'عمران خان اور جنرل باجوہ لازم و ملزوم ہیں'
آخری بار اپڈیٹ کیا گیا اگست 21, 2019
بعض سیاسی مبصرین کے نزدیک موجودہ صورتِ حال میں جنرل باجوہ کو ملازمت میں توسیع دینا وقت کی ضرورت ہے۔ (فائل فوٹو)
لاہور —
پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں تین سال کی توسیع کے معاملے پر پاکستان کے مختلف حلقوں میں بحث تاحال جاری ہے۔
بعض سیاسی مبصرین کے نزدیک موجودہ صورت حال میں جنرل باجوہ کو ملازمت میں توسیع دینا وقت کی ضرورت ہے، جب کہ کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ توسیع وزیرِ اعظم عمران خان اور جنرل باجوہ دونوں کے لیے ہی ضروری تھی۔
جنرل باجوہ کو دی جانے والی توسیع سے متعلق دفاعی امور کے ماہر ڈاکٹر حسن عسکری کا کہنا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں آرمی چیف کو دی جانے والی یہ پہلی توسیع نہیں ہے۔
ان کے بقول، اس سے قبل بھی فوجی سربراہان کو مدتِ ملازمت میں توسیع ملتی رہی ہے۔
ڈاکٹر حسن عسکری کا کہنا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں آرمی چیف کو دی جانے والی یہ پہلی توسیع نہیں ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے حسن عسکری کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ سول اور فوجی قیادت کے درمیان مثالی ہم آہنگی موجود ہے۔ پاکستان کو درپیش چیلنجز کے تناظر میں دیکھا جائے تو پاک بھارت کشیدگی اور امریکہ کے ساتھ معاملات سے نبرد آزما ہونا ایک مشکل کام ہے۔
ان کے بقول، امریکہ اور طالبان کے درمیان جاری مذاکرات میں پاکستان کی موجودہ سول اور فوجی قیادت کا کافی عمل دخل ہے۔ لہذا، وزیرِ اعظم نے تسلسل برقرار رکھنے کے لیے یہ فیصلہ کیا ہے۔
'فیصلہ سول اور ملٹری مثالی تعلقات کی توثیق ہے'
کالم نگار اور تجزیہ کار عمار مسعود کا کہنا ہے کہ مسلسل بات ہو رہی تھی کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر ہیں اور جنرل باجوہ کی ملازمت میں توسیع اس بات کی 'توثیق' ہے۔
عمار مسعود کے مطابق "کشمیر کے معاملے پر کشیدہ حالات میں پاکستان سپہ سالار کی تبدیلی برداشت نہیں کر سکتا۔"
ان کے بقول، "2018 کے متنازع انتخابات میں جس طرح یہ حکومت لائی گئی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سارا بندوبست کرنے والے اور اس سے فائدہ اٹھانے والے ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔"
جنرل پرویز مشرف اور جنرل اشفاق پرویز کیانی فوج کی کمان میں تبدیلی کی تقریب کے دوران۔(فائل فوٹو)
عمار مسعود کا مزید کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے بغیر نہیں چل سکتے اور اس توسیع سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی عمران خان کی ضرورت ہے۔
کالم نگار عمار مسعود کے مطابق، انہیں اس تاثر سے اتفاق نہیں کہ مدتِ ملازمت میں توسیع معروضی حالات کا تقاضا تھا کیوں کہ ماضی میں پاکستان موجودہ حالات سے کئی گنا نازک دور سے گزر چکا ہے۔
ڈاکٹر حسن عسکری کہتے ہیں کہ بھارت کا پاکستان سے متعلق ہمیشہ یہ گلہ رہا ہے کہ وہ پاکستان میں مذاکرات کس سے کرے؟ ان کے بقول، اب پاکستان کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے فوج اور حکومت کا مؤقف ایک ہے۔ لہذا، بھارت کے پاس پاکستان سے مذاکرات شروع کرنے کا یہ بہترین موقع ہے۔
پاکستان کو درپیش اقتصادی مسائل اور جنرل باجوہ کے اس میں کردار کے بارے میں سوال پر عمار مسعود کا کہنا ہے کہ ہمیں دیکھنا یہ چاہیے کہ جنرل باجوہ کے تین سالہ دور میں ہماری معیشت کی حالت کیا تھی۔
ان کے بقول، جب جنرل باجوہ نے فوج کی کمان سنبھالی تو اس وقت معاشی صورتِ حال بہت بہتر تھی۔ پاکستان کی شرحِ نمو 8۔5 فی صد تھی، اسٹاک مارکیٹ میں تیزی تھی اور ترقیاتی منصوبوں پر بھی تیزی سے کام جاری تھا۔ عمران خان کی حکومت آتے ہی تمام معاشی اشاریے منفی ہیں۔
عمار مسعود کا کہنا ہے کہ ہمیں دیکھنا یہ چاہیے کہ جنرل باجوہ کے تین سالہ دور میں ہماری معیشت کی حالت کیا تھی۔
اقتصادی مسائل سے متعلق حسن عسکری کا کہنا ہے کہ اس وقت نیشنل سیکورٹی کمیٹی میں سویلین اور ملٹری قیادت پالیسیز کا جائزہ لیتی ہے۔ اس کے علاوہ نیشنل اکنامک کونسل میں سول اور ملٹری قیادت مل کر کام کر رہی ہے۔
حسن عسکری کہتے ہیں کہ فوج میں یہ احساس موجود ہے کہ سارے کام فوج نہیں کر سکتی اور اسی طرح سول حکومت کو بھی یہ ادراک ہے کہ انہیں بہت سے معاملات پر فوج کے تعاون کی ضرورت رہتی ہے۔
کیا افغان امن عمل ملازمت میں توسیع کی وجہ ہے؟
عمار مسعود کے مطابق، امریکہ کو صرف یہ غرض ہے کہ پاکستان افغان امن عمل کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے۔ امریکہ کو پاک بھارت تعلقات یا پاکستان کی کمزور معیشت سے کوئی غرض نہیں۔
انہوں نے کہا کہ افغان امن عمل کے لیے جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع ضروری نہیں تھی۔ یہ پاکستان کی پالیسی ہے جس پر کوئی بھی عمل درآمد کر سکتا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نیشنل سیکورٹی کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کر رہے ہیں۔ (فائل فوٹو)
ڈاکٹر حسن عسکری کہتے ہیں کہ افغان امن عمل کی کامیابی پاکستان کی فوج اور سول حکومت کی مشترکہ خواہش ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی فوج کا افغان امن عمل میں کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے۔
حسن عسکری کہتے ہیں کہ افغان امن عمل جنرل باجوہ کے دور میں ہی شروع ہوا تھا اور اسے منطقی انجام تک بھی اُنہی کے دور میں پہنچنا چاہیے۔