاحب سے شئیر کیا تھا جو ہمارے مشترکہ دوست ہیں۔ اشعار کُچھ یوں تھے :
پتھر کے دور کی وراثت اتنی نہیں ہے کھوئی ہوئی
کبھی حل نہیں ہوتی ریت پانی میں بھِگوئی ہوئی
ادب و تہذیب کی نفاست کوئی کمزوری تو نہیں
آہنگ نہ ہوبلندکہ میری حیوانیت ہے سوئی ہوئی
قواعد اورشعر کی اصلاح کے حوالے سے ہم بچپن سے ڈسے ہوئے تھے۔ ایک کلاس فیلو"شفیق" اپنے اشعار لکھ کے لاتا اور ہمیں سُناتا ۔ اُس کی شاعری لُطف دیتی اور ہم چند دوست اُس سے بہت مرعوب تھے۔ سیف نے ایک دِن ڈرتے ڈرتے اپنے چند شعر اُس کے سامنے رکھے اور طالبِ اصلاح ہوا۔ ہم سب بھی دم بخود حلقہ بنائے بیٹھے تھے کہ دیکھئیے سیف صاحب ادب میں کیا مقام پاتے ہیں۔ اچانک ہم نے شفیق کو مُنہ بھینچے لرزتے کانپتے دیکھا اور پھر جیسے اُس کی ہنسی کے پریشر کُکر کی سیٹی کھُل گئی۔ ہمیں کُچھ سمجھ نہیں آئی کہ سیف بیچارے کی سیدھی سادھی عشقیہ شاعری اتنا بڑا لطیفہ کیسے ہو گیا۔ ہم سب کی کورس میں کیا ہوا کیا ہوا کے جواب میں اُس کا چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں جو ایک تاریخی جُملہ پورا ہوا وہ یہ تھا : ہا ہا ہا ۔ ۔ ۔ ایک ۔ ۔ ۔ہا ہا ہا ۔۔ ایک بھی۔ ۔ ۔ہا ہا ہا ہا۔ ۔ ۔ ۔ شعر وزن میں ۔ ۔ ۔ ۔ہا ہا ہا۔ ۔ ۔ ۔نہیں ہے۔ ۔ ۔ ۔ہاہاہا
سیف بے چارے پر گویا گھڑوں پانی پڑ گیا احساسِ خجالت سے اُس کا چہرہ عجب احمقانہ انداز میں بھنچ گیا۔ میں نے شُکر کا کلمہ پڑھا کہ کہیں میں نے کوئی شعر اصلاح کے لیے پیش نہیں کر دیا۔ ویسے بھی اپنے کئی شعر مجھے خود پسندنہیں آتے تھے اور وہ میں کسی سے شئیر نہیں کرتا تھا اور جو میری پسند پر پورا اُترتے اُن کی اصلاح کا مجھے خیال تک گوارہ نہ ہوتا اور خوش قسمتی سے مجھے کبھی اِس طرح کی صورتِ حال کا سامنا بھی نہ ہوا تھا سو میں اپنے ادبی چلن سے مطمئن تھا اور سیف کا اصلاحی حشر دیکھنے کے بعد ویسے بھی تائب ہو گیا۔
ایک دو اور لڑکے بھی جب کلام میں اصلاح کی لگن سے سیف جیسے انجام سے دوچار ہوئے تو سب نے سر جوڑا کہ یہ کم بخت وزن جو کہ اُن کے شعروں میں کسی طرح آ کر ہی نہیں دیتا ضرور اِس میں شفیق کی شریر طبیعیت کا دخل ہے ورنہ ایسی بھی کیا قیامت ہے کہ کوئی ایک شعر حادثاتی طور پر بھی درست قرار نہیں پاتا۔ ایک حکمتِ عملی طے ہوئی اور اگلے دِن سب طے شُدہ منصوبے کے مطابق شفیق کو لیے اپنے اپنے کلام میں اصلاح کے طلب گار ہوئے۔ آج خلافِ معمول شفیق کے حلقہ ارادت میں غیر معمولی اضافہ اور مُضطرب سا جوش تھا۔ شفیق نے سب کے شعر سامنے رکھے اور فردا" فردا" سب کی بھِد اُڑانی شروع کردی لیکن آج کی تنقید نو آموز شُعراء کے لیے اُلٹا ہی اثر رکھتی تھی۔ لڑکے ہر شعر کی تنقید پر خوشی سے جھوم رہے تھے اور شفیق کے ہر قہقہے کا جواب وہ خود بھی اِس والہانہ پن سے دے رہے تھے جیسے اُن میں نقرئی تمغے تقسیم کیے جا رہے ہوں۔ بالآخر جب آخری شعر کی اصلاح بھی ناقابلِ اصلاح قرار دے کر کر دی گئی تو یکا یک پورا دائرہ شفیق پر جھپٹ پڑا۔ مجمع، بالخصوص شفیق کے متاثرین نے لاتوں ،گھونسوں کا فراخدلانہ استعمال کیا جبکہ پیچھے رہ جانے والوں نے گالیوں سے شفیق کی بھرپور تواضع کرتے ہوئے اُسے بتایا کہ آج سب لوگ علامّہ اقبال کا قدرے غیر معروف کلام اصلاح کے لیے لائے تھے۔
اپنے ادبی وجدان کا جائزہ لینے کے لیے ایک دِن ہم نے ایک کاغذ پر لکھی اپنی غزل اُٹھائی اور ابدالی روڈ پر واقع نوائے وقت کے دفتر چلے گئے۔ پتا چلا کہ ادبی ایڈیشن کے انچارج جناب عارف امین بلے صاحب ہیں سو اُن کی خدمت میں جا حاضر ہوئے کہ اگر آپ اِس غزل کو قابلِ اشاعت سمجھیں تو شائع کرکے حوصلہ افزائی فرمائیں اُنہوں نے کمال شفقت سے وہ غزل لی، ایک نظر دیکھا اور کہا کہ "چھپ جائے گی"۔ پھر میرے جائے سکونت کے متعلق پوچھا پھر ایک کاغذ پر حنیف صاحب کے میڈیکل سٹور کا ایڈریس لکھا کہ کبھی شاعری سے متعلق کوئی مدد چاہیے ہو تو وہ میرے گھر سے قریب ہی اُن کی دُکان ہے میں جب چاہوں اُن کے حوالے مِل لوں، وہ تعاون کریں گے۔ بغیر کسی دِقّت کے ایک قومی اخبار کے لیے اپنی شاعری کو قبول کیے جانے سے مُجھے قدرے مایوسی ہوئی، ایسا لگا کہ اُنہوں نے مروتا" انکار کر کے میرا دِل توڑنا پسندنہیں کیا اور میرے نکلتے ہی اُنہوں نےمیرا دیا ہوا کاغذ کا پُرزہ ردّی کی ٹوکری میں پھینک دیا ہوگا۔ اَب ایک اندیشوں بھرا انتظار شروع ہو گیا۔ پتا چلا کہ ادبی ایڈیشن بُدھ کو شائع ہوتا ہے۔
خُدا خُدا کرکے بُدھ آیا بُدھ کا اخبار خریدااور دھڑکتے دِل سے ادبی ایڈیشن والا صفحہ کھولتے ہی میری نظر گویا پتھّرا سی گئی۔ میری غزل جوں کی توں وہاں موجود تھی۔
حنیف صاحب کے پاس شاعری کے قواعد سیکھنے کے لیے جانے کا قصّہ بھی خوب ہے یہ پھر سہی آج آتش کے جوبن کو یاد کرتے ہوئے تخیل کے پروں پر اَٹی برسہا برس کی گرد جھاڑنے کی ایک خام سی کوشش آپ کی خدمت میں پیش کی جائے گی :)
 

نایاب

لائبریرین
ماشاء اللہ
یعنی کہ شروع ہی سے " باوزن " شاعری کہتے ہیں ۔
ویسے یہ " شاعر " ہوتے بہت معصوم سے ہیں ۔۔۔
ان سے شعر ہو جائے سہی ۔ پھریں گے یہاں وہاں ۔۔
کوئی تول دے وزن کوئی ناپ دے بحر ۔
اسی جنون میں مجھ ایسے " نا شاعر " کے پاس بھی چلے آتے ہیں ۔۔۔۔
شاعری دل سے نکلتی ہے ۔۔۔ چیخ کا کوئی وزن نہیں ہوتا کوئی بحر نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔۔۔
گھڑت تو فن ہے مجسمہ ساز کا یا پھر ترکھان کا ۔۔۔۔۔۔
بہت خوب تحریر بہت سی دعاؤں بھری داد
 

آوازِ دوست

محفلین
ماشاء اللہ
یعنی کہ شروع ہی سے " باوزن " شاعری کہتے ہیں ۔
ویسے یہ " شاعر " ہوتے بہت معصوم سے ہیں ۔۔۔
ان سے شعر ہو جائے سہی ۔ پھریں گے یہاں وہاں ۔۔
کوئی تول دے وزن کوئی ناپ دے بحر ۔
اسی جنون میں مجھ ایسے " نا شاعر " کے پاس بھی چلے آتے ہیں ۔۔۔۔
شاعری دل سے نکلتی ہے ۔۔۔ چیخ کا کوئی وزن نہیں ہوتا کوئی بحر نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔۔۔
گھڑت تو فن ہے مجسمہ ساز کا یا پھر ترکھان کا ۔۔۔۔۔۔
بہت خوب تحریر بہت سی دعاؤں بھری داد
نایاب بھائی ایسی کوئی بات نہیں کہ خُدا نخواستہ ہم کوئی پیدائشی قادرالکلام شاعر رہے ہیں۔ بس شعری اصلاح کو کبھی نہ سمجھ پائے سو ابھی تک اصلاح اور اصلاح فہمی کے طالب ہیں۔
 

نور وجدان

لائبریرین
تبصرہ ادھار رہا۔۔پڑھ کر دوں گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جناب آگئے فین کلب بنانے۔۔۔۔۔۔۔مباراکاں ۔۔۔ اب سمجھ آئی کل آپ لڑی بنانے کو کیوں پوچھ رہے تھے ۔۔۔مگر خوشی ہوئی کہ آپ قلم خراش ہیں۔۔۔۔۔۔
 

ابن رضا

لائبریرین
تحریر بہت پسند آئی۔ شفیق صاحب تو امید ہے اب کسی کی اصلاح نہیں فرماتے ہونگے۔

تاہم عنوان کا کوئی خاص تذکرہ تحریر میں کہیں نہیں ملا۔ اس لیے عنوان کو " اصلاح " سے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ مزید یہ بھی کہ شاعری کے قواعد میں صرف وزن ہی قابلِ اعتناء نہیں بلکہ مضمون ، محاکات، صنائع بدائع لفظی و معنوی، تراکیب، استعارے، مراعات النظیر، قوافی کا بھی اہم کردار ہوتا ہے۔ جبکہ وزن آہنگ یا جو بھی نام دیں ایک بنیادی چیز ہے

اس لیے باوزن کلام کو منظوم تو کہا جا سکتا مگر شعر کا درجہ پانے کے لیے دیگر مراحل سے ضرور گزارنا پڑتا ہے۔
 
آخری تدوین:

آوازِ دوست

محفلین
نایاب بھائی ایسی کوئی بات نہیں کہ خُدا نخواستہ ہم کوئی پیدائشی قادرالکلام شاعر رہے ہیں۔ بس شعری اصلاح کو کبھی نہ سمجھ پائے سو ابھی تک اصلاح اور اصلاح فہمی کے طالب ہیں۔
گلیوں کے شاپر بھی موزوں ہوا ملے تواپنے تئیں "شہباز" ہو جاتے ہیں ۔ ایسے ہی جب آپ کے مقدر کا اقبال بُلندی پر ہو تو بناء تردد کیے ہربند در کھُلتا چلا جاتا ہے نادان اِسے اپنا کمال سمجھ بیٹھتے ہیں یہ نادانی کے بھلے وقتوں کی کہانی ہے ۔ ایک نو آموز اور نادان ذہن کا پس منظرہی اِس تحریر کا کینوس ہے۔
 

آوازِ دوست

محفلین
تحریر بہت پسند آئی۔ شفیق صاحب تو امید ہے اب کسی کی اصلاح نہیں فرماتے ہونگے۔

تاہم عنوان کا کوئی خاص تذکرہ تحریر میں کہیں نہیں ملا۔ اس لیے عنوان کو " اصلاح " سے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ مزید یہ بھی کہ شاعری کے قواعد میں صرف وزن ہی قابلِ اعتناء نہیں بلکہ مضمون ، محاکات، صنائع بدائع لفظی و معنوی، تراکیب، استعارے، مراعات النظیر، قوافی کا بھی اہم کردار ہوتا ہے۔ جبکہ وزن آہنگ یا جو بھی نام دیں ایک بنیادی چیز ہے

اس لیے باوزن کلام کو منظوم تو کہا جا سکتا مگر شعر کا درجہ پانے کے لیے دیگر مراحل سے ضرور گزارنا پڑتا ہے۔
شکریہ رضا صاحب! آپ کی بات سے کیسےاختلاف کیا جا سکتا ہے مگر شفیق بے چارہ کونسا ابنِ انشاء تھا باقیوں کی ذہنی سطح بھی ایسی ہی تھی۔ وہ کہتا کہ وزن نہیں ہے تو صاحبِ کلام وزن لاتے لاتے خود دُبلے ہو جاتے مگر وزن آ کر ہی نہ دیتا تو اُس وقت کا عالمی مسئلہ شاعری صرف وزن ہی تھا :) اور ہمیں یہی پتا تھا کہ وزن ہے تو شعر ہے اوروزن نہیں تو ککھ نئیں۔
 

آوازِ دوست

محفلین
تبصرہ ادھار رہا۔۔پڑھ کر دوں گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جناب آگئے فین کلب بنانے۔۔۔۔۔۔۔مباراکاں ۔۔۔ اب سمجھ آئی کل آپ لڑی بنانے کو کیوں پوچھ رہے تھے ۔۔۔مگر خوشی ہوئی کہ آپ قلم خراش ہیں۔۔۔۔۔۔
بس جی ہمارے ہاتھ اَب ماچس لگ گئی ہے :) ویسے یہ "قلم خراش" ہونا کیسا ہوتا ہے :) میں بھی خوش ہو کر کسی کے گلے میں یہ میڈل ڈال دوں تو کوئی گڑبڑ والی بات تو نہیں ہے ناں :)
 

نور وجدان

لائبریرین
بس جی ہمارے ہاتھ اَب ماچس لگ گئی ہے :) ویسے یہ "قلم خراش" ہونا کیسا ہوتا ہے :) میں بھی خوش ہو کر کسی کے گلے میں یہ میڈل ڈال دوں تو کوئی گڑبڑ والی بات تو نہیں ہے ناں :)

آپ کو دو رسیدیں مل گئی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ہم نے تعصب کا بدلا لینا ہے :) :) :) ورنہ تبصرہ کر چکے ہوتے:) :) سو دھیرج میاں:)
 

آوازِ دوست

محفلین
تحریر بہت پسند آئی۔ شفیق صاحب تو امید ہے اب کسی کی اصلاح نہیں فرماتے ہونگے۔

تاہم عنوان کا کوئی خاص تذکرہ تحریر میں کہیں نہیں ملا۔ اس لیے عنوان کو " اصلاح " سے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ مزید یہ بھی کہ شاعری کے قواعد میں صرف وزن ہی قابلِ اعتناء نہیں بلکہ مضمون ، محاکات، صنائع بدائع لفظی و معنوی، تراکیب، استعارے، مراعات النظیر، قوافی کا بھی اہم کردار ہوتا ہے۔ جبکہ وزن آہنگ یا جو بھی نام دیں ایک بنیادی چیز ہے

اس لیے باوزن کلام کو منظوم تو کہا جا سکتا مگر شعر کا درجہ پانے کے لیے دیگر مراحل سے ضرور گزارنا پڑتا ہے۔
شفیق صاحب کئی روز تک خود قابلِ اصلاح رہے اور ایک عرصہ تک ناراض رہے ۔ پھر جیسے تیسے اُنہیں باور کرایا گیا کہ وہ واقعہ شاعرِ مشرق کی توہین کا حادثاتی ردِ عمل تھا اور اُس میں ذاتی رنجشیں بالکل بھی شامل نہ تھیں :)
 

آوازِ دوست

محفلین
آپ سے آج ایک کاوش شیئرکرنے کا کہا تھا سو زیرِنظر تحریر پیشِ خدمت ہے:
تتلیاں، گلاب، جُگنو اور خواب
شوخ پرندوں والی رنگیں کتاب

ریت گھروندے، سیپیاں گھونگے
جیب خرچ کے دمکتے سِکّے

سب چیزیں اب تک سنبھالی ہیں
آ جاؤ کہ جھولے خا لی ہیں

میلے کپڑوں والا لڑکا
اَبھی غُبارے بیچ رہا ہے

رنگوں والی ڈبیا بھی ہے
مور کے پر کی ٹکیہ بھی ہے

ٹرین کے دور سے آنے تک
بند پھاٹک کھُل جانے تک

ہم ہاتھ ہلاتے جائیں گے
اور ڈبے گیت سُنائیں گے

روز ملنے کا تم نےکہا تھا
اِک شام بچھڑنے سے پہلے

دِن بیت چلا ہے آجاؤ
پھرشام اُداس پھرتی ہے

تم اِس پگلی کو سمجھاؤ
میرے بچپن جلدی آؤ

زاہد

 

نور وجدان

لائبریرین
یہ پھر سہی آج آتش کے جوبن کو یاد کرتے ہوئے تخیل کے پروں پر اَٹی برسہا برس کی گرد جھاڑنے کی ایک خام سی کوشش آپ کی خدمت میں پیش کی جائے گی

دیکھا جائے تو یہ جملہ غضب کا ہے اور کہنے کو پوری تحریر اس جُملے کی معیار پر اترتی نہیں یا یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ جملہ آپ کی تحریر میں ربط نہیں دے رہا :)


میں نے بہت سوچا مرد شاعر ہی کیوں اچھے ہوتے ہیں ان کی نثر کمال کی نہیں ہوتی ۔۔۔ شاعری کی بات کروں تو کیٹس اور رابرٹ فراسٹ جیسا شاعر گزرا نہیں ۔ جو کمال غالب کو شعر گوئی میں ہے جو فکر اقبال کی تحریک ہے اس میں کہیں کہیں شائبہ تو ان دو کے ساتھ ٹی ایس ایلیٹ سے بھی ہے۔۔۔فارسی میں جامی اور رومی سا شاعر گزرا نہیں ۔ سو میرے نزدیک مرد بطور شاعر کے روپ میں نمایاں رہا میں نے نثر میں واضح طور پر افسانہ نگار کو بھی شاعری ہی کرتے پایا ہے ۔ ۔۔۔ مگر کمال حیرت ہے کہ ہارڈی جیسا ناولسٹ خواتین پر سبقت لے گیا۔۔۔

اس تمہید میں چُھپی تعریف کو تعصب مت سمجھ لیجیے گا ۔ میں نے آپ کی باتوں میں پطرس کو پایا ہے۔۔۔۔مستقبل کا ایک بہتریں مزاح نگار ۔۔۔۔ جانے کتنے لبوں پر آپ ہنسی بکھیرے اور کس کے لیے مسکراہٹ کا عندیہ ہوں۔۔۔ آپ کی اس تحریر پر اور لکھنے کی تحریک کو سلام پیش کرنا بنتا ہے ۔۔۔۔ایک بہت اچھی تحریر ہے جس میں ہنسی کا سامان بالکل نہیں:( ہاں مسکراہٹ کا ہے:):)

شاعری میں آپ کا وزن کتنا ہے ؟ کبھی چیک کیا ہے؟ اگر ہمت ہو اور حوصلہ ہو تو چیک کیجئے ۔۔ میں نے جب پہلا شعر لکھا ۔۔اور لکھتے لکھتے پوری غزل۔۔۔ مجھے ان باکس آنا شروع ہوگئے۔۔بڑی تعریف ہوئی :) سب نے باری باری پوچھا یہ آپ کا شعر ہے؟ یا کسی شاعر کا دیوان۔۔۔میں خوشی سے پھولے نہ سمائی کہ میں شاعر ہوں:) :) :) ہا ہا ہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے تھوڑی دیر بعد باذوق لوگوں نے کہا خیال بہت اچھا ہے مگر غزل بحر وزن میں غوطہ کھاتے ہوئے غرق ہوا چاہتی ہے۔۔۔اس وقت نہ بحر کا ، نہ وزن کا ، نہ ہجوں کا اور نہ قوافی کا پتا تھا۔۔ جو کہ شعر کو منظوم بناتے۔۔۔۔۔۔۔کسی نے ہمت کرکے ایک لفظ لکھا''بے وزن شعر''' اسی وقت ساری غزل تحلیل کی کہ کچھ تو عزت باقی رہے اور ہوگئے شروع فرنگی زبان میں لکھنا۔۔۔۔۔۔۔ایک بات کا احساس ہوتا ہے جو لطافت فارسی میں ہے اس کی حلاوت اردو میں نہیں جو مٹھاس و شیرینی اردو میں ہے وہ فرنگی زبان میں باکل نہیں۔۔۔۔۔۔۔سو اس دن کے بعد سے فرنگی زبان کو لات مار دی ۔۔۔

اور تحاریر کا انتظار رہے گا۔۔۔
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
آپ کی تحریریں بہت کمال کی ہوتی ہیں،سو یہ بھی۔۔۔۔اور شاعری۔۔۔۔خیال اچھے ہیں۔۔۔تولنا مجھے بھی نہیں آتا،،،لیکن گا کے دیکھا تو گایا نہیں جاتا:D
 

آوازِ دوست

محفلین
آپ کی تحریریں بہت کمال کی ہوتی ہیں،سو یہ بھی۔۔۔۔اور شاعری۔۔۔۔خیال اچھے ہیں۔۔۔تولنا مجھے بھی نہیں آتا،،،لیکن گا کے دیکھا تو گایا نہیں جاتا:D
ایمیچور دور کی ایمیچور کوششیں ہیں اب کبھی آمد ہوئی تو اُمید ہے کہ آپ کی گائیکی کے لیے بھی موزوں ہو گی :)
 
Top