وزیراعظم نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں 3 سال کی توسیع کردی

جاسم محمد

محفلین
درست، ہر ڈکٹیٹر بھی یہی کہتا رہا ہے ماضی میں تو باجوہ صاحب کو بھی دس بارہ سال مزید دے دیں، تین سالوں (سال کی جمع) سے کیا ہوگا۔
ماضی کے جرنیلوں کے مقابلہ میں جنرل باجوہ ہمسائے ممالک سے جہاد اور جنگی جنون میں مبتلا نظر نہیں آتے۔ باجوہ ڈاکٹرائن کے مطابق خطے میں امن و سلامتی پاکستان کو درست سمت میں لے جانے کا واحد راستہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ماضی کی عسکری پالیسیوں کے خلاف بھارت سے امن مذاکرات کے خواہاں ہیں اور افغانستان میں امن کوششوں کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔
نئے آرمی چیف سے متعلق یہ اندازہ لگانا کافی مشکل ہوگا کہ آیا وہ بھی اس باجوہ ڈکٹرائین پر قائم رہیں گے یا اس پر یوٹرن لیں گے۔ یوٹرن لینے پر ملک کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔
 
جب آپ عسکری رہنما کی عسکری پالیسیوں کی بات کرتے ہیں یا ان کے ڈاکٹرائین کی بات کرتے ہیں، یہ کہتے ہیں کہ یہ سربراہِ فوج اپنی ذمہ داریاں نبھاتے رہیں گے تو ملک کی پایسیاں نہیں بدلیں گی اور نئے عسکری رہنما کے آنے سے ملک کی عسکری، داخلی و خارجی پایسیاں تبدیل ہونے کا خطرہ ہوسکتا ہے تو ہمیں یوں محسوس ہوتا ہے گویا آپ ایک جمہوری ملک کی بات نہیں کررہے جہاں ایلیکٹڈ وزیرِ اعظم پایسی بنانے اور اس پر عملدرآمد کا ذمہ دار ہے بلکہ کسی ایسے ملک کی بات کررہے ہیں جہاں پر مارشل لا نافذ ہے اور عسکری سربراہ ہی سیاہ و سفید کا مالک ہے، اور ایک سیلیکٹڈ وزیرِ اعظم صرف فگر ہیڈ کے طور پر ہر حکم بجالانے کے لیے تیار بیٹھا ہے۔ کیا ایسا ہی ہے؟
 

جاسم محمد

محفلین
ایک سیلیکٹڈ وزیرِ اعظم صرف فگر ہیڈ کے طور پر ہر حکم بجالانے کے لیے تیار بیٹھا ہے۔ کیا ایسا ہی ہے؟
یہ تو یہاں کی پرانی تاریخ ہے کہ ملک کی داخلی اور خارجہ پالیسی فوج ہی بناتی ہے۔ زرداری نے بذریعہ میموگیٹ اور نواز شریف نے بذریعہ ڈان لیکس اس روایت کو توڑنے یعنی فوج سے پنگا لینے کی کوشش کی تھی۔ آج وہ دونوں کدھر ہیں؟ :)
 
یہ تو یہاں کی پرانی تاریخ ہے کہ ملک کی داخلی اور خارجہ پالیسی فوج ہی بناتی ہے۔ زرداری نے بذریعہ میموگیٹ اور نواز شریف نے بذریعہ ڈان لیکس اس روایت کو توڑنے یعنی فوج سے پنگا لینے کی کوشش کی تھی۔ آج وہ دونوں کدھر ہیں؟ :)
یعنی آپ کے لیڈر میں اتنی ہمت ہی نہیں کہ اپنی اتھارٹی تسلم کروائے یا ان کی مرضی کے خلاف چلے۔

تاریخ میں ایسے نام نہاد لیڈرکو بزدل اور ڈرپوک کے نام سے یاد رکھا جائے گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
یعنی آپ کے لیڈر میں اتنی ہمت ہی نہیں کہ اپنی اتھارٹی تسلم کروائے یا ان کی مرضی کے خلاف چلے۔
بات ہمت کی نہیں قومی مفاد کی ہے۔ ماضی میں نواز شریف، زرداری، بھٹو وغیرہ نے فوج سے ٹکر لے کر ان کا کیا اکھاڑ لیا؟ ایک پھانسی چڑھ گیا، دوسری کو بم بلاسٹ میں اڑا دیا گیا، تیسرا اور چوتھا آج جیل میں بند ہے۔
خان صاحب نظریاتی ہیں کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ساتھ میں بیوقوف بھی ہیں۔ جب تک ملک کے اہم سول ادارے فوج جتنے طاقتور نہیں ہو جاتے، عسکری اداروں سے پنگا لینے کا مطلب خود ہی اپنے پاؤں پر کلہاڑا مارنا ہے۔ دیگر سیاسی لیڈران اتنی سی بات نہ سمجھ پائے اور اداروں سے تصادم کا راستہ اپنا کر سیاسی شہید کارڈ کھیلتے رہے۔ اب دال نہیں گل رہی۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
تاریخ میں ایسے نام نہاد لیڈرکو بزدل اور ڈرپوک کے نام سے یاد رکھا جائے گا۔
لیڈر کا کام ہرحال میں ملک و قوم کو آگے لے کر جانا ہوتا ہے۔ اپنے آئینی اختیارات میں مداخلت کو انا کا مسئلہ بنا کر طاقتور اداروں سے ٹکر لینا نہیں۔
اگر فوج منتخب لیڈر کی ایک نہیں سنتی تو اس میں اتنی غیرت تو ہونی چاہئے کہ خود ہی استعفیٰ دے کر گھر چلا جائے۔ شریف اور زرداری خاندان دونوں اقتدار سے بھی چپکے رہے اور ساتھ میں عوام اور دنیا کے سامنے فوجی مداخلت کا رونا بھی روتے رہے۔ اس مفاد پرست سیاسی مافیا سے تو خان صاحب بہت بہتر جار ہے ہیں۔
جس دن سول اور عسکری قیادت کی ان بن ہو گی، اس دن خان صاحب خود ہی استعفیٰ دے کر گھر چلے جائیں گے۔ امریکہ یا سعودیہ جا کر اپنی ہی فوج کے خلاف شکایتیں نہیں لگائیں گے۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
جی بالکل "آئین" میں ایسی کوئی قید نہیں کہ تا دم مرگ ایکسٹینشن نہ دی جا سکے۔
نئے آرمی چیف کے آنے سے فائدہ کس کو ہوتا؟حکومت کو یا اپوزیشن کو؟ بس اسی میں سارے راز دفن ہیں کہ نیا آرمی چیف کیوں نہیں لایا گیا۔
اپوزیشن چاہتی تھی کہ نیا آرمی چیف لایا جائے تاکہ حکومت کے ساتھ فوج کی ایک پیج والی پارٹنر شپ کو توڑ کر ان کے سیاسی لیڈران کو جیلوں سے باہر نکالا جا سکے۔ مگر ان کی ساری چالیں ناکام و نامراد لوٹیں۔ یہ اگلے تین سال بھی اندر ہی رہیں گے۔ اور شاید اس کے بعد بھی اگر مزید ایکسٹینشن مل گیا۔
 

جاسم محمد

محفلین
توسیع کا فیصلہ، ٹرمپ کی کال اور خفیہ ایجنڈا
21/08/2019 سید مجاہد علی



یکے بعد دیگرے رونما ہونے والے واقعات اور مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے پیدا ہونے والی نئی صورت حال میں ، اس بات کا پتہ بھی نہیں چلا کہ کب تحریک انصاف کی حکومت کا ایک سال بیت گیا۔ حکومت نے بھی اس موقع پر کسی خاص دھوم دھڑکے کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اسلام آباد میں ایک تقریب ضرور منعقد ہوئی جس میں اطلاعات کی مشیر فردوس عاشق اعوان نے آزادی رائے اور میڈیا کی خود مختاری کو حکومت کی بنیادی ترجیحات کا حصہ بتا کر سامعین کو محظوظ ضرور کیا۔ اس کے علاوہ نہ ان کے پاس کچھ کہنے کو تھا اور نہ ہی ایک سالہ دور حکومت کی کارکردگی کا کوئی خاص حساب پیش کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی۔

وزیر اعظم عمران خان نے اپنی حکومت کا ایک سال مکمل ہونے کے ایک ہی روز بعد جنرل قمر جاوید باجوہ کی بطور آرمی چیف تین برس کی توسیع کے اچانک اعلان سے یہ ضرور واضح کردیا کہ اس ایک برس میں ان کی حکومت کی سب اہم کارکردگی کیا ہے۔ بطور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت میں توسیع سے ، عمران خان نے اپنے سیاسی دشمنوں کو یہ بتایا ہے کہ فی الحال ان کی دال گلنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ بظاہر یہ توسیع مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بارے میں بھارتی حکومت کے فیصلے اور دو ہفتے سے زائدمدت سے مقبوضہ وادی میں عائد انسانیت سوز پابندیوں کی وجہ سے دی گئی ہے۔ حکومت پاکستان کا خیال ہے کہ بھارت پر عالمی دباؤ میں اضافہ کی وجہ سے سرحدوں کی صورت حال پریشان کن ہے۔ حکومت کے علاوہ فوج کے ترجمان بھی متعدد مواقع پر بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کا اعلان کرتے ہوئے قوم کو یہ پیغام دے چکے ہیں کہ کسی وقت بھی بھارتی فوج حملہ آور ہوسکتی ہے۔ حکومت کا خیال ہے کہ ان حالات میں آرمی چیف کی تبدیلی ملک کی قومی سلامتی کے لئے مناسب نہیں ہوگی۔

جہاں تک سرحدوں پر کشیدگی کا تعلق ہے اور بھارت کی طرف سے کسی ناگہانی جارحیت کے امکان کی بات ہے تو اس کے تمام اشارے پاکستانی قیادت کی طرف سے تو موصول ہوئے ہیں لیکن بھارتی لیڈروں نے پاکستان پر الزام لگانے اور یا حملہ کی دھمکی دینے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی۔ حیرت انگیز طور پر اس دوران بھارتی فوج کے سربراہ جنرل بپن راوت نے بھی چپ سادھے رکھی ہے ۔ حالانکہ وہ وقتاً فوقتاً مودی سرکار کی سیاسی حمایت کے لئے پاکستان میں سرجیکل اسٹرائک کرنے اور سبق سکھادینے کے دعوے کرتے رہے ہیں۔ اسی طرح اس سال کے شروع میں بھارتی انتخابی مہم کے دوران نریندر مودی اور ان کے ساتھیوں نے پاکستان کے بارے میں اختیار کیا گیا جارحانہ رویہ بھی ترک کیا ہؤا ہے۔ حتی ٰ کہ 15 اگست کو یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ پر منعقد ہونے والی تقریب میں بھی نریندر مودی نے پاکستان کا ذکر کرنے یا کسی قسم کی دھمکی دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ یعنی بھارت سے موصول ہونے والے اشارے اس تاثر سے برعکس ہیں جو عمران خان اور ان کی حکومت کی طرف سے قائم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

کشمیر کی صورت حال بدستور غیریقینی ہے۔ ابھی تو وہاں مواصلات اور نقل و حرکت پر پابندیاں بھی عائد ہیں ۔ تاہم یہ پابندیاں ختم ہونے کے فوری بعد بھی امن و مان کی ایسی کوئی صورت حال پیدا ہونے کا امکان نہیں کہ بھارت کو عالمی تنقید سے بچنے کے لئے پاکستان پر حملہ کرکے وہاں سے توجہ ہٹانے کی ضرورت محسوس ہو۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ کشمیری عوام میں نئی دہلی کے فیصلہ پر شدید ناراضگی اور بے چینی پائی جاتی ہے تاہم اس غم و غصہ کو منظم ہونے اور اس کے اظہار میں ابھی شاید کافی وقت درکار ہوگا۔ کشمیری لیڈر زیر حراست ہیں اور بی جے پی کی حکومت مقبوضہ علاقے میں گرفت سخت رکھنے کی کوشش کرے گی۔ کئی ماہ کی منصوبہ بندی اور کئی ہفتوں کی تیاری کے بعد کشمیر میں بھارتی سیکورٹی کے قائم کئے گئے حصار کو کمزور پڑتے اور کشمیریوں کی ناراضگی کو سامنے آنے میں بھی کچھ مدت درکار ہوگی۔ عملی طور سے بھارتی حکومت کی پوری توجہ وادی میں اپنی اتھارٹی برقرار رکھنے پر مبذول ہوگی ۔ ان حالات میں وہ پاکستان پر حملہ کرکے کشمیر کے معاملہ پر ایک نئی عالمی بحث شروع کرنے کی حماقت سے گریز کرے گی۔

امریکی صدر ٹرمپ نے نریندر مودی اور پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کو ٹیلی فون کرکے یہی یقین دہانی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس یہ دونوں ممالک کسی قسم کی مہم جوئی سے گریز کریں۔ بھارتی وزیر اعظم کی طرف سے جاری ہونے والے ٹوئٹ پیغام میں واضح کیا گیا ہے کہ انہوں نے صدر ٹرمپ سے بات کرتے ہوئے علاقے کے بعض لیڈروں کے اشتعال انگیز بیانات پر تشویش کا اظہار کیا۔ یعنی مودی نے ٹرمپ کو یہ بتایا کہ اگر وزیر اعظم عمران خان اور پاکستانی قیادت بھارت کے خلاف جنگجویانہ بیانات سے گریز کرے تو اس سے کشیدگی کم کرنے میں مدد ملے گی۔ ٹرمپ نے مودی کے بعد عمران خان سے بات کرتے ہوئے یہی بات ان تک بھی پہنچائی ہوگی۔ افغانستان میں کسی ممکنہ امن معاہدہ کی امید لگائے بیٹھے ڈونلڈ ٹرمپ کو اس بات کی خبر ہوگی کہ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی تصادم ہوتا ہے تو افغان امن معاہدہ اس کا پہلا نشانہ ہوگا۔ ٹرمپ فی الوقت یہ بھاری قیمت ادا کرنے کے لئے تیا رنہیں ہوسکتے۔

ٹرمپ سے ٹیلی فون پر بات چیت کے بعد ہی برصغیر میں امریکی صدر کے دوسرے بہترین دوست عمران خان کی حکومت نے کشمیر کا معاملہ عالمی عدالت انصاف میں لے جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے پہلے ملک کے مستعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نصف صدی کی سب سے بڑی سفارتی کامیابی سمیٹتے ہوئے کشمیر کے سوال پر سلامتی کونسل کا خصوصی مشاورتی اجلاس منعقد کروانے کا کریڈٹ لے چکے ہیں۔ اب عدالت انصاف میں معاملہ لے جانے کا مقصد اس مسئلہ کو سلامتی کونسل کے کولڈ اسٹوریج سے عدالت انصاف کے سرد خانہ میں منتقل کرنا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وزیر اعظم کی بلند نگاہی، وزیر خارجہ کی سفارتی مہارت اور آرمی چیف کی اولوالعزم قیادت کے قصے سناکر پاکستانی عوام کا جوش و خروش کم کرنے اور زندگی معمول پر لانے کی کوشش کی جائے گی۔

مقبوضہ کشمیر کی آئینی و انتظامی حیثیت تبدیل کرنے کا فیصلہ تو نئی دہلی میں ہؤا تھا لیکن اسلام آباد میں تحریک انصاف کی حکومت نے اس فیصلہ سے غم و غصہ و احتجاج کی ایسی بلند و بالا لہریں پیدا کیں کہ نہ تو ایک سالہ اقتدار کے دوران کارکردگی پر سوال اٹھانے کی نوبت آئی اور نہ ہی آرمی چیف کی توسیع کا فیصلہ کرنے کی حکمت پر کوئی متوازن اور حقیقی بحث ممکن ہو پائی ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کے موجودہ عہدہ کی موجوہ مدت نومبر کے آخر تک ہے۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ بھارت کے ساتھ تصادم کی وجہ سے فوج کی قیادت تبدیلی مناسب نہ ہوتا تو سوا تین ماہ پہلے ہی یہ فیصلہ کرتے ہوئے اس کا حکم جاری کرنے کا کیا جواز تھا؟

مواصلت اور عالمی سفارت کاری کے موجودہ دور میں تین ماہ کی مدت میں حالات کسی وقت ، کوئی بھی نیا رخ اختیار کرسکتے ہیں۔ تو کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ عمران خان نے بھارتی حکومت کے عاقبت نااندیشانہ فیصلہ پر ایک ہنگامی صورت حال پیدا کرتے ہوئے دراصل آرمی چیف کو توسیع دینے کے لئے موزوں حالات پیدا کئے ہیں؟

یہ معاملہ اپنی جگہ پر المیہ مزاح ہی کہا جاسکتا ہے کہ جس وزیر اعظم کو مرضی کے وزیر اور مشیر رکھنے کا اختیار حاصل نہیں ہے، وہ یہ فیصلہ کرنے کا مجاز ہے کہ ملک کا سب سے طاقت ور عہدہ کسے سونپا جائے یا اسے توسیع دی جائے۔ عمران خان کے اس اعلان سے ان کی دوربینی سے زیادہ ان کی مجبوری یا خوش فہمی عیاں ہوتی ہے۔ موجودہ سول ملٹری اشتراک اگرچہ عمران خان کی وزیر اعظم بننے کی خواہش پوری کرنے کا سبب ضرور بنا ہے لیکن اس کے تحت ملک میں ایسا سیاسی انتظام استوار کیا جارہا ہے جس میں جمہوریت کے خصائص کے سوا سب کچھ تلاش کیا جاسکتا ہے۔ میڈیا کی آزادی سرکاری بیانات اور دعوؤں تک محدود ہے، منتخب حکومت عسکری قیادت کے اشارے کے بغیر کوئی فیصلہ کرنے کے قابل نہیں ، سینیٹ میں اکثریتی ارکان اقلیت میں تبدیل ہوجاتے ہیں اور ملک کے چاروں صوبوں کی مقبول قیادت جیلوں میں بند ہے اور باقی ماندہ کو پکڑنے کی منصوبہ بندی ہورہی ہے۔

اس صورت حال کو سول مارشل لا سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کے عہدے کی مدت میں توسیع سے یہ الزام یقین میں بدلنے لگے گا۔ قومی سلامتی کی صورت حال کے علاو ہ بعض لوگوں کا یہ خیال بھی ہے کہ امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں نے اس علاقے کے لئے کوئی خفیہ ایجنڈا تیار کیا ہے جس میں کشمیر کے مسئلہ کا حل بھی شامل ہے۔ اس ایجنڈے کی تکمیل کے لئے جنرل باجوہ کا عہدہ پر فائز رہنا ضروری تھا۔ اس سازش نما دعوے سے قطع نظر سول ملٹری تعاون کے بطن سے پیدا ہونے والی فسطائیت ملک کے جمہوری مستقبل کے بارے میں متعدد سوالوں کو جنم دیتی ہے۔ پوچھا جاسکتا ہے کہ ملک میں جمہوری آمریت مسلط کرنے کی کوششیں بھی کیا کسی ایسے خفیہ عالمی ایجنڈے کا حصہ ہیں جس میں بہت سے مسئلے حل ہوجائیں گے اور خطہ میں ایک نیا توازن جنم لے گا۔

یہ باتیں بر سر عام کہی جارہی ہیں ۔ غیر یقینی حالات اور مشکل معاشی صورت حال میں پاکستان کے بارے میں نئی سازشوں کی افواہیں کسی کے مفاد میں نہیں ہیں۔ جمہوری طور سے منتخب وزیر اعظم جب انتہائی سفاکی سے بنیادی حقوق کی پامالی کا سبب بن سکتا ہے تو اسے کسی خفیہ یا طے شدہ ایجنڈا کے بارے میں بات کرتے ہوئے بھی حجاب نہیں ہونا چاہئے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ملک کے چاروں صوبوں کی مقبول قیادت جیلوں میں بند ہے اور باقی ماندہ کو پکڑنے کی منصوبہ بندی ہورہی ہے۔
یہ قیادت عوام میں اتنی مقبول ہے کہ اپنی کئی سالوں پر محیط کرپشن اور منی لانڈرنگ کا عدالت میں غیر معقول جواب دئے چلی جا رہی ہے :)
 

جاسم محمد

محفلین
جب باجوہ آتا ہے تو چیخیں آتی ہیں
جب باجوہ دوبارہ آتا ہے تو زیادہ چیخیں آتی ہیں
بلاول زرداری
 

جاسم محمد

محفلین
جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن اور تسلسل و استحکام کا روشن خیال ماڈل
21/08/2019 سہیل وڑائچ

بالآخر پاکستان کی پائیدار ترقی کا راستہ ہموار ہو چکا ہے کیونکہ تاریخ کے طالب علم اور ترقی کے خواہاں جنرل قمر جاوید باجوہ کو مزید تین سال کے لیے آرمی چیف بنا دیا گیا ہے۔ اس فیصلے پر وزیر اعظم عمران خان، امریکہ، یورپ اور دنیا بھر کے ممالک سے مبارک باد کے مستحق ہیں کیونکہ اب پاکستان امن اور ترقی کی راہ پر ہی چلے گا۔ تاریخ کا شعور رکھنے والے جنرل قمر جاوید باجوہ نہ افغانستان میں خانہ جنگی چاہتے ہیں اور نہ بھارت کے ساتھ جنگ، سو دنیا بھر کے امن پسندوں کے لیے جنرل باجوہ کی تقرری ایک خوشخبری ہے۔

جب جنرل باجوہ کی ایکسٹنشن کی افواہیں گرم تھیں تب آئی ایس آئی کے سربراہ جرنل فیض حمید نے عہدہ نہیں سنبھالا تھا مگر جہاں چار سینئر ترین جرنیلوں کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا ہے وہیں جرنل فیض حمید جیسا ’آئرن مین‘ جرنل باجوہ کی معاونت جاری رکھے گا اور جنرل قمر جاوید باجوہ کی تین سالہ مدت ملازمت میں توسیع کے بعد وہ اگلے آرمی چیف کے لیے سب سے طاقتور امیدواروں کی دوڑ میں شامل ہو چکے ہیں۔

اور اسی تناظر میں اگر جنرل فیض حمید کی بطور آئی ایس آئی کے سربراہ کے تقرری کو دیکھا جائے تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ جنرل باجوہ کے جانشین کا فیصلہ بھی شاید کر لیا گیا ہے؟ اور اگر ایسا ہے تو کیا اس پر یہ مفروضہ درست ہے کہ جب جنرل باجوہ 3 سالہ توسیع گزار کر جب ریٹائرڈ ہونگے تو ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو چکا ہو گا اور اس کے بعد جنرل فیض حمید بھی ملک کو پائیدار ترقی کی اسی ڈگر پر اگر مزید چھ سال چلا پائے تو ملک ہانگ کانگ اور ملائشیا کے برابر جا کھڑا ہو گا۔

کون نہیں جانتا کہ پائیدار ترقی کے لیے سیاسی استحکام اور حکومت کو اپنی پالیسیاں بنانے اور پھر عمل درآمد کروانے کے لیے کم از کم دس پندرہ سال درکار ہوتے ہیں۔ اگر پائیدار ترقی کے ثمرات کو دیکھنا ہو تو پھر ایک ہی پالیسی کے تسلسل کے لیے 12 سے 15 سال چاہیے ہوتے ہیں۔ اسی لیے ہانگ کانگ ،چین اورملائشیا ترقی کر گئے کہ وہاں ایک ہی حکومت کو اپنی معاشی پالیسیاں 10 سے 15 سال چلانے کا موقع ملا۔ لگتا ہے کہ قدرت نے بالآخر پاکستان کی بھی سن لی ہے اور اب پائیدار ترقی کا 12 سالہ منصوبہ سامنے آ رہا ہے جس میں ادارہ جاتی طور پر ایک ہی معاشی پالیسی کو ایک جیسی سوچ والی قیادت چلائے گی اور یوں ملک میں پائیدار ترقی و استحکام دونوں ممکن ہو جائیں گے۔

جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع اور جنرل فیض حمید کی آئی ایس آئی میں تقرری کو پائیدار ترقی کے اس تناظر میں دیکھا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سیاسی عدم استحکام اور معاشی زوال کو روکنے کے لیے تسلسل کی پالیسی کو اپنایا گیا ہے۔ جنرل باجوہ کی ٹرم میں توسیع و تسلسل سے دہشت گردی کے مکمل خاتمے اور سرمایہ کاری کے فروغ میں مدد ملے گی۔ جنرل باجوہ 2022 میں جب چھ سال آرمی چیف رہنے کے بعد ریٹائر ہوں گے تو پاکستان ایک مستحکم ملک بن چکا ہو گا اور ان کی پالیسیوں کے تسلسل کو جاری رکھنے کے لیے ان کے قریبی ترین ساتھی جنرل فیض حمید چار سینئر ترین جرنیلوں میں شامل ہوں گے اوراگر انھیں بھی اسی طرح 6 سال یعنی 2028 تک بطور اگلے چیف آف آرمی سٹاف اپنی پالیسی تسلسل سے جاری رکھنے کا موقع ملتا ہے تو پاکستان بھی ملائشیا، ہانگ کانگ اور چین کے ماڈل کی طرح فائدہ اٹھا کر اورترقی کے بارہ سال گزار کر نئی منزلوں کی طرف گامزن ہو چکا ہوگا۔

ماضی میں سب سے پہلے جنرل ایوب خان نے پائیدار ترقی، معاشی تسلسل اور سیاسی استحکام کا دس سالہ ماڈل بنایا اورپھر اسے چلایا، منگلا ڈیم اور تربیلا ڈیم بنائے،صنعتیں لگائیں، معاشی شرح نمو میں اضافہ کیا۔ وہ ملک کو ملائشیا اور جنوبی کوریا کی سطح پر لے ہی جانے والے تھے کہ سیاسی عدم استحکام نے ان کا دھڑن تختہ کر دیا۔

دوسری دفعہ اس ماڈل کو ذرا مختلف طریقے سے مذہبی رنگ دیکر جنرل ضیاء الحق نے 11 سال چلانے کی کوشش کی۔ 11 سالہ تسلسل اور امریکہ سے ڈالروں کی بارش نے معاشی استحکام میں اضافہ کیا مگر انھیں بھی سیاست لے ڈوبی، نہ بھٹو کی پھانسی ہضم ہو سکی اورنہ افغانستان کی جنگ میں اپنے مقاصد کی تلاش نے انھیں فائدہ دیا۔

تیسری دفعہ جنرل پرویز مشرف بھی تسلسل و استحکام کا روشن خیال ماڈل لے کر آئے۔ امریکا سے دوستی اور افغان طالبان سے لڑائی کے بدلے میں انھیں عالمی امداد تو بہت ملی مگر سیاسی استحکام انھیں بھی نصیب نہ ہوا۔ عدلیہ تحریک اور نواز شریف و بینظیر اتحاد نے بالآخر انھیں اقتدار سے فارغ کر دیا۔

ایوب، ضیاء اور مشرف کے ’تسلسل ماڈل‘ میں ایک خرابی تھی کہ وہ مارشل لا کے نام پر ملک کو پٹری پہ ڈالنا چاہتے تھے مگر آئین اور جمہوریت کو فارغ کر کے سیاسی استحکام اور معاشی تسلسل رکھنا مشکل تھا اور آج بھی ہے۔ اسی لیے و ہ تینوں اس میں ناکام ہوئے۔ اب شاید ماڈل یہ ہے کہ آئین اور جمہوریت چلتے رہیں، عدلیہ، پارلیمان اور کابینہ کام کرتے رہیں مگر اصل تسلسل اور استحکام پیچھے بیٹھنے والے فراہم کریں گے۔ آئین، جمہوریت عدلیہ کی موجودگی میں معاشی تسلسل کو یقینی بنانا اس نئی مشق یا کوشش کا اصل مقصد ہوگا۔

تسلسل و استحکام کے اس مفروضے کے پیچھے فلسفہ یہ لگتا ہے کے چین کو کمیونسٹ پارٹی کا مضبوط نیٹ ورک چلاتا ہے، بھارت کو اس کی بیوروکریسی چلاتی ہے۔ برطانیہ میں یہی تسلسل اور استحکام شاہی خاندان فراہم کرتا ہے۔ لیکن پاکستان میں عسکری ادارہ ہی تسلسل اور استحکام کی ضمانت دے سکتا ہے۔

بار بار کے تجربوں کے بعد سے بظاہر یہ سبق کشید کیا گیا ہے کہ ایوب خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف والا مارشل لا ماڈل وقتی استحکام تو دیتا ہے لیکن اس سے پائیدارتسلسل قائم نہیں ہوتا۔ اب کوشش کی جا رہی ہے کہ پس پشت رہ کرملک کو تسلسل فراہم کیا جائے۔ جنرل کیانی کے دور میں اس ماڈل پر ابتدائی عمل ہوا مگر پھر یہ ماڈل حالات کی نظر ہوگیا۔ فوج میں حالیہ تبدیلیوں یعنی جنرل فیض حمید کی بطور آئی ایس آئی سربراہی سے باجوہ ۔ فیض تسلسل کا نیا نیٹ ورک قائم ہو گیا ہے۔

اس ’مفروضہ ماڈل‘ کا ناقدانہ جائزہ لیتے ہیں تو اس میں بے شمار خامیاں نظر آتی ہیں۔ 12 سالہ پائیدار ترقی کے راستے میں ابھی بہت سی عملی رکاوٹیں کھڑی ہیں،فوج کی نئی قیادت ملکی، سیاسی اور معاشی صورتحال کو کنٹرول کر سکے گی یا نہیں؟ کیا یہ قیادت کامیاب ہو گی کہ کوئی تحریک نہ چلے؟ اور کیا یہ کچھ ایسا منصوبہ بنا لیں گے جو بھارت کی سازشوں سے بچائے رکھے اور کیا یہ قیادت پی ٹی آئی کی نااہلیوں پر مسلسل پردہ ڈالے رکھے گی؟یہ سب وہ مسائل ہیں جن سے اتنے طویل عرصے تک انھیں پنجہ آزمائی کرنا ہوگی۔

سچ تو یہ ہے کہ ’انسان تجویز کرتا ہے اور خدا اسے مسترد کرتا ہے‘ اس لیے اس ساری کوشش اور محنت کی بجائے اگر سیاسی اداروں کو مستحکم کرنے اور پارلیمانی اداروں کی تربیت پر توجہ دی جائے تو پھر جمہوری پائیدار ترقی کی راہ ہموار ہو گی۔ سیاسی پارٹیوں کو توڑنے کی بجائے انھیں مالی امداد دے کر ان کی تنظیم نو کی جائے اور ان کے اندر تھنک ٹینک بنائے جائیں، انھیں بیرون ملک اور اندرون ملک تربیت کی سہولت دی جائے۔ برطانیہ کی طرح نوجوان پارلیمانی لیڈرز کی آن جاب ٹریننگ ہو، پہلے انھیں جونئیر انتظامی عہدے دیے جائیں اور پھر آہستہ آہستہ انھیں وزارت جیسی سینیئر ذمہ داریاں دی جائیں، اگر جمہوریت کا صرف نام برقرار رکھنا ہے تو کل کو پھر اس کی قلعی کھل جائے گی۔ اصل اور مکمل جمہوریت ہی مسائل کا واحد حل ہے اور اس کے لیے پارلیمان کی مضبوطی واحد راستہ۔
 

جاسم محمد

محفلین
'عمران خان اور جنرل باجوہ لازم و ملزوم ہیں'
آخری بار اپڈیٹ کیا گیا اگست 21, 2019
C944C7A5-58B7-4533-A6C9-AC4161CF3826_cx0_cy10_cw0_w1023_r1_s.jpg

بعض سیاسی مبصرین کے نزدیک موجودہ صورتِ حال میں جنرل باجوہ کو ملازمت میں توسیع دینا وقت کی ضرورت ہے۔ (فائل فوٹو)
لاہور —
پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں تین سال کی توسیع کے معاملے پر پاکستان کے مختلف حلقوں میں بحث تاحال جاری ہے۔

بعض سیاسی مبصرین کے نزدیک موجودہ صورت حال میں جنرل باجوہ کو ملازمت میں توسیع دینا وقت کی ضرورت ہے، جب کہ کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ توسیع وزیرِ اعظم عمران خان اور جنرل باجوہ دونوں کے لیے ہی ضروری تھی۔

جنرل باجوہ کو دی جانے والی توسیع سے متعلق دفاعی امور کے ماہر ڈاکٹر حسن عسکری کا کہنا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں آرمی چیف کو دی جانے والی یہ پہلی توسیع نہیں ہے۔

ان کے بقول، اس سے قبل بھی فوجی سربراہان کو مدتِ ملازمت میں توسیع ملتی رہی ہے۔

AFA67ED1-BEA2-42D5-983E-2FE4EC71E8A7_w650_r1_s.jpg

ڈاکٹر حسن عسکری کا کہنا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں آرمی چیف کو دی جانے والی یہ پہلی توسیع نہیں ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے حسن عسکری کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ سول اور فوجی قیادت کے درمیان مثالی ہم آہنگی موجود ہے۔ پاکستان کو درپیش چیلنجز کے تناظر میں دیکھا جائے تو پاک بھارت کشیدگی اور امریکہ کے ساتھ معاملات سے نبرد آزما ہونا ایک مشکل کام ہے۔

ان کے بقول، امریکہ اور طالبان کے درمیان جاری مذاکرات میں پاکستان کی موجودہ سول اور فوجی قیادت کا کافی عمل دخل ہے۔ لہذا، وزیرِ اعظم نے تسلسل برقرار رکھنے کے لیے یہ فیصلہ کیا ہے۔

'فیصلہ سول اور ملٹری مثالی تعلقات کی توثیق ہے'

کالم نگار اور تجزیہ کار عمار مسعود کا کہنا ہے کہ مسلسل بات ہو رہی تھی کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر ہیں اور جنرل باجوہ کی ملازمت میں توسیع اس بات کی 'توثیق' ہے۔

عمار مسعود کے مطابق "کشمیر کے معاملے پر کشیدہ حالات میں پاکستان سپہ سالار کی تبدیلی برداشت نہیں کر سکتا۔"

ان کے بقول، "2018 کے متنازع انتخابات میں جس طرح یہ حکومت لائی گئی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سارا بندوبست کرنے والے اور اس سے فائدہ اٹھانے والے ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔"

A3D17C19-4680-4981-9603-73E421EA7F3E_w650_r1_s.jpg

جنرل پرویز مشرف اور جنرل اشفاق پرویز کیانی فوج کی کمان میں تبدیلی کی تقریب کے دوران۔(فائل فوٹو)
عمار مسعود کا مزید کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے بغیر نہیں چل سکتے اور اس توسیع سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی عمران خان کی ضرورت ہے۔

کالم نگار عمار مسعود کے مطابق، انہیں اس تاثر سے اتفاق نہیں کہ مدتِ ملازمت میں توسیع معروضی حالات کا تقاضا تھا کیوں کہ ماضی میں پاکستان موجودہ حالات سے کئی گنا نازک دور سے گزر چکا ہے۔

ڈاکٹر حسن عسکری کہتے ہیں کہ بھارت کا پاکستان سے متعلق ہمیشہ یہ گلہ رہا ہے کہ وہ پاکستان میں مذاکرات کس سے کرے؟ ان کے بقول، اب پاکستان کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے فوج اور حکومت کا مؤقف ایک ہے۔ لہذا، بھارت کے پاس پاکستان سے مذاکرات شروع کرنے کا یہ بہترین موقع ہے۔

پاکستان کو درپیش اقتصادی مسائل اور جنرل باجوہ کے اس میں کردار کے بارے میں سوال پر عمار مسعود کا کہنا ہے کہ ہمیں دیکھنا یہ چاہیے کہ جنرل باجوہ کے تین سالہ دور میں ہماری معیشت کی حالت کیا تھی۔

ان کے بقول، جب جنرل باجوہ نے فوج کی کمان سنبھالی تو اس وقت معاشی صورتِ حال بہت بہتر تھی۔ پاکستان کی شرحِ نمو 8۔5 فی صد تھی، اسٹاک مارکیٹ میں تیزی تھی اور ترقیاتی منصوبوں پر بھی تیزی سے کام جاری تھا۔ عمران خان کی حکومت آتے ہی تمام معاشی اشاریے منفی ہیں۔

B6E26EB2-98F1-42EE-AFFD-2EE882BF78A5_w650_r1_s.jpg

عمار مسعود کا کہنا ہے کہ ہمیں دیکھنا یہ چاہیے کہ جنرل باجوہ کے تین سالہ دور میں ہماری معیشت کی حالت کیا تھی۔
اقتصادی مسائل سے متعلق حسن عسکری کا کہنا ہے کہ اس وقت نیشنل سیکورٹی کمیٹی میں سویلین اور ملٹری قیادت پالیسیز کا جائزہ لیتی ہے۔ اس کے علاوہ نیشنل اکنامک کونسل میں سول اور ملٹری قیادت مل کر کام کر رہی ہے۔

حسن عسکری کہتے ہیں کہ فوج میں یہ احساس موجود ہے کہ سارے کام فوج نہیں کر سکتی اور اسی طرح سول حکومت کو بھی یہ ادراک ہے کہ انہیں بہت سے معاملات پر فوج کے تعاون کی ضرورت رہتی ہے۔

کیا افغان امن عمل ملازمت میں توسیع کی وجہ ہے؟

عمار مسعود کے مطابق، امریکہ کو صرف یہ غرض ہے کہ پاکستان افغان امن عمل کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے۔ امریکہ کو پاک بھارت تعلقات یا پاکستان کی کمزور معیشت سے کوئی غرض نہیں۔

انہوں نے کہا کہ افغان امن عمل کے لیے جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع ضروری نہیں تھی۔ یہ پاکستان کی پالیسی ہے جس پر کوئی بھی عمل درآمد کر سکتا ہے۔

83680787-7CA7-433C-AF5F-C9EE0058EDF9_w650_r1_s.jpg

وزیر اعظم عمران خان نیشنل سیکورٹی کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کر رہے ہیں۔ (فائل فوٹو)
ڈاکٹر حسن عسکری کہتے ہیں کہ افغان امن عمل کی کامیابی پاکستان کی فوج اور سول حکومت کی مشترکہ خواہش ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی فوج کا افغان امن عمل میں کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے۔

حسن عسکری کہتے ہیں کہ افغان امن عمل جنرل باجوہ کے دور میں ہی شروع ہوا تھا اور اسے منطقی انجام تک بھی اُنہی کے دور میں پہنچنا چاہیے۔
 

جاسم محمد

محفلین
آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کیوں ضروری تھی؟
محمد مشتاق ایم اے 4 گھنٹے پہلے
1786626-armichiefkimuddatmulazmat-1566564231-299-640x480.jpg

عمران خان نے اپنی حکومت کا ایک سال پورا ہوتے ہی آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کردی۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

پاکستان کی بری، بحری اور فضائی افواج کی تعریف کرنا سورج کو گویا چراغ دکھانا ہے۔ یہ بات صرف ہم نہیں بلکہ پوری دنیا نہ صرف جانتی ہے بلکہ مانتی بھی ہے۔ بلاشبہ اس ماڈرن دور کے گلوبل ولیج کی کائنات میں کوئی ملک بڑا ہے تو کوئی چھوٹا ہے، کوئی ترقی یافتہ ہے تو کوئی پسماندہ اور کوئی ابھی ترقی کے زینے طے کررہا ہے۔ کوئی ایک زبان بولتا ہے تو کوئی دوسری۔ الغرض جو جہاں ہے جیسا ہے، آج کے اسے جدید دور میں چھوٹی یا بڑی فوج رکھنا اس کی ضرورت ہے۔

قدیم دور کے مقابلے میں آج کا دور ایک سخت مقابلے کا دور ہے جس میں نہ صرف افرادی قوت درکار ہے بلکہ جدید ٹیکنالوجی سے لیس فوج کی ضرورت ہے تاکہ ہر قسم کے چیلنجز سے مقابلہ کیا جاسکے۔ بیرونی جارحیت ہو یا اندرونی خلفشار، دونوں صورتوں میں افواج کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ ان اندرونی اور بیرونی چیلنجز سے مقابلے کے دوران پاکستان کی افواج اس لحاظ سے بہت خوش قسمت ہیں کہ ان کو عوام کی بھرپور حمایت حاصل رہتی ہے اور دیگر اداروں کے مقابلے میں قوم کا اعتبار اس ادارے پر غیر متزلزل رہتا ہے۔ یوں افواج پاکستان ہر قسم کے خطرے سے بلاخوف و خطر یوں ٹکرا جاتے ہیں جیسے یہ بہت ہی معمولی بات ہے۔ جان کی بازی لگانا تو ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے۔ افواج پاکستان کا سب سے اہم کام اپنے ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہوتا ہے اور جارحیت پر اتر آنے والے دشمن کے دانت جنگ کے میدان میں کھٹے کرنا ان کا فریضہ ٹھہرتا ہے۔ اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران افسران اور جوانوں کی شجاعت و بہادری کے لازوال کارناموں سے ہماری تاریخ بھری پڑی ہے۔

پاک فوج کے ادارے کو سول اداروں سے اگر کوئی چیز منفرد اور ممتاز بناتی ہے تو وہ ان کی اپنے شعبے میں مہارت، ٹریننگ اور ڈسپلن کے علاوہ ہر عہدے پر ترقی کا ایک مقررہ معیار ہے جس پر پرکھنے کے بعد ہی ایک جوان یا افسر ترقی کے اگلے زینے پر قدم رکھ سکتا ہے۔ اس طریقے سے آپ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان آرمی ایک مکمل ادارے کے طور پر کام کرتی ہے۔ جس میں کسی کے آنے یا جانے سے فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ سارا سلسلہ ایک نظام کے تحت چل رہا ہوتا ہے۔ جیسے ہی ایک جوان یا افسرترقی کے اگلے زینے پر قدم رکھتا ہے، پیچھے سے اس کا جونیئر پچھلا زینہ سنبھال لیتا ہے اور درمیان میں کوئی جگہ خالی نہیں رہتی۔ اسی طریقے سے جب پاکستان آرمی کا سربراہ اپنی مدت ملازمت پوری ہونے پر ریٹائرڈ ہوتا ہے، اس کا منصب سنبھالنے کےلیے اس طرح کے آفیسرز بالکل تیار کھڑے ہوتے ہیں۔ اس وقت ہمارے ہاں آرمی کے چیف کےلیے تین سال کا عرصہ مقرر ہے، جس کے بعد نئے آرمی چیف نے اپنی ذمے داریاں سنبھالنا ہوتی ہیں۔

ہمارے ہاں بدقسمتی سے جب بھی آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ قریب آتی جاتی ہے ملک میں ان کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے مختلف چہ میگوئیوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، جس کی بحث میں دو گروپ سامنے آجاتے ہیں، جن میں سے ایک آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حق میں زمین و آسمان کے قلابے ملانا شروع کردیتا ہے۔ جبکہ دوسرا گروہ ہر لحاظ سے اس فیصلے کے خلاف میدان میں آجاتا ہے۔ اس طرح یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہتا ہے جب تک آرمی چیف یا تو ریٹائر ہوکر گھر نہ چلے جائیں یا پھر حکومت وقت ان کو اپنے ساتھ ایک پیج پر ہونے کی وجہ سے ملازمت میں توسیع نہ دے دے۔

اوپر پیش کی گئی حقیقت کی روشنی میں یہ بات اچھنبے والی نہیں کہ جب موجودہ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ صاحب کی مدت ملازمت اپنے اختتام کی طرف بڑھنا شروع ہوئی تو ہمیشہ کی طرح ان کی مدت میں توسیع کی بحث ملک کے طول و عرض میں پھیل گئی اور سب کی نظریں حکومت کے اس فیصلے کی طرف اس طرح لگ گئیں جیسےکوئی عید کے چاند کےلیے اپنی نظریں آسمان پر لگا دیتا ہے۔ آج سے کچھ دنوں پہلے تک ہمارے ملک کا سب سے بڑ ا مسئلہ یہ بن گیا کہ کیا آرمی چیف کی مدت میں ملازمت میں توسیع ہوگی یا نہیں۔ اسی کشمکش میں خدا خدا کرکے کفر ٹوٹا اور وزیراعظم عمران خان نے اپنی تحریک انصاف کی حکومت کا ایک سال پورا ہوتے ہی اگلے دن آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں اس وقت نہ صرف ایک یا دو، بلکہ یکمشت تین سال کی توسیع کردی۔ جب کہ ابھی ان کی جاری مدت میں تین ماہ سے زیادہ کا وقت باقی تھا۔

عمران خان کا فیصلہ حکومتی حمایت یافتہ طبقہ کےلیے تو عید کا چاند بن کر چمکا، جب کہ دوسری اپوزیشن کے حمایت یافتہ طبقہ پر یہ فیصلہ آسمانی بجلی بن کر گرا۔ اس فیصلے کے اعلان کے بعد ملک کے پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر صرف ایک ہی خبر کا راج تھا اور وہ خبر تھی وزیراعظم نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع کردی گئی۔

آرمی چیف کی ملازمت میں توسیع حکومت کی طرف سے خطے میں موجودہ صورتحال کے پیش نظر کی گئی ہے۔ بلاشبہ اس بات میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ اس وقت بھارت کی ہٹ دھرمی اور کشمیر میں روا رکھے گئے اس کے مظالم اور پھر بھارتی آئین سے شق نمبر 370 اور 35A کے ختم کرنے سے جو حالات پیدا ہوئے ہیں ان سے صحیح طریقے سے نمٹنے کےلیے بہت زیادہ ذہانت، تجربہ اور حکومت اور فوج کا ایک ساتھ ہونا بہت ضروری ہے۔ اس صورتحال میں حکومت کو آنے والے دنوں میں بہت اہم فیصلے کرنے پڑسکتے ہیں، جن میں اندرونی اور بیرونی دونوں محاذوں پر ہم نے ایک قوم بن کر دکھانا ہے اور حکومت اور فوج کی پشت پر کھڑا ہونا ہے۔ حکومت نے مناسب سمجھا کہ خطے کی اس کشیدہ صورتحال میں پاک آرمی کی کمانڈ کو تبدیل نہ کرنا مناسب رہے گا۔

یہاں پر سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اس صورتحال کے پیدا ہونے سے پہلے ہی اس بات کا شائبہ نظر آرہا تھا کہ موجودہ حکومت یہ فیصلہ کرتی نظر آرہی تھی۔ اس کے علاوہ بھی آرمی چیف کی موجودہ مدت میں تین ماہ سے زیادہ کا وقت باقی تھا اور تیسری بات کہ تین سال کی توسیع تجزیہ نگاروں کی اس بات کو تقویت پہنچاتی ہے کہ عمران خان یہ فیصلہ پہلے ہی کرچکے تھے اور اب خطے کے حالات کو سامنے رکھ کر اس کا اعلان وقت سے پہلے ہی کردیا گیا ہے۔

اس صورتحال کو تحریک انصاف کے 126 دن کے دھرنے کے خاتمے کی وجہ کے ساتھ بھی جوڑا جارہا ہے جب تحریک انصاف اپنے دھرنے سے کچھ حاصل نہ کرسکی اور اس کے وہاں سے نکلنے کا راستہ بھی نظر نہیں آرہا تھا تو بدقسمتی سے آرمی پبلک اسکول میں جو سانحہ پیش آیا، اس کو سامنے رکھ کر تحریک انصاف دھرنا ختم کرسکی تھی۔ گویا ان دونوں فیصلوں میں بظاہر عمران خان نے سانپ بھی مار دیا اور لاٹھی بھی بچالی۔ یہ سو فیصد ضروری نہیں کہ ایسا ہی ہو، لیکن حالات و واقعات بہرحال اس طرف اشارہ کرتے نظر آتے ہیں۔ اب پورا سچ تو عوام کو نہ پہلے سمجھ آیا ہے اور نہ ہی اب آنے والا ہے۔ اسی لیے تو قیامت کا دن مقرر ہے، جس دن دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔

اب رہی بات آرمی چیف کی ملازمت میں توسیع کی، تو موجودہ آرمی چیف کی قابلیت، ملک کی خدمت اور خطے کی صورتحال سے آگاہی کے حوالے سے کسی کو کوئی شک نہیں ہوسکتا اور بلاشبہ وہ اپنے تجربے اور حکومت کے ساتھ ایک پیج پر ہونے کی وجہ سےآئندہ بھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے اور اگلے تین سال بھی اپنی ملازمت اپنی پوری محنت اور ملک کی ترقی کے حوالے سے ہی مکمل کریں گے۔

لیکن یہاں پر ایک سوال ہے جس میں باقی سارے سوالوں کے جواب سمٹ کر آجائیں گے اور وہ سوال یہ کہ اگر خدانخواستہ تین سال بعد خطے کےحالات بہتر نہ ہوئے یا اس سے بدتر ہوئے تو کیا ہوگا؟ کیا موجودہ چیف کو پھر توسیع دیں گے؟ کیونکہ اس وقت ان کی ضرورت آج سے بھی زیادہ ہوگی کہ ان کے پاس آرمی کی قیادت کا تین نہیں بلکہ چھ سال کا تجربہ ہوگا اور خطے کی صورتحال سے آگاہی بھی آج سے زیادہ ہوگی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حکومت کے ساتھ ایک ہی پیج پر بھی موجود ہوں۔

اگر اس سوال کا جواب ہاں میں ہے تو پھر یہ سلسلہ کہاں جاکر رکے گا؟ یعنی کتنی بار توسیع دیں گے اور جتنی بار بھی دیں آخرکار تو آپ کو نیا آرمی چیف لینا ہی پڑے گا، تو کیوں نہ وہ کام آج ہی کرلیا جاتا۔

جیسا کہ اس تحریر کے تمہیدی پیراگراف میں اس بات کا ذکر کردیا گیا ہے کہ ہماری فوج ایک پروفیشنل، ڈسپلنڈ اور پروموشن کا ایک بہترین مروجہ طریقہ کار رکھتی ہے، جس کی وجہ سے اس کا ہر جوان اور افسر معیار کی چھلنی سے گزر کر آتا ہے اور اس طرح جس درجہ پر وہ پہنچتا ہے ہر لحاظ سے اپنے آپ کو اس کا اہل ثابت کرکے پہنچتا ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ نیا آرمی چیف ویسے کام کو نہیں سنبھال سکے گا، جیسے موجودہ نے سنبھالا ہوا ہے تو یہ بات حقیقت کی کسوٹی پر پورا نہیں اترتی۔

ہم سب کو اچھی طرح یاد ہے کہ جب غالباً 2010 میں ملک حالات خراب ہونے کی وجہ سے زرداری حکومت نے اس وقت کے آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ کیا تھا تو جن لوگوں نے اس کی مخالفت کی تھی ان میں عمران خان بھی پیش پیش تھے اور انہوں نے ٹی وی کے کئی انٹرویوز میں ہر لحاظ سے یہ ثابت کرنے کو کوشش کی تھی کہ آرمی چیف کو توسیع نہیں دینی چاہیے، چاہے جنگ ہی کیوں نہ چل رہی ہو۔ قسمت کا کھیل کہ آج ان کو خود وہ فیصلہ کرنا پڑگیا جس کے وہ ساری زندگی ناقد رہ چکے ہیں۔ اس کے بعد یہ بھی سب کو یاد ہے کہ جب باجوہ صاحب کے پیشرو جنرل راحیل شریف 2016 میں ریٹائرڈ ہونے والے تھے تو اس وقت قوم کے ہیرو بنے ہوئے تھے اور ان کی توسیع کی باتیں بھی سرعام ہورہی تھیں کہ شاید ان کے بغیر کام نہیں چل سکے گا۔ خیر اس وقت کی حکومت نے ان کو توسیع نہیں دی یا شاید جنرل راحیل شریف نے خود انکار کردیا۔

ان سب واقعات نے ثابت کیا کہ ملک و قوم کےلیے افراد نہیں ادارے اہم ہوتے ہیں۔ جنرل کیانی گئے تو راحیل شریف آئے اور وہ گئے تو قمر باجوہ صاحب آئے اور سب نے اپنا فریضہ سرانجام دیا۔ اگر راحیل شریف کو توسیع ملتی تو باجوہ صاحب کی صلاحیتیں کیسے سامنے آتیں؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاک آرمی ایک ایسا ادارہ ہے جس میں ایک کے بعد کئی اور کیانی، ایک کے بعد کئی اور راحیل شریف اور ایک کے بعد کئی اور باجوہ صاحب موجود ہیں۔ بس ضرورت ان کو موقع دینے کی ہے۔ اس کے علاوہ جب ایک آرمی چیف کو توسیع دی جاتی ہے تو اس فیصلے سے کتنے جنرلز کی ایک طرف ترقی متاثر ہوتی ہے اور دوسری طرف ان کی دنیا کی سب سے بہترین فوج کو کمانڈ کرنے کی ایک قیمتی خواہش بھی پوری ہونے سے رہ جاتی ہے، جس کا موقع ان کو اس لیے نہیں مل پاتا کہ ان کے حصے کا کام اس کے ذمے کردیا جاتا ہے جو پہلے ہی اپنا کام کرچکا ہوتا ہے۔

عمران خان کا تو خود یہ نظریہ رہا ہے کہ افراد نہیں ادارے اہم ہوتے ہیں۔ ملک افراد نہیں ادارے چلاتے ہیں۔ قانون و انصاف اور میرٹ کا ایک مستقل سلسلہ ہی اقوام کو دنیا میں دوسری قوموں سے ممتاز بناتا ہے۔

اللہ تعالیٰ پاکستان کا حامی و ناصر ہو، اسے دن دگنی رات چوگنی ترقی دے۔ (آمین)
پاک فوج زندہ باد… پاکستان پائندہ باد

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
ایکسٹینشن دینے کا بظاہر کوئی ٹھوس جواز موجود نہیں ہے۔ اس طرح یہ تاثر بھی نمایاں ہوا کہ ہم اس قدر کمزور اور بے بس ہیں کہ خطے کی صورت حال کے پیش نظر افواج پاکستان کی کمان تبدیل نہیں کر سکتے حالانکہ اس وقت معروف معنوں میں براہ راست جنگ نہیں چھڑی ہوئی ہے۔ بظاہر، یہی لگتا ہے کہ ابھی اسٹیبلشمنٹ اسی سیاسی عسکری سیٹ اپ اور تال میل سے ملکی نظام چلانا چاہتی ہے۔ تاہم، خیال رہے کہ یہ سبھی معاملات معیشت سے جڑے ہوئے ہیں۔ اگر معیشت درست کر لی گئی تو اپوزیشن پارٹیاں تتر بتر ہو جائیں گی تاہم اگر مہنگائی کا جن بوتل میں بند نہ کیا گیا اور معیشت کو درست سمت میں لے کر جایا نہ گیا تو باجوہ صاحب بھی خان صاحب کی کچھ زیادہ مدد نہ کر پائیں گے۔ ویسے، فی الوقت معیشت کو درست سمت میں رکھنا اور مہنگائی کی لہر پیدا نہ ہونے دینا کارِ دشوار ہے اور یہی باجوہ ڈاکٹرائن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ویسے، فی الوقت معیشت کو درست سمت میں رکھنا اور مہنگائی کی لہر پیدا نہ ہونے دینا کارِ دشوار ہے اور یہی باجوہ ڈاکٹرائن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
باجوہ ڈاکٹرائین سے قبل بھی معیشت کی سمت درست نہیں تھی۔
ECvbLKmXoAEV9Gi.png
 
Top